"الباکستانی جرات ایمانی".! طالبان کی "مادر علمی" دارالعلوم حقانیہ، اکوڑہ خٹک کا مہتمم اور بابائے طالبان سمیع الحق کا دست راست ملا وصال احمد بھری عدالت میں اپنے اس "اعلان حق" پر قرار واقعی داد کا مستحق ہے کہ بے نظیر قتل کیس میں نامزد چار ملزم اسی کے مدرسہ کے ہی طلباء ہیں .. یہاں تک کہ جب ایک ملزم نے مدرسے سے اپنے تعلق کی تردید کی تو ناظم صاحب نے اس سمیت چاروں کا بطور "طلباء حقانیہ" دستاویزی ثبوت عدالت کے منہ پر یہ کہہ کر دے مارا کہ "یہ جھوٹ بول رہا ہے، یہ سب ہمارے ہی بچے ہیں لیکن ہم اس کے باوجود ان کے کسی قول کے ذمہ دار نہیں "، تم کرلو جو کرنا ہے .. گویا افتخار چودھری کی قائم کردہ اس تابندہ روایت کی عین بین پیروی کہ "میں اپنے برخوردار ارسلان کی میگا کرپشن کا ذمہ دار نہیں" کیونکہ گھر میں نت نئی گاڑیاں اور بیوی بچوں کی لندن کے مہنگے ہوٹلوں میں رہائش اور مہنگے ترین سپر سٹورز سے شاپنگ دیکھتے ہوئے بھی میں نے کبھی پوچھنے کی ضرورت محسوس نہ کی کہ لکشمی دیوی ہم پر کب اور کیسے مہربان ہوئی .. ریٹائرمنٹ کے ڈیڑھ سال بعد بھی 21 عدد سرکاری گارڈز سمیت 6000 سی سی کی سرکاری گاڑی پر بلا استحقاق قابض، اس کی مرمت کے نام پر 33 لاکھ روپے اور 50000 لٹر پٹرول سرکاری خزانے سے بلا ڈکار ہڑپ کرجانے والے افتخار چودھری کے روحانی شاگرد ججوں میں سے کسی میں بھی ملا وصال یا مولوی سمیع الحق سے اتنا پوچھنے کی ہمت نہ تھی کہ "کیسے ممکن ہے حضور والی، ایک نہیں دو نہیں اکٹھے چار آپ کے فرزند آپ کے گھر (مدرسہ) بیٹھے ملک کی سب سے بڑی سیاست دان و سابق وزیراعظم کے قتل کا بے داغ منصوبہ بنا کر اس پر کامیابی سے عمل بھی کر آئیں اور آپ باپ چچاؤں کو کانوں کان خبر نہ ہو؟".
عیار و مکار ملا کی اس بے رحمانہ ڈھٹائی پر مادر پدر آزاد عدالت کی سفاکانہ بے حیائی کے اس برہنہ مظاہرے نے اس سوال کا کافی و شافی جواب بھی فراہم کر دیا ہے کہ "پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت اپنی شہید قائد کے قاتلوں کو سزا دلوانے میں کامیاب کیوں نہ ہوئی؟" .. جسے اب بھی سمجھ نہیں آئی، وہ اسی چودھری عدلیہ کی قائم کردہ یہ "نظیر" یاد کرنے کی ایک بار ضرور کوشش کرے، جو اصغر خان کیس میں "الراشی و المرتشی" دونوں یعنی جرنیلوں اور ان کے پروردہ شریفوں کا جرم تو تسلیم کرتی ہے لیکن اس جرم کی سزا کیلئے اس کی نظر انتخاب مظلوم پارٹی کے منتخب صدر مملکت پر ہی پڑتی ہے، جسے اس کے ایک پیش رو غلام اسحاق خان کی جانب سے خود اس کی پارٹی کی انتخابی شکست کیلئے رچائی سازش کے جرم میں ایوان صدر میں نظر بند کرکے اسی پارٹی کو ایک اور الیکشن میں ہرانے کا پکا بندوبست کرلیا جاتا ہے یعنی "چور وہی جس کے گهر ڈاکہ".ا