6 مارچ، 2015

سینیٹ الیکشن اور گھوڑوں کی دولتیاں ۔!

 
نصف سینیٹ کے حالیہ انتخابات کا مجموعی و عمومی تاثر یہ رہا کہ پارٹی کارکنوں کو نظر انداز کرکے درآمد شدگان کو انتخابی ٹکٹ جاری کرنے والے "تبدیلی خان" اور چھانگا مانگا آپریشن کے بانی مبانی کو درپیش اصل مسئلہ ان کے واویلہ کے مطابق، ہارس ٹریڈنگ نہیں بلکہ ہارس ککنگ کا تھا ۔۔ جیسا کہ نواز لیگ کے پنجاب اور بلوچستان سے ارکان کی "گُم شدگی" اور پی ٹی آئی کی جانب سے "سسٹم" پر عدم اعتماد کے نام پر قومی و دیگر صوبائی اسمبلیز سے ان استعفوں کے بہانے وہاں سینیٹ الیکشن کے بائیکاٹ سے عیاں ہوجاتا ہے، جن کی "تصدیق" پر وہ خود تیار نہیں بلکہ ڈھٹائی سے اسی نظام کے تحت ناصرف خیبر پختونخواہ میں حکومت جاری رکھے ہوئے ہے بلکہ وہاں سینیٹ الیکشن میں حصہ بھی لیا ۔۔
"گھوڑوں کی دولتی" کی اس نئی روایت کا پہلا شکار ہمارے ناصر خیل قبیلہ کے چیف سردار یعقوب خان ناصر بنے، انتہائی غیر محفوظ نشست پر ٹکٹ جاری کئے جانے کے باعث جنہیں نون لیگ کا "نیا اقبال ظفر جھگڑا" کہا جاسکتا ہے ۔۔ یاد رہے کہ ہمارے دوست اور نواز لیگ کے جنرل سیکرتڑی اقبال جھگڑا صاحب اپنے قائد کی برسوں سے جاری اسی قسم کی بے اعتنائی کے بعد بالآخر، حسب وعدہ مملکت کی صدارت یا کے پی کے کی گورنری نہ سہی، کم از کم سینیٹرشپ کے اہل سمجھ لئے گئے، گذشتہ سینیٹ انتخابات کیلئے جنہیں سردار یعقوب کی طرح کی پی کے کی سب سے زیادہ غیر یقینی نشست پر ٹکٹ جاری کرکے ان کی غیر مشروط وفاداری کا بھرپور صلہ دیا گیا تھا اور وہ سردار یعقوب کی طرح انتخاب ہار گئے تھے ۔۔ 
سینیٹ کے اس انتخابی مرحلہ کا دلچسپ ترین پہلو، ہارس ٹریڈنگ روکنے کے نام پر لیکن "اصل زر" بچانے کی خاطر آئینی ترمیم کیلئے بے چین وفاقی حکومت کی جانب سے، انتخابی جدول جاری ہونے بلکہ پولنگ سے چند گھنٹے پہلے غیر آئینی طور پر، جاری کردہ وہ صدارتی آرڈیننس ہے جس کی رُو سے فاٹا کے ہر رُکن قومی اسمبلی کو سینیٹ کے صرف ایک اُمیدوار کے حق میں ووٹ کاسٹ کرنے پر مجبور کرنا مقصود تھا، حالانکہ فاٹا ایم این ایز کی محدود تعداد کے پیش نظر ہر فاٹا ایم این اے کو وہاں سے سینیٹ کی خالی ہونے والی تمام نشستوں ہر ووٹ کا حق اسلئے دیا گیا تھا کہ اگر تمام یا اکثریتی ارکان مختلف اُمیدواروں کی بجائے کسی ایک یا دو کے حق میں ووٹ ڈال دیں تو ایک آدھ نشست خالی رہ جانے کا اندیشہ رہے گا ۔۔ وہ تو اللہ بھلا کرے چیف الیکشن کمیشن کا، جس نے متعلقہ ایم این ایز کی درخواست پر فاٹا سینیٹرز کیلئے پولنگ رکوانے کا فیصلہ کرکے اپنے ادارے کی بچی کھچی ساکھ بچالی، ورنہ ہمارے "جموروں" نے سینیٹ کے اس الیکشن کو بھی گذشتہ عام انتخابات کی طرح متنازعہ ترین بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی ۔۔ 
حالیہ انتخابی نتائج کی روشنی میں سابق صدر زرداری ناصرف ایوان بالا میں اپنی پارٹی کی بالادست پوزیشن برقرا رکھنے کے دعوے میں سُرخرو رہے بلکہ پنجاب اسبلی سے دیرینہ و فعال پارٹی کارکن ندیم افضل چن کے حق میں پڑنے والے تیس ووٹوں کے ذریعے، چھوٹے چھوٹے انتظامی یونٹس کے دور میں غیر فطری طور پر قائم رکھے گئے، نصف سے زیادہ ملک پر مشتمل سب سے بڑے صوبے میں پارٹی کی "کم بیک" کے ارادے بھی ظاہر کردئے ۔۔ مرد حُر نے جبکہ اس سے پہلے ہارس ٹریڈنگ کے بادشاہ کی طرف سے بلوچستان اور پنجاب سے اپنے مہرے بلکہ گھوڑے کھسکتے دیکھ کر ڈالا گیا بائیسویں ترمیم کا وہ دانہ بھی چُگنے سے انکار کردیا تھا، جسے نواز لیگ جیسے حالات سے دوچار ہمارے "خان اعظم" پارٹی کارکنوں کی بجائے نووارد ارب پتیوں کو سینٹ کے ٹکٹ جاری کرنے کے باوجود چُگنے پر مجبور ہو گئے۔۔
پیارے "خادم پنجاب" بھی اس لحاظ سے مُبارکباد کے مستحق ہیں کہ دھاندلی زدہ الیکشن میں جیتنے والے اپنے ارکان پر صوبائی وزراء کرام کی براہ راست کڑی نگرانی کے علاوہ تمام اضلاع کے ڈی سی اوز، ڈی پی اوز اور آر پی اوز کے پیدا کردہ خوف ہراس اور پُرکشش ترغیبات کے طفیل بالآخر صوبے کیلئے مختص تمام گیارہ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہے ۔۔ اندر کی خبر یہ ہے کہ خادم پنجاب اگر اپنی مخصوص "گُڈ گوورننس" کا یہ اہتمام نہ کرتے تو ندیم چن کے حق میں جانے والے باغی ارکان کی تعداد دس سے بڑھ کر کم از کم دوگنی ضرور ہو جاتی، جو اپنے "قومی قائدین" کی جانب سے مسلسل نظر انداز کئے جانے پر "احتجاج" کے مظاہرہ پر کمربستہ تھے ۔۔
اگر غیر جانب داری سے دیکھا جائے تو یہ الیکشن "نئے پاکستان" کیلئے سب سے زیادہ خسارے کا سودا رہا، جو اپنے صوبائی ارکان کو بیلٹ پیپر پر نشان لگانے کیلئے خیبر پختونخواہ کے چیف منسٹر ہاوس پہنچنے پر مجبور کرنے یعنی خادم پنجاب سے ملتے جلتے "انتظامات" کے بعد کے پی کے میں تو اپنے اُمیدواروں کو جتوانے میں کامیاب رہا لیکن پنجاب اور قومی اسبلی دونوں میں اپنے ارکان کی قابل ذکر تعداد کے باوجود، سینیٹ کے ان دونوں انتخابی حلقوں میں نواز لیگ کیلئے کلین سویپ کا راستہ ہموار کرکے ایک بار پھر ثابت کرگیا کہ اصلی "مُک مُکا" اور "نورا کُشتی" نواز لیگ اور پی ٹی آئی کے درمیان جاری و ساری ہے ۔۔

تلاش کیجئے