ایک
عظیم اور انقلابی شخصیت پر قلم اٹھانے جا رہا ہوں جس کی عظمت کو دشمن بھی
سلام کرتے ہیں میں بھگت سنگھ کے چاہنے والوں سے معذرت کرتا ہوں کے ایک
نامور مجاہد پر ذاتی مصروفیت کی بناء پر نہیں لکھ پایا۔۔ آہ بھگت سنگھ----
1907 کو لائل پور (پنجاب پاکستان) میں پیدا ہونے والا نام بھگت سنگھ جس کو
مذہب سکھ کی وجہ سے ہماری تاریح میں جگہ نہیں دی گئی۔ سنگھ کی جدوجہد کو
ایک آرٹیکل میں سمانا ناممکن سی بات ہے ۔ پھر بھی ایک سرسری سی نظر ڈالتے
ہیں۔ جب کبھی پھر موقع ملا تو تفصیل سے لکھیں گئے۔ سنگھ نے جس خاندان میں
آنکھ کھولی وہ انگریز راج کے خلاف ہر محاز پر کھڑی رہنے والی فیملی تھی۔
اور ان کی پیدائش اُسی دن ہوئی جب اُن کے والد، اور دو چچا انگریز قید سے
رہا ہوئے تھے، جس کی وجہ سے خاندان میں ان کو خوش قسمتی کا ستارہ سمجھا
جانے لگا۔ ایک آزادی پسند گھرانے میں پیدائش کا فائدہ یہ ہوا کہ سنگھ کے
اندر بغاوت اس کے خون اور تربیت کا حصہ بن گئی۔ جوں جوں وقت گزرا حالات نے
رخ بدلا، سنگھ کی آنکھ نے گہرائی محسوس کرنے کا ہنر سیکھا اور سنگھ مارکس
کے خیالات کو عملی جامہ پہنانے کے لئے میدان میں کود پڑا۔سترہ سال کی عمر
میں پنجاب میں زبان کے مسئلے پر مضمون لکھ کر مضمون نگاری میں انعام حاصل
کیا۔سترہ سال کی عمر میں ایک عظیم مفکر کے طور پر جانے لگے۔اپنی ٹین ایج
میں ہی سیاسی سرگرمیوں میں نظر آنے لگے تھے 1928 میں دہلی میں ایک
ہنگامائی میٹنگ بلائی اور ایک جماعت ہندوستان ریپبلک ایسوسی ایشن
(ایچ-آر-آے) کا نام بدل کر ہندوستان ریپبلک سوشلسٹ ایسوسی ایشن(
ایچ-آر-آیس-آے) نام رکھ دیا گیا۔ جس کے نام پر زور صرف سنگھ نے دیا تھا۔اس
کے بعد عملی طور پر انھوں نے سوشلسٹ انقلاب کے لئے جدوجہد شروع کر دی۔ اور
اس کے سائے تلے محنت کشوں کو اکھٹا کرنے کے لئے کوشش کرنے لگے۔ اس سے قبل
وہ سیاسی طور پر جنرل سیکٹری این-بی-ایس رہ چکے تھے۔جو کہ ان کی اپنی ایک
طلبہ پارٹی تھی۔۔اسی اثناء میں ساؤنڈرس کا قتل ایک ریلی میں ہنگامے کے
دوران سنگھ نے کر دیا کیونکہ ساؤنڈر برطانیہ کے ہرادل دستے کا اہم جُز تھا
اور ساتھ ہی ساتھ بہت سے انقلابیوں کی کو زیر زمیں دفن کیا تھا۔ساؤنڈ ر
نے لالہ لاجپت رائے کو شہید کیا تھا وہ بھی ایک عوامی راہنما تھا اسے بھگت
اپنا استاد مانتا تھا اسکے قتل کے بعد انہوں نے ساؤنڈ ر کو قتل کرنے کا
منصوبہ بنایا تھا اور اس اقدام کے بعد سنگھ کو یقین ہو چکا تھا کے اس کی
زندگی کا سورج غروب ہونے والا ہے۔ اور وہ باقی زندگی میں بہت سے کام جلدی
جلدی پر کم سے کم جانی نقصان پر کرنا چاہتے تھے۔ ساؤنڈر کے قتل کے بعد عوام
میں بھی جوش و خروش پایا گیا جس کو سنگھ نے ضائع نہیں ہونے دیا اور اور
عوام کو ایک ایک آزادی کی راہ دیکھلائی۔1929 کو اپنی آواز کو بلند و بالا
سامراج کے قلعوں تک پہنچانے کے لئے غیر مہلک بم مرکزی مجلس مقننہ میں
پھینکے۔ جس کا مقصد تھا کے انقلاب زندہ باد اور سامراجیت مردہ باد کر نعرے
کو تقویت پہنچے۔ اسی دوران ان پر عدالت میں مقدمہ چلا اور ان کو ساؤنڈر قتل
کیس میں پھانسی کی سزا ہوئی۔ مزے کی بات یہ سنگھ اور اس کے ساتھیوں نے
مقدمہ سے بائیکاٹ کر لیا تھا اور یہ عدالت کا فیصلہ یک طرفہ فیصلہ تھا جس
کو مسلط کیا گیا تھا۔ خیر 24مارچ صبح چھ بجے کو پھانسی کا فیصلہ ہوا جس کو
سامراجیت نے عدالتی حکم کو پسے پشت ڈالا اور عالمی پھانسی کے قانون کو توڑ
کر 23مارچ کی شام سات بجے ہی پھانسی دے دی گئی۔ جس کی خبر لاہور شہر میں آگ
کی طرح پھیلی اور تمام آزادی پسندوں نے جیل کے قریب پہنچ کر جیل کو توڑنا
شروع کر دیا۔جس سے برطانیہ کے افسروں میں ڈر پیدا ہو گیا۔ انھوں نے سنگھ
اور اس کے دو ساتھیوں کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں کاٹ کر تھیلوں میں پیک کیا
اور دریا کے کنارے لے جا کر جلا ڈالا۔ جس کو بعد میں ڈھونڈ لیا گیا۔ سنگھ
ایک ایسا تاریحی اور انقلابی شحص تھا جس نے قوم وملک کے لئے اپنی زندگی
وقف کر دی تھی جس کا سنگھ نے ایک خط میں اپنے والد کو بتایا بھی تھا۔سنگھ
نے 15 دن موت کی دنیا (جیل) میں بھوک ہڑتال کی، آخری دنوں میں 4بکس لکھیں۔
اور بہت سے نوٹس مرتب کیے جن کو عوامی سطح پر حکومت کو سامنے لانے کے لئے
اقدامات کرنے چاہیے اور اس عظیم مجاہد کی قربانیوں کو تاریحی صفحات پر
نمایاں کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ میں مطالبہ کرتا ہوں کہ سنگھ کی قربانیوں کو
اس کا اصل صلہ دیا جائے اور قوم کو اس کے متعلق بتایا جائے۔اس سے نہ صرف حق
گوئی کو تقویت ملے گی بلکہ آنے والی نسل کو بھی ایک تحریک ملے گی۔