24 مارچ، 2015

مولانا زاہد الراشدی

https://www.facebook.com/Riayat.Farooqui
 مولانا زاہد الراشدی کا ذکر زمانہ طالب علمی میں سنتے تھے اور یہ ذکر چونکہ درخواستی گروپ کے پس منظر میں ہوا کرتا تھا سو ہمیشہ نہ صرف کانوں کا بلکہ من کا ذائقہ بھی خراب کردیا کرتا تھا۔ وہ ان میں سے ہیں جن سے میں نے لڑکپن میں ہی بن دیکھے اور بن سنے نفرت کا رشتہ قائم کر لیا تھا۔ پھر وقت گزرا اور کہیں سے 1991ء آ پہنچا جب میں لاہور میں واقع جامعہ اشرفیہ ایک جلسہ دیکھنے اور سننے آیا۔
مولانا زاہد الراشدی قائمقام گورنر پنجاب سے تمغہ امتیازوصول کرتے ہوئے۔
پنڈال میں بیٹھنے کے لئے داخل ہوا ہی چاہتا تھا کہ سٹیج سے مولانا زاہد الراشدی کو دعوت خطاب دیدی گئی۔ انکی تقریر سنی جائے اور وہ بھی بیٹھ کر؟ توبہ استغفار ! الٹے قدموں واپس پلٹا مگر پھر یہ سوچ کر شامیانے کے ایک بانس سے ٹیک لگا کر کھڑا ہو گیا کہ چلو تھوڑا سن کے تو دیکھیں کہ وہ شعور کس پیمانے کا ہے جسے اکوڑے والی سرکار میں سرخاب کے پر دکھتے ہیں۔ یقین کیجئے تقریر صرف چکھنے کے لئے کھڑا ہوا تھا اور ہوش پھر تب آیا جب ان کی تقریر ختم اور میرے پیر سن ہو چکے تھے۔ وہ دن ہے یہ دن ہے اس بابے کے سحر سے نہیں نکل سکا۔ یہ ان سے میری بے پناہ محبت ہی ہے کہ میں نے بارہا انہیں آمنے سامنے کھری کھری سنا بھی دیں اور ان کی شفقت کہ سن بھی لیں۔ لوگ محبت کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ جسے چاہو اس کی ہر ادا کو سراہو اور ہر بات کو قبول کرو۔ میرا معاملہ اس ضمن میں مختلف ہے۔ میں اپنے محبوب کی ہر بات قبول نہیں کرتا بلکہ اگر وہ کچھ ایسا کہدے جو مجھے غلط لگے تو پوری شدت سے مسترد کردیا کرتا ہوں۔ میں انہیں آج بھی بہت شوق سے ملتا، دیکھتا اور سنتا ہوں۔ یقین کیجئے پیغمبر بالکل بھی نہیں ہیں، غلط بات بھی کہہ جاتے ہیں لیکن جو درست کہتے ہیں وہ سونے سے لکھنے کے لائق ہوتی ہے۔ اپنے ناموں کے ساتھ "فقیر" لکھتے ایسے "امیر" بہت دیکھے جو چمچوں کا جھرمٹ پورا نہ ہونے کے سبب پروگرام میں ہی آنے سے انکار کردیتے ہیں لیکن کاندھے پر تھیلا لٹکائے زاہد الراشدی نامی وہ فقیر ایک ہی دیکھا ہے جو آپ کے پروگرام کے لئے کبھی بسوں تو کبھی ویگنوں میں دھکے کھاتا پھرتا ہے۔ 
مجھے راولپنڈی کی زرعی بارانی یونیورسٹی کے ایک طالب علم نے یہ قصہ خود سنایا کہ ہم نے اپنی یونیورسٹی کی تقریب میں انہیں مدعو کیا تو امید نہیں تھی کہ وہ گوجرانوالہ سے ہم طلباء کے لئے آئینگے لیکن نہ صرف آئے بلکہ ایسا خطاب فرمایا جس نے طلباء کو سوچنے، سمجھنے کی بہت سی جہتیں فراہم کیں۔ وہ رخصت ہونے لگے تو ہم نے ایک لفافہ پیش کیا جس میں کچھ رقم تھی۔ انہوں نے لفافہ کھولا اس میں سے سات سو روپے لے کر باقی یہ کہتے ہوئے واپس کردیئے کہ "میرے گوجرانوالہ سے آنے جانے کا خرچہ بس اتنا ہی ہے"تعلیم کے میدان میں اس درویش کی خدمات کے اعتراف میں کل 23 مارچ کو صدر پاکستان نے انہیں "تمغہ امتیاز" سے نوازا ہے جو اس لحاظ سے مقام شکر ہے کہ کسی عالم دین کی خدمات بھی اونچے درباروں کو نظر آئیں۔ میں ذاتی طور پر اپنے رب کا بے پناہ شکر گزار ہوں کہ میری شعوری عمر میں مولانا موجود تھے ورنہ بے شکن جبوں کی اٹھتی "خوشبوؤں" سے میرا دم گھٹ جاتا !

تلاش کیجئے