31 مارچ، 2015

کیسی آزادی اور کہاں کی امت مسلمہ؟

کسی ظاہری خطرے کے بغیر "الحرمین کی حفاظت" اور السعودیہ کے ساتھ کسی "دیرینہ دوستی" کے بہانے، "مملکت خدادا" کی مڈل ایسٹ میں سعودی عرب اور ایران کے مابین چپقلش کے نئے میدان یمن میں غیر معمولی اور غیر ضروری دلچسپی نے سال ڈیڑھ پہلے کے اس معاہدے کی یاد تازہ کردی، جس کے مطابق "ہم" نے ڈیڑھ ارب امریکی ڈالرز کے عوض ناصرف السعودیہ کی شہنشاہیت بلکہ بحرین میں اس کی اتحادی حکومت کو "باغیوں" سے بچانے کا ٹھیکہ حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی بلکہ اس کے نصف یعنی پچہتر ملین کی پہلی قسط وصول کرنے کے بعد، راجہ ظفرالحق کے اعتراف کے مطابق اس وقت چار ہزار ٹروپس السعودیہ کے حوالے بھی کردئے تھے، جس میں بقول جنرل ریٹائرڈ امجد بعد ازاں ان ہزاروں طالبان کا اضافہ بھی کردیا گیا، جو "مذاق رات" نامی سودابازی کے بعد وہاں روانہ کئے گئے ۔۔
قارئین، تازہ ترین "کاروباری پیش رفت" کے پس منظر میں اس سوال کی بازگشت بھی ایک بار پھر ماحول میں گونج اٹھی ہے کہ 1947 میں ہم آزاد بھی ہوئے تھے یا ہندوستان کی تقسیم کے نتیجے میں صرف ایک ایسی "اسٹیٹ آن رینٹ" کا قیام عمل میں لایا گیا تھا، جس کا "مقصد حیات" اسلحے کے عالمی سوداگر کی قیادت میں دنیا کو جنگ کا مستقل میدان بنائے رکھنے والے مغربی بلاک کیلئے، خطے میں فرنٹ لائن مورچہ کا کردار ادا کرنے کے سوا کچھ بھی نہ تھا؟۔
ذیل میں ہم اپنی ایک پرانی تحریر "نشر مکرر" کے طور پر پیش کر رہے ہیں، امید ہے اس سے کچھ لوگوں کو اصل صورتحال کو سمجھنے میں کچھ نہ کچھ مدد ضرور ملے گی ۔۔ ....................................................
وجہ اس ’’ادھوری آزادی‘‘ کی اس کے سوا کیا ہوسکتی ہے کہ انگریز بہادر کی طرف سے سکھائی گئی ’’سیاست‘‘ نے ہمیں اس خوش فہمی میں مبتلا رکھا کہ بھلے دنیا بھر کی قومیں سامراج کی غلامی سے چھٹکارہ پانے کیلئے متحد اورمنظم اجتماعی طاقت کو واحد وسیلہ جان کر کسی ایسی تنطیم سازی کا راستہ اختیار کرنے کی عادی رہی ہوں جو ڈسپلن پیدا کرنے والے کسی تربیتی نظام پر ’’باقاعدہ عمل ‘‘سے گذرتا ہو، لیکن ہمارا گوری چمڑی والا ’’مہذب‘‘ آقا جب صرف قراردادوں اور ووٹوں کے مظاہرے پر ہی ’’آزادی‘‘ کی نعمت ہماری جھولی میں ڈال کر ’ازخود‘ ہماری جان چھوڑ رہا ہے تو ہمیں مصیبت مول لینے کی کیا ضرورت ہے، چلو آؤ ’’کھوٹے سکوں‘‘ سے ہی کام چلا لیتے ہیں۔۔ اسی لئے ہم نے اقوام کے عروج و زوال کے فطری قوانین کے منفرد شارح علامہ عنات اللہ المشرقی کے اس بروقت انتباہ پر کان دھرنے کی ضرورت محسوس نہ کی کہ ’’برصغیر کی تقسیم کا فیصلہ غاصب انگریز سے کروانا سنجیدہ نوعیت کے نئے تنازعات کو دعوت دینے کے مترادف ہے. لہٰذا مکمل آزادی کیلئے لازم ہے کہ ہندو اور مسلمان متحد ہو کر پہلے سونے کی چڑیا کے پر نوچنے والے سامراج کو نکال باہر کریں اور آپس کے اختلافات بعدازاں باہم بیٹھ کر طے کرلیں‘‘۔
مکمل تحریر >>

30 مارچ، 2015

حقیقی تقسیم

 
اس ملک میں حقیقی اور سنجیدہ تقسیم صرف ایک ہی ہے اور یہ دین و لادین کی تقسیم ہے۔ اہل مذہب کی تفرقہ بازی نے پہلے لوگوں کو بتدریج مولوی سے بد گماں کیا اور جب نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ پگڑیاں باندھنے قرآنی آیات پڑھنے اور جہادی ترانے گانے والوں نے آن کیمرہ یہ کہہ کر مسلمانوں کو دنبے اور گائے کی طرح ذبح کرنا شروع کردیا کہ وہ "دین" کا حکم پورا کر رہے تو لوگوں میں اس خیال نے جنم لینا شروع کردیا کہ قصور مولوی کا نہیں بلکہ دین کا ہے کیونکہ وزیرستان کے قصائی مولوی تو قرآن کی آیات پڑھ پڑھ کر بتا رہے ہیں کہ مساجد پر عین نماز جمعہ میں بم حملے کرنا اور مسلمانوں کو زمین پر لٹکا کر بسم اللہ، اللہ اکبر پڑھ کر انہیں ذبح کرنے کا حکم دین نے دیا ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے دین نامی درندے سے خود کو لگ کرنا شروع کردیا جس سے پاکستان میں الحاد کو فروغ حاصل ہوا۔ میری کل رات والی پوسٹ پر ایک ارسطو نے لکھا ہے کہ "حوثی باغیوں کی وہ ویڈیو دیکھیں جس میں وہ سنیوں کو ذبح کر رہے ہیں۔ پھر بھی شیعہ سنی بھائی بھائی ؟" اس ارسطو کے علم میں لانا چاہتا ہوں کہ بیت اللہ محسود اور حکیم اللہ محسود دیوبندی تھے اور انہوں نے جتنوں کو ذبح کیا وہ صرف سنی ہی نہیں دیوبندی بھی تھے۔
آپ غور کیجئے اس ملک کے چند مشہور مدرسوں کی چھتوں سے شیعہ جلوسوں پر پتھراؤ ہوا کرتا تھا اور اس اعلان کے ساتھ ہوا کرتا تھا کہ شیعہ کافر ہیں۔ جب جنرل مشرف کے دور میں پہلی بار سنجیدگی سے مدارس ریفامز کی بات ہوئی تو تمام مسالک کے وفاق ایک پلیٹ فارم پر "تنظیمات مدارس دینیہ" کے نام سے جمع ہوگئے تاکہ اپنے بیس بیس کنال کے مدرسے بچائے جاسکیں۔ اس تنظیم میں شیعہ وفاق کو بھی شامل کیا گیا۔ اس تنظیم کا دعویٰ ہے کہ یہ اسلام کو لاحق خطرے کے خلاف یکجا ہوئے ہیں اور اس تنظیم کے تمام اراکین اسلام کے سچے سپاہی ہیں۔ اب نہ شیعہ کافر رہا، نہ بریلوی مشرک رہا، نہ مودودی گمراہ رہا اور نہ ہی اہلحدیث وھابی رہا۔ اگر آپ دس سے بیس کنال کا مدرسہ بچانے کے لئے متحد ہو سکتے ہیں، ایک دوسرے سے اختلافات بھلا سکتے ہیں تو آپ اسلام دین کی خاطر کیوں ایک نہیں ہوسکتے ؟ میری سوچ یہ ہے کہ اگر پاکستان میں پھیلتے ارتداد کا راستہ روکنا ہے اور لوگوں کو دین سے جوڑنا ہے تو تمام اہل مذہب کو حقیقی بنیاد پر اپنے اختلافات نظر انداز کرنے ہونگے۔ اہمیت اختلافی باتوں کو نہیں بلکہ متفقہ باتوں کو دینی ہوگی۔ میں یہ نہیں کہتا کہ دیوبندی کو مولانا احمد رضا خان بریلوی رحمہ اللہ کی جو باتیں غلط لگتی ہیں انہیں درست مان لے یا بریلوی کو مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کی جو باتیں غلط دکھتی ہیں انہیں ٹھیک تسلیم کر لے بلکہ میں یہ کہتا ہوں کہ اہمیت ان باتوں کو دینا شروع کیجئے جو آپ کو ایک دوسرے کی ٹھیک اور درست لگتی ہیں اور چونکہ یہ متفقہ باتیں 99 فیصد اور اختلافی ایک فیصد ہیں لھذا عقل و خرد کے کسی پیمانے پر بھی کوئی جواز نہیں بنتا کہ آپ میں دشمنی ہو۔
میں آپ کے سامنے ایک فقہی نکتہ پیش کرتا ہوں۔ احناف کا یہ مسلک ہے کہ مسلمان رعایا اپنی حکومت کے خلاف اس وقت تک ہتھیار نہیں اٹھا سکتی جب تک حکمران کفر بواح اختیار نہ کرلے۔ کفر بواح سے مراد عیسائیت، یہودیت، مجوسیت ہندومت، سکھ اور الحاد وغیرہ جیسے صریح کفر ہیں۔ آخر امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہما اللہ جیسے جلیل القدر فقہاء نے کفر بواح جیسی شرط کیوں رکھی ؟ یہ اسی لئے رکھی کہ فی الواقع کفر یہی ہے اس کے علاوہ جتنے کفر ہیں یہ تاویلی کفر ہیں جس کے فتوے عناد میں آکر مسلمان خود مسلمان پر لگانا شروع کردیتے ہیں جن کا کوئی اعتبار نہیں۔ اگر احناف فقہاء کفر بواح کی شرط نہ لگاتے تو انصاف سے بتایے کیا آج کا دیوبندی بریلوی مسلک والے نواز شریف کے خلاف ہتھیار اٹھاتا کہ نہیں ؟ اور آج کا بریلوی کسی دیوبندی وزیر اعظم کے خلاف ہتھیار اٹھاتا کہ نہیں ؟ اور یہ دونوں ملکر آصف علی زرداری کے خلاف اعلان جنگ کرتے کہ نہیں ؟ اس لئے میرے بھائی ہاتھ جوڑ کر کہتا ہوں ان تاویلی کفریات کے چکروں سے باہر نکلو اور ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر لادینیت کا راستہ روکو جو پاکستان میں 300 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے پھیل رہی ہے۔
ہر وہ پلیٹ فارم جو دین کے نام سے کام کر رہا ہے میرا اپنا پلیٹ فارم ہے چاہے وہ دیوبندی ہے، چاہے بریلوی ہے، چاہے مودودی ہے، چاہے اہلحدیث ہے اور چاہے غامدی ہے۔ چونکہ میں کٹر دیوبندی ہوں اس لئے مجھے ان تمام مکاتب فکر سے وہ علمی اختلافات بھی ہیں جو دیوبندی مسلک کے اختلافات ہیں لیکن مجھ میں اور دوسرے دیوبندیوں میں فرق یہ ہے کہ وہ اختلافی امور کو اہمیت دیتے ہیں جبکہ میں متفقہ امور کو ترجیح دیتا ہوں اور یہ میری کوئی ذاتی سوچ نہیں بلکہ امام ابوحنیفہ، امام ابویوسف، امام محمد اور علامہ سرخسی علیھم الرحمہ کی ہی تعلیمات ہیں۔ جنہوں نے صاف صاف کہا ہے کہ اگر فتنہ پیدا ہو رہا ہو اور نقصان کا اندیشہ ہو تو قول راجح نہیں قول مرجوح اختیار کیا جائے گا۔ عامی دوستوں کے لئے قول راجح اور قول مرجوح کی سادہ تشریح یہ ہے کہ قول راجح اسے کہتے ہیں جس کے دلائل زیادہ قوی اور لاجیکل ہوں جبکہ قول مرجوح اس کا اپوزٹ ہے۔ تو گویا فقہاء یہ کہتے ہیں کہ اگر مضبوط اور لاجیکل نظر آنے والے علمی موقف کو اختیار کرنے سے معاشرے میں جھگڑے اور فساد کا خطرہ ہو تو فساد اور فتنے کو ختم کرنے کو ترجیح دی جائیگی اور قول مرجوح اختیار کرنا ہوگا۔ اگر آج کے حنفی واقعی حنفی بن جائیں تو فرقہ واریت کا فتنہ راتوں رات ختم ہو سکتا ہے۔

حقیقی تقسیم:::::::::::::::اس ملک میں حقیقی اور سنجیدہ تقسیم صرف ایک ہی ہے اور یہ دین و لادین کی تقسیم ہے۔ اہل مذہب کی...

Posted by Riayatullah Farooqui on Monday, March 30, 2015
مکمل تحریر >>

29 مارچ، 2015

بھگت سنگھ-ایک انقلابی

ایک عظیم اور انقلابی شخصیت پر قلم اٹھانے جا رہا ہوں جس کی عظمت کو دشمن بھی سلام کرتے ہیں میں بھگت سنگھ کے چاہنے والوں سے معذرت کرتا ہوں کے ایک نامور مجاہد پر ذاتی مصروفیت کی بناء پر نہیں لکھ پایا۔۔ آہ بھگت سنگھ---- 1907 کو لائل پور (پنجاب پاکستان) میں پیدا ہونے والا نام بھگت سنگھ جس کو مذہب سکھ کی وجہ سے ہماری تاریح میں جگہ نہیں دی گئی۔ سنگھ کی جدوجہد کو ایک آرٹیکل میں سمانا ناممکن سی بات ہے ۔ پھر بھی ایک سرسری سی نظر ڈالتے ہیں۔ جب کبھی پھر موقع ملا تو تفصیل سے لکھیں گئے۔ سنگھ نے جس خاندان میں آنکھ کھولی وہ انگریز راج کے خلاف ہر محاز پر کھڑی رہنے والی فیملی تھی۔ اور ان کی پیدائش اُسی دن ہوئی جب اُن کے والد، اور دو چچا انگریز قید سے رہا ہوئے تھے، جس کی وجہ سے خاندان میں ان کو خوش قسمتی کا ستارہ سمجھا جانے لگا۔ ایک آزادی پسند گھرانے میں پیدائش کا فائدہ یہ ہوا کہ سنگھ کے اندر بغاوت اس کے خون اور تربیت کا حصہ بن گئی۔ جوں جوں وقت گزرا حالات نے رخ بدلا، سنگھ کی آنکھ نے گہرائی محسوس کرنے کا ہنر سیکھا اور سنگھ مارکس کے خیالات کو عملی جامہ پہنانے کے لئے میدان میں کود پڑا۔سترہ سال کی عمر میں پنجاب میں زبان کے مسئلے پر مضمون لکھ کر مضمون نگاری میں انعام حاصل کیا۔سترہ سال کی عمر میں ایک عظیم مفکر کے طور پر جانے لگے۔اپنی ٹین ایج میں ہی سیاسی سرگرمیوں میں نظر آنے لگے تھے 1928 میں دہلی میں ایک ہنگامائی میٹنگ بلائی اور ایک جماعت ہندوستان ریپبلک ایسوسی ایشن (ایچ-آر-آے) کا نام بدل کر ہندوستان ریپبلک سوشلسٹ ایسوسی ایشن( ایچ-آر-آیس-آے) نام رکھ دیا گیا۔ جس کے نام پر زور صرف سنگھ نے دیا تھا۔اس کے بعد عملی طور پر انھوں نے سوشلسٹ انقلاب کے لئے جدوجہد شروع کر دی۔ اور اس کے سائے تلے محنت کشوں کو اکھٹا کرنے کے لئے کوشش کرنے لگے۔ اس سے قبل وہ سیاسی طور پر جنرل سیکٹری این-بی-ایس رہ چکے تھے۔جو کہ ان کی اپنی ایک طلبہ پارٹی تھی۔۔اسی اثناء میں ساؤنڈرس کا قتل ایک ریلی میں ہنگامے کے دوران سنگھ نے کر دیا کیونکہ ساؤنڈر برطانیہ کے ہرادل دستے کا اہم جُز تھا اور ساتھ ہی ساتھ بہت سے انقلابیوں کی کو زیر زمیں دفن کیا تھا۔ساؤنڈ ر نے لالہ لاجپت رائے کو شہید کیا تھا وہ بھی ایک عوامی راہنما تھا اسے بھگت اپنا استاد مانتا تھا اسکے قتل کے بعد انہوں نے ساؤنڈ ر کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا اور اس اقدام کے بعد سنگھ کو یقین ہو چکا تھا کے اس کی زندگی کا سورج غروب ہونے والا ہے۔ اور وہ باقی زندگی میں بہت سے کام جلدی جلدی پر کم سے کم جانی نقصان پر کرنا چاہتے تھے۔ ساؤنڈر کے قتل کے بعد عوام میں بھی جوش و خروش پایا گیا جس کو سنگھ نے ضائع نہیں ہونے دیا اور اور عوام کو ایک ایک آزادی کی راہ دیکھلائی۔1929 کو اپنی آواز کو بلند و بالا سامراج کے قلعوں تک پہنچانے کے لئے غیر مہلک بم مرکزی مجلس مقننہ میں پھینکے۔ جس کا مقصد تھا کے انقلاب زندہ باد اور سامراجیت مردہ باد کر نعرے کو تقویت پہنچے۔ اسی دوران ان پر عدالت میں مقدمہ چلا اور ان کو ساؤنڈر قتل کیس میں پھانسی کی سزا ہوئی۔ مزے کی بات یہ سنگھ اور اس کے ساتھیوں نے مقدمہ سے بائیکاٹ کر لیا تھا اور یہ عدالت کا فیصلہ یک طرفہ فیصلہ تھا جس کو مسلط کیا گیا تھا۔ خیر 24مارچ صبح چھ بجے کو پھانسی کا فیصلہ ہوا جس کو سامراجیت نے عدالتی حکم کو پسے پشت ڈالا اور عالمی پھانسی کے قانون کو توڑ کر 23مارچ کی شام سات بجے ہی پھانسی دے دی گئی۔ جس کی خبر لاہور شہر میں آگ کی طرح پھیلی اور تمام آزادی پسندوں نے جیل کے قریب پہنچ کر جیل کو توڑنا شروع کر دیا۔جس سے برطانیہ کے افسروں میں ڈر پیدا ہو گیا۔ انھوں نے سنگھ اور اس کے دو ساتھیوں کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں کاٹ کر تھیلوں میں پیک کیا اور دریا کے کنارے لے جا کر جلا ڈالا۔ جس کو بعد میں ڈھونڈ لیا گیا۔ سنگھ ایک ایسا تاریحی اور انقلابی شحص تھا جس نے قوم وملک کے لئے اپنی زندگی وقف کر دی تھی جس کا سنگھ نے ایک خط میں اپنے والد کو بتایا بھی تھا۔سنگھ نے 15 دن موت کی دنیا (جیل) میں بھوک ہڑتال کی، آخری دنوں میں 4بکس لکھیں۔ اور بہت سے نوٹس مرتب کیے جن کو عوامی سطح پر حکومت کو سامنے لانے کے لئے اقدامات کرنے چاہیے اور اس عظیم مجاہد کی قربانیوں کو تاریحی صفحات پر نمایاں کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ میں مطالبہ کرتا ہوں کہ سنگھ کی قربانیوں کو اس کا اصل صلہ دیا جائے اور قوم کو اس کے متعلق بتایا جائے۔اس سے نہ صرف حق گوئی کو تقویت ملے گی بلکہ آنے والی نسل کو بھی ایک تحریک ملے گی۔
مکمل تحریر >>

پاکستان کی خارجہ پالیسی۔خطرناک ممالک

(1-اسرائیل)
(2-ایران)
(3-بھارت)
(4-امریکہ)
اسرائیل
موجودہ دنیا میں صرف دو ممالک ایسے ہیں جو مذہبی نظریے کی بنیاد پر وجود میں آئے ہیں۔ ایک پاکستان دوسرا اسرائیل۔ پاکستان ایک جمہوری، آئینی اور قانونی جد و جہد کے نتیجے میں وجود میں آیا ہے جبکہ اسرائیل دنیا کے ہر مہذب ضابطے کے مطابق ایک ناجائز ریاست ہے۔ یہ فلسطین کی مقبوضہ زمین ہے جس پر یہ ریاست کھڑی کی گئی۔ یہ قبضہ اسقدر سنگین جرم تھا کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے خود اسرائیل کے وجود کو چیلنج کرکے مشرق وسطیٰ کے لئے پاکستان کی خارجہ پالیسی کا رخ متعین کردیا تھا اور پاکستان اپنی پوری تاریخ میں اپنے بانی کے اس متعین کردہ رخ پر پورے تسلسل سے چلا آرہا ہے۔ چونکہ اسرائیل مسلسل مسلمانوں کی زمین قبضہ کرتا رہا اور صاف صاف ان عزائم کا اظہار کرتا آیا ہے کہ وہ اپنی ریاستی حدود کو لگ بھگ پورے مشرق وسطیٰ تک پھیلائے گا اور چونکہ اسرائیل نے نہرو کے دور میں ہی بھارت سے خفیہ تعلقات قائم کر لئے اور یہ تعلقات عسکری تعاون کے سوا کچھ نہ تھے اس لئے دو باتیں واضح ہوگئی تھیں۔ پہلی یہ کہ چودہ سو سال میں پہلی بار مسلمانوں کے دونوں مقدس ترین مقامات یعنی حرمین شریفین کو سنگین ترین خطرہ لاحق ہو گیا ہے اور خطرہ بھی ایسا جس کی پشت پناہی کے لئے دنیا کے دو طاقتور ترین ممالک امریکہ و برطانیہ اپنے تمام سیاسی، معاشی و عسکری وسائل کے ساتھ موجود ہیں۔ اگر پاکستان اس خطرے کے راستے میں کھڑا نہیں ہوتا تو اس کا اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنا ہی ایک مذاق سے زیادہ کچھ نہیں رہے گا۔ دوسری بات یہ کہ اسرائیل نے بھارت سے اپنے تعلقات خفیہ کیوں رکھے ہیں ؟ اور یہ صرف عسکری میدان میں کیوں پیش رفت کر رہے ہیں ؟
اس کی وجہ یہ تھی کہ اسرائیل کے وجود کو قائد اعظم اور مہاتما گاندھی دونوں نے ہی مسترد کیا تھا اور گاندھی جی کا موقف بڑا اصولی تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم تو مذہب کے نام پر معرض وجود میں آنے والے پاکستان کی مخالفت کرتے رہے ہیں تو ہم سے یہ توقع کیسے کی جاسکتی ہے کہ مذہب ہی کے نام پر وجود میں آنے والے اسرائیل کو قبول کر لینگے ؟۔ مگر ہوا یہ قائد اعظم کے انتقال کے بعد انکے جانشینوں نے تو اسرائیل کے حوالے سے اپنی پالیسی برقرار رکھی لیکن گاندھی جی کے بعد نہرو نے فورا پالیسی بدل کر اسرائیل کو تسلیم کر لیا اور باور یہ کرایا کہ بس تسلیم ہی کیا ہے سفارتی تعلقات ہم نہیں رکھ رہے جبکہ درحقیقت بہت ہی اعلیٰ سطح کے انتہائی خفیہ تعلقات قائم کر لئے گئے تھے اور پہلے ہی دن سے ان تعلقات میں عسکری تعاون سب سے اہم ایجنڈہ تھا۔ اس وقت تک بھارت کی صرف پاکستان سے دشمنی تھی اس چائنا سے ابھی اس کی کوئی بھی ٹسل شروع نہیں ہوئی تھی جو کہ معرض وجود میں ہی 1948ء کی پاک بھارت جنگ کے ایک سال بعد آیا تھا اور اگر ہم دیکھیں تو آگے چل کر اسرائیل کے چین سے بھی عسکری تعلقات قائم ہوئے جس سے ظاہر ہے کہ اسرائیل کے بھارت سے 1992ء تک چلنے والے خفیہ تعلقات کا تعلق صرف اور صرف پاکستان سے تھا۔ ان دو وجوہات کی بنیاد پر پاکستان نے اسرائیل کو اپنا دشمن نمبر ایک قرار دیدیااور طے کر لیا کہ جب بھی اسرائیل خود کو مزید وسعت دینے اور مسلمانوں کی زمین پر بتدریج قبضہ بڑھاتے بڑھاتے خود کو حرمین کے قریب لانے کی کوشش کرے گا تو پاکستان سفارتی و عسکری دونوں میدانوں میں مزاحمت کے لئے اترے گا۔
چنانچہ آگے چل کر دونوں عرب اسرائیل جنگوں میں پاکستان اسرائیل کے خلاف میدان جنگ میں آیا اور کوئی ڈھکا چھپا بھی نہیں آیا بلکہ اپنے اقدام کو دنیا پر واضح کر کے صاف میسج دیدیا کہ اسرائیل جس توسیع کے خواب دیکھ رہا ہے اس کے لئے اسے صرف عربوں سے ہی نہیں پاکستان سے بھی جنگ لڑنی ہوگی۔ اگر پاکستان اسرائیل کے حوالے سے یہ دو ٹوک اور جارحانہ موقف نہ رکھتا تو یقین کیجئے اسرائیل کب کا ان لولی پوپ ٹائم عرب ریاستوں کو ہڑپ کر چکا ہوتا۔ کیا دنیا نے دیکھا نہیں کہ پہلی عرب اسرائیل جنگ میں اس نے صرف ایک دن میں پوری کی پوری مصری فضائیہ کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا تھا۔ پاکستان اسرائیل کے حوالے سے کوئی جارحانہ عزائم نہیں رکھتا اس کے وجود اور اسکے قبضہ کئے ہوئے علاقوں کے حوالے سے پاکستان صرف سفارتی کوشش کی پالیسی پر کار بند ہے لیکن اگر وہ گریٹر اسرائیل بننے کی غرض سے اپنی موجودہ حدود سے نکلنے کی کوشش کرے گا تو حالات کے تقاضوں کے مطابق پاکستان کی تینوں مسلح افواج میں سے کسی ایک، کسی دو یا تینوں کو سعودی عرب میں اپنا منتظر پائے گا۔ حرمین کے حوالے سے پاکستان کی پالیسی اتنی واضح اور دو ٹوک ہے کہ حالیہ بحران میں پاکستان نے نام لئے بغیر ایران پر بھی واضح کردیا ہے کہ سعودی سرحد اس کے اور پاکستان کے مابین ریڈ لائن کا درجہ رکھتی ہے جو بھی اس ریڈ لائن کو عبور کرے گا پاکستان کو اپنے تمام وسائل سمیت سعودی عرب میں موجود پائے گا۔ میں ذاتی طور پر اس بات پر فخر محسوس کرتا ہوں کہ اللہ نے حرمین کے تحفظ کا کلیدی کردار میرے وطن کے نصیب میں لکھا ہے اور ہماری مسلح افواج نہ صرف ارض وطن بلکہ بیت اللہ اور روضہ رسول ﷺ کی بھی سب سے مضبوط محافظ ہیں۔ یہ تو قدرت کے فیصلے ہیں ، کبھی ابابیلوں سے یہ ڈیوٹی لے لی جاتی ہے تو کبھی پاکستان آرمی کے نصیب میں یہ ذمہ داری لکھ دی جاتی ہے۔
ایران
ایران پاکستان کی خارجہ پالیسی میں خطرناک ممالک کی فہرست دوسرے نمبر پر آتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ بھارت کی طرح ایرانی قوم سے پاکستان کو کوئی مسئلہ درپیش ہے یا دونوں ممالک میں کوئی علاقائی تنازعہ ہے جس سے قومی سطح کی کوئی دشمنی چلی آرہی ہے بلکہ بھارت کے برخلاف ایران سے پاکستان کو درپیش خطرات کا تعلق انقلاب کے بعد برسر اقتدار آنے والے مذہبی عناصر سے ہے۔ اگر آپ ایران کے انقلابیوں کی تاریخ کا بغور جائزہ لیں تو پچھلے پینتیس سال کے دوران ان کی یہ پالیسی پورے تسلس سے چلی آرہی ہے کہ اپنا انقلاب صرف ایران تک نہ رکھا جائے بلکہ اسے پڑوسی ممالک میں ایکسپورٹ کیا جائے۔ اس مقصد کے لئے وہ جائز ناجائز ہر طرح کے حربے آزمانے پر یقین رکھتے ہیں ۔ پڑوسی ممالک میں دہشت گردی کروانا، عدم استحکام پیدا کئے رکھنااور اس کے نتیجے میں بغاوت کرانا اس رجیم کی اہم ترین حکمت عملی ہے۔ اس مقصد کے لئے پڑوسی ممالک میں واقع اپنے ثقافتی مراکز (خانہ فرہنگ) میں ورکشاپس کرائی جاتی ہیں جو بظاہر فارسی زبان کی ترویج اور تہذیبی، ثقافتی اور تعلیمی نوعیت کی ہوتی ہیں لیکن ان کے شرکاء میں سے ہی کام کے بندے چن لئے جاتے ہیں اور انہیں زائرین کے نام پر ایران لے جایا جاتا ہے جہاں پاسداران انقلاب انہیں عسکری تربیت فراہم کرتی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پینتیس برس کے دوران ایک لاکھ سے زائد پاکستانیوں کو عسکری تربیت دی گئی ہے۔
پاکستان کے چار علاقے ایسے ہیں جہاں سے نہ صرف بڑی تعداد میں ریکروٹمنٹ کی گئی ہے بلکہ ان علاقوں کو بارود کا ڈھیر بھی بنا دیا گیا ہے۔ ان میں گلگت، پاڑہ چنار، کویٹہ اور کراچی شامل ہیں۔ پاکستان میں ایرانی مفادات کا پہلا نگہبان علامہ عارف حسین الحسینی تھا جس نے پاڑہ چنار کو دہشت گردی کے اہم مرکز میں تبدیل کردیا تھا۔ جنرل ضیاء الحق نے نہ صرف پاڑہ چنار میں ایک بے رحم خفیہ فوجی آپریشن کروایا بلکہ عارف حسینی بھی نہ رہا۔ ایران کی جانب سے 80 کی دہائی میں نہ صرف یہ کہ اسلام آباد پر قبضے کے لئے پارلیمنٹ اور پاک سیکریٹیریٹ کا محاصرہ کیا گیا بلکہ کوئٹہ میں 6 جولائی 1986ء کو بدترین قتل عام بھی کیا گیا جس میں شہر کو لوٹا بھی گیا۔ اس واقعے میں پاکستان کے سیکیورٹی اداروں نے بڑی تعداد میں پاسداران انقلاب کے اہلکار گرفتار کئے جنہیں ایران سے مذاکرات کے بعد اس کے حوالے کیا گیا ۔ عارف حسین الحسینی خود ایرانی مؤرخین نے عارف حسین الحسینی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ انہوں نے امام خمینی کا مشن عام کرنے کے لئے شاندار خدمات انجام دیں۔ عارف حسینی کے بعد یہ ذمہ داریاں علامہ ساجد نقوی کی سونپی گئیں جو ریکروٹمنٹ تو کراتے رہے لیکن پاکستان میں کوئی بڑا واقعہ کرانے میں ناکام رہے۔ چنانچہ ان سے مایوس ہوکر اب پاکستان میں یہ ذمہ داریاں امین شھیدی اور اس کی مجلس وحدت المسلمین کو سونپی گئی ہیں۔
اگر آپ امین شھیدی کی پھرتیاں دیکھیں تو آپ کو اندازہ لگانے میں مشکل پیش نہیں آئیگی کہ وہ کچھ بڑا "ڈیلیور" کرنے کو کسقدر بے قرار ہیں۔ امین شھیدی کے چارج سنبھالنے کے بعد دو چیزوں میں تیزی آئی۔ ایک یہ کہ کوئٹہ میں ہزارہ آبادی بہت تیزی سے بڑھنے لگی اور دوسری یہ کہ اٹھارہ سے تیس سال کے زائرین کا ایران آنا جانا یکایک بہت بڑھ گیا۔ گزشتہ پانچ برس کے دوران افغانستان اور ایران سے کوئٹہ لا کر بسائے جانے والے ہزارہ قوم کے افراد کی تعداد اکیس ہزار بتائی جاتی ہے جنہیں نادرہ کے جعلی آئی ڈی کارڈ زفراہم کرکے پاکستانی شہری بنایا جا چکا۔ پاکستان کی قومی سلامتی کے ادارے ان چیلنجز سے پوری دانشمندی سے نمٹ رہے ہیں لیکن اپنی سر زمین پر اور یہ نمٹنا اسقدر مؤثر ہے کہ اب ایران نے باقاعدہ تلملانا بھی شروع کردیا ہے۔ وہ نہ صرف پاک ایران باڈر پر ایف سی کو نشانہ بنانے کی کوشش کر رہا ہے بلکہ کچھ عرصہ قبل ایران میں اغوا ہونے والے اپنے فوجیوں کے اغوا میں بھی پاکستان کو ملوث کرنے کی ناکام کوشش کر چکا حالانکہ اغوا کار پاکستان سے سینکڑوں کلومیٹر دور اافغان باڈر کے قریب ایران میں ہی موجود تھے اور ایران نے اغوا کاروں کے ساٹھ قیدیوں کے بدلے میں اپنے فوجی چھڑائے تھے۔ حالیہ عرصے میں اگر آپ گزشتہ برس کراچی آپریشن کے دوران اسے لیڈ کرنے والے ایڈیشنل آئی جی شاہد حیات کی پریس کانفرنس دیکھ لیں تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ کراچی کی ٹارگٹ کلنگز میں صرف ایم کیو ایم ہی نہیں بلکہ براہ راست ایران بھی ملوث ہے۔ شاہد حیات نے اپنی پریس کانفرنس میں ایران کا نام لے کر تفصیل بتائی تھی۔
پاکستان کے حوالے ایران کی سب سے بڑی بد قسمتی یہ ہے کہ پاکستان نوے فیصد شیعہ آبادی اس کے ایجنڈے میں دلچسپی ہی نہیں رکھتی اور اپنے وطن کی سلامتی کے لئے پر عزم ہے۔ چنانچہ اگر آپ غور کریں تو محرم یا دیگر تاریخوں کی مذہبی ایکٹوٹیز میں تو پاکستان کے لاکھوں شیعہ سڑکوں پر نظر آتے ہیں لیکن جب امین شھیدی جیسے لوگ دھرنے کی کال دیتے ہیں تو انہیں بس اتنے ہی لوگ میسر آتے ہیں کہ چار بانسوں والے ایک شامیانہ انکے لئے کافی ہوتا ہے۔ یاد رکھئے ایرانی انقلاب سے قبل پاکستان میں کوئی شیعہ سنی جھگڑہ نہ تھا اس جھگڑے اور فرقہ واریت کی بنیاد ایران نے ڈالی ہے اور ایران میں جب تک موجودہ رجیم ہے تب تک یہ فرقہ واریت ختم نہیں ہو سکتی کیونکہ ایران امریکہ سے دوستی کے بعد پڑوسی ممالک میں بغاوتیں کرانے کی کوششوں میں بے پناہ تیزی لاچکا ہے۔ یاد رکھئے کہ ایران اور اسرائیل دشمن ممالک ہرگز نہیں ہیں انکے مابین ہونے والی ہوائی فائرنگ ایک دھوکے کے سوا کچھ نہیں ایران عراق جنگ کے دوران ایران اسرائیل سے اینٹی ٹینک میزائیل تک خریدتا رہا ہے جسکی ڈیلیوری 1985ء میں شروع ہوئی اور آخری شپمنٹ 1986ء میں تبریز ایئربیس پر اتری۔ اپنا انقلاب عسکری بنیادوں پر پاکستان ایکسپورٹ کرنے کی سرتوڑ کوششوں، پاکستان میں دہشت گردی کے سنگین واقعات میں مسلسل ملوث ہونے اور پاکستان میں بغاوت کی تین ناکام کوششوں کے سبب پاکستان کی خارجہ و ڈیفنس پالیسی میں ایران کو دوسرے بڑے چیلنج کے طور پر رکھا گیا ہے۔
بھارت
بھارت پاکستان کے دشمن ممالک میں تیسرے نمبر پر آتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ایک ایسا کھلا ڈلا دشمن ہے جس کی ناک کے بال کھینچ کھینچ کر ہم اسے پاگل کر سکتے ہیں لیکن گیدڑ بھپکیوں سے آگے نہیں بڑھ سکتا اور اگر بڑھ بھی جائے تو اس کی دشمنی پر پاکستان میں مکمل قومی اتفاق رائے موجود ہے اور اس کی طبیعت صاف کرنے کے لئے ہمارے پاس ہر طرح کے کیل کانٹے موجود ہیں۔ اس کے برخلاف اسرائیل ایک ایسا دشمن ہے جو خود ایک ایٹمی طاقت بھی ہے اور پاکستان کے دشمن نمبر دو سے اس کے خفیہ تعلقات بھی قائم ہیں۔ دشمن نمبر تین کے اس سے چالیس سال تک خفیہ اور اب پچھلے 23 سال سے ایسے کھلے تعلقات ہیں جن کا ہدف پاکستان ہی ہے اور دشمن نمبر چار یعنی امریکہ تو اسکا باپ تایا چاچا اور ماماسب کچھ ہے اسی لئے وہ پاکستان کا سب سے خطرناک دشمن ہے اور پہلے نمبر پر موجود ہے۔ ایران دوسرے نمبر پر اس لئے ہے کہ وہ آستین کا ایسا سانپ ہے جو کھل کر سامنے نہیں آتا ۔ وہ کمر میں چھرا گھونپنے کی پالیسی رکھنے والا ایسا ملک ہے جسے پاکستان کے اندر سے بہت بڑی تعداد میں ایجنٹ دستیاب ہیں اور جسے دشمن ڈیکلیئر کرنے کی صورت میں بھارت جیسا قومی اتفاق رائے نہیں بن سکتا کیونکہ ایران ایک مثبت ذہن رکھنے والے پاکستانی شیعہ کے لئے بھی قابل احترام مقام ہے جو قابل فہم بات ہے اور اس پر کسی کو اعتراض بھی نہیں ہونا چاہئے۔ جنرل موسیٰ خان 65ء کی جنگ میں پاکستان آرمی کے کمانڈر انچیف تھے۔ انہوں نے پوری دلیری سے اس جنگ میں آرمی کی کمانڈ کی، بعد میں گونر بلوچستان بھی رھے، اپنی کتاب اور الطاف حسن قریشی کو دیئے گئے انٹرویو میں 65ء کی جنگ میں آرمی میں موجود قادیانی افسران کی سازشوں کو بے نقاب بھی کیا۔ خلاصہ یہ کہ وہ ایک سچے کھرے پاکستانی تھے لیکن دفن ہونا انہوں نے ایران میں پسند کیا کیونکہ بطور شیعہ ایران انکے لئے ایک قابل احترام مقام تھا۔ ان کا وہاں دفن ہونا باالکل اسی طرح قابل فہم ہے جس طرح باچا خان کا جلال آباد میں دفن ہونا۔
بھارت کے حوالے سے آپ سب کچھ جانتے ہیں۔ اس لئے اس میں زیادہ تفصیل کی ضرورت ہی نہیں البتہ دو تین ایسے پہلوؤں کی جانب متوجہ کرنا چاہونگا جو اہم ہیں۔ بھارت سے ہماری دشمنی کی دو بنیادی وجوہات ہیں۔ ایک یہ کہ دو قومی نظریے میں ہندو ایک حریف ڈیکلیئر ہوا قائد اعظم کا یہ کہنا کہ ہم ہندوؤں کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے یہ ہندوؤں کی عزت نفس مجروح کر گیا ہے جس کا غصہ مٹ نہیں رہا۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ آپ ایک محفل میں بیٹھے ہوں اور ایک صاحب سب کے سامنے کہدیں کہ میں ان کے ساتھ صوفے پر نہیں بیٹھونگا، مجھے کوئی الگ نشست دی جائے، ظاہر ہے آپ تذلیل ہی محسوس کرینگے۔ دوسری بات یہ کہ کشمیر پر ہمارا ان سے دیرینہ تنازعہ ہے۔ تمامتر تلخیوں کے باوجود دونوں جانب اس بات کا ادراک ہے کہ بہت سی ایسی چیزیں ہیں جن کے سبب دونوں ملکوں کے عوام کا ایک دوسرے سے کٹے رہنا ممکن ہی نہیں۔ مثلا پہلی یہ کہ پاکستان میں لگ بھگ ایک کروڑ ایسے مہاجر ہیں جن کے خاندانوں کا ایک بڑا حصہ آج بھی انڈیا میں آباد ہے۔ یہ خونی رشتے ہیں جو کبھی نہیں ٹوٹ سکتے، دونوں جانب کے ان خاندانوں کا دونوں ممالک میں آنا جانا روز کا معمول ہے۔ دوسری یہ کہ سکھ مذہب کے گیارہ مقدس مقامات پاکستان میں واقع ہیں، اپنی مذہبی رسومات کے لئے نہ صرف بھارت سے بلکہ دنیا بھر سے سکھوں کو پاکستان آنا ہی آنا ہے۔ تیسری یہ بریلوی مکتبہ فکر کا مرکز انڈیا میں ہے ایک راسخ العقیدہ بریلوی اس مقام پر جانا اپنے لئے سعادت سمجھتا ہے۔ چوتھی یہ کہ دیوبندی مکتبہ فکر کا مرکز بھی انڈیا ہی میں ہے، ہر راسخ العقیدہ دیوبندی دارالعلوم دیوبند دیکھنا چاہتا ہے۔ پانچویں یہ کہ برصغیر میں ماڈرن ایجوکیشن کی جنم بھومی علی گڑھ یونیورسٹی بھی انڈیا میں ہے جو مسلمانوں کے لئے ایک علمی استعارے کا درجہ رکھتی ہے۔ اسے قریب سے دیکھنے کا شوق بھی ہر طرف موجود ہے۔ چھٹی یہ کہ سندھ میں ہندوؤں کی بہت نمایاں آبادی ہے جو اپنی مذہبی رسومات کے لئے بھارت جائے بغیر نہیں رہ سکتے۔
یہ چھ انسانی قدریں دونوں ہی ممالک کے لئے ایک ایسا پریشر بنائے رکھتی ہیں جس کے تحت یہ خواہش دونوں ہی جانب پائی جاتی ہے کہ یہ دشمنی ختم ہو اور لوگوں کی آزادانہ آمد و رفت شروع ہو لیکن دونوں ہی ممالک کشمیر سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔ بھارت اس لئے کہ اسے پاکستان پر سٹریٹیجک بالادستی حاصل ہی کشمیر کے ذریعے ہے جبکہ پاکستان اس لئے کہ ایک تو وہ پاکستان کی شہ رگ ہے اور دوسری طرف یہ بھی ہے کہ لاکھوں کشمیری پاکستان کے روحانی شہری ہیں۔ وہ آج بھی پاکستان کا پرچم پہلے عقیدت سے چومتے اور پھر لہراتے ہیں، جس کے نتیجے میں انہیں کڑی سزا سے گزرنا پڑتا ہے اور وہ اس سزا سے گزر لیتے ہیں اور سزا ہی کیا جان سے بھی گزر جاتے ہیں لیکن پاکستان سے اپنی وابستگی کسی صورت نہیں چھوڑتے۔ 68 سال کی ان قربانیوں اور محبتوں کو پاکستان کیسے نظر انداز کر سکتا ہے ؟ مجھے اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ دونوں ہی ممالک دوستی چاہتے ہیں لیکن کشمیر کا مسئلہ حل ہونا نہایت ہی مشکل مرحلہ ہے۔ بھارت چاہتا ہے کہ اس مسئلے کو نظر انداز کرکے کوئی حل نکالا جائے اور وہ نظر انداز اس لئے کروانا چاہتا ہے تاکہ اس کا ناجائز قبضہ برقرار رہ سکے اور یہ پاکستان کسی صورت قبول کر نہیں سکتا۔
نواز شریف کے حالیہ دور میں پاک چائنا اکنامک کوریڈور کا جو عظیم الشان منصوبہ شروع ہوا ہے اس کے پورا ہونے پر نہ صرف چائنہ کی ساری دنیا سے ایکسپورٹس اور امپورٹس اس روٹ سے شرع ہو جائینگی جس سے چائنہ کو سالانہ اربوں ڈالرز کی بچت ہوگی بلکہ پاکستان کے لئے بھی معاشی ترقی کے لامتناہی امکانات پیدا ہو جائینگے۔ اور یہ صرف اس ایک روٹ تک محدود نہیں رہے گا بلکہ افغانستان کا امن ہر حال میں یقینی بنا کر وسطی ایشیا کو بھی اس روٹ سے جوڑ دیا جائے گا جہاں جانے کے لئے بھارت پوری طرح بیقرار ہے۔ یہ روٹ جوں جوں تکمیل تک پہنچے گا بھارتی صنعتکاروں کا دباؤ اپنی حکومت پر اتنا ہی بڑھتا چلا جائے گا اور انشاء اللہ وہ دن آئے گا کہ بھارت کو لامتناہی تجارتی مفادات اور کشمیر میں سے کسی ایک کو چننے کا فیصلہ کرنا ہوگا ورنہ وہ ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جائے گا۔ اس پروجیکٹ کی اس بے پناہ اہمیت کے سبب امریکہ، بھارت اور ایران تینوں ہی اس کے دشمن ہیں۔ اسے پورا کرنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ ہر پاکستانی کو نہ صرف اس کی کامیابی کے لئے دعاء گو رہنا ہوگا بلکہ آنکھیں بھی کھلی رکھنی ہونگی۔ آپ دیکھ چکے کہ چائنیز صدر کا دورہ پاکستان دوبار ناکام بنایا جاچکا اور ایسا ان لوگوں کے ذریعے کروایا گیا جو ہماری اپنی ہی صفوں میں موجود ہیں۔ اب بالآخر آٹھ اپریل کو چائنیز صدر پاکستان آ رہے ہیں جو پاک چائنا ریلیشنز کی تاریخ کا سب سے اہم ترین دورہ ہے۔ اللہ پاکستان کو سرخرو اور کامیاب کرے۔ آمین
امریکہ
پاکستان کے لئے خطرناک ممالک کی فہرست میں امریکہ چوتھے نمبر پر آتا ہے۔ امریکہ سے پاکستان کے تعلقات ابتدائی دور میں اس درجے کے دوستانہ تھے کہ جب فیلڈ مارشل ایوب خان امریکہ کے دورے پر گئے تو صدر جان ایف کینیڈی نے اپنی اہلیہ اور اعلیٰ حکام سمیت پورے فوجی اعزاز کے ساتھ ائیرپورٹ پر ان کا استقبال کیا۔ اپنی استقبالیہ تقریر میں صدر کینیڈی نے کہا کہ ایوب خان کا استقبال میرے لئے اعزاز کی بات ہے۔ قافلہ ائیر پورٹ سے نکلا تو منزل مقصود تک سڑک کے دونوں جانب ہزاروں امریکیوں نے تالیوں اور استقبالی کلمات سے ایوب خان کا عوامی استقبال کیا جو صدر کینیڈی کے ساتھ کھلی چھت والی لیموزین میں سوار تھے۔ یہ ہر لحاظ سے ایک ایسا استقبال تھا جو کسی عظیم طاقت والے ملک کے سربراہ کا ہی ہوسکتا تھا حالانکہ تب پاکستان کی کل عمر ہی 14 سال تھی اور وہ کسی اینگل سے بھی ایک عظیم طاقت نہیں تھا۔ اس استقبال کی بنیادی وجہ یہ تھی خطے میں افغانستان اور بھارت سوویت یونین کے اتحادی تھے جبکہ کمیونسٹ چین بھی وجود میں آچکا تھا۔ ایران کے بعد پاکستان دوسرا ملک تھا جو امریکہ کا سٹریٹیجک پارٹنر تھا۔ مگر 1967ء میں اسرائیل نے عرب دنیا سے جنگ چھیڑ ی تو پاک فضائیہ کے پائلٹ عربوں کی مدد کو جا پہنچے۔ یہ وہ موقع تھا جب امریکہ تلملا کر رہ گیا اور اسے یہ اندازہ ہوا کہ مشرق وسطیٰ میں اس کے لاڈلے منے کو تو اس کے اس سٹریٹیجک پارٹنر سے خطرات لاحق ہیں۔ یوں دوستی ایک خفیہ دشمنی میں بدل گئی اور پاکستان کو کمزور کرنا اس کی اہم ضرورت بن گیا کیونکہ طاقتور پاکستان اسرائیل کے راستے کی رکاوٹ ہوتا۔
چنانچہ جلد ہی ہم نے دیکھا کہ بھارت اور سوویت یونین نے جب مشرقی پاکستان کو الگ کرنے کی ملٹری مہم شروع کی تو پاکستان امریکی بحری بیڑے کا انتظار ہی کرتا رہ گیا۔ امریکہ نے بھارت اور سوویت یونین کو یہ کھلا راستہ اسی لئے دیا تاکہ حجم کے لحاظ سے پاکستان کم ہو سکے۔ اس جنگ میں آدھا ملک ہاتھ سے گیا، پاکستان کے نوے ہزار فوجی بھارت کی قید میں چلے گئے۔ فوجی سربراہ برطرف کردیے گئے۔ یوں گویا عسکری لحاظ سے پاکستان شرمناک ہی نہیں بدترین دور میں بھی کھڑا ہو گیا۔ اب پاکستان کو مستقل کمزور رکھنا اور اسرائیل کو طاقتور سے طاقتور بنانا امریکہ کے لئے بائیں ہاتھ کا کھیل نظر آتا تھالیکن یہ کیا ؟ ملک ٹوٹنے کے صرف دو سال بعد پاک فضائیہ کے پائلٹ ایک بار پھر عرب اسرائیل جنگ میں ؟ تو گویا کہ ملک ضرور ٹوٹا ہے لیکن حوصلے نہیں ٹوٹے۔ اب قدرت کا کھیل دیکھئے کہ اِدھر ذوالفقار علی بھٹو نے ایٹمی پروگرام کی داغ بیل ڈالنی شروع کی اُدھر سوویت یونین افغانستان میں فوج اتار کر کمزور پاکستان کی جانب لپکنے کی تیاری میں لگ گیا۔ بھٹو ایٹمی پروگرام کی وجہ سے آمریکہ کی نظر میں دشمن قرار پا گئے اور حل یہ سوچ لیا گیا کہ انہیں ملٹری کے ذریعے پھانسی پر لٹکا دیا جائے تو یہ ایٹمی پروگرام رک جائے گا۔ مگر ہوا یہ کہ نہایت ذہین مگر جذباتی بھٹو کی جگہ نہایت شاطر مگر مسکین دکھنے والا جنرل ضیاء اقتدار میں آگیا۔ جس نے سوویت خطرے سے ڈرا ڈرا کر نہ صرف امریکہ سے کنوینشنل وار فیئر کے ہتھیار لینے شروع کردئے بلکہ اسی خطرے کی آڑ لیتے ہوئے امریکی مجبوری کا فائدہ اٹھا کر 1984ء میں پاکستان کو ایٹمی ملک بھی بنا دیا۔ چنانچہ 1991ء میں امریکہ جیسے ہی سوویت جھنجٹ سے آزاد ہوا اس نے پاکستان پر پابندیاں لگا کر ایٹمی پروگرام روبیک کرنے کے مطالبے شروع کردئے جو نہ فوج نے مانے نہ ہی نواز شریف اور بینظیر بھٹو نے۔
نائن الیون ہوا تو امریکہ کے لئے یہ ایک سنہری موقع بن گیا کہ وہ بقدم خود پاکستان کے باڈر پر آکر بیٹھ جائے اور وہ آیا۔ جو عقل کے اندھے یہ سمجھتے ہیں کہ اسامہ بن لادن اور اس کے چھ سو ساتھیوں کے خلاف امریکہ نے ایک لاکھ پچیس ہزار فوج افغانستان میں اتاری تھی انکی عقل کا ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔ وہ پاکستان کی ایٹمی قوت ختم کرنے کی غرض سے ہی یہاں آیا تھا۔ یہ سوال آپ کے ذہن میں آ سکتا ہے کہ پھر اس نے ایسا کیا کیوں نہیں ؟ تو جواب یہ ہے کہ ایک اندازے کے مطابق پاکستان ایک سو سات ایٹمی ہتھیاروں والا ملک ہے مگر انکے تحفظ کے لئے ایسا شاندار میکنزم بنایا گیا ہے کہ پاکستان میں ایک بھی ایسا سول یا فوجی شخص نہیں ہے بشمول آرمی چیف کے جو تمام ہتھیاروں کے مقام سے واقف ہو کہ وہ کہاں کہاں موجود ہیں ؟ اگر امریکہ ملٹری آپریشن کے ذریعے اٹھانا بھی چاہے تو تمام دانے کسی صورت نہیں اٹھا سکتا۔ پاکستان کی اس حکمت عملی کے پیچھے یہ سوچ موجود ہے کہ اگر ٹاپ لیول پر بھی کوئی غدار پیدا ہو جائے تو وہ بھی فقط چند ہتھیاروں کا درست مقام بتا سکے۔ تو جب خفیہ فوجی آپریشن کے ذریعے پاکستان کو ایٹمی ہتھیاروں سے یقینی طور پر غیر مسلح کرنا ممکن ہی نہیں تو اس کا فائدہ ؟۔ ان حالات میں امریکہ کے لئے واحد آپشن یہی تھی کہ ملک کو اندر سے سیاسی وعسکری طور پر اتنے زخم لگائے جائیں کہ یہ بکھر کر رہ جائے اور اس میں خانہ جنگی کی ایسی کیفیت بنادی جائے جس سے پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کا ملک پر کنٹرول ختم ہو جائے اور جسے جواز بنا کر یہاں اقوام متحدہ کی فوج اتاری جائے اور خوب تسلی سے سارے "دانے" ڈھونڈ لئے جائیں۔ چنانچہ ایک طرف ٹی ٹی پی کھڑی کی گئی جسے یہ ہدف دیا گیا کہ تم اس ملک کو عسکری زخم لگاؤ اور دوسری طرف صحافیوں اور دانشوروں کو خریدا گیا جنہیں یہ ہدف دیا گیا کہ تم عوام کا اعتماد تباہ کرو اور انہیں فوج سے بدظن کرو۔ دونوں ہی نے ایڑی چوٹی کا زور لگا لیا لیکن جس ملک نے حرمین کے تحفظ کی ذمہ داری کا بیڑہ اٹھا رکھا ہو اس کے تحفظ کے لئے اللہ ہی کافی تھا۔ نتیجہ یہ کہ امریکہ اپنے زخم چاٹتا ہوا انخلا کر رہا ہے اور پاکستان اپنے اندرونی دشمنوں کو چن چن کر مار رہا ہے اور میری یہ بات یاد رکھیں کہ بچینگے وہ دانشور اور صحافی بھی نہیں جو گزشتہ دس سال کے دوران سی ڈی 70 موٹر سائیکل سے ڈیڑھ ڈیڑھ کروڑ کی گاڑیوں تک پہنچ گئے ہیں انہیں بتانا ہوگا کہ 5000 سے بیس ہزار تک کی تک کی تنخواہ پانے والا ورکنگ جرنلسٹ صرف دس سال میں کروڑوں اور اربوں روپے کا مالک کیسے بن سکتا ہے ؟۔
الحمدللہ اب پاکستان اپنے مستقبل کے منصوبوں کی جانب بڑھ رہا ہے اور ان منصوبوں میں پاک چائنا اکنامک کوریڈور اتنا عظیم الشان منصوبہ ہے جو پاکستان کا مقدر بدل کر رکھدیگا جبکہ دوسری طرف عرب کہہ رہے ہیں کہ ہم سے بلینک چیک لے لو لیکن ہمارا دفاع مضبوط کرنے میں اپنا کردار ادا کردو۔ 6 عرب ملک پاکستان کے لئے اپنے خزانوں کے منہ کھولنے کو تیار بیٹھے ہیں۔ ترکی طویل المیعاد منصوبوں میں پاکستان کے ساتھ شراکت ڈیزائن کر رہا ہے۔ چائنا پینتیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہےجس کے بارے میں کہا جا تا ہے کہ یہ اصل فگر نہیں ہے، حقیقی فگر اس سے کہیں بڑا ہے۔ ان حالات میں یہ دو ٹکے کے دانشور جو آپ کو تلملاتے نظر آرہے ہیں یہ وہ بھاڑے کی فکری فوج ہے جو آپ کا اعتماد قائم نہیں ہونے دیتی اور آپ کو ہر وقت شکوک و شبہات میں مبتلا رکھنا چاہتی ہے تاکہ ملک ترقی کی راہ پر یکسو نہ ہوسکے۔ آپ کے اسی ذہنی انتشار کا فائدہ اٹھا کر دھرنوں اور مارچوں کا بازار گرم کر کے ترکی، چائنا اور سعودی عرب کی مدد سے شروع ہونے والے ترقی کے سفر کو آغاز میں ہی ختم کرنا چاہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آپ امریکی مفادات کے لئے استعمال ہونا چاہتے ہیں یا نہیں ؟ آپ کی آنکھیں کھلی ہیں کہ نہیں ؟ آپ کا دماغ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے کہ نہیں ؟۔ ترقی کا یہ سفر پندرہ سے بیس سال کا ہے جس میں کئی حکومتیں آئینگی اور جائینگی۔ میری رائے یہ ہے کہ جو بھی حکومت آئے، جس کی بھی آئے اسے کام کرنے دیں اسے کمزور مت کریں کیونکہ اب آپ حکومتوں کو نہیں بلکہ اپنے مستقبل کو کمزور کر رہے ہونگے۔ میں اور آپ ایک کمزور اور زخمی پاکستان میں جئے۔ کیا اپنی اولاد کو بھی کمزور اور زخمی پاکستان دینا ہے ؟
<<<گزشتہ:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::مزید>>>
مکمل تحریر >>

پاکستان کی خارجہ پالیسی۔عرب ممالک

سوویت یونین کے دور میں عالم اسلام بھی دو بلاکوں میں بٹا ہوا تھا۔ انقلاب سے قبل کا ایران تو کیپٹل بلاک میں تھا لیکن انقلاب کے بعد کا ایران کمیونسٹ بلاک میں رہا۔ اسی طرح عراق شام، مصر، لیبیا اور جنوبی یمن بھی کمیونسٹ بلاک میں رہے۔ سعودی عرب، کویت، اردن، عرب امارات اور شمالی یمن کیپٹل بلاک میں رہے۔ پاکستان چونکہ خود بھی کیپٹل بلاک میں رہا اس لئے کیپٹل بلاک کے عرب ممالک سے تو اس کے تعلقات بہت مضبوط رہے لیکن کمیونسٹ بلاک کے ممالک کا معاملہ عجیب تھا۔ صدام حسین کو پیپلز پارٹی کے دور میں پاکستان اچھا لگتا تھا جبکہ دیگر ادوار میں برا۔ وہ سیاست میں پیپلز پارٹی کی مالی مدد تو کرتا تھا لیکن پاکستان میں دہشت گردی کبھی نہیں کروائی البتہ کراچی میں 1984ء میں بننے والی سواد اعظم نامی تنظیم کے پیچھے اسی کا ہاتھ جسے پاکستان کے سیکیورٹی اداروں نے ایک سال کے اندر اندر لپیٹ دیا تھا۔ کچھ یہی معاملہ قذافی کا بھی تھا لیکن قذافی نے جنرل ضیاء کے دور میں دہشت گردی کی کوشش بھی کی۔ 80 کی دہائی کا مشہور ہتھوڑا گروپ قذافی ہی کا ڈھکوسلہ تھا۔ مصر کو پاکستان کبھی بھی اچھا نہیں لگا لیکن اس نے کوئی دشمنی بھی نہیں کی۔ پاکستان سے اس کے خار کی بنیادی وجہ جو مجھے سمجھ آتی ہے وہ جماعت اسلامی ہے جو اخوان المسلمین کی دودھ شریک بہن ہے۔ شام نے پاکستان سے عسکری تعلقات بھی رکھے لیکن تھوڑا فاصلہ بھی رکھا ایک طرف پاکستان ایئر فورس کے پائلٹوں کی جنگ میں خدمات اور ان سے تربیت بھی حاصل کی دوسری طرف الذوالفقار کی ہائی جیکنگ میں بھی ملوث نظر آیا۔ پاکستان نے ہمیشہ ان عرب ممالک کے ساتھ بہترین تعلقات بنائے رکھنے کی کوشش کی اور کبھی ایسی کوئی حرکت نہیں کی جس سے کمیونسٹ بلاک کے ممالک کو ناراضگی ہوئی ہو۔
دونوں جانب کے برادر اسلامی ملکوں سے تعلقات استوار رکھنے میں سنجیدگی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتاہے کہ 1967ء اور 1973ء کی عرب اسرائیل جنگوں میں پاک فضائیہ کے پائلٹوں نے بھی حصہ لیا۔ پہلی جنگ میں پاکستان کے پائلٹ مصر، اردن اور شامی فضائیہ کی طرف سے لڑنے گئے ان میں سے اردن کیپٹل بلاک جبکہ مصر اور شام کمیونسٹ بلاک کے ممالک تھے۔ اس جنگ میں لڑتے ہوئے پاکستانی پائلٹوں نے دس اسرائیلی طیارے مار گرائے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ پاکستانی پائلٹ اس کے صرف تین طیارے گرانے میں کامیاب رہے تھے۔ دوسری عرب اسرائیل جنگ میں پاک فضائیہ کے پائلٹ ایک بار پھر ان تینوں ملکوں میں پہنچے۔ پاکستانی پائلٹ مصر پہنچے تو مصر جنگ بندی کا اعلان کر چکا تھا البتہ اردن اور شام ابھی حالت جنگ میں تھے۔ ان دونوں ممالک کی جانب سے لڑتے ہوئے پاکستانی پائلٹوں نے پانچ اسرائیلی طیارے گرائے۔ ان میں سے بالخصوص فلائٹ لیفٹنٹ عبد الستار علوی کو شام نے ہیرو ڈیکلیئر کیا اور ایوارڈ سے بھی نوازا۔ جنگ کے اختتام پر شام نے ان پاکستانی پائلٹوں کی خدمات اپنی فضائیہ کی ٹریننگ کے لئے طلب کر لیں جسے پاکستان نے منظور کر لیا یوں یہ پائلٹ 1976ء تک شام میں رہے۔ پاک فضائیہ اور شامی فضائیہ کے تعلقات کا پاکستان کو یہ فائدہ ہواکہ شامی فضائیہ کے پاس رشین طیارے تھے چونکہ انڈین ایئرفورس بھی رشین طیاروں پر مشتمل تھی تو پاک فضائیہ کے پائلٹ ان طیاروں پر بھی دسترس حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے جس سے ان طیاروں کی تمام خوبیاں اور خامیاں ان کے علم میں آگئیں جو جنگ کے موقع پر کار آمد ہوتیں۔ اس زمانے میں پاکستان واحد ملک تھا جس کی فضائیہ امریکی و فرانسیسی ہی نہیں بلکہ رشین طیاروں کی مہارت سے بھی لیس تھی۔
مجموعی طور پر اگر ہم دیکھیں تو پاکستان کی خارجہ پالیسی کا رجحان عرب ممالک کے لئے یکساں احترام کا رہا ہے لیکن ان میں سے صرف سعودی عرب ہے جس نے پاکستان کے ساتھ مخلص سگے بھائی جیسا غیر متزلزل تعلق رکھا ہے جبکہ دیگر عرب ممالک کا رویہ پاکستان سے  سوتیلوں بھائیوں جیسا رہا ہے ان میں سے بعض تو برادران یوسف بھی ثابت ہوتے رہے ہیں لیکن پاکستان نے جوابا انہیں سبق سکھانے کی کوشش کبھی نہیں کی بلکہ اس بڑے بھائی کا کردار ادا کیا جو کہدیتا ہے "چلو خیر ہے چھوٹا ہے" ان تمام ممالک سے تعلقات ہر حال میں ٹھیک رکھنے کی کوشش کے پیچھے یہ سوچ کار فرما ہے گریٹر اسرائیل کی راہ روکنے کی ذمہ داری پاکستان ہی کو نبھانی ہے اور دفاعی ضرورت کے پیش نظر ان میں سے کسی بھی ملک میں جنگ کے موقع پر جانا پڑ سکتا ہے لھذا ان سے تعلقات اس سطح کے رکھے جائیں کہ ایمرجنسی میں نہ انہیں بلانے میں ہچکچاہٹ ہو اور نہ پاکستان کو جانے میں۔ عربوں کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ متوازن سماج کی اہمیت سے قطعی نا بلد ہیں۔ علمی و سائنسی ترقی کی دور دور تک کوئی سوچ نہیں پائی جاتی۔ انکے نزدیک انسان کی بنیادی ضرورتیں تین ہیں۔ اچھی شراب، اچھی عورت اور اچھی مسجد۔ اب چونکہ یہ تینوں چیزیں انہیں وافر دستیاب ہیں تو وہ سوچتے ہیں کہ عالم اسلام تاریخ کے ترقی یافتہ  ترین دور میں ہے۔ ان کی انہی احمقانہ حرکتوں کے نتیجے میں امریکہ اور برطانیہ انہیں رج کے لوٹ رہے ہیں اور اسرائیل خود کو دن بدن گریٹر اسرائیل بنانے کی پوزیشن میں لا رہا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ اسرائیل کی پیش قدمی روکے رکھنے کے لئے بھی پاکستان ہی کو تدبیریں کرنی پڑتی ہیں۔ نام نہاد امن پسند کہہ سکتے ہیں کہ اگر اسرائیل گریٹر اسرائیل بنتا ہے تو بنے، ہمیں اس سے کیا غرض؟ اس پر اگلی قسط میں تفصیل سے روشنی ڈالونگا اور واضح کرونگا کہ پاکستان کی قومی سلامتی پالیسی میں اس کے چار دشمن ممالک کی فہرست میں اسرائیل نمبر ایک اور بھارت نمبر تین پر کیوں ہے؟
<<<گزشتہ:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::مزید>>>
مکمل تحریر >>

27 مارچ، 2015

سعودی ماتا کی جے .!

شریف جاتی امرا جناب وزیراعظم ریاست "الباکستان"، آپ کی رعایا کے بچے بچے کو، اتفاق فونڈری سے سرور پیلیس تک، السعودیہ نامی آپ کی روحانی والدہ کے آپ جناب پر تمام احسانات عظیم کی تفصیلات تک ازبر ہیں .. بس ذرا اتنا واضح کردیں کہ آپ کی اس ماتا کے "اتحادی" مفرور یمنی صدر کے "باغی" حوثی جنگجووں کی کامیابی سے ماتا جی کی عزت "سالمیت" تار تار ہونے کا اندیشہ کیونکر پیدا ہو جاتا ہے جبکہ انہوں نے اس پر کس قسم کے "مجرمانہ حملے" کا عندیہ کبهی نہیں دیا.؟
اور قبلہ، خواجہ سرا سیالکوٹی جناب وزیر دفاع "مملکت خداداد"، آپ بهی کامل اطمینان رکھیں کہ آپ جناب کے تیل کے نئے کاروبار کی ترقی و ترویج میں السعودیہ نامی آپ کی روحانی خالہ جان کی مہربانیاں بهی اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہیں .. آپ سے بھی بس اتنی سی درخواست ہے کہ ذرا اس بھول بهلکڑ قوم کو یاد دلا دیں کہ خانہ کعبہ کو مسمار کرنے کا اعلان السعودیہ کے پروردہ خلیفہ البغدادی کی "داعش" نے کر رکھا ہے یا یمن کے حوثی قبائل نے.؟
جہاں تک ہمارا تعلق ہے" ہم سب کو البتہ بہت اچھی طرح معلوم ہے کہ رشیا اور چائنا کی قیادت میں قائم ہونے والے وسیع تر اقتصادی اتحاد "برکس" کے حوالے سے "بحیرہ احمر" کی دوچند اہمیت نے یمن پر مکمل کنٹرول کی ضرورت کو امریکہ نواز اتحاد "نیٹو" کیلئے خاصا اہم بنا دیا ہے اور اسی لئے امریکہ مخالف سابق یمنی صدر کے حامی حوثی جنگجووں کی فتح امریکہ کی دیرینہ اتحادی، ریاست الباکستان کی السعودیہ نامی روحانی ماتا کیلئے ناقابل برداشت ٹهہری ..
اسی طرح ہم اس امر سے بهی بخوبی آگاہ ہیں کہ تیل کے قیمتی گہنوں سے سجی سنوری ہماری "سعودی ماتا جی" تیل بردار بحری جہازوں کی مغرب تک رسائی کیلئے منفرد اہمیت کی حامل، یمن کے قریب سے گزرتی آبی گزرگاہ کے حوالے سے بهی اپنے اس پڑوسی سے کس صورت دستبردار ہونے کی پوزیشن میں نہیں ہو سکتی ..
اندریں حالات، ہم سب "غیر الباکستانی" اہل وطن السعودیہ نامی بوڑھی نائیکہ کے تمام ناجائز "فرزندانِ توحید" کی رنگ برنگی لیکن گھسی پٹی حیلہ بازی کے باوجود، سول اور خاکی ہر نسل کے "شرفاء" کے ان شئیرز کو شرح کا حساب بهی خوب لگا چکے ہیں، جو ہمارے یہ "مہربان" دفاع بحرین سے لے کر اب دفاع یمن تک کے سب ٹهیکوں میں اپنی اس "ساوی ساوتری ماتا" سے زر بیعانہ کے طور پر پیشگی وصول کر چکے ہیں ..
مکمل تحریر >>

پاکستان کی خارجہ پالیسی-ہمارے دوست

https://www.facebook.com/Riayat.Farooqui
پاکستان کی فارن پالیسی کے بنیادی پلرز سمجھ لیجئے تاکہ آپ کو مشرقی وسطیٰ کے حوالے سے پاکستان کے اقدامات کا تجزیہ کرنے میں آسانی رہے۔ اس موضوع کو دو سے تین قسطوں میں انشاء اللہ نمٹانے کی کوشش کرونگا۔
دنیا میں پاکستان کے صرف دو ایسے دوست ملک ہیں جن کے لئے پاکستان برضاء و خوشی کسی بھی حد تک جا سکتا ہے، اس کے لئے ان ممالک کا صرف کال کرنا کافی ہے۔ یہ دو ممالک سعودی عرب اور چین ہیں۔
(الف) حجاز مقدس صدیوں سے اپنی پیداوار کے لحاظ صفر تھا نہ اس کی کوئی صنعت تھی اور نہ ہی زراعت نتیجہ یہ کہ غربت بے تحاشا تھی۔ قیام پاکستان تک برصغیر کے نواب، رئیس اور سلاطین اپنی زکوٰۃ و عطیات اہل مکہ و مدینہ پر خرچ کرنے کو ہی ترجیح دیا کرتے تھے جو حج کے موقع پر بھیجے جاتے تھے اور یہ اس پیمانے پر ہوتے کہ ان کے پورے سال کی ضرورت پوری ہوتی تھی۔ آگے چل کر جب سعودیہ بنا اور تیل دریافت ہوا تو یہ عرب اپنے پرانے محسنوں کو نہیں بھولے۔ مسلمان ممالک تو وسطی ایشیا اور مشرق بعید میں بھی ہیں لیکن اگر آپ غور کریں تو سعودی عرب کی توجہ کا مرکز صرف پاکستان اور ہندوستان کے مسلمان ہیں۔ بطور ریاست عرب دنیا سے باہر وہ صرف پاکستان کے لئے اپنے خزانوں کا منہ کھولتے ہیں اور جو مانگا جاتا ہے جتنا مانگا جاتا ہے وہ دیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے پاکستان اپنی اشد ضرورت کے موقع پر ہی مانگتا ہے۔ جب تک سعودی عرب موجود ہے دنیا کی کوئی معاشی پابندی پاکستان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی اور یہ بات امریکہ بہت اچھی طرح جانتا ہے۔ سعودی عرب نے پاکستان کی جو علانیہ مدد آج تک کر رکھی ہے وہ اس کی خفیہ مدد کا بمشکل دس فیصد ہے۔ چونکہ پاکستان کو معاشی تباہی سے مچانے کا ذمہ سعودی عرب اپنے ذمے لے چکا ہے اور دنیا جانتی ہے کہ پاکستان کو معاشی طور پر زمیں بوس نہیں کیا جا سکتا اس لئے جوابا سعودی عرب کا عسکری دفاع پاکستان اپنے ذمے لے چکا۔ یوں سعودی ہمارا معاشی اور ہم سعودیوں کا عسکری دفاع کرتے ہیں اور یہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا حصہ ہے۔ (اس کی مزیدتفصیل اگلی قسط میں ایرانی انقلاب کے پس منظر میں آئیگی)
(ب) جب چین میں انقلاب برپا ہوا تو یہ کمیونسٹ انقلاب تھا اور ساری دنیا منہ میں انگلیاں دیے سکتے کی حالت میں تھی کہ اسے قبول کریں یا رد کریں ؟ اس سکتے میں جدید چین کو تسلیم کرنے والی جو پہلی آواز بلند ہوئی وہ پاکستان کی تھی۔ اس جدید چین کے کسی ایئرپوٹ پر جو پہلی بین الاقوامی پرواز اتری وہ پی آئی اے تھی۔ دنیا نے ہم سے چینوں کے بارے میں رائے مانگنی شروع کی کہ دکھتے کیسے ہیں ؟ سوچتے کیسے ہیں ؟ بولتے کیسے ہیں اور پیش کیسے آتے ہیں ؟ دھیرے دھیرے باقی دنیا بھی انہیں قبول کرنے لگی اور اس میں ہمارے دفتر خارجہ کا کلیدی کردار تھا۔ پھر وہ وقت آیا کہ امریکہ نے اس جدید چین سے تعلقات قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ بھی ہمارے ہی پاس آیا کہ پلیز چین سے ہمارا مصافحہ کروایئے نا ! پاکستان نے بیک ڈور ڈپلومیسی شروع کی اور چین امریکہ کے تعلقات قائم کروا دیے۔ اس ابتدائی عرصے میں دنیا بھر سے چین کے رشتے استوار کروانے میں پاکستان کردار اتنا بڑا ہے کہ چینی اسے بھلائے نہیں بھولتے۔ چین میں عوامی استقبال صرف ایک ہی بین الاقوامی سربراہ کا ہوا ہے جو ذوالفقار علی بھٹو مرحوم ہیں۔ ایک ایسا استقبال جس میں بیجنگ کی سڑکوں کے اطراف کھڑے چینی عوام ہاتھ میں جھنڈیاں لئے پاک چین دوستی کے نعرے بلند کرتے رہے۔ چین کے لئے پاکستان کی ان خدمات کا جواب چین کی جانب سے یوں دیا گیا کہ نہ صرف اس نے پاکستان میں بھاری سرمایہ کاری شروع کی بلکہ پاکستان کے دفاع کو مضبوط کرنے کے لئے دفاعی پیداوار کے شاندار ادارے بھی کھڑے کردیے۔ آج ہم نہ صرف ٹینک اور بکتر بند بنا رہے ہیں بلکہ چین کی مدد سے ہی عسکری طیارہ سازی کے ساتھ ساتھ نیول شپس بھی بنا رہے ہیں جبکہ میزائل پروگرام میں انکی مدد تو کھلا راز ہےجس سے ہم آلات حرب میں خود کفیل ہوتے جا رہے ہیں۔ آپ جانتے ہیں امریکہ جب کسی ملک کو برباد کرنے لگتا ہے تو پہلے اس پر پابندیاں لگاتا ہے اور اسکے بعد اقوام متحدہ کی قرار داد کے سہارے اس پر حملہ آور ہو جاتا ہے۔ امریکہ یہ حکمت عملی پاکستان کے خلاف استعمال نہیں کر سکتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اگر پاکستان کے خلاف اقوام متحدہ میں قرارداد لائی گئی تو چین اسے ویٹو کرنے میں ایک منٹ کی بھی تاخیر نہیں کرے گا۔ جس طرح مشرق وسطیٰ میں اسرائیل امریکہ کی ناک کا بال ہے اسی طرح جنوبی ایشیا میں پاکستان چین کی ناک کا بال ہے۔
پاکستان آج کل بہت تیزی سے سعودی عرب کے چین سے تعلقات اسی سطح تک لے جانے کے مشن پر کام کر رہا ہے جس سطح کے پاک چین تعلقات ہیں اور ایسا موجودہ سعودی قیادت کی خواہش پر کیا جا رہا ہے کیونکہ انہیں سمجھ آ گیا ہے کہ صرف امریکہ پر انحصار ایک مہلک غلطی تھی۔ 
مکمل تحریر >>

26 مارچ، 2015

مینوں نوٹ وکها، مرا موڈ بنڑے .!

https://www.facebook.com/tanveer.akhtar1962
سب سے پہلے تو مجھے اپنی کوتاہ نگاہی کا اعتراف کرنے دیجئے کہ ایم کیو ایم کے خلاف چند روز قبل اچانک "لانچ" ہونے والے برق رفتار آپریشن اور اس کے فالو اپ میں سامنے آنے والی "صولت مرزا ایپی سوڈ" کے پیچھے کارفرما اصل "حکمت عملی" کو پہچاننے میں ہم ناکام رہے اور اس کا تعلق امریکہ کے اشارہ ابرو پر "داعش" کے ساتھ طالبان طرز کے کسی نئے "مذاق راتی کهیل" کی پردہ پوشی سے جا جوڑا، جس میں شاید ابھی کچھ دیر باقی ہے ..
عقدہ کھلا صاحبو، تو اس خبر سے جس کے مطابق "اسٹیٹ آن رینٹ" کی "آرمی آن رینٹ" السعودیہ کے ساتھ کامیاب "سودا بازی" کے نتیجے میں یمن کی سعودی نواز حکومت کے خلاف برسر پیکار باغیوں کی سرکوبی کیلئے اپنے جیٹ طیاروں سمیت باقاعدہ کارروائی کا آغاز بهی کر چکی ہے ..
آپ نے دیکھا پیارے قارئین کہ بریگیڈیئر ضیاع الحق کی قیادت میں "اسلامی مملکت" اردن کی "حفاظت" کیلئے اس کے "ناہنجار دشمن" فلسطینی مسلمانوں کو سبق سکھانے جیسی شاندار کارکردگی سے شروع ہونے والا ہمارا "بزنس" پڑوسی ملک افغانستان میں سوویت یلغار کو روندنے کے بدلے ڈالر بٹورنا ہوا، کتنی کامیابی سے اب پهر مشرق وسطیٰ کے ریال اور دینار تک رسائی حاصل کر چکا ہے ..
امید واثق ہے کہ ریاست الباکستان کی اس تازہ ترین "کاروباری پیش رفت" نے عقل والوں پر امریکہ بہادر سے معاہدہ کے بعد وصول کردہ اربوں ڈالرز کے عوض طالبان نامی اپنے دائمی "تذویراتی اثاثہ جات" کے خلاف جاری "ضرب عضب" نامی ڈرامے کی حقیقت بهی خوب آشکار کر دی ہوگی ..
"مملکت خداداد" کو عالم اسلام کی واحد ایٹمی طاقت قرار دے کر پوری "ملت اسلامیہ" کی حفاظت کے دینی فریضہ کا "ٹھیکہ" بخشنے والے "غزوہ ہند" کے الہامی فرشتوں کو البتہ اب یا تو فلسطینی بهائیوں اور یمنی باغیوں کو طالبان کے ہاتھوں کام آنے والے 60000 سے زائد پاکستانیوں کی طرح "امریکی ایجنٹس" ثابت کرنے کے "ازخود" اختیارات استعمال کرنا پڑیں گے یا پھر "ملت اسلامیہ" کی لغت میں ترمیم کر کے اس خطاب و اعزاز کی ریزرویشن صرف اور صرف "سلفی و وہابی مسلمین" کیلئے کنفرم کرنے کی خاطر "اجتہاد" کی زحمت اٹھانا پڑے گی ..
عنوان بشکریہ : محمد شہزاد شفیع

مکمل تحریر >>

خاموش ہیرو !

https://www.facebook.com/Riayat.Farooqui
ایئر چیف مارشل انور شمیم
آج پاک فضائیہ کے ایک ایسے قومی ہیرو پر لکھنا چاہتا ہوں جس نے خاموشی سے اپنا کام کیا، خاموشی سے ایئرفورس سے رخصت ہوا اور ایک دن اسی خاموشی سے دنیا بھی چھوڑ گیا۔ اس کے بارے میں میڈیا بھی ہمیشہ خاموش ہی رہا کیونکہ وہ ان میں سے نہ تھا جو اپنی پبلسٹی کے لئے جرنلسٹوں کو کرائے پر حاصل کئے رکھتے ہیں۔ ایئر چیف مارشل انور شمیم ہری پور میں پیدا ہوئے۔ 1952ء میں ایئر فورس جوائن کی۔ وہ 1965ء اور 1971ء کی پاک بھارت جنگوں کے ہیرو رہے اور 1978ء میں پاک فضائیہ کے سربراہ بنے۔ وہ ایئرفورس کے نہایت سخت گیر افسران میں سے رہے ہیں۔ ہر لمحے کچھ بڑا کرنے کو بیتاب رہنے والا یہ افسر جب پاک فضائیہ کا سربراہ بنا تو اس نے انگریزوں سے ورثے میں ملنے والی پاک فضائیہ کو آج کی ماڈرن پاک فضائیہ میں بدل ڈالا۔ امریکہ سے ایف 16 اور چائنہ سے اے 5 لڑاکا طیارے حاصل کرکےپرانے طیاروں کو چلتا کیا۔ پاک فضائیہ کا ہیڈ کوارٹر چک لالہ منتقل کیا اور کئی نئے ایئر بیس کھڑے کر دیے۔ بہت کم لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ افغان وار کے دوران تینوں مسلح افواج میں سے صرف پاک فضائیہ تھی جس نے رشین ملٹری سے طویل دو بدو جنگ لڑی۔ پاکستان کی فضائی سرحدوں کی حفاظت کی یہ جنگ جو انور شمیم کے دورانیے کے دوران لڑی گئی اس لحاظ سے قابل تعریف ہے کہ پاک فضائیہ نے ان جھڑپوں میں آٹھ رشین لڑاکا طیارے مار گرائے جبکہ اس کا صرف ایک ایف 16 طیارہ تباہ ہوا جس کا پائلٹ فلائٹ لیفٹنٹ شاہد سکندر پیرا شوٹ کی مدد سے بحفاظت زمین پر اترنے میں کامیاب رہا تھا یوں پاک فضائیہ کو اس جنگ کے دوران کسی جانی نقصان کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ایئر مارشل انور شمیم کا دوسرا بڑا کارنامہ 1984ء میں کہوٹہ پر اسرائیل کے ممکنہ حملے کو ناکام کرنا ہے۔ انہوں نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ رات بارہ بجے کے بعد مجھے بیرون ملک سے کال موصول ہوئی کہ اسرائیل کے لڑاکا طیارے انڈیا کی طرف جاتے دیکھے گئے ہیں۔ میں نے فورا پاک فضائیہ کو ہائی الرٹ کے احکامات جاری کئے، فوری طور پر جنرل ضیاء کو آگاہ کیا اور ساتھ ہی ان سے ٹرامبے میں واقع بھارت کے بھابا نیوکلیئر پلانٹ کو جوابی حملے میں تباہ کرنے کی اجازت حاصل کرلی۔ رات دو بجے پوری پاک فضائیہ کا 80 فیصد سٹاف اپنی اپنی ڈیوٹی سنبھال چکا تھا اور ہمارے لڑاکا طیارے روالپنڈی اور اسلام آباد کی فضاؤں میں نچلی اور درمیانی سطح پر پرواز شروع کرچکے تھے۔ اس دوران بھارت کو ہماری تیاری کی اطلاع دیدی گئی یوں وہ اور اسرائیلی اپنی حماقت سے باز آگئے۔
ایئر مارشل انور شمیم کا تیسرا اور نہایت ہی اہم کارنامہ یہ ہے کہ وہ پاکستان کے میزائل پروگرام کے بانیوں میں سے ہیں۔ ہماری باقاعدہ سٹریٹیجک کمانڈ فورس تو پچھلے بارہ سالوں کے دوران بنی ہے لیکن ایئر فورس کی سٹریٹیجک کمانڈ انور شمیم اسی کی دہائی میں بنا چکے تھے کیونکہ تیار ہوتے ایٹم بم کے استعمال کا پہلا ممکنہ آپشن پاک فضائیہ ہی تھی ۔ تب جنرل ضیاء نے پاکستان کے شروع ہوتے میزائل پروگرام کا چارج بھی اس سٹریٹیجک کمانڈ کے سپرد کردیا یوں منیر اے خان کا پروجیکٹ ایئر مارشل انور شمیم کی براہ راست نگرانی میں آ گیا۔ ہمارے میزائلوں کی پہلی نسل جو حتف سیریز کہلاتی ہے اور جس کا پہلا تجربہ 1989ء میں ہوا تھا یہ انور شمیم ہی کی محنت کا حاصل تھا۔ پروفیشنل ازم کے حوالے سے ان کے غیر متزلزل طرز عمل کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ 1982ء میں وہ پی اے ایف مسروربیس کراچی میں ہونے والی سالانہ پریڈ میں شرکت کے لئے آنے لگے تو احکامات بھجوادیئےکہ پریڈ مذہبی ونگ کا افسر کروائے گا۔ ایئر فورس کے مذہبی ونگ کے افسران علماء ہی ہوتے ہیں اور وہ ان ایکٹوٹیز سے مستثنیٰ ہوتے ہیں۔ تب مسرور بیس پر سکوارڈن لیڈرمولانا فضل اللہ مذہبی ونگ کے سربراہ تھے۔ ان تک یہ احکامات پہنچے تو وہ ہکا بکا رہ گئے لیکن ساتھ ہی یہ بھی بتادیا گیا کہ باس کے آڈرز ہیں کہ ایئرفورس کا کوئی بھی وردی پوش افسر اب کسی بھی چیز سے مستثنیٰ نہیں ہوگا۔ پریڈ کروایے یا وردی اتارنے کی تیاری کیجئے۔ سکوارڈن لیڈر مولانا فضل اللہ صاحب نے اگلے ایک ہفتے میں پریڈ کی تربیت لی اور ایسی پریڈ کروائی کہ انورشمیم سے انکی تقریر میں داد بھی پائی۔ پریڈ کا یہ واقعہ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کیونکہ اس زمانے میں میرے والد مرحوم مسرور بیس کے خطباء میں شامل تھے۔ مجھے آج بھی یاد ہے فضل اللہ صاحب پریڈ کے اگلے روز ہمارے گھر آئے تھے اور والد صاحب سے فرما رہے تھے "پریڈ کراتے ہوئے میری ٹانگیں کانپ رہی تھیں" ۔۔ ایئر چیف مارشل انور شمیم کو ان کی اہمیت کے سبب بار بار ایکسٹنشنز دی گئیں، وہ تقریبا سات سال پاک فضائیہ کے سربراہ رہے اور 1985ء میں ریٹائر ہوئے۔ وہ پاکستانی ملٹری کی تاریخ میں سب سے زیادہ فوجی اعزازات پانے والے افسران میں سے ہیں۔ انکے بڑے اعزازات میں ستارہ امتیاز (ملٹری) ہلال امتیاز (ملٹری) نشان امتیاز (ملٹری) اور ستارہ جرات شامل ہیں جبکہ عرب اسرائیل جنگ کے بعد ڈیپوٹیشن پر اردن میں رہتے ہوئے اردن کی فضائیہ کو از سر نو بحال کرنے پر انہیں اردن کی طرف سے الاستقلال ایوارڈ دیا گیا۔ انہیں امریکہ کی جانب سے Legion of Merit (ملٹری) ایوارڈ بھی دیا گیا جو پاک فضائیہ کو دنیا کی صف اول کی ایئرفورسز میں لا کھڑا کرنے کے اعتراف میں تھا۔ ایئر چیف مارشل انور شمیم چار جنوری 2013ء کو اکیاسی برس کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوئے۔
مکمل تحریر >>

25 مارچ، 2015

"یو ٹرن اسٹیٹ"۔!

 ہم نے چند ماہ پہلے پشاور میں سیکورٹی اہلکاروں کے معصوم بچوں کے خون سے کھیلی گئی ہولی کے صدمے کے زیر اثر بڑے جوش و خروش سے دہشت گردوں کے خلاف نیشنل ایکشن پلان نامی جس "قومی عزم" کا آغاز کیا تھا، اس کا رخ بہت جلد غیر محسوس طریقے سے طالبان مخالف پارٹیز اور شخصیات کے خلاف موڑ دیا گیا .. حتیٰ کہ زندہ شہید جنرل مشرف کے "قاتلوں" کو پھندے پر جُھلانے کے بعد اب پھانسی کا سلسلہ بھی انفرادی نوعیت کی قتل و غارت کے جرائم میں سزائے موت پانے والے قیدیوں تک محدود کر دیا گیا ہے اور وہ فوجی عدالتیں، جو گرفتار دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے قائم کی جانی تھیں، صرف کاغذات میں ہی رہ گئیں ۔۔
اسی طرح زرداری / گیلانی دور میں جس "فوجی ڈاکٹرائن" کا رُخ مشرقی سرحدوں سے موڑ کر شمال مغرب میں "ازخود" پروان چڑھائے گئے دہشت گردوں کی جانب کرنے کا اعلان کیا گیا، موجودہ "رجیم" کے انہی دہشت گردوں کے "بھرپور عملی تعاون" سے برسر اقتدار آتے ہی اسے بھی مشرق کی سمت واپس گُھما دیا گیا ہے ۔۔
اس "عسکری یو ٹرن" کا آغاز گو پی پی پی حکومت کی مدت مکمل ہوتے ہی سابق آرمی چیف جنرل کیانی کے اس "اعلان حق" کے ساتھ ہی کردیا گیا تھا کہ "ہمارا اصل دُشمن اب بھی بھارت ہی ہے"، لیکن اس کی تکمیل کا مظاہرہ گذشتہ روز واشنگٹن میں منعقدہ "جوہری تحفظ کانفرنس" سے اپنے خطاب میں ہماری نیشنل کمانڈ اتھارٹی کے رُکن رکین جنرل خالد قدوائی کی طرف سے سامنے آیا جو اس "انکشاف" کے بعد کہ "پاکستان کا میزائیل پروگرام صرف بھارت کو مدنظر رکھ کر تیار کیا گیا ہے"، بھارتی مندوب کی جانب سے مسلسل انکار کے باوجود فخریہ انداز میں یہ اصرار کرتے دکھائی دئے کہ بھارت بنا رہا ہے یا نہیں "ہمارے پاس ٹیکٹیکل جوہری ہتھیار بہرحال موجود ہیں"۔۔
امریکی اور بھارتی دفاعی اہلکاروں کی جانب سے اس انکشاف کو "پاکستان کی غیر ذمہ دارانہ حرکت" قرار دینے کے باوجود آنجناب ان جوہری ہتھیاروں کو خطے کیلئے "امن کی ضمانت" ثابت کرنے پر مصر دکھائی دئے، یہ سوچے سمجھے بغیر کہ انٹرنیشنل لیول کے ایسے فورمز پر اس طرح کے "انکشافات" بسا اوقات کسی بھی ریاست کی جانب سے "اعتراف جُرم" کی حیثیت اختیار کرجاتے ہیں جنہیں پھر مناسب موقع پر ہمارے خلاف استعمال بھی کیا جاسکتا ہے ۔۔
المختصر قارئین کرام، پندرہ برس تک پاکستان کے جوہری پروگرام کے سربراہ رہنے والے ہمارے ریٹائرڈ جنرل صاحب کی مذکورہ تقریر شروع سے آخر تک "جوہری ہتھیاروں کی دوڑ" میں پاکستان کو غیر ضروری طور پر بھارت سے بالاتر ثابت کرنے کی شعوری لیکن بچگانہ کوشش کے نادر نمونہ کے سوا کچھ نہ تھی ۔۔
مکمل تحریر >>

24 مارچ، 2015

دروغ بر گردن راوی.!

قبل از تقسیم متحدہ پنجاب کے آخری چیف منسٹر سر سکندر حیات کی صاحبزادی، سابق صوبائی وزیر سردار شوکت حیات کی ہمشیرہ اور معروف صحافی مظہر علی خان کی اہلیہ مشہور خاتون سماجی رہنما محترمہ طاہرہ مظہر علی خان کے گذشتہ روز انتقال کی خبر نے یاد دلایا کہ مرحومہ کے برخوردار سابق طالب علم رہنما، حال مقیم بلکہ جلاوطن لندن، طارق علی نے اپنی "المشہور" کتاب میں تقسیم ہند کے منصوبے پر عمل در آمد سے صرف ڈیڑھ ماہ قبل مالابار ہلز بمبے (اب ممبئی) میں نوزائیدہ "مملکت خداداد" کی مقتدر ترین شخصیت سے دو امریکی سفارت کاروں کی اہم ترین ملاقات کی روداد کچھ ان شرمندہ کن الفاظ میں بیان کی ہے، جس سے بانیان پاکستان کے نزدیک نئی قائم ہونے والی ریاست کی "غرض و غایت" بہت ہی اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے .. سنتے جائیے اور سر دهنتے جائیے، ایمان تازہ نہ ہو جائے تو پیسے واپس ..
پہلا سوال: "کانگریسی رہنماؤں کی جانب سے نئی مملکت کے حصے میں آنے والے اثاثوں کی حوالگی سے واضح انکار کے بعد آپ کے ذہن میں اپنی ریاست کا نظام چلانے کیلئے کیا منصوبہ ہے یعنی آپ درکار ضروری وسائل کہاں سے حاصل کریں گے؟".
جواب: "آپ کو کس نے بتلا دیا کہ یہ میرا درد سر ہے؟. اس ریاست کا قیام سوویت یونین کے سر اٹھاتے الحادی طوفان کا راستہ روکنے کے مقاصد کے تحت توحید پرستوں کے مورچے کی حیثیت میں امریکہ کے فطری اتحادی کے طور پر عمل میں لایا جا رہا ہے اور ہمارے تمام تر مسائل کا حل بهی خود آپ (امریکہ بہادر) کی ہی ذمہ داری ہے"..
دوسرا سوال: "اطلاعات کے مطابق نوزائیدہ ریاست کو مسلح افواج اور گولہ بارود کا مطلوبہ کوٹہ ملنے کے امکانات بهی نہ ہونے کے برابر ہیں، اندریں حالات سرحدی غنیم بھارت کی جانب سے درپیش دفاعی نوعیت کے خدشات سے نمٹنے کیلئے آپ کے پاس کیا پلان ہے؟؟".
جواب: "جیسا کہ میں واضح کر چکا ہوں، نئی مملکت کے اقتصادی مسائل ہوں یا دفاعی ذمہ داری، یہ مجھ سے زیادہ خود یونائیٹڈ اسٹیٹس کا مسئلہ ہے کیونکہ ہم جو کچھ کرنے جارہے ہیں، اس کا تعلق خطے میں امریکی مفادات کے تحفظ سے ہے"..
قارئین گرامی، ہم نے مذکورہ ملاقات کی "رام کہانی" کو پاکستان میں "بوجوہ بین" لیکن ریاست کی طرف سے کبهی چیلنج نہ کی جانے والی اس کتاب کے مندرجات کے مفہوم کے عین مطابق نقل کیا ہے، جس کا سرکاری سطح پر جواب دینے کی ضرورت کم از کم اب تک تو محسوس نہیں کی گئی .. جہاں تک مجھے یاد ہے، مصنف نے اس "سٹوری" کو قلمبند کرتے وقت مذکورہ سفارت کاروں کی طبع شدہ ڈائری سے مکمل حوالہ جات بهی نقل کئے ہیں ..
(ضروری نوٹ؛ ہم نے صرف تاریخ کے طلباء و طالبات کی تحقیقاتی اعانت کی نیت سے "کهوٹے سکے" کا دوسرا رخ پیش کرنے کی جسارت کی ہے، راقم الحروف ورنہ محولہ مصنف کے قول و فعل کا کسی صورت ذمہ دار نہیں) ..
مکمل تحریر >>

مولانا زاہد الراشدی

https://www.facebook.com/Riayat.Farooqui
 مولانا زاہد الراشدی کا ذکر زمانہ طالب علمی میں سنتے تھے اور یہ ذکر چونکہ درخواستی گروپ کے پس منظر میں ہوا کرتا تھا سو ہمیشہ نہ صرف کانوں کا بلکہ من کا ذائقہ بھی خراب کردیا کرتا تھا۔ وہ ان میں سے ہیں جن سے میں نے لڑکپن میں ہی بن دیکھے اور بن سنے نفرت کا رشتہ قائم کر لیا تھا۔ پھر وقت گزرا اور کہیں سے 1991ء آ پہنچا جب میں لاہور میں واقع جامعہ اشرفیہ ایک جلسہ دیکھنے اور سننے آیا۔
مولانا زاہد الراشدی قائمقام گورنر پنجاب سے تمغہ امتیازوصول کرتے ہوئے۔
پنڈال میں بیٹھنے کے لئے داخل ہوا ہی چاہتا تھا کہ سٹیج سے مولانا زاہد الراشدی کو دعوت خطاب دیدی گئی۔ انکی تقریر سنی جائے اور وہ بھی بیٹھ کر؟ توبہ استغفار ! الٹے قدموں واپس پلٹا مگر پھر یہ سوچ کر شامیانے کے ایک بانس سے ٹیک لگا کر کھڑا ہو گیا کہ چلو تھوڑا سن کے تو دیکھیں کہ وہ شعور کس پیمانے کا ہے جسے اکوڑے والی سرکار میں سرخاب کے پر دکھتے ہیں۔ یقین کیجئے تقریر صرف چکھنے کے لئے کھڑا ہوا تھا اور ہوش پھر تب آیا جب ان کی تقریر ختم اور میرے پیر سن ہو چکے تھے۔ وہ دن ہے یہ دن ہے اس بابے کے سحر سے نہیں نکل سکا۔ یہ ان سے میری بے پناہ محبت ہی ہے کہ میں نے بارہا انہیں آمنے سامنے کھری کھری سنا بھی دیں اور ان کی شفقت کہ سن بھی لیں۔ لوگ محبت کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ جسے چاہو اس کی ہر ادا کو سراہو اور ہر بات کو قبول کرو۔ میرا معاملہ اس ضمن میں مختلف ہے۔ میں اپنے محبوب کی ہر بات قبول نہیں کرتا بلکہ اگر وہ کچھ ایسا کہدے جو مجھے غلط لگے تو پوری شدت سے مسترد کردیا کرتا ہوں۔ میں انہیں آج بھی بہت شوق سے ملتا، دیکھتا اور سنتا ہوں۔ یقین کیجئے پیغمبر بالکل بھی نہیں ہیں، غلط بات بھی کہہ جاتے ہیں لیکن جو درست کہتے ہیں وہ سونے سے لکھنے کے لائق ہوتی ہے۔ اپنے ناموں کے ساتھ "فقیر" لکھتے ایسے "امیر" بہت دیکھے جو چمچوں کا جھرمٹ پورا نہ ہونے کے سبب پروگرام میں ہی آنے سے انکار کردیتے ہیں لیکن کاندھے پر تھیلا لٹکائے زاہد الراشدی نامی وہ فقیر ایک ہی دیکھا ہے جو آپ کے پروگرام کے لئے کبھی بسوں تو کبھی ویگنوں میں دھکے کھاتا پھرتا ہے۔ 
مجھے راولپنڈی کی زرعی بارانی یونیورسٹی کے ایک طالب علم نے یہ قصہ خود سنایا کہ ہم نے اپنی یونیورسٹی کی تقریب میں انہیں مدعو کیا تو امید نہیں تھی کہ وہ گوجرانوالہ سے ہم طلباء کے لئے آئینگے لیکن نہ صرف آئے بلکہ ایسا خطاب فرمایا جس نے طلباء کو سوچنے، سمجھنے کی بہت سی جہتیں فراہم کیں۔ وہ رخصت ہونے لگے تو ہم نے ایک لفافہ پیش کیا جس میں کچھ رقم تھی۔ انہوں نے لفافہ کھولا اس میں سے سات سو روپے لے کر باقی یہ کہتے ہوئے واپس کردیئے کہ "میرے گوجرانوالہ سے آنے جانے کا خرچہ بس اتنا ہی ہے"تعلیم کے میدان میں اس درویش کی خدمات کے اعتراف میں کل 23 مارچ کو صدر پاکستان نے انہیں "تمغہ امتیاز" سے نوازا ہے جو اس لحاظ سے مقام شکر ہے کہ کسی عالم دین کی خدمات بھی اونچے درباروں کو نظر آئیں۔ میں ذاتی طور پر اپنے رب کا بے پناہ شکر گزار ہوں کہ میری شعوری عمر میں مولانا موجود تھے ورنہ بے شکن جبوں کی اٹھتی "خوشبوؤں" سے میرا دم گھٹ جاتا !
مکمل تحریر >>

23 مارچ، 2015

جهوٹ کی ریاست .!

"مملکت خداداد" کے چھوٹے بڑے سب اپنے اور ریاست کے "کارہائے نمایاں " کے جواز کیلئے جھوٹ اور منافقت کے استعمال میں کمال مہارت رکھتے ہیں۔۔
اب 7 سالہ تعطل کے بعد بحال ہونے والی 23 مارچ المعروف "یوم پاکستان" کی پریڈ کو گلوریفائی کرنے کیلئے گھڑے گئے تازہ ترین جھوٹ کو ہی لے لیجئے۔۔
 اس "کارنامے" کا ناطہ کس ڈھٹائی کے ساتھ دہشت گردی کے اس خاتمے سے جوڑنے کی کوشش کی جارہی ہے، جس کا "ثبوت" آئے روز کے خود کش دھماکوں کی شکل میں مسلسل مل رہا ہے۔۔
حالانکہ سچ یہ ہے کہ نہ تو سات سال پہلے سالانہ پریڈ کی اس روایت کو اپنے "اثاثہ جات" کے کارناموں کی وجہ سے منقطع کیا گیا تھا اور نہ ہی اب تک تمام تر دعووں کے باوجود ان اثاثوں کا بال تک بیکا کیا جاسکتا ہے۔۔
عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کو "پروٹوکول سلوٹ" سے بچنے کیلئے وزیر اعظم سے ملاقات کے دوران ہیٹ پہنے بغیر جانے کی انوکھی روایت قائم کرنے والے جرنیلوں کے وارث جنرل کیانی نے 7 سال قبل دہشت گردی کے خدشے کے بہانے 23 مارچ کی پریڈ کا سلسلہ صرف اور صرف تین چوتھائی اکثریت سے منتخب اس وقت کے صدر مملکت آصف زرداری کیلئے فوجی دستوں کی مارچ پاسٹ سلامی کو "ازخود" ناقابل برداشت سمجھتے ہوئے منسوخ کیا تھا، جسے پھر زرداری دور حکومت کے اختتام تک شجر ممنوعہ کی حیثیت دے دی گئی۔۔
اسی طرح آج کی پریڈ بھی موجودہ نام نہاد سول حکومت کے اعزاز کی علامت قطعی طور پر نہیں بلکہ اس کا تعلق بھی مہینہ ڈیڑھ پہلے سپہ سالار اعظم کے دورہ چین کے حوالے سے چینی صدر کی اس تقریب کیلئے صدارت کے اعلان سے ہے، جسے پاک امریکہ اور پاک چین تعلقات میں مناسب توازن قائم رکھنے کی یقین دہانی کیلئے سابق صدر آصف زرداری کی "ضمانت" نہ ملنے پر چینی صدر کی طرف سے دورہ پاکستان کے ایک بار پھر التوا کے باوجود فیس سیونگ کیلئے برقرار رکھنا مجبوری تھی وگرنہ نواز شریف کے "ممنون صدر" کی ٹوپی میں کوئی سرخاب کے پر بہرحال نہیں لگ گئے۔۔
مکمل تحریر >>

چند دلچسپ تاریخی مغالطے .!

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ 23 مارچ 1940 کو جس قرارداد کی "ازخود" منظوری کے مفروضہ پر ہم اس تاریخ کو "یوم پاکستان" کا نام دے کر "جشن" منایا کرتے ہیں، وہ دراصل اس روز نہیں بلکہ ایک روز بعد یعنی 24 مارچ کو منظور کی گئی تھی ..
اصل معاملہ یہ ہے کہ 23 مارچ 1956 کو پہلے ملکی آئین کے نفاذ کے حوالے سے ابتدا میں اس تاریخ کو "یوم جمہوریہ" کے نام نامی سے منانے کا اعلان کیا گیا لیکن 1958 میں ملک پر ایوبی مارشل لاء مسلط ہونے کے بعد نہ وہ آئین رہا اور ظاہر ہے نہ ہی مملکت کسی نسل کی "جمہوریہ" ..
جشن منانے کی "پیدائشی حقدار قوم" نے البتہ اپنے پہلے جشن کی وجہ نزول پهر یہ ڈهونڈ نکالی کہ "قرارداد پاکستان 23 مارچ 1940 کو پیش کی گئی تھی .. جبکہ "یوم جمہوریہ" کا نام ہی بدل کر "یوم پاکستان" رکھ دیا گیا ..
مزید برآں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ 1940 میں پیش اور منظور کی گئی اس قرارداد کا نام بهی قرارداد پاکستان نہیں بلکہ "قرارداد لاہور" تها جس میں لفظ "پاکستان" سرے سے موجود ہی نہیں اور نہ ہی اس قرارداد کے کسی بھی لفظ یا مفہوم سے اسے "مطالبہ آزادی" قرار دیا جاسکتا ہے .. قرارداد کے متن سے زیادہ سے زیادہ یہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ مسلم لیگ کا مذکورہ اجلاس تاج برطانیہ سے انڈین وفاق کے اندر صرف ڈومینئن یعنی نیم خود مختار (ایک نہیں زائد) ریاستوں کے قیام کی درخواست پیش کر رہا تھا .. 
ایک اور دلچسپ حقیقت یہ بهی کہ تقسیم ہند کے منصوبے پر عمل در آمد (قیام پاکستان) کا اعلان 14 اگست 1940 کو نہیں بلکہ دراصل 15 اگست 1947 کو نصف شب بارہ بج کر ایک منٹ پر کیا گیا لیکن "ہم" نے اپنی آزادی "از خود اختیار" کے تحت ایک روز قبل ہی اخذ کر لی .. وجہ نزول اس مفروضے کی قارئین صرف یہ ہے کہ ہمارا "ازلی دشمن بھارت چونکہ اپنا یوم آزادی 15 اگست کو منایا کرتا ہے، اسلئے ہم اس سے ایک دن پہلے منائیں گے ..
کہاں تک سنو گے، کہاں تک سنائیں .!
مکمل تحریر >>

21 مارچ، 2015

پرانا وقت !

کچھ سال ہوئے، شائد بہت سال۔ میں اس پاکستان میں اکتیس سال کا تھا جس میں وہ دن طلوع ہوتا جس کے شور کا ابتدائیہ مرغا اپنی اذان سے لکھتا۔ ایک ایسی سحر انگیز صبح ہوتی جس میں میری کھڑکی سے متصل امرود کے درخت پر پہلے چڑی چڑے کو بیدار کرتی اور پھر وہ دونوں مل کر مجھے جگاتے۔ مؤذن وہ اذاں دیتا جو تاریکی کے ہمیشہ نہ رہنے کا خدائی استعارہ بنتی۔ پہلے گلی گلی آہنی گیٹوں کے کنڈوں کا شور گونجتا اور پھر ایسا سکوت طاری ہوجاتا جس میں مسجدوں کو جاتے بزرگوں کے قدموں کی چاپ گھروں کے اندر تک سنائی دیتی۔ آنکھیں ملتے بچے سکول جانے کو اٹھتے تو کوئی نہانے سے انکار ی توکسی کو طبیعت کی خرابی کا بہانہ اور جو جانے پر آمادہ ہوتے ان سے موزے چھپن چھپائی کھیل کر یاد دلاتے کہ یہ کائنات تمہاری نئی شرارتوں کی منتظر ہےیوں تیار ہوتے بچوں کی چہکار ایک نئے دن میں انسانی گفتار کا باقاعدہ آغاز بنتا۔ کیسی شاندار صبح ہوتی کہ گھروں سے یہ بچے اور گھونسلوں سے پرند ساتھ ساتھ نکلتے۔ تعلیم گاہیں آباد ہوتیں۔ کارخانے انگڑائی لیتے۔ سڑکوں پر دوڑتی گاڑیاں زندگی کی رفتار کا پتہ دیتیں تو انہی سڑکوں کے اطراف کھڑے مرد و زن کا بار بار گھڑی دیکھنا وقت کی قدر و قیمت کی خبر دیتا۔ بازار آباد تو بیزار ایک بار پھر سو جاتے۔ منڈیاں جوبن تو مندیاں رخصت کی راہ لیتیں۔ کرنسی مارکیٹ میں ڈالر روپے کو آنکھ مارتا اور وہ شرماکر اپنی قدر و قیمت ہلادیتا۔ جو سٹاک میں ہوتا وہ سٹاک نہ رہتا اور جو سٹاک نہ ہوتا وہ سٹاک کر لیا جاتا۔ کوئی بھاؤ دیتا تو کوئی بھاوُک ہوتا۔ کوئی اِس ہاتھ دیتا تو کوئی اُس ہاتھ لیتا۔ کوئی پریشان ہوتا تو کوئی دلاسہ دیتا۔ کوئی شرماتی تو کوئی دل ہارتا۔ کوئی تاک میں ہوتا تو کوئی ٹوک پر آمادہ۔ کوئی جاتے جاتے رکتا نہ رکتے رکتے آتا۔ کوئی جلتے جلتے بجھتا نہ کٹتے کٹتے مرتا۔ کوئی بولتے بولتے بھولتا نہ بھولتا بھولتا سوچتا۔ کوئی کڑھتے کڑھتے جیتا نہ جیتے جیتے کڑھتا۔ کوئی کھاتے کھاتے رکتا نہ رکتے رکتے کھاتا۔ جو جاتا وہ آتا بھی۔ جو بولتا وہ سنتا بھی۔ جو سوچتا وہ کرتا بھی۔ جو پڑھتا وہ سیکھتا بھی۔ جو کھیلتا وہ جیتتا بھی۔ جو روتا وہ ہنستا بھی۔ جو چاہتا وہ بتاتا بھی اور جو بیٹھتا وہ ٹلتا بھی۔ وہ چہرے اور انکا تبسم۔ وہ آنکھیں اور انکی چمک۔ وہ گیسو اور اس کے بل۔ وہ کمر اور اس کی لچک۔ وہ اشارے اور ان کے کنائے۔ وہ بت اور انکے ستم۔ وہ بچے اور انکی قلقاریاں۔ وہ جوان اور انکا جوبن۔ وہ بوڑھے اور انکی دعاء۔ وہ باپ اور اس کی لاٹھی۔ وہ ماں اور اس کے دلاسے۔ وہ بہن اور اس کی فرمائشیں۔ وہ ساس اور اس کی سازشیں۔ وہ ٹھیک ٹھیک وقت پر بدلتے موسم۔ وہ عین اپنے وقت پر آتی بارشیں۔ وہ دکھ کے بعد ہر حال میں آتے سکھ۔ وہ باتیں کم اور کام زیادہ۔ وہ طلاقیں کم اور نکاح زیادہ۔ وہ بیماریاں کم اور دوائیں زیادہ۔ وہ کانٹے کم اور پھول زیادہ۔ وہ دکھڑے کم اور سکھڑے زیادہ۔ وہ کھانا کم اور مہمان زیادہ۔ وہ آلو کم اور بوٹیاں زیادہ۔ وہ پانی کم اور دودھ زیادہ۔ وہ چینی کم اور پتی زیادہ۔ وہ صبح، وہ شام ، وہ رات اور وہ پرانا وقت بہت یاد آتے ہیں، بہت ہی زیادہ۔ کوئی میرا وہ گمشدہ پاکستان ڈھونڈ کے لاؤ یار ! میرے رب کی قسم اس کے منتشر ٹکڑوں میں سے ایک ایک تم میں سے ہر ایک کے پاس ہے۔ بس اپنا اپنا ٹکڑا پیش کر کے وہ میرا وہ پرانا پاکستان جوڑ کے دو۔ میں تھک گیا دھماکے سن سن کے، لاشیں دیکھ کے اور مذمتیں کر کر کے ! ! !
مکمل تحریر >>

قیام پاکستان

قیام پاکستان کی تحریک میں انتہائی اہم موڑ 23مارچ 1940کا تھا ۔اس دن لاہورمیں آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس منٹوپارک موجودہ اقبال پارک میں ہوا ۔ اس اجلاس میں دوٹوک انداز میں یہ اعلان کیا گیا کہ اب ہماری تحریک کا مقصد صرف اور صرف ایک آزاد اور خودمختار مسلم ریاست ہے،اس سے کم پر کسی بھی قسم کا کوئی بھی سمجھوتہ نہ ہو گا۔ یہاں سے یہ نعرہ زبان زد عام ہو ’’لے کے رہیں گے پاکستان ،بٹ کے رہے گا ہندوستان‘‘۔اس اجلاس کی رپورٹنگ کرتے ہوئے اخبارات نے اس قرار داد لاہور کے ’’قرار داد پاکستان ‘‘کا نام دے دیا اور یوں مسلمانوں میں بھی قرار داد پاکستان ہی چل نکلا۔ اس اجلاس کے بعد قوم کو آزادی کی منزل قریب نظر آنے لگی ان حالات نے تحریک پاکستان میں ایک نئی روح پھونک دی ۔ تحریک آزادی میں اس نئے جوش و ولولہ کی وجہ سے انتہاء درجہ کی تیزی آگئی۔ ہر خاص و عام ،مردوزن،کسان وطالبعلم الغرض ہر شبعہ زندگی سے وابستہ لوگوں کی زبان پر ایک ہی نعرہ آگیا کہ ’’لے رہیں گے پاکستان بٹ کے رہے گا ہندوستان‘‘ ۔یہ جوش و ولولہ دن دگنی رات چوگنی ترقی کرنے لگا۔اس دوران دوسری عالمی جنگ شروع ہو گئی جس سے سلطنت برطانیہ کمزور ہو گئی۔ اور ساتھ ساتھ تحریک آزادی بھی شدید ہوتی گئی اور یوں مسلمانان برصغیر کے دلوں کی خواہش 14 اگست 1047میں پوری ہوئی اور اس دنیا پر ایک نیا مسلم ملک ’’پاکستان ‘‘ معرض وجود میں آیا۔ایک ایسا ملک کہ جس نے علاقائی،لسانی اور قبائلی عصبیتوں کو شکست دی۔ جس نے مسلم نظریہ کی بنیاد پر آزادی حاصل کی۔پاکستان کے ساتھ محبت کا یہ عالم تھے کہ جو علاقے پاکستان میں شامل نہ ہو سکے وہاں سے لاکھوں مسلمان اپنا گھربار،کاروبار اور جائیدادیں تک چھوڑ کر نئے اور آزاد ملک کے جانب مہاجرت پر عمل پیراء ہوئے تاکہ وہاں وہ اپنے عقیدہ کے مطابق آزاد زندگی بسر کر سکیں۔اس ہجرت میں مالی نقصان تو ہوا ہی ہوا لیکن لاکھوں لوگ اپنی جانوں سے بھی گئے،بچے یتیم ہوئے، بوڑھوں کے سہارے تہ تیغ ہوئے،عورتیں بیوہ ہوئیں ان سب نقصانات کے باوجود وہ سب اس ارض پاک پر پہنچ کے مطمئن ہوئے کہ ایک آزاد اور اپنے ملک میں آنیوالی نسلیں سکھ سے رہیں گے اور اپنے عقیدہ کے مطابق زندگی گزاریں گئیں۔
جن علاقوں پر مملکت پاکستان قائم ہوئی تھی اس میں مسلمانوں کے علاوہ دیگر مذاہب کے افراد بھی رہائش پذیر تھے اس لئے قائد اعظم نے فرمایا کے اس نئے ملک میں اقلیتوں کو مذہبی حوالے سے ہر قسم کی آزادی ہو گی ۔ان کی عبادت گائیں محفوظ ہوں گئیں، ان کو اپنے رسوم ورواج اور عقیدہ کے مطابق زندگی گزارنے کی مکمل آزادی ہو گی۔کیونکہ اسلام کی اولین ریاست جو رحمت اللعالمینؐ نے عرب میں قائم کی تھی اس میں بھی غیر مسلموں پر کوئی جبر نہ تھا اور وہ اپنے عقیدہ پر قائم رہ کر زندگی گزار سکتے تھے۔قیام پاکستان کے بعد بالخصوص پنجاب اور دیگر علاقوں سے ہندو اور سکھ تو ہجرت کرگئے اور کچھ یہاں ہی رہ گئے مگر عیسائیوں کے لئے ہندوستان یا پاکستان ایک ہی جیسے تھے کیونکہ دونوں جگہوں پر ان کی آبادی اقلیت میں تھی لہذا جو عیسائی پاکستان کے حدود میں تھے وہ یہیں کے ہو کے رہے۔
آج جب پاکستان کو آزاد ہوئے سڑسٹھ برس سے زیادہ کا وقت گزر چکا ہے تو جب ہم اقلیتوں کی جانب دیکھتے ہیں تو حالات کچھ یوں نظر آتے ہیں ۔ نہ ان کے تعلیمی ادارے محفوظ ہیں، نہ ان کو اچھی نوکریاں ملتی ہیں اور نہ ہی ان کی بسیتاں انسانی بستیاں کہلانے کے لائق ہیں،ا ن کی عبادت گاہیں آئے دن فسادیوں کی زد میں ہیں،غیر مصدقہ اطلاعات پر توہین مذہب کے ذریعے ان کی گردنیں اتارنا انتہائی آسان ہے۔ آج جب ہم غیر مسلموں کی یہ حالت غیر دیکھتے ہیں تو شرمساری و ندامت کے باعث سر اٹھایا نہیں جاتاکہ اول تو اسلام کی رو سے انسانی حقوق حاصل ہیں اور دوئم جس ہستی کی قیادت کیوجہ سے ہم اس آزاد مملکت کے شہری ہیں یعنی قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے اقلیتوں سے وعدہ کی پاسداری بھی نہیں کر سکے۔لیکن اتنا بھی پریشان و نادم ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ بنیادی طور پر یہ ملک ’’مسلمانوں‘‘ کی آزادی وسہولت کے لئے قائم کیا گیا تھا۔مسلمانوں کے آزادی کے لئے لاکھوں لوگ شہید ہوئے تھے اور ہزاروں عصمتیں قربان ہوئیں تھیں ۔لیکن ان مسلمانوں کو ہی اپنے ’’مسلمان بھائیوں ‘‘ سے امان حاصل نہیں ہے۔ مسلمانوں کی عبادت گاہیں مسلمانوں ہی کے ظلم کا شکار ہیں،مسلمانوں کی بیٹیاں ’’مسلمانوں‘‘ ہی کے لئے ’’مباح ہیں،مسلمانوں کے کٹے سر ’’مسلمانوں‘‘ ہی کے لئے فٹ بال کھلینے کا ذریعہ ہیں۔اس لئے میں غیر مسلموں سے زیادہ شرمندہ نہیں ہوں ۔
آج ہم پھر اپنی آزادی و طاقت کے مظاہرہ کے لئے ’’یوم پاکستان‘‘ منانے کے لئے پر عزم ہیں نہ صرف پر عزم ہیں بلکہ پریڈ ایونیوپر فوجی پریڈ کا اہتمام کر رہے ہیں۔کیا یہ طاقت ہماری آزادی ہے؟ نہیں جب تک ہم بطور مسلمان اس ملک میں محفوظ نہیں اور غیرمسلم بطور انسان محفوظ نہیں ہیں اس وقت تک قیام پاکستان کا مقصد پورا نہیں ہوگا۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے ہر ایک فرد کو اپنا اپنا حصہ ڈالنا ہو گا نہیں تو ہم ظلم کے غلام رہیں گے نہ صرف ہم غلام رہیں گے بلکہ آنیوالی نسلیں بھی غلام رہیں گئیں اور اس ظلم کی وجہ سے ہم آنیوالی نسلوں کے قصوروار ہوں گے۔
فوجی طاقت بجا کیونکہ ہماری سرحدوں کی حفاظت ایک جدید منظم اور طاقتور فوج ہی کر سکتی ہے۔لیکن ہمیں قانونی اور انسانی حقوق کے حوالے سے بھی مضبوط ہونا ہو گا۔عقیدہ کے نام پر جہالت کا خاتمہ کرنا ہو گا۔مسالک کے درمیان فروعی اختلافات کو وجہ قتل اور تکفیر بنانے والوں کو تختہ دار پر چڑھانا ہو گا۔اسلام کے آفاقی امن وسلامتی کے پیغام کو اپنانا ہو گا۔قائد اعظم کے افکار کے مطابق اس ملک کے نظام کو چلانا ہو گا۔بصورت دیگر تباہی ہمارا مقدر ہو گی اور ہماری داستاں تک نہ ہو گی داستانوں میں!
مکمل تحریر >>

20 مارچ، 2015

نہیں کرتا مذّمت!

پاکستان میں مظلومیت کے لئے پاکستانی ہونا ہی کافی ہے۔ آپ کا مسلم یا غیر مسلم ہونا۔ شیعہ یا سنی ہونا کوئی معنیٰ نہیں رکھتا۔ اگر آپ پاکستانی ہیں تو گولی کی گونج اور بم کے ارتعاش کے لئے تیار رہیئے۔ نظر بھر کر سماج کو تو دیکھئے! یہاں صلیب بھی زخمی ہے اور یہاں چاند تارا بھی اپنے زخم گن رہا ہے۔ یہاں فادر کے سینے سے چمٹی بائبل سہمی ہوئی دکھتی ہے اور یہاں قرآن کے پھٹے اورنیم جلے اوراق پر آیات ِ الٰہی مخلوق الٰہی کے خون کا ذائقہ چکھ رہی ہیں۔ یہاں مسجد اور چرچ کے دکھ ایک جیسے ہیں۔ یہاں مذہب صرف کتابوں میں رہ گیا ہے۔ یہاں اخلاق آبِ حیواں کی تلاش میں نکل چکا۔ یہاں انسانوں کا ہجوم اسقدر بڑھ گیا کہ انسانیت کے لئے جگہ ہی نہ بچی۔ یہاں محمد عربی کا دین مولوی کے دین سے بدل دیا گیا۔ یہاں فلسفی بٹیر کے نام پر کوے روسٹ کر رہا ہے۔ یہاں دلالی دانشوری اور دانشوری دلالی قرار پا چکی۔ یہاں دولت باپ اور قدریں پاپ ہو چکیں۔
اہل مصر نے میسنجر (حضرت یوسف علیہ السلام) نیلام کیا تھا، یہاں "میسج" کی بولیاں لگ رہی ہیں۔ اگر عقل گھاس چرنے سے فراغ پائے تو وہ دن یاد کیجئے جو کئی بار آئے اور ہر بار ڈاکو زندہ جلائے گئے۔
تب تالیاں پیٹی تھیں نا؟حوصلہ افزائی کی تھی نا؟ اور داد دی تھی نا؟
تو آج تلملاتے کیوں ہو؟
انسانوں کو زندہ جلانے کی روایت کی آغاز کے ساتھ ہی حوصلہ شکنی کی ہوتی تو وہ آگے بڑھ کر دو معصوم شہریوں کی جان کیوں لیتی؟لاقانونیت وہ اژدھا ہے جو ملک ہی نہیں تہذیبوں کوبھی ہڑپ کرنے پر قادر ہے۔ تم ایک بیمار سماج کو فروغ دو اور میں مذمت کا ذمہ اٹھاؤں؟ 
جاؤ نہیں کرتا مذّمت!!!
مکمل تحریر >>

جو قائد کا غدار ہے وہ موت کا حقدار ہے

چالیس برس پر تین اوپر ہوئے کہ ایک بچہ اپنے والد کی گود میں کراچی کے کینٹ ریلوے سٹیشن پر اترا۔ اس پر بچپن، لڑکپن اور جوانی کا عرصہ اسی شہر میں گزرا۔ اس نے دیکھا کہ کراچی آنے والا ہر نیا شخص چند ہی روز میں اپنے حصے کی یہ گواہی ضرور دیتا کہ اس شہر میں زندگی کی رفتار بہت تیز ہے۔ زندگی کی اس تیز رفتار سے ہر شخص کا وقت بہت اچھا گزرتا۔ اتنا اچھا کہ "غریب پروری" اس شہر کا استعارہ بن گیا اور کیوں نہ بنتا کہ یہ ہندوستان سے آنے والے ان مہاجرین کا شہر بن چکا تھا جن کی زکوٰۃ و عطیات نے صدیوں تک صحرائے عرب کے بدوؤں کی پرورش کی تھی۔ آل سعود آج بھی ہندوستانی مسلمانوں کی اس سخاوت کے حوالے دیتے نظر آتے ہیں جو تحریک پاکستان کی ہنگامہ خیزیوں تک جاری رہی۔ تحریک پاکستان کی دھول بیٹھی تو ان مہاجرین نے دیکھا کہ جو عالم عرب پانی کے کنووں کو ترسا کرتا تھا وہاں تیل کے کنویں پوری دنیا کی مشینوں کو سیراب کرنے کے لئے منہ کھول چکے۔ اب عرب بدو غریب نہ رہے تھے۔ ہندوستان سے لٹ پٹ کر کراچی پہنچنے والوں کے جیسے ہی قدم جمے انہوں نے مکے اور مدینے کا متبادل مدارس و مساجد کو بنا لیا۔ ان کی دولت سے کراچی شہر میں پہلے ایسے کارخانے لگے جو ملک کے طول عرض سے مزدوروں کو دعوت کار دینے لگے اور پھر انہی کے سرمائے سے ایسے مدارس بنے جو پاکستان کے ہر ضلع سے طالب علموں کو مقناطیس کی طرح کھینچتے چلے گئے۔ یوں اپنے خون سے قیام پاکستان کی حقیقت لکھنے والوں نے اپنے سرمائے سے ایک ایسا شاندار "منی پاکستان" بھی کھڑا کر کے دکھا دیا جسے عروس البلاد کا تاج ملا۔ مدارس و مساجد پورے ہوئے تو انہوں نے پاکستان کی سب سے بڑی ویلفیئر آرگنائزیشنز کھڑی کردیں۔ کراچی آج پاکستان کا وہ شہر بن چکا جہاں پاکستان کے سب سے بڑے کارخانے اور سب سے بڑے مدارس ہی نہیں، سب سے بڑے خیراتی ادارے بھی پائے جاتے ہیں۔ اس ملک کا شائد ہی کوئی مدرسہ اور خیراتی ادارہ ہو جو ہو اہل کراچی کی مدد کے بغیر چل رہا ہو۔ یہ دینی منصوبوں پر خرچ کرنے والوں کے شہر کے طور متعارف ہوا اور یہ ضرورت مند کی ہر ضرورت اس شان سے پوری کرنے لگا کہ خود غریب اسکی غریب پروری کا گواہ ہوا۔ یوں ہر نظر کراچی پر پڑ گئی۔
جب ہر نظر اس پر پڑی تو نظر تو لگنی تھی۔ یہاں سیاست کے سورج کو عصبیت کا گہن لگ گیا اور قوم نے صلوٰۃ الکسوف پڑھنے میں دیر کردی۔ جس سے زندگی کی رفتار ہی نہیں خود زندگی غیر یقینی ہو کر رہ گئی۔ یہاں ایسے ماہ سال آنے لگے جن کے آنے کا پتہ چلتا اور نہ ہی جانے کا۔ اب یہاں وقت رک رک کر چلتا اور زندگی چل چل کر رکتی۔ سبحان الذی سخر لنا۔۔۔۔ کے بغیر چلنے والی گاڑی نذر آتش ہونے لگی اور ماں سے آیت الکرسی دم کرائے بغیر نکلنے والے خون میں لت پت لوٹنے لگے۔ جن انسانوں کی حرمت انکے مالک نے حرمت کعبہ سے بڑھ کر طے کی تھی وہ ایسے بے قیمت ہوئے کہ انکی زندگی کے سودے صرف پانچ ہزار میں طے ہونے لگے۔ ایسی آہ و فغاں بلند ہوئی کہ شہر قائد میں واقع مزار قائد کے گنبد سے روح قائد نے پوچھا۔
"یہ شور کیسا؟ یہ چیخیں کیوں؟ یہ آہیں کاہے؟"
جواب آیا
"قائد! تیرے شہر میں ایک نیا قائد آیا ہے، اس کا فلسفہ عام کیا جا رہا ہے"
ایک ایسا فلسفہ جسے بیاں فاروق ستار کرتا اور عیاں صولت مرزا کرتا۔ جس کا متن حیدر عباس رضوی پڑھتا اورحاشیہ اجمل پہاڑی لکھتا۔ جس کا پروف ریڈر وسیم اختر ہوتا اور سرخ پرنٹ ندیم نصرت نکالتا۔ جس کی تلاوت فیصل سبزواری کرتا اور فاتحہ عبید کے ٹو پڑھتا۔ جس کا جمالی فرشتہ تنویر الحق تھانوی اور جلالی فرشتہ فیصل موٹا ہوتا۔ مگر ظلم و عدوان تابکے؟ شائد ڈھیل کا عرصہ تمام ہوا۔ کراچی میں عزیز آباد اور اس کے اطراف زندگی کی رفتار ایک بار پھر اسقدر تیز ہوگئی ہے کہ چَین ہی چَین لکھنے والا راوی چِین ہی چِین لکھنے لگا ہے۔ واقعات اس تیزی سے رونما ہو رہے ہیں کہ گوشوارے ترتیب دینا دشوار ہو چلا ہے۔ انسانیت کے دشمن چن چن کر بلوں سے نکالے جارہے ہیں۔ پراسیکیوٹر کیس ترتیب دے رہا۔ جج اپنے ہتھوڑے سمیت انتظاری ہے۔ سالوں سے کچی شراب کے نشے میں دھت جلاد کے منہ پر پانی کے چھینٹے مار کر ہوش میں لایا جا رہا ہے اور پھانسی گھاٹ کے لیور کو تیل دیا چکا۔ شہر قائد کے نئے قائد نے قیام پاکستان کو بلنڈر کہہ کر اپنی غداری پر مہر تصدیق ثبت کردی تھی۔ سنا ہے آج بھی قائد کی روح نے مزار قائد کے گنبد سے پوچھا۔
"یہ شور کیسا؟یہ چیخیں کیوں؟ یہ آہیں کاہے؟"
جواب آیا
"جوقائد کا غدار ہے وہ موت کا حقدار ہے"
مکمل تحریر >>

چراغ سبھی کے بجھیں گے، "اسٹبلشمنٹ" کسی کی نہیں ۔!

ایم کیو ایم کے خلاف "تیز تر آپریشن" اور اب سیاست دانوں کے خلاف "وعدہ معاف گواہی" تراشے جانے کے نئے سلسلے کے پیچھے اصل مقصد طالبان کے خلاف نام نہاد آپریشن کی ناکامی اور داعش کے ساتھ "سودا بازی مذاق رات" کے زیرغور کھیل کی پردہ پوشی کے سوا بظاہر کچھ بھی نہیں لگتا۔۔
الطاف حُسین کے خلاف گھڑے گئے وعدہ معاف گواہ صولت مرزا اور آصف زرداری کے خلاف تراشیدہ سُلطانی گواہ عُزیر بلوچ کی رُونمائی پر بغلیں بجانے والے یاد رکھیں کہ اگر ایک طرف قُربانی کا بکرا بنا کر معطل کئے گئے پولیس افسران ماڈل ٹاون میں خون کی ہولی کا حُکم دینے والے "اصل مُجرموں" کی نشاندہی کیلئے زندہ ہیں تو دوسری طرف سیتا وائٹ کی ناجائز اولاد ٹیریان بھی "کسی" کو زانی ثابت کرنے کیلئے موجود ہے۔۔
مکمل تحریر >>

تلاش کیجئے