13 مارچ، 2015

ٹارزن کی واپسی .!

ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کی نشست پر خان عمران خان کے امیدوار نے 16 ووٹ حاصل کرکے ایک طرف اگر مولوی فضل الرحمن کے امیدوار کے بلا مقابلہ انتخاب کی راہ کهوٹی کی تو دوسری طرف تحریک انصاف نے اس مقابلے کے ذریعے قومی سیاست میں "باعزت واپسی" کا راستہ بھی بالآخر تلاش کر لیا .. سینیٹرز الیکشن کے مرحلے پر پنجاب سے ایک آدھ نشست حاصل کرنے کا موقع ضائع کرنے کے بعد کسی جوڈیشل کمیشن کے قیام تک سینیٹ اور (خیبر پختون خواہ کے علاوہ) اسمبلیوں کا بائیکاٹ جاری رکھنے پر مصر ہمارے "خان اعظم" شاید اب اچھی طرح سمجھ چکے ہیں کہ ان کی "احتجاجی سیاست" کی روح اسی وقت دم توڑ گئی تھی جب جناب وزیراعظم کے استعفے کے مطالبے سے دستبردار ہوئے تھے ..

دیکھا جائے تو ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے اپنے امیدوار کیلئے دس اضافی ووٹ کی "سودا بازی" سے بهی پہلے کے پی کے سے سینیٹ کی خواتین اور ٹیکنوکریٹس کیلئے مختص نشستوں پر نواز لیگ سے "مک مکا" اور ان انتخابات میں اپنے صوبائی ارکان کو ووٹ کی پرچی پر نشان لگانے کیلئے چیف منسٹر ہاؤس پہنچنے پر مجبور کرکے آنجناب ان تمام تر سیاسی ہتھکنڈوں کو "ازخود" اختیار کر چکے ہیں، جن کے حوالے سے کسی "تبدیلی" کا نعرہ لگا کر آپ مدمقابل دیگر پارٹیوں پر تنقید کے زہریلے نشتر چلانے کے عادی ہیں .. 
خان صاحب کی پٹاری میں کچھ "تبرکات" اگر باقی بچے بهی تھے تو موصوف کے چہیتے ایم این اے نے چند روز قبل ان کی صوبائی حکومت کی ماتحت پشاور یونیورسٹی سے ایک گھنٹے میں پوسٹ گریجویشن کے، ایک دو نہیں، پورے تین پیپرز ایک ساتھ پاس کرکے ان کے "تقدس" کی قلعی کهول دی ...

تلاش کیجئے