16 مارچ، 2015

مغربی سائنس کیا ہے؟

 اس سوال کا جواب انتہائی اہمیت کا حامل ہے اس لیے نہیں کہ اس کا جواب اب تک تلاش نہیں کیا جاسکا بلکہ اس لیے کہ ہم میں سے اکثر و بیشتر لوگ اس کے جواب سے واقف نہیں۔ آج بھی ہمارے مفکرین اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ مغربی سائنس ایک غیراقداری [Value Nutral]اور ٹیکنیکل قسم کا علم ہے۔جس کی بنیاد خالصتاً عقل انسانی ہے اور عقل بھی وہ جو آفاقی ہے یہ دعویٰ اپنے تئیں بذات خود محلِ نزاع ہے کہ کیا عقل مقاصد کی ترتیب میں ممد ثابت ہوسکتی ہے یا نہیں [اس مضمون میں ہم اس سوال سے بحث نہیں کریں گے]۔
حق تک رسائی سائنس کے ذریعے:
کیا روز مرہ زندگی میں سائنس کو دی جانے والی اہمیت سائنس کا منہ بولتا ہوا ثبوت نہیں؟ اور تو اور اب تو ہمارے علمائے اکرام بھی قرآن و سنت کو سائنس سے ثابت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ چناں چہ اس قسم کے بیانات آپ پڑھ اور سُن سکتے ہیں کہ قرآن و سنت کی فلاں فلاں بات سائنس کے مطابق ہے لہٰذا اس سے ثابت ہوا کہ قرآن و سنت حق ہیں۔ گویا حق تک رسائی کا حتمی طریقہ سائنس ہی ہے۔اس قسم کی دلیل قائم کرتے ہوئے علمائے کرام یہ بات بھول جاتے ہیں کہ اس طرز استدلال کا مطلب سوائے اس کے اور کیا ہے کہ عقل انسانی وحی پر حاکم ہے یعنی عقل کا وحی کے نہیں بلکہ وحی کا عقل کے مطابق ہونا وحی کے حق ہونے کی دلیل ہے اور یہ وہ بات ہے جس کا دعویٰ ہمارے پورے علم کلام میں سوائے معتزلہ کے شاید کسی اور نے نہیں کیا۔ نیز یہ کہ سائنس تو آئے دن اپنے نظریات تبدیل کرلیتی ہے تو کیا اِن نظریات کے بدلنے سے قرآن و سنت کے معانی بھی بدلتے جائیں گے؟
مغربی سائنس آفاقی نوعیت نہیں رکھتی: نئے دور کا مذہب ہے:
اس مضمون کا مقصد ماضی قریب میں ہونے والے اُن مباحث کی تلخیص بیان کرنا ہے جن کے نتیجے میں یہ بات تقریباً پایہ تکمیل کو پہنچ چکی ہے کہ سائنس کوئی غیر اقداری اور آفاقی نوعیت کا علم نہیں ہے اور نہ ہی اس کے آفاقی ہونے کے حق میں کوئی عقلی دلیل دی جاسکتی ہے، اس طرح یہ دعویٰ کے سائنس کی بنیاد مشاہدات اور تجربات ہوتے ہیں جن کی مدد سے نظر یات کی صحت کو جانچا جاسکتا ہے غلط دعوے ہیں۔ ایسی ہی یہ کہنا کہ سائنس کوئی ایسا علم ہے جو انسانی تاریخ میں تحلیل کرتا ہوامختلف تہذیبوں سے منتقل ہوتے ہوئے اورہر تہذیب کی صہبا کشید کرتے کرتے آج مغرب تک آپہنچا ہے مغربی سائنس کی مخصوص تاریخ سے ناواقفیت کی علامت ہے۔مغرب کے جدید علمائے سائنس کے مطابق تو سائنس نئے دور کا مذہب ہے جس کا کردار مغربی دنیا میں وہی ہے جو یورپ میں عیسائیت کا ہوا کرتا تھا۔اُن کے خیال میں سائنسی علم کی دوسرے طریقہء علوم پر برتری ثابت کرنے کی کوئی معقول دلیل نہیں ہے اور یہ کہ موجودہ سائنس اگر مغرب میں پروان چڑھی ہے تو اس کی کچھ تاریخی اور معاشرتی وجوہات ہیں جومغرب میں رونما ہوئیں۔ یہ ساری باتیں وہ ہیں جو خود مغربی علمائے سائنس اپنے گھر کی سائنس کے بارے میں کہتے اور لکھتے ہیں ان کی ان باتوں کا جواب مغرب کے وہ علمائے سائنس نہیں دے پاتے جو خود عقل پرستی کے زبردست حامی ہیں۔
سائنس مغرب میں اپنی وقعت کھوچکی ہے:
ایسی صورت حال میں کہ جب سائنسی علم اپنی وقعت خود مغرب میں کھوچکا ہے ہمارے ہاں ایسے مجتہد دین پیدا ہوگئے ہیں جو سائنس کو قرآن اور سنت سے بھی بالا تر معیار خیرو شر مانتے ہیں اور اس بات پر مسلمانوں کو برا بھلا کہتے ہیں کہ انھوں نے سائنسی ترقی مغرب سے پہلے کیوں نہ حاصل کرلی۔ ان کا یہ گریہ وزاری درحقیقت کسی دلیل کی بنیاد پر نہیں بلکہ مغربی علوم و فکر سے ناواقفیت اور مغرب کی بظاہر مادی ترقی سے مرعوبیت کی بناءپر ہے چناں چہ اس مضمون میں ہم سائنس کی کہانی خود اُن کے علماءکی زبانی بیان کریں گے۔ہم پوری کوشش کریں گے کہ ہر اہم نظریے کی وضاحت آسان مثالوں کے ذریعے کریں اور ہر قسم کی تلخیص کو بالائے طاق رکھتے ہوئے جہاں تفصیل کی ضرورت ہوگی تلخیص سے کام نہ لیں گے۔ تاکہ بات سمجھنے میں مشکل نہ ہو۔
سب سے پہلے ہم سائنس کے استقرائی نظریے پر بحث کریں گے ۔ ہم دیکھیں گے کہ ہمارے مجتہدین درحقیقت سائنس کے اسی نظریے سے واقف اور مرعوب ہیں۔اس کے بعد ہم اس نظریے کی تنقید بیان کرکے سائنس کے اُس نظریے کی وضاحت اور تنقید پیش کریں گے جسے کارل پاپر[Popper] سے منسوب کیا جاتا ہے۔پھر ہم سائنس کی ساختی تو جیہہ بیان کرنے والے علماءکے خیالات کی تلخیص بیان کریں گے۔ آخر میں ہم فیئر ا بینڈ کے نظریات کا خلاصہ بیان کریں گے جو در حقیقت ساری بحث کے لیے بمنزل نتیجہ ہوگا۔
علم کی تشکیل وحی کے بغیر ممکن ہے:مغربی دعوی:
چناں چہ بات کا آغاز یہاں سے کیا جاسکتا ہے کہ 17 ویں اور 18 ویں صدی کے مفکرین نے مغرب میں برپاہونے والی مذہب [عیسائیت] اور جدیدیت کی کشمکش کے دوران اس بات کا دعویٰ کیا کہ علم کی تشکیل وحی کے بغیر خالصتاً عقل کی بنیادوں پر کی جاسکتی ہے۔ اس دعوے کا اصل محرک وہ بے اطمینانی تھی جو ان مفکرین کو مذہب عیسائیت کے ایمانیات سے تھی یعنی انھیں مذہب سے یہ شکایت تھی کہ اس میں ایمان پہلے لایا جاتا ہے اور عقل کی حیثیت ثانوی ہوتی ہے۔ لہذا انھیں اس بات پر اصرار تھا کہ عقل کو بنیاد بنا کر ایک ایسے علم کی تعمیر کی جاسکتی ہے جو نہ صرف یہ کہ آفاقی ہوگا بلکہ ہر قسم کے ایمانیات، نظریات و مفروضات سے پاک ہوگا۔ اگر ایسا کرنا ممکن ہے تو پھر وحی کو علم کی بنیاد بنانے کی کوئی ضرورت نہیں اور انسان کو ہر قسم کی مذہبی جکڑبندیوں سے آزاد کرکے ایک ایسے برتر اور اعلیٰ مقصد کے حصول کی طرف گامزن کیا جاسکتا ہے جو سب کی فلاح کا باعث ہوگا۔ ذیل میں ہم اس دعوے کی حقانیت ثابت کرنے کے لیے دیے گئے دلائل کا جائزہ لیتے ہیں۔
استقرائی نظریہء سائنس:
استقرائی منطق، کے نظریے کے مطابق سائنس کا آغاز مشاہدے سے ہوتا ہے، یعنی سائنس حصولِ علم کا ایسا طریقہ ہے جس میں مشاہدات کی بنیاد پر نظریات [Theories]قائم کیے جاتے ہیں۔ ان مشاہدات کی بنیاد انسان کے حواس خمسہ پر ہے یعنی سماعت، بصارت، لمس، سونگھنا اور چکھنا، دعوی یہ ہے کہ ان حواس خمسہ سے حاصل ہونے والے مشاہدات کوبنیاد بنا کر آفاقی نوعیت کے نظریات قائم کرنا ممکن ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے درج ذیل مثالوں پر غور کریں:
[1] 9 اپریل 2006ءکو پاکستان میں سورج گرہن ہوا۔
[2] میری پینسل اگر پانی میں جزوی طور پرڈ بوئی جائے تو ٹیڑھی نظر آتی ہے۔
[3] اس لوہے کو جب گرم کیا گیا تو وہ نرم ہو کر پھیل گیا۔
حواس خمسہ کے ذریعے حاصل کردہ علم:
ان مثالوں پر غور کرنے سے ایک خاص واقعہ کا کسی خاص مقام اور خاص وقت پر وقوع پذیر ہونا معلوم ہوتا ہے۔ مثلاً پہلی مثال سے یہ بات معلوم ہوئی کہ ایک خاص تاریخ [9 اپریل]کو ایک خاص مقام [پاکستان] پر ایک واقعے کا مشاہدہ کیا گیا۔ اسی طرح تیسری مثال سے یہ بات ظاہر ہوئی کہ ایک خاص لوہے کو جب گرم کیا گیا تو وہ نرم ہوگیا۔ چناں چہ ایک ایسا بیان [Statement] جس میں کسی خاص واقعے کا کسی خاص وقت اور مقام پر مشاہدے کا دعویٰ کیا جائے ایک Singular Proposition [خاص یا منفرد قضیہ] کہلاتا ہے۔ ان مثالوں سے ایک بات واضح ہوجانی چاہیے اور وہ یہ کہ تمام مشاہداتی بیانات [Observative Statement]بنیادی طور پر Singular Propositionہی ہوتے ہیں کیوں کہ ان کی بنیاد وہ مشاہدات ہیں جو کوئی شخص اپنے حواس خمسہ کے ذریعہ حاصل کرتا ہے۔
کیاسائنسی بیانات مقامی نہیں آفاقی ہوتے ہیں؟:
خیال رہے کہ مندرجہ بالا بیانات درحقیقت سائنسی بیانات نہیں ہیں۔ یہ اس لیے کہ سائنسی بیانات درحقیقت آفاقی [universal]نوعیت کے ہوتے ہیں اس بات کو ہم ذیل کی مثالوں سے واضح کرتے ہیں۔
[1] تمام سیارے سورج کے گرد بیضوی شکل میں چکر لگاتے ہیں۔
[2] روشنی جب شیشے سے گزرتی ہے تو اس کی سمت بدل جاتی ہے۔
[3] انسان بنیادی طور پر خود غرض ہوتا ہے۔
ان مثالوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ایک خاص نوع کے وقوع پذیر ہونے والے تمام واقعات کا مشاہدہ ہر مقام اور ہر وقت یکسا ں رہتا ہے ۔ مثال کے طو رپر پہلی مثال میں یہ بات کہی گئی کہ تمام سیارے چاہے وہ جہاں بھی ہوں بیضوی انداز سے چکر لگاتے ہیں۔ اسی طرح تیسری مثال میں یہ بات کہی گئی کہ تمام انسانوں کے تمام اعمال کی بنیاد خود غرضانہ سوچ پر مبنی ہوتی ہے چاہے وہ انسان حضرت آدم علیہ السلام  کے دور کا ہو یا آج کا۔ چناں چہ ایسے بیانات جن میں کسی شے کے بارے میں آفاقی [universal]نوعیت کا دعویٰ کیا جائے یا حکم لگایا جائے universal proposition] [کہلاتے ہیں۔ سائنس کے استقرائی نظریے کے مطابق ایسے ہی آفاقی دعوے یا نظریات درحقیقت سائنسی نظریات ہوتے ہیں اور ان نظریات کی بنیاد وہ خاص قضیے ہوتے ہیں جو مشاہدے سے حاصل ہوتے ہیں۔
جزوی نتائج سے کلی نتائج کا استخراج کیوں؟
مسئلہ: اس مقام پر ایک شبہ ذہن میں آتا ہے۔ اگر سائنسی نظریات کی بنیاد ایسے انفرادی قضیے ہوتے ہیں جو تجربے اور مشاہدے سے حاصل ہوتے ہیں تو ان انفرادی قضیوں سے آفاقی دعوے تک کا سفر کیسے طے ہوسکتا ہے؟ دوسرے لفظوں میں انفرادی نوعیت کے مشاہدوں اور تجربوں سے آفاقی نوعیت کے دعووں کی صحت کا علم کیوں کر حاصل ہوسکتا ہے۔اس بات کا جواب اس مسئلے کی مزید وضاحت کردے گا۔ استقرائی نظریہ سائنس کے علماءکے مطابق اگر درج ذیل تین شرائط پوری ہوجائیں تو جزوی نوعیت کے مشاہدات سے آفاقی نظریات تعمیر کیے جاسکتے ہیں:
[1] انفرادی نوعیت کے مشاہدات کی تعداد بہت زیادہ ہو۔
[2] مشاہدات مختلف قسم کے حالات کے تحت روبہ عمل ہوں۔
[3] کوئی بھی مشاہدہ آفاقی دعوے کے خلاف نہ ہو۔
استقرائی منطق کیا ہے؟
پہلی شرط کا مفہوم یہ ہے کہ یہ نتیجہ نکالنے کے لیے کہ تمام لوہے گرم کرنے پر پگھلنے لگتے ہیں، محض ایک یا دو مشاہدات یا تجربات کافی نہیں ہیں بلکہ کثیر تعداد میں مشاہدات کے بعد ہی یہ نتیجہ نکالنا درست ہوگا۔ اس طرح نتیجے کی صحت کا دارومدار اس بات پر بھی ہے کہ کتنے اقسام کے لوہے کو مختلف درجہ حرارت، مقامات اور مختلف اوقات میں گرم کرنے کا تجربہ کیا گیا۔ اور تیسری شرط واضح ہے یعنی اگر کوئی لوہا ایسا پایا جائے جو گرم کرنے پر نہ پگھلے تو پھر آفاقی دعویٰ درست نہیں ہوگا۔ چناں چہ انفرادی مشاہدات کو دلیل کے لیے بطور مقدمہ [Premes] استعمال کرکے آفاقی نظریات تعمیر کرنے کے طریقے کار کا نام استقرائی منطق کہلاتا ہے اسے ہم یوں بیان کرسکتے ہیں:
”اگر کسی شے ’الف‘ کا مختلف حالات میں کثیر تعداد میں مشاہد ہ کیا جائے اور ہر مشاہدے میں شے الف کسی وصف ’ب‘ سے متصف ہو تو یہ نتیجہ نکالنا درست ہوگا کہ تمام ’الف‘ صفت ’ب‘ سے متصف ہیں دوسرے لفظوں میں تمام ’الف‘ پر صفت ’ب‘ کا حکم لگانا عقلاً درست ہے“۔
استخراجی منطق اور پیشن گوئی:
سائنسی نظریات کا ایک بڑا مقصد نظر آنے والے حوادث و واقعات کی تشریح اور وضاحت کرنا ہوتا ہے۔ جبکہ دوسرا مقصد آنے والے واقعات کی پیشن گوئی کرنا، یعنی اگر ہم یہ جان لیں کہ ایک انسان کے عمل کی بنیاد خود غرضی ہوتی ہے تو ہم یہ بتانے کے قابل ہوسکتے ہیں کہ کسی پیش آنے والے واقعے میں وہ کیا طرزِ عمل اختیار کرے گا۔ اسی طرح اگر ہم یہ معلوم کرلیں کہ گرم کرنے سے لوہا پگھل جاتا ہے۔ تو ہم یہ بتاسکتے ہیں کہ اگر کسی آنے والے وقت میں کوئی شخص لوہے کو آگ میں ڈالے گا تو وہ پگھل جائے گا آفاقی نوعیت کے سائنسی نظریات کو بنیاد بنا کر واقعات و حوادثات کی وضاحت و پیشن گوئی کرنے کے لیے استخراجی منطق کی مد دلی جاتی ہے۔
استخراجی منطق کی وضاحت ہم ذیل کی مثال سے کرتے ہیں:
[1] ہر انسان فانی ہے۔
[2] زید انسان ہے۔
نتیجہ: زید فانی ہے۔
اس مثال میں اگر پہلی اور دوسری بات درست ہو تو نتیجہ بھی درست ہوگا۔ چوں کہ ہمارا مقصد منطق سمجھانا نہیں ہے لہٰذا ہم وہ تمام شرائط یہاں نقل نہیں کرسکتے کہ جن میں استخراجی منطق کی مدد سے درست نتیجہ حاصل کیا جاسکتا ہے البتہ ہم مزید وضاحت کے لیے دو باتوں کی طرف توجہ دلانا ضروری سمجھتے ہیں۔ ذیل کی مثال پر غور کریں:
[1] اکثر انسان خود غرض ہیں۔
[2] زید ایک انسان ہے۔
نتیجہ: زیدلازماً خود غرض ہے۔
معمولی تامل سے اس نتیجے کا عقلاً باطل ہونا ظاہر ہے یعنی اکثر انسانوں کی خود غرضی سے زید کا خود غرض ہونا لازم نہیں آتا۔ اس مثال سے یہ بات واضح ہوئی کہ مقدمات کی صحت سے نتیجہ کی صحت کا علم حاصل ہونا لازم نہیں آتا۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ پہلی مثال میں اگر دونوں مقدمات درست ہوں اور ہم نتیجے کا انکار کریں تو اس سے لازماً مقدمات اور نتیجے میں تضاد لازم آئے گا۔ جبکہ دوسری مثال میں ایسا نہیں ہے یعنی یہ بات مان لینے کے بعدکہ اکثر انسان خود غرض ہیں اور زید انسان ہے اگر ہم یہ کہیں کہ زید خود غرض نہیں ہے تو کسی قسم کا تضاد نہیں ہوا۔ جبکہ یہ بات مان لینے کے بعد کہ تمام انسان فانی ہیں اور زید انسان ہے اگر ہم اس بات کا انکار کریں کہ زید فانی ہے تو عقلاً تضاد لازم آئے گا کیوں کہ اگر زید فانی نہیں ہے تو یاوہ انسان نہیں یا پھر تمام انسان فانی نہیں۔
استخراجی منطق حقیقت کے ادراک کا ذریعہ نہیں:
دوسری اہم بات یہ ہے کہ استخراجی منطق میں بطور مقدمات استعمال ہونے والے دعووں کی صحت اور درستگی کا علم خود استخراجی منطق کی مدد سے نہیں حاصل کیا جاسکتا۔ اس بات کو ہم ایک آسان مثال سے بیان کرتے ہیں:
[1] ہرمرغی کی تین ٹانگیں ہوتی ہیں۔
[2] میرا قلم ایک مرغی ہے۔
نتیجہ: میرے قلم کی تین ٹانگیں ہیں۔
یہ نتیجہ استخراجی منطق کی رو سے درست ہے البتہ حقیقت واقعہ نہیں۔چناں چہ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ گو کہ عقلاً ان مقدمات سے یہ نتیجہ نکالنا درست ہے البتہ حقیقت واقعہ کے خلاف ہے۔ استخراجی منطق ہمیں یہ تو بتاسکتی ہے کہ اگر ہمارے مقدمات درست ہوں تو کن حالات میں کیا نتیجہ نکالنا عقلاً درست ہے البتہ وہ یہ بتانے سے قاصر ہے کہ مقدمات صحیح ہیں یا غلط ۔ مقدمات کی صحت کا تعلق مشاہدے، تجربے یا کسی اور ذریعہ علم سے ہوتا ہے نہ کہ استخراجی منطق سے۔ استخراجی منطق ہمیں یہ بتانے سے قاصر ہے کہ آیا مرغی کی کتنی ٹانگیں ہوتی ہیں اور میرا قلم مرغی ہے یا نہیں۔چناں چہ استقرائی نظریہ سائنس کے مطابق حقیقت کے ادراک کا ذریعہ منطق نہیں بلکہ تجربہ اور مشاہدہ ہے جو در حقیقت بنیاد بنتا ہے سائنسی نظریات کی جن کی مدد سے واقعات وحوادثات کی وضاحت اور پیشن گوئی کی جاتی ہے۔ ذیل کی شکل میں استقرائی نظریہ سائنس کی وضاحت دیکھی جاسکتی ہے۔
استقرائی نظریہ علم میں پائی جانے والی بظاہر خوبی اس کا یہ دعویٰ ہے کہ حواس خمسہ پر مبنی تجربات اور مشاہدات اور استخراجی منطق دونوں ہی معروضی نوعیت کی اشیاءمیں یعنی دونوں میں سے کسی کا تعلق بھی انسان کی خواہشات ، امیدوں ، ذاتی رائے یا رحجانات سے نہیں۔ اس لیے اس طریقہ علم سے حاصل ہونے والے نظریات ہی اصل علم ہیں جبکہ باقی سب خرافات اور تواہمات ہیں۔ البتہ اس دعوت کی صحت اس مفروضے پر مبنی ہے کہ مشاہدات اور استقرائی عمل دونوں ہی معروضی [Objective]نوعیت کی اشیاءہیں ۔ ذیل میں ہم ان دونوں پر تفصیلاً گفتگو کریں گے لیکن اس سے قبل استقرائی نظریہ سائنس کی ایک بنیادی کمزوری کی وضاحت ضروری ہے۔
مسئلہ استقرائیت[Problem of Induction]:
استقرائی طریقے کی کم زوری:
اگر سائنس تجربات و مشاہدات کی بنیاد پر آفاقی نظریے قائم کرنے کا نام ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے ہے کہ کیا ایسے نظریات منطقی اعتبار سے درست ہوتے ہیں؟ ہم اوپر دیکھ آئے ہیں کہ استقرائی علمائے سائنس کے مطابق اگر کثیر تعداد میں تجربات جمع کردیے جائیں تو آفاقی نظریات کی تعمیر کرنا منطقی اعتبار سے درست ہوگا۔ مگر ذرا سے غور سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ منطق درست نہیں۔ مثلاً اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ تمام کوے کالے ہیں اور اس کی دلیل یہ پیش کرے کہ اس نے کثیر تعداد میں مختلف اوقات اور مقامات پر صرف کا لے ہی کو وں کا مشاہدہ کیا ہے تو اس دلیل کا ضعف عین واضح ہے۔ اس شخص کے پاس ایسی کونسی منطقی دلیل ہے جس سے یہ ثابت کیا جاسکتا ہو کہ اگلاکوا جس کا مشاہدہ کیا جائے گا وہ کالا نہیں ہوسکتا؟ کیا ہزاروں بلکہ لاکھوں کالے کووں کے مشاہدے سے یہ لازم آجائے گا کہ کوئی کوا بھی کالے رنگ کے سوا کہیں نہیں پایا جاتا؟ نہیں اور ہر گز نہیں اور بالفرض کوئی شخص کوے کے مشاہدہ کرنے کو اپنی زندگی کا مقصد بنالے اور دنیا بھر کی سیر کرکے کروڑوں کالے کووں کا مشاہدہ کرلے، لیکن سوال یہ ہے کہ اسے اس بات کا علم کس ذریعے سے ہوسکتا ہے کہ اُس نے تمام کووں کا مشاہدہ کرلیا ہے؟ اس سے یہ بات ظاہر ہوئی کہ تجربات و مشاہدات، چاہے کتنی ہی کثیر تعداد میں جمع کرلیے جائیں، کسی آفاقی نظریے کی منطقی صحت ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں ہوسکتے۔
اگر استقرائی نظریات کو منطقی طور پر ثابت نہیں کیا جاسکتا تو پھر کیا کیا جائے؟ استقرائی علمائے سائنس ایک اور طریقے سے اپنے دعوے کا ثبوت پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ استقرائی طریقہ علم سے حاصل ہونے والے نظریات ماضی میں ایک کثیر تعداد میں کامیابی سے ہم کنار ہوچکے ہیں، لہٰذا ہم یہ بات قریب قریب یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ صحیح ہے، مثلاً ہم نے کئی مرتبہ اپنی روز مرہ زندگی میں اس بات کا مشاہدہ کیا ہے کہ جب کسی شے کو ہوا میں چھوڑا جائے تو وہ زمین کی طرف گرتی ہے، لہٰذا اس سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ چیزیں ہمیشہ زمین کی طرف گرتی ہیں۔لیکن یہ دلیل ایک داخلی تضاد لیے ہوئے ہے وہ ایسے کہ اس میں استقرائیت کو ثابت کرنے کے لیے استقرائی منطق سے مدد لی گئی ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے ذرا اس دلیل کی ساخت پر غور کریں۔
1] استقرائی طریقہ علم مثال ’الف‘ میں کامیابی سے ہمکنار ہوا۔
2] استقرائی طریقہ علم مثال ’ب‘ میں کامیابی سے ہمکنار ہوا۔
نتیجہ: استقرائی طریقہ علم ہمیشہ کامیابی سے ہمکنار ہوگا۔
یہ ایک کھلا ہوا تضاد ہے۔ استقرائی طریقہ علم کی صحت ثابت کرنے کے لیے استقرائی منطق استعمال کرنا لا یعنی بات ہے۔ یہ ایسا ہے کہ جیسے کوئی یہ کہے کہ میں سچ کہہ رہا ہوں اور اس کی دلیل یہ ہے کہ میں کہہ رہا ہوں۔ چناں چہ استقرائی علمائے سائنس 17 ویں صدی سے لے کر آج تک اس مشکل کا کوئی حل پیش نہیں کرسکے۔ استقرائی منطق کی صحت منطقی اعتبار سے ثابت نہ کرسکنے کو Problem of Induction [مسئلہ استقرائیت] کہتے ہیں۔
اسی ضمن میں ایک اور اہم بات یہ بھی ہے کہ کثیر، تعداد سے مراد کیاہے۔یعنی جب یہ کہا جاتا ہے کہ کثیر مشاہدات کی بنیاد پر آفاقی نظریہ قائم کیا جاسکتا ہے تو کثیر سے مراد کتنے مشاہدات ہوتے ہیں: سو ،ہزار یا لاکھ؟ ہماری عام زندگیوں میں کئی مثالیں ایسی ہوتی ہیں جن میں کوئی آفاقی نوعیت کا نظریہ محض چند مشاہدات پر مبنی ہوتا ہے مثال کے طور پر ایٹم بم کی تباہی کا نظریہ صرف ایک مشاہدے کی بنیاد پر قائم ہے۔ کیا یہ بھی سائنسی نظریہ ہے؟ آخر کتنی تعداد میں مشاہدات اور تجربات کثیر کہلانے کے لائق ہیں؟
استقرائیت کی مزید کمزوریاں:ہر مشاہدہ ایک نظریے کا محتاج ہے:
اوپر ہم ذکر کر آئے ہیں کہ استقرائی نظریہ سائنس کی بظاہر چمک دمک مشاہدے کی معروضیت کے مفروضے پر قائم ہے۔اب ہم اس مفروضے پر کچھ کلام کرتے ہیں۔ استقرائی علماءسائنس کے مطابق سائنس کا آغاز تجربہ یا مشاہدہ ہے اور یہ مشاہدہ در حقیقت ایک ایسی معروضی بنیاد فراہم کرتاہے جس پر آفاقی نظریات قائم کیے جاسکتے ہیں۔ لیکن یہ دونوں ہی دعوے غلط ہیں۔ در حقیقت ہر مشاہدہ ایک نظریے کا محتاج ہوتاہے لہٰذا نظریہ یا مفروضہ یا عقیدہ پہلے آتا ہے جس کی بنیاد پر مشاہد ہ کیا جاتاہے اور اس کی تین وجوہات ہیں:
1۔ مشاہدات صرف حواس خمسہ کا نتیجہ نہیں ہوتے بلکہ ان کا تعلق مشاہدہ کرنے والے شخص کی امیدوں اور پہلے سے حاصل شدہ علم سے بھی ہوتا ہے کئی مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ دو لوگ ایک ہی شے کو دو مختلف زاویوں سے دیکھتے ہیں حالاں کہ وہ ایک ہی شے ہوتی ہے [نفسیات دانوں نے اس کی بہت سی مثالیں دی ہیں ہم یہاں اُس تمام عمل کا احاطہ نہیں کرسکتے جو مشاہدے کے دوران وقوع پذیر ہوتا ہے] چناں چہ اگر آپ ایک ایسے شخص کے سامنے آم رکھ دیں جس نے زندگی میں کبھی بھی آم کا مشاہدہ نہ کیا ہو تو وہ یہ نہیں بتاسکتا کہ اس نے کس شے کا مشاہدہ کیا ہے ۔
مشاہدہ کے نتائج علم کا تناظر بدلنے سے بدل جاتے ہیں :
حو اس خمسہ، مثلاً آنکھ، سے مشاہدہ کی جانے والی شے کا عکس ہماری آنکھ کے پردے پر بنتا ہے لیکن اس عکس کی صفات اور حقیقت تک رسائی حواس سے نہیں بلکہ انسانی دماغ سے ہوتی ہے۔ چناں چہ اس شے کی حقیقت اور صفات تک رسائی اس علم کے بغیر ممکن نہیں جو پہلے سے حاصل شدہ ہو اس کی مثال یوں سمجھیں کہ اگر آپ کسی شخص کا ایکس رے [X-Ray]کسی ان پڑھ شخص کو پکڑا دیں تو وہ یہی کہے گا کہ یہ بے معنی تصویر ہے اور محض ایک کالے رنگ کا صفحہ ہے جبکہ ایک ڈاکٹر اسی ایکسرے کو دیکھ کر طر ح طرح کی باتیں بتانے لگتا ہے۔ یہ فرق کس لیے ہوا؟ لہٰذا یہ کہنا کہ سائنس کا آغاز مشاہدے سے ہوتا ہے ایک غلط بات ہے حقیقت یہ ہے کہ ایک ہی شے کا مشاہدہ معاشرتی ، ثقافتی تناظر اور پہلے سے حاصل کردہ علم کے بدلنے سے بدل جاتا ہے جیسے پاکستانی معاشرے میں کسی عریاں لباس کی عورت کے مشاہدے سے ایک مسلمان شخص میں بے حیائی کا تصور آتا ہے جبکہ ایک یورپی یا امریکی کے ذہن میں آزادی کا۔
ہرمشاہدہ کی ایک خاص زبان اور خاص علم ہوتاہے
مشاہدات کے لئے تیقنات، ایمانیات لازمی ہیں:
2۔ ہر مشاہدہ درحقیقت ایک زبان میں بیان کیا جاتا ہے اور ہر زبان در حقیقت خاص قسم کے نظریات ہی کو بیان کرتی ہے، چاہے وہ نظریات کتنے ہی معمولی نوعیت کے ہوں ۔مثال کے طور پر اگر ہم یہ بات کہیں کہ” دیکھو بھائی، بریک لگاؤ، سامنے دیوار ہے گاڑی ٹکرا جائے گی“،تو گو کہ بظاہر یہ ایک سادہ بات ہے مگر اس کا مفہوم سمجھنے کے لیے کئی باتیں فرض کرنا لازم ہیں
 [الف] کوئی شے بریک ہے
 [ب] جس کے ذریعے رفتار کم کی جاسکتی ہے۔
 [ج] کوئی رگڑ کا قانون بھی ہے جس کے تحت یہ بریک کام کرتی ہے ۔
[د] سامنے جو نظر آرہا ہے وہ دیوار ہے جو ایک ٹھوس شے ہے۔
[ہ] اور یہ کہ اس سے ٹکرانے کی صورت میں نقصان ہوسکتا ہے۔ ایسے ہی اگر کوئی شخص کسی سے کہے کہ دیکھو بھائی ہوا چل رہی ہے بچے کا جھولا کہیں گر ہی نہ جائے تو در حقیقت وہ اس بات کو مانتا ہے کہ
 [الف] ہوا کوئی شے ہے
 [ب] جس میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ اپنے راستے میں آنے والی شے کو ہلا سکتی ہے
[ج] اور بچے کا جھولا گرنے سے بچے کو نقصان ہوسکتاہے۔چناں چہ ہر مشاہدہ کسی نہ کسی زبان میں ادا کیا جائے گااور ہر زبان چند نظریات کا احاطہ کیے ہوئے ہوتی ہے اُن نظریات کو مانے بغیر کبھی بھی کوئی مشاہدہ بیان نہیں کیا جاسکتا۔ اس بات کی مزید وضاحت کے لیے اس بات پر غور کریں کہ کسی بھی لفظ میں پائے جانے والے معنی اور مفہوم تک رسائی کیسے حاصل ہوتی ہے۔

سائنسی تجربات معروضی نہیں ہوتے ان کا تعلق نظریے سے ہوتاہے:
اس کا ایک جواب یہ ہوسکتا ہے کہ ڈکشنری ، یعنی ہم ڈکشنری دیکھ کر اس کا معنی جانتے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ڈکشنری لکھنے کے لیے کچھ الفاظ کے معنیٰ پہلے سے معلوم ہو نا چاہیے کہ جن کی مدد سے دوسرے الفاظ کی تعریف کی جائے گی۔ اس صورت میں سوال یہ پیدا ہو گا کہ پھر ان الفاظ کے معنیٰ کیسے معلوم ہوں گے۔ ایک دوسرا جواب [جو استقرائی علمائے سائنس رکھتے ہیں] یہ ہوسکتا ہے کہ الفاظ کے معنیٰ در اصل تجربے یا مشاہدے سے حاصل ہوتے ہیں۔ لیکن اس کا باطل ہونا تو بالکل واضح ہے اس کے لیے اس بات پر غور کریں کہ لفظ سفید کا مفہوم کیسے سمجھ میں آیا۔ استقرائی علماءاس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ چند اشیاءکے مشاہدے سے ان میں ایک ایسی شے نظر آئے گی جو سب میں پائی جاتی ہے تو اس کی بنیاد پر ہمیں سفید ی کا مفہوم سمجھ میں آئے گا۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سفیدی کا مفہوم کیسے ذہن میں آیا یعنی یہ کیسے معلوم ہوا کہ اس یکساں شے کا نام سفید ہے۔ اس بات کو ایک اور طرح سے یوں سمجھیں کہ فرض کریں کہ ایک ایسا شخص ہو جسے کسی رنگ میں کوئی تمیز نہ کرنا آتی ہو اور نہ ہی اُن کے نام معلوم ہوں اگر ایسے شخص کے سامنے چند مختلف رنگوں کی مختلف اشیاءرکھ دی جائیں اور اس سے کہا جائے کہ سفید رنگ کی اشیاءایک طرف کردو تو وہ کیا کرے گا؟ ظاہر ہے کہ چوں کہ وہ لفظ سفید کے مفہوم سے آگاہ نہیںہے تو وہ سفید رنگ کی اشیاءعلیحدہ نہیں کرسکتا۔ لیکن اگر آپ سے اس عمل کے لیے کہا جائے تو باآسانی یہ عمل کرلیں گے۔ چناں چہ آپ اپنے مشاہدے میں آنے والی مختلف الانواع اشیاءمیں سے جب صرف سفید کو علیحدہ کرتے ہیں تو در حقیقت سفیدی کا مفہوم آپ کو پہلے سے معلوم ہونا چاہیے چناں چہ یہ دعوی کا الفاظ کا مفہوم ان کے مشاہدے سے واضح ہوتا ہے ایک غلط دعوی ہے لہٰذا یہ کہنا کہ مشاہدے کا تعلق نظریات سے نہیں ہوتاایک غیر منطقی بات ہے ۔ در حقیقت ہر مشاہدہ کسی نظریے کے تحت ہی کیا جاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ استقرائی علماءکا یہ دعویٰ کہ تجربات معروضی شے ہیں اور ان کا کسی شخص کے خیالات و نظریات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ایک احمقانہ بات ہے۔
سائنسی علم کی بنیاد صرف مشاہدہ نہیں ہوسکتی:
مشاہدات کے لئے کون سے حالات ہوں؟
3۔ ایک اور اہم بات جس سے مشاہدے کا نظریے کے تحت ہونا ثابت ہوتا ہے یہ ہے کہ استقرائی علماءمشاہدات سے حاصل شدہ آفاقی نظریات کی صحت کے لیے یہ شرط لگاتے ہیں کہ مشاہدات و تجربات مختلف حالات کے تحت رونما ہونے چاہئیں [دیکھیے تین شرطوں میں سے شرط نمبر دو]۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیسے معلوم ہوگا کہ کون سے حالات کسی مشاہدے کے لیے ضروری ہیں اور کن حالات میں تبدیلی سے مشاہدے میں تبدیلی آسکتی ہے؟ مثلاً فرض کریں ایک سائنس دان اپنی لیبارٹری میں پانی بنانے کا تجربہ کررہا ہے۔اسے اس بات کا کیسے علم ہوگا کہ کن حالات کے بدل جانے سے اس کے مشاہدے اور تجربات کے نتائج بدل جائیں گے؟ کیا وہ برتن جس میں تجربہ کیا جارہا ہے اس کا رنگ یا سائز بدلنے سے نتائج بدلیں گے؟ کیا لیبارٹری کا سائز یا اس کی جغرافیائی حیثیت کی تبدیلی سے کوئی اثر پڑے گا؟کیا تجربہ کرنے والے سائنس دان کے رنگ و نسل یا اس کے نام، کپڑوں کے رنگ، جوتوں کے رنگ وغیرہ کی تبدیلی نتائج پر اثر انداز ہوسکتی ہے؟ کیا کمرے کے درجہ حرارت سے کوئی فرق پڑے گا؟ ظاہر ہے کہ ان میں سے صرف آخری بات اُس کے تجربے سے تعلق رکھتی ہے جبکہ باقی تمام سوالا ت لاتعلق ہیں۔مگر سوال یہ ہے کہ اس بات کا علم کیسے ہوگا کہ کون سے حالات مشاہدے کے نتائج کے لحاظ سے اہم ہیں جبکہ باقی غیر اہم؟ ظاہر بات ہے کہ سارے حالات کو باری باری بدل کر تجربہ دہرانا عقلاً محال اور عملاً مہمل بات ہے کیوں کہ ایسے حالات و واقعات جو ممکنہ طور پر بدلے جاسکتے ہیں ان کی فہرست تو کروڑوں بلکہ شاید غیر فانی چیزوں پر محیط ہوسکتی ہے۔ لہٰذا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک مشاہدے کے نتیجے میں کون سے حالات اہم اور کون سے غیر اہم ہیں اس کا فیصلہ کیسے ہوا؟ ظاہر سی بات ہے کہ اس کا علم کسی بھی زیر غور مشاہدے کی Theoretical Knowledge سے ہوتا ہے۔درحقیقت مشاہدات اور تجربات تو کسی طے شدہ نظریات کی صداقت جانچنے کے لیے کیے جاتے ہیں اور یہ نظریات ہی ہوتے ہیں۔ جن کی روشنی میں یہ طے کیا جاتا ہے کہ کون سے حالات کس تجربے کے لیے اہم ہیں اور کون سے غیر اہم چنانچہ اگر آپ سے کہا جائے کہ تجربہ کرو تو آپ پہلا سوال یہی پوچھیں گے کہ کس لیے؟
سائنس کی بنیاد نظریات ہے: یہ نظریہ سائنس کی موت ہے:
سائنس علم حاصل کرنے کاایک واحد عقلی طریقہ کار نہیں :
علم کی بنیادمحض تجربہ نہیں ہوسکتی:
درج بالا بحث سے یہ بات واضح ہوگئی کہ سائنسی علم کی بنیاد مشاہدہ نہیں ہوسکتی کیوں کہ مشاہدہ تو بذات ِ خود نظریے کا محتاج ہے اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ آخر اس بات کے مان لینے میں کیا مضائقہ ہے کہ سائنس کی بنیاد نظریات ہیں تو ہم کہیں گے کہ یہ سائنس کے لیے موت ہے۔ درحقیقت استقرائی علمائے سائنس اسی بات پر تو سائنس کو ایک اعلیٰ علم سمجھتے ہیں کہ چوں کہ سائنس کی بنیاد مشاہدات و تجربات ہیں اور تجربات لا محالہ معروضی [Objective] ہوتے ہیں جن کا تعلق کسی فرد یا جماعت کے نظریات یا ایمانیات سے نہیں ہوتالہٰذا سائنس ہی علم حاصل کرنے کا ایک واحد عقلی [rational] طریقہ کار ہے جو آفاقی [universal] ہے اور اس کے علاوہ جتنے طریقہ ہائے علم ہیں [بشمول وحی] وہ آفاقی طور پر عقلی نہیں ہیں۔ لہذا علم صرف وہ ہے جو سائنس کے استقرائی طریقے سے حاصل ہوتا ہے جبکہ باقی تمام طریقہ حصول علم غیر عقلی [irrational] ہیں لہٰذا توھمات،خرافات اور ماضی کی بھولی بسری کہانیاں ہیں۔ لہٰذا اس بات کا اقرار کہ سائنس نظریات سے ابتداءکرتی ہے در حقیقت اس بات کا اقرار ہے کہ سائنس کوئی اعلیٰ طریقہ حصول علم نہیں ہے بلکہ جیسے اور کہانیاں ہیں ویسے ہی غیر عقلی نظریات پر قائم کہانیوں میں سے ایک ہے۔ لیکن ہم نے تفصیلاً اس بات کو سمجھا کہ یہ دعویٰ کہ علم کی بنیاد تجربہ ہوسکتاہے ایک لغو دعویٰ ہے۔
استقرائی علمائے سائنس کی سائنسی علم کی برتری ثابت کرنے کی ناکامی کو پورا کرنے کے لیے کارل پاپر [popper] نے سائنسی علم کی ایک مختلف تو جیہہ بیان کی جسے ficationsimیاfals [تردیدیت تکذیبیت] کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ ذیل میں ہم اس نظریہ سائنسی کا جائزہ لیتے ہیں اور یہ دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کیا اس نظریے کی مدد سے سائنسی علم کی برتری دوسرے علوم پر ثابت کی جاسکتی ہے۔
سائنس کا نظریہ تردیدیت:اپنی شکست کا ازالہ
اس نظریہ سائنس کا با نی کارل پاپر [Karl Popper] ہے جسے اس نے اپنی شہرہ آفاق کتاب The logic of Scientific Discovery میں بیان کیا ہے ۔ اس نظریہ سائنس کے مطابق سائنس کا آغاز مفروضات پر مبنی نظریات ہوتے ہیں جن کا مقصد ہونے والے واقعات و حوادثا ت کی وضاحت اور پیشن گوئی کرنا ہوتا ہے۔ اس نظریے کے علماءاس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ نظریے کے بغیر مشاہدہ ممکن نہیں بلکہ مشاہدہ کسی نہ کسی نظریے کی تصدیق یا تردید کے حق میں حکم لگانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ پاپر نے جو بنیادی بات کہی وہ یہ تھی کہ منطقی اعتبار سے کسی مفروضے کو غلط تو ثابت کیا جاسکتا ہے مگر اس کی تصدیق [یعنی صحیح ثابت] کرنا ممکن نہیں۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے کہ تمام کوے کالے ہیں والی مثال پر دوبارہ غور کریں۔ چناں چہ یہ نظریہ یا مفروضہ کے تمام کوے کالے ہیں ہزاروں بلکہ لاکھوں کووں کے مشاہدے سے بھی صحیح ثابت نہیں کیا جاسکتا لیکن صرف ایک ہی مشاہدے کے ذریعے غلط ثابت کیا جاسکتا ہے۔ وہ ایسے کہ اگر کوئی شخص صرف ایک کوا ایسا دیکھ لے جو کالا نہیں ہے تو اس ایک مشاہدے سے یہ مفروضہ غلط ثابت ہوجائے گا کہ تمام کوے کالے ہیں۔ چناں چہ پاپر نے بتایا کہ گو کہ انفرادی نوعیت کے مشاہدات [Singular Propositions] سے کسی آفاقی نظریے کی تصدیق کرنا ممکن نہیں مگر اس کی نفی یا تردید کرنا عین ممکن ہے اور منطق کی رو سے درست ہے۔ ذیل کی شکل میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے۔
سائنسی علم کا مقصد چیزوں کو غلط ثابت کرنا ہے؟
یعنی انفرادی نوعیت کے مشاہدات پر مبنی مقدمات کی تصدیق سے آفاقی نظریے کی تصدیق لازم نہیں آتی ا لبتہ اس کی نفی سے نظریات کی نفی لازمی آتی ہے۔اس بنیادی بات کو سامنے رکھتے ہوئے پاپر نے کہا کہ سائنسی تحقیق اور علم کا مقصد چیزوں کو ثابت نہیں بلکہ غلط ثابت کرنا ہوتا ہے یعنی سائنس کا علم نفی کے اصول پر ترقی کرتا ہے۔ اس نظریے کے مطابق سائنس دان در حقیقت کسی واقعے کی وضاحت کے لیے چند نظریات قائم کرتے ہیں۔ اگر وہ نظریات تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں غلط ثابت ہوجائیں تو سائنس دان اُن نظریات کو چھوڑ کر دوسرے نظریات قائم کرلیتے ہیں۔ کوئی بھی نظریہ صرف اُسی وقت تک سائنس دانوں کے نزدیک وقعت اور اہمیت رکھتا ہے جب تک کہ وہ غلط ثابت نہ کردیا گیا ہو۔ چناں چہ اس بحث سے یہ بات واضح ہوجانی چاہیے کہ سائنسی علم صرف وہی نظریات بن سکتے ہیں جن کی مشاہدات و تجربات کی روشنی میں تردید کرنا ممکن ہو، اگر چہ وہ غلط ثابت نہ ہو ں۔ اس بات کی وضاحت کے لیے ذیل کی مثالوں پر غور کریں:
1] جمعے والے دن کبھی بارش نہیں ہوتی۔
2] ٹھوس اشیاءگرم کرنے پر پھیلتی ہیں۔
3] ٹھوس اشیاءکو جب ہوا میں چھوڑا جائے تو وہ سیدھی زمین کی طرف گرتی ہیں۔
ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ان تینوں مثالوں میں کہی جانے والی بات کو غلط ثابت کیا جاسکتا ہے۔ پہلی مثال میں کیے گئے دعوے کو کسی ایک جمعے کو ہونے والی بارش کے مشاہدے سے غلط ثابت کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح دوسری کو کسی ایسی ٹھوس چیز کے گرم کرنے کے مشاہدے سے جو گرم ہونے پر نہ پگھلے اور تیسری کسی ٹھوس چیز کو ہوا میں چھوڑنے پر نہ گرتا ہوا دیکھ کر۔ چناں چہ کسی نظریے کے غلط ثابت کیے جاسکنے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ غلط ہو بلکہ صرف یہ ہے کہ عقلاً اس دنیا میں ایسے قابل مشاہدہ واقعے کی نشاندہی کی جاسکے کہ اگر اس کا مشاہدہ ہوجائے تو نظریہ غلط ثابت ہوسکے۔ ذرا ذیل کی مثالوں پر غور کریں:
1] یا تو کل بارش ہوگی یا نہیں ہوگی۔
2] ایک دائرہ گول ہوتا ہے۔
3] انسانی اعمال درحقیقت جذبہء احساس کمتری کا مظہر ہوتے ہیں۔
4] مرنے کے بعد زندگی ہے۔
ان مثالوں سے یہ واضح ہے کہ ان میں بیان کیے گئے نظریات کو مشاہدات کی روشنی میں رد کرنا ناممکن ہے۔ مثلاً پہلی مثال کو رد کرنا ناممکن اس لیے ہے کہ چاہے موسم کیسا ہی ہو اس میں کہی گئی بات درست ہوگی۔ اسی طرح دوسری بات ہمیشہ صحیح ہوگی کیونکہ دنیا میں کوئی ایسا دائرہ نہیں ہوسکتا جو گول نہ ہو اور جو شے گول نہیں وہ دائرہ نہیں ہوگی۔ اسی طرح تیسری مثال میں بیان کردہ نظریے کا رد ممکن نہیں، کیونکہ ہر فعل کی ایسی تشریح کرنا ممکن ہے جو اس نظریے کے مطابق ہو۔ مثلاً فرض کریں کہ اگر کوئی شخص دریا کے کنارے کھڑا ہو اور وہ کسی شخص کو پانی میں ڈوبتا ہوا دیکھ کر اسے بچانے کے لیے پانی میں چھلانگ لگا دے تو اس نظریے کا حامی کہے گا کہ اس شخص نے درحقیقت اپنے جذبہ احساس کمتری کو چھپانے کے لیے چھلانگ لگا کر یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہ بہادر انسان ہے اور اگر وہ شخص دریا میں چھلانگ نہ لگائے تو اس نظریے کا حامی کہے گا کہ اس سے اس کا نظریہ ثابت ہوگیا وہ ایسے کہ درحقیقت اس انسان نے اپنے جذبہ احساس پر قابو پانے کے لیے اس عمل کے ذریعے یہ ظاہر کیا کہ اس میں اتنی ہمت ہے کہ وہ دریا کے کنارے کھڑا رہے یعنی دونوں صورتوں میں وہ اپنے جذبہ احساس کمتری کے تحت ہی عمل کر رہا تھا [عمل کی ایک صورت میں احساس کمتری کے جذبے نے اسے چھلانگ لگانے پر مجبور کر دیا جب کہ دوسری میں اس نے [اس پرقابو پالیا]۔ درحقیقت یہ نظریہ انسان کے ہر طرز عمل سے مطابقت رکھ سکتا ہے لہٰذا اسے غلط ثابت کرنا ممکن نہیں۔ اسی طرح چوتھی بات کو رد کرنا ممکن نہیں کیونکہ ایسا کوئی مشاہدہ یا تجربہ کرنا اس دنیا میں ممکن نہیں کہ جس سے یہ ثابت ہوسکے کہ مرنے کے بعد زندگی نہیں ہے۔ اس قسم کے تمام نظریات جن کو کسی بھی قسم کے مشاہدے کی تصدیق سے غلط ثابت نہ کیا جاسکے غیر سائنسی [یعنی غیر عقلی] نظریات ہیں۔ چناںچہ پاپر کے نزدیک سائنسی اور غیر سائنسی علم کا فرق اسی بات پر مبنی ہے کہ آیا اس نظریے یا بیان کو عقلاً کسی ممکنہ مشاہدے سے رد کیا جاسکتا ہے یا نہیں۔ کوئی نظریہ سائنسی بنیادوں پر علم کہلانے کا مستحق اسی وقت ہوگا جب اسے رد کرنا ممکن ہو۔

سائنسی علم غلطی اور اصلاح کے اصول پر ترقی کرتاہے:
سائنس کے اس نظریے کے مطابق سائنسی علم ”غلطی اور اصلاح“ [Trial and Error] کے اصول پر ترقی کرتا ہے۔ جس نظریے کو جتنے زیادہ مشاہدوں سے غلط ثابت کیا جاسکتا ہو وہ اتنا ہی زیادہ سائنسی علم ہونے کا استحقاق رکھتا ہے۔ سائنس دان کسی پیش آنے والے واقعات کی تشریح اور وضاحت کے لیے کچھ نظریات پیش کرتے ہیں جنھیں غلط ثابت کیا جاسکتا ہو [نہ کہ وہ غلط ہوں] ۔چنانچہ جو نظریات مزید مشاہدات اور تجربات کی روشنی میں غلط ثابت ہوجائیں وہ خارج از سائنس سمجھے جائیں گے اور جو غلط ثابت نہ ہوں وہ باقی رکھے جائیں گے جب تک کہ وہ غلط ثابت نہ ہوجائیں۔ اس طرز عمل کی خوبی یہ ہے کہ جو نظریہ بار بار کیے گئے مشاہدات اور تجربات کے بعد بھی غلط ثابت نہ ہوسکے تو اس بات کی امید کی جاسکتی ہے کہ وہی نظریہ درحقیقت حق ہے گو کہ یہ ممکن نہیں کہ ہم یہ کہہ سکیں کہ وہ نظریہ درست ہے البتہ یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ وہ غلط نہیں ہے [اور منطق کی رو سے ہم تردید تو کرسکتے ہیں البتہ تصدیق نہیں، دیکھیے اوپر کی بحث] ۔
سائنسی طریقہ علم سے کسی بیان کو صحیح ثابت نہیں کیا جاسکتا:
اس ساری بحث سے ایک اہم بات جو سامنے آئی وہ یہ کہ سائنسی طریقہ علم سے کسی بھی بیان کو صحیح ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ غلط ثابت کیا جاسکتا ہے گوکہ یہ نظریہ سائنس اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ سائنس کا آغاز نظریات سے ہوتا ہے مگر ان نظریات کی علمیت دراصل اس بات پر منحصر ہے کہ وہ حسی مشاہدات و تجربات کی کسوٹی پر پورے اترتے ہیں یا نہیں۔ اگر وہ ان پر پورے نہ اتریں تو انھیں چھوڑ کر دوسرا پھر تیسرا نظریہ اپنا لیا جائے گا، یہاں تک کہ ایک ایسا نظریہ ہاتھ آجائے جو ماضی کے تجربات اور مشاہدات کے باوجود غلط ثابت نہ ہوسکا ہو۔ چنانچہ ایسے نظریے کو ہم صحیح گمان کرتے رہیں گے یہاں تک کہ وہ غلط ثابت نہ ہوجائے تجربے کی روشنی میں لہٰذا چوں کہ آج تک کوئی ایسا تجربہ یا مشاہدہ دیکھنے میں نہیں آیا کہ جس میں کسی شے کو ہوا میں چھوڑنے سے وہ زمین پر نہ گرے [بہ شرط کہ اس پر کوئی اور قوت عمل نہ کر رہی ہو] لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ نظریہ غالباً درست ہے کہ زمین میں کوئی ایسی کشش موجود ہے جو اشیاءکو اپنی طرف کھینچتی ہے اگرچہ ہم اس کی صد فیصد تصدیق نہیں کرسکتے لیکن ہم اسے غلط ثابت بھی نہیں کرسکے۔ لہٰذا سائنس کا مقصد تصدیق نہیں بلکہ تردید کرنا ہے۔
سائنس ایمان یا خدا کی تردید نہیں کرسکتی:
درج بالا بحث سے ایک اور بات جو واضح ہوئی وہ یہ کہ مذہبی نظریات، ایمانیات و تصورات سائنسی علم کی بنیاد نہیں بن سکتے کیونکہ انھیں کسی بھی قسم کے ممکنہ تجربے سے غلط ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ مثلاً یہ عقیدہ کہ ”خدا ہے“ کسی ممکنہ حسی تجربے یا مشاہدے میں لاکر غلط ثابت نہیں کیا جاسکتا لہٰذا سائنسی نظریہ کہلانے کے لائق نہیں۔ گوکہ کارل پاپر نے اپنے تئیں استقرائی علماءکی اس ناکامی کو رفع کرنے کی کوشش کی جو انھیں سائنس کو ایک اعلیٰ طریقہ علم ثابت کرنے میں پیش آئی البتہ علمائے سائنس اپنی اس کوشش میں کہ سائنس کو ایک برتر علم ثابت کریں استقرائیت سے تردیدیت کے سفر میں اپنے ایک دعوے سے دستبردار ہوگئے اور وہ یہ کہ سائنسی علم کی بنیاد تجربہ اور مشاہدہ ہے۔ مگر پھر بھی وہ اس بات کے قائل رہے کہ سائنسی علم کو تجربے یا مشاہدے سے جانچا جاسکتا ہے۔ ذیل میں ہم اس بچے کھچے دعوے کا تنقیدی جائزہ پیش کرتے ہیں۔
نظریہ تردیدیت کی علمی کمزوریاں:
تردیدی نظریہ سائنس کے مطابق نظریات کی صحت کو تجربات کی بنیاد پر جانچا جاسکتا ہے۔ یعنی نظریات کی بقا اس بات پر منحصر ہے کہ آیا وہ مشاہدات کی کسوٹی پر پورا اترتے ہیں یا نہیں۔ لیکن اس دعوے کی بنیاد اس مفروضے پر قائم ہے کہ صحیح یا درست تجربات و مشاہدات کا حصول ممکن ہے۔ یعنی اگر درست مشاہدات حاصل ہوجائیں تو ان کی بنیاد پر نظریات کو رد کرنا ممکن ہے۔ مگر یہ مفروضہ بذاتِ خود غلط ہے۔ اس لیے کہ تجربات یا مشاہدات بذات خود نظریات کے محتاج ہوتے ہیں اور اگر ان نظریات جن کے تحت تجربات یا مشاہدات جمع کیے جا رہے ہیں کی صحت کے بارے میں یقین کے ساتھ کوئی حکم نہیں لگایا جاسکتا تو ان نظریات کے تحت حاصل ہونے والے تجربات کی صحت اور بھی زیادہ مشکوک ہوجاتی ہے۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ اگر کوئی تجربہ یا مشاہدہ کسی نظریے کے خلاف ہو تو اس سے اس نظریے کی تردید کیسے ثابت ہوگئی؟ یہ بھی تو ممکن ہے کہ تجربے یا مشاہدے میں کوئی غلطی ہو؟ سائنس میں اس قسم کی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں کہ جس میں بظاہر کسی ایسے تجربے یا مشاہدے کو جو کسی نظریے کے خلاف ہو یہ کہہ کر مسترد کر دیا گیا کہ اس تجربے میں غلطی ہے یا اس data میں مسائل ہیں۔ تجربے اور نظریے کی مخالفت کی صورت میں ہمیشہ نظریے کی تردید ثابت ہونا کوئی منطقی لازمہ نہیں بلکہ یہ بھی تو ممکن ہے کہ خود تجربہ ہی غلط ہو اور چونکہ تجربہ کسی نظریے کے تحت ہوتا ہے [جیسا کہ پہلے بتایا جاچکا ہے] اور کسی نظریے کو بغیر مشاہدے کے جانچا نہیں جاسکتا لہٰذا اس تجربے کی جانچ کرنا بطریق اولیٰ ناممکن ہوا۔ اس تفصیل سے یہ بات ثابت ہوئی کہ تجربات کی روشنی میں نظریات کی معروضی جانچ کا دعویٰ غلط ہے۔ اس بات کو ہم ایک اور طریقے سے واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
فی الحقیقت کوئی بھی سائنسی نظریہ ایک سادہ بیان [تمام کوے کالے ہیں کی طرح] نہیں ہوا کرتا بلکہ ایک پیچیدہ نظام کی مانند ہوتا ہے جس میں کئی دعوے کسی ایک مرکزی خیال کے ساتھ پیوست ہوتے ہیں۔ نیز یہ کہ جب ان نظریات کو عملی طور پر جانچا جاتا ہے تو پھر کئی مفروضات جنھیں Assumptions کہا جاتا ہے [یعنی وہ حالات جنھیں تجربے کے دوران یکساں کیفیت میں فرض کیا جاتا ہے] بھی لگاتے ہیں۔ ایسے ہی وہ تمام Variables جو نظریے کی جانچ کے لیے ضروری ہوتے ہیں ان کی ابتدائی کیفیت [Initial Values] اور مقام [Initial Position] فرض کیے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر جب کسی دور دراز سیارے کا دوربین کی مدد سے مشاہدہ کیا جاتا ہے تو اس کے لیے اس دوربین کے حوالے سے بھی تمام قوانین و شرائط کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے اسی طرح جس سیارے کا مشاہدہ کرنا ہو اس کا ابتدائی مقام رفتار وغیرہ بھی فرض کرنا ضروری ہوتا ہے۔ فرض کریں اگر کوئی سائنس داں کسی سائنسی نظریے کے تحت کسی سیارے کے مقام کا تعین کرتا ہے اور پھر دوربین کے ذریعے اس کا مشاہدہ کرتا ہے۔ فرض کریں کہ وہ سیارہ مشاہدہ کرنے پر اس مقام پر نہ نظر آئے جہاں سائنسی نظریے نے اس کی نشاندہی کی تھی تو اس سے یہ کہاں ثابت ہوا کہ وہ سائنسی نظریہ غلط ہے؟ زیادہ سے زیادہ جو بات کہی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ مفروضات اور بہت سے Variables کی ابتدائی کیفیت میں سے کوئی ایک بات غلط ہوسکتی ہے لیکن کونسی بات غلط ہے اس کا تعین تجربہ نہیں کرسکتا۔ چنانچہ سائنسی نظریات اور مشاہدے میں پائے جانے والے تضاد کے نتیجے میں نظریے کی حتمی طور پر تردید کرنا ناممکن بات ہے۔ ایسا بالکل ممکن ہے کہ مستقبل میں حاصل ہونے والے علم اور مشاہدہ کرنے کے نئے طریقے اور data کا تجزیہ کرنے کے نئے اصول وضع ہونے کے بعد زیادہ درست مشاہدات اور تجربات کرنا ممکن ہو جائے جس کے نتیجے میں مستقبل میں کیے جانے والے تجربات و مشاہدات سائنسی نظریات کے مطابق ہوجائیں۔
تجربات کی روشنی میں سائنسی نظریے کی حتمی تردید ممکن نہیں:
سائنس داں اپنے مفروضہ نظریے کو ایمانیات کا درجہ دیتے ہیں:
اس ضمن میں Lakatos نے ایک بہت عمدہ مثال بیان کی ہے ہم یہاں اس کا خلاصہ بیان کرتے ہیں۔
”ایک سائنس داں کسی سیارے کے مدار کے بارے میں نیوٹن کے نظریہء کشش ثقل کے تحت مطالعہ کرنا چاہتا ہے۔ فرض کریں کہ اس سیارے کے مشاہدہ کرنے پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ نظریے کے بتائے ہوئے مدار پر سفر نہیں کر رہا۔ کیا وہ اس سے یہ نتیجہ نکالے گا کہ نیوٹن کا نظریہ کشش ثقل غلط ہے؟ ہرگز نہیں بلکہ وہ یہ کہے گا اس سیارے کے نزدیک اب کوئی نامعلوم سیارہ موجود ہوگا جس کی کشش کی وجہ سے زیر مطالعہ سیارہ اپنے مدار سے ہٹ کر سفر کر رہا ہے۔ چنانچہ وہ اس نامعلوم سیارے کے وزن، حجم اور مدار کے بارے میں حساب و تخمینہ لگاتا ہے اور پھر اپنے ساتھی سائنس دانوں کو اس نامعلوم سیارے کے مشاہدہ کا کام سپرد کرتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ نامعلوم سیارہ اتنا چھوٹا ہو کہ اب تک کی طاقتور ترین دوربین کی مدد سے بھی نہ دیکھا جاسکتا ہو۔ لہٰذا وہ سائنس دان حکومت سے ریسرچ کی مد میں فنڈ مانگتے ہیں تاکہ ایک بڑی اور طاقتور دوربین تیارکی جاسکے۔ لگ بھگ تین برس کے عرصے میں ایک نئی دوربین تیار کرلی جاتی ہے۔ اگر تو اس دوربین کی مدد سے وہ نامعلوم سیارہ نظر آجائے تو سائنس دان خوشیاں منائیں گے کہ نیوٹن کے نظریے کی ایک بار پھر تصدیق ہوگئی۔ فرض کریں وہ نامعلوم سیارہ دوربین میں دکھائی نہیں دیتا ۔کیا سائنس دان اسے نیوٹن کے نظریے کی شکست تسلیم کرلیں گے؟ نہیں بلکہ وہ کہیں گے کہ دراصل ایک فضائی بادل [Cloud of Cosmic Dust] نے اس نامعلوم سیارے کو ڈھانپ رکھا ہے جس کی وجہ سے وہ سیارہ ہمیں نظر نہیں آیا۔ چنانچہ سائنس دان مزید ریسرچ فنڈ مانگتے ہیں تاکہ ایک خلائی شٹل بادل کے مشاہدے کے لیے بھیجی جاسکے۔ اگر خلائی شٹل کسی ایسے بادل کی نشاندہی کر دے تو اسے نیوٹن کے نظریے کی زبردست کامیابی قرار دیا جائے گا۔ لیکن فرض کریں وہ بادل بھی نہ پایا جائے کیا اب سائنس دان نیوٹن کے نظریہء کششِ ثقل بشمول اپنے خیالات کہ ایک نامعلوم سیارہ ہے یا یہ کہ ایک فضائی بادل ہے کی تردید کر دیں گے؟ نہیں بلکہ اب وہ کہیں گے کہ کائنات کے اس حصے میں کوئی مقناطیسی قوت [Magnatic Field] ہے جس نے سٹیلائٹ کے آلات کو صحیح کام نہیں کرنے دیا ہوگا جس کی وجہ سے وہ بادل دریافت نہ ہوسکا۔ چنانچہ ایک نئی قسم کی خلائی شٹل تیار کر کے فضا میں بھیجی جاتی ہے۔ اگر وہ مقناطیسی قوت وہاں مل جائے تو نیوٹن کے مداح سائنس دانوں کی خوشی کی انتہا نہ ہوگی۔ لیکن فرض کریں ایسا نہ ہوسکے۔ کیا اب وہ نیوٹن کے نظریے کی شکست تسلیم کرلیں گے؟ نہیں بلکہ وہ ایک نیا اضافی مفروضہ تراشیں گے........ یہاں تک کہ یہ سالوں پر محیط کہانی تحقیقی رسالوں کی اقساط میں دب کر گم ہوجاتی ہے اور پھر کبھی بیان نہیں کی جاتی“۔ اس مثال کے بیان سے مقصود یہ بتانا ہے کہ تجربات کی روشنی میں کسی سائنسی نظریے کی حتمی تردید کا دعویٰ ایک غلط دعویٰ ہے۔
سائنس تردیدیت کے اصول پر ترقی نہیں کرتی:
ایک اور وجہ جس کی بناءپر سائنس کا نظریہ تردیدیت سائنس دانوں کے نزدیک درست نہیں وہ اس کی سائنسی نظریات کی تاریخ سے عدم مطابقت ہے۔ علماءسائنس کے مطابق اگر سائنسی علم کا معیار تردید یت ہوتا تو وہ سائنسی نظریات جنھیں آج شہرہ آفاق حیثیت حاصل ہے وہ بھی تجربات کی روشنی میں اپنے ابتدائی مراحل ہی میں رد کیے جاچکے ہوتے۔ چنانچہ فزکس ہی میں اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں کہ اس کے کئی اہم ترین نظریات اپنے مراحل اولیٰ میں کیے جانے والے مشاہدات کے برعکس ہوتے تھے۔ لیکن کئی سالوں تک [یہاں تک کہ بعض حالات میں پچاس سالوں تک] اس نظریے کے مختلف پہلوؤں پر غور کرنے کے بعد سائنس دان نظریات اور مشاہدات میں مطابقت قائم کرنے میں کامیاب ہوجاتے۔ چنانچہ یہ کہنا کہ سائنس تردیدیت کے اصول پر عمل کرتے ہوئے آگے بڑھتی ہے سائنس کی اپنی تاریخ کے اعتبار سے بھی درست نہیں۔
سائنس عقلی طور پر کوئی اعلیٰ ترین طریقہ علم نہیں ہے:
سائنسی نظریات مذہبی ایمانیات کے درجے میں ہیں:
سائنس خود ایک مذہب ہے:
اگر یہ مان لیا جائے کہ سائنسی نظریات کی تصدیق یا تردید مشاہدات کی مدد سے نہیں کی جاسکتی [یعنی استقرائی اور تردیدی علماءسائنس دونوں کی بات غلط ہے] تو اس سے کیا نقصان لازم آتا ہے؟ ہم پہلے بھی اس بات کا ذکر کر آئے ہیں کہ اس بات کا اقرار دراصل یہ مان لینا ہے کہ سائنس عقلی طور پر کوئی اعلیٰ طریقہ علم نہیں ہے۔ سائنسی علم کی برتری کا دعوی اسی بات پر تو قائم تھا کہ سائنسی طریقہ علم سے تعمیر کیے جانے والے نظریات عقلاً ثابت کیے جاسکتے ہیں۔ یا ان کی تردید کی جاسکتی ہے ہم نے دیکھا یہ دونوں دعوے ہی بے بنیاد دعوے ہیں۔ چناں چہ سائنس کے نظریہ تردیدیت کی نفی کے بعد کوئی ایسی بنیاد باقی نہیں رہ جاتی جس کی بناءپر سائنسی نظریات کو غیر سائنسی نظریات سے ممیز کیا جاسکتا ہو۔ اس اقرار کے بعد سائنسی نظریات کی حیثیت بھی مذہبی ایمانیات کی سی رہ جاتی ہے جسے رد کرنے کا سائنس دانوں نے 17 ویں صدی میں بڑے زور و شور سے دعویٰ کیا تھا اور اپنی عقل کی بناءپر ایک ایسے آفاقی علم کی تعمیر کا دعویٰ کیا تھا جس میں ایمانیات و مفروضات کا کوئی عمل دخل نہیں ہوگا۔ صرف دو صدیوں میں سائنس دانوں کے تمام دعوے مکڑی کے جالے کی طرح بکھر گئے اور اب خود ان میں ایسے لوگ پیدا ہوگئے ہیں جو سائنسی علم کی ایک ایسی توجیہہ بیان کرتے ہیں جو نہ صرف یہ کہ سائنس کی تاریخ بلکہ اس کے طریقہ حصول علم سے زیادہ مطابقت رکھتی ہے۔ البتہ یہ ایک الگ بات ہے کہ سائنس کی اس تعبیر کے بعد سائنس کی عقلی برتری اور آفاقیت کے دعوے خاک میں مل جاتے ہیں۔ ذیل میں ہم ایسی توجیہات کی وضاحت کرتے ہیں۔
ساختی نظریہ سائنس سائنس کا نظریہ ساخت:
جدید علمائے سائنس کے مطابق سائنس کی تاریخ کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہر سائنسی علم ایک خاص قسم کی ساخت [structure] کے ماتحت آگے بڑھتا ہے نہ کہ کسی مشاہداتی سکیم کے تحت۔ اس بات کی سب سے بڑی عقلی دلیل یہ ہے کہ مشاہدات ہمیشہ ہی نظریات کے مرہون منت ہوتے ہیں [جیسا کہ تفصیلاً ذکر کیا گیا] ۔سائنس کے ساختی نظریے کی دو توجیہات پیش کی گئی ہیں، ایک lakatos کا نظریہء ریسرچ پروگرام [Research Programme] اور دوسرا Thomas Kuhnکا نظریہء پیراڈایم[Paradigm] ۔ذیل میں ہم ان دونوں میں پائی جانے والی مشترک باتوں کی تلخیص بیان کرتے ہیں تاکہ واضح ہوسکے کہ جدید علمائے سائنس کے نظریات خود ان کی اپنی سائنس کے بارے میں کیا ہیں۔
تھامس کاہن [Kuhn] کے مطابق ہر سائنسی علم کا ایک منہاج ہوتا ہے جو ایک خاص قسم کے طرز تحقیق کا نام[ Lakatosکے ہاں اس خاص طرز تحقیق کا نام ریسرچ پروگرام] ہے۔ چناں چہ ہر منہاج [یا ریسرچ پروگرام] درج ذیل چیزوں سے مرکب ہوتا ہے۔
الف] چند مابعد الطبیعاتی تصورات و معیارات جن کے تحت کچھ مفروضات کے ذریعے ایسے اصول وضع کیے جاتے ہیں جن کی مدد سے سائنسی تحقیق رو بہ عمل ہوتی ہے۔ چناں چہ کسی بھی سائنسی علم کے ماہرین دنیا کو اُنھیں خاص تصورات و اصولوں کے تحت دیکھتے اور واقعات کی تشریح اور توضیح کرتے ہیں۔
ب] اُن اصولوں کو استعمال کرنے کے لیے چند خاص قسم کے علمی و عملی طریقے بھی وضع کیے جاتے ہیں جن کی مدد سے تجربات اور مشاہدات جمع کیے جاتے ہیں تاکہ مشاہدات اورمنہاج[ پیراڈایم] کے درمیان مطابقت قائم کی جاسکے۔
ان علمائے سائنس کے مطابق یہ ایک مشکل کام ہے کہ کسی منہاج یا پیراڈایم [Lakatos کے الفاظ میں Hard core ]کو چند الفاظ میں بیان کیا جاسکے ۔چناں چہ کسی بھی سائنسی علم کے طلبا اس خاص مضمون [Specific Discipline] کو دوران تعلیم ، خاص قسم کے سوالات [standard problems]حل کرکے خاص قسم کے تجربات کرکے اور اس مضمون کے کسی ماہر کی زیر نگرانی ایک عدد تحقیقی کام کرکے اُس مضمون کی پیراڈایم یا Hard Core کو سیکھ لیتے ہیں۔ چناں چہ ایسا تحقیقی کام جو کسی مضمون کی خاص پیرا ڈایم کو استعمال کیے بغیر کیا جائے اس مضمون کے ماہرین کے ہاں قابل قبول نہیں ہوتا۔ Kuhnکے الفاظ میں ”تحقیق در حقیقت ایسی کوشش کا نام ہے جس کے ذریعے فطرت کو اُن مخصوص ڈبوں میں بند کیا جاتا ہے جو سائنس دان اپنی مخصوص تعلیم کے ذریعے حاصل کرتے ہیں“۔
[Research is a strenuous and devoted attempt to force nature into the conceptual boxes supplied by professional education, p.5]
چناں چہ سائنسی تحقیق کا مقصد واقعات و حوادثات کی ایسی تشریح اور توضیح کرنا ہوتا ہے جو اُس خاص پیراڈایم سے مطابقت رکھتی ہو۔ اسے نارمل سائنس کہا جاتا ہے۔ اگر کسی خاص مشاہدے یا تجربے کی ایسی تشریح ممکن نہ ہو سکے جو اُن اصولوں کے مطابق ہو جو کسی پیرا ڈایم سے تعلق رکھتے ہیں تو اسے اس پیراڈایم کی نہیں بلکہ اس خاص سائنس دان کی ناکامی گردانا جاتا ہے جو اس تحقیق کے عمل میں مصروف ہے۔ نارمل سائنس میں پیراڈایم پر تنقید و جرح کی اجازت نہیں ہوتی بلکہ مختلف قسم کے اضافی مفروضات اور تحقیقی طریقوں کی مدد سے پیراڈایم کو مشاھدات کے مطابق ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں Lakatose کی وہ مثال دوبارہ پڑھ لیں جو ہم نے پیچھے تفصیل سے بیان کی ہے [نیوٹن کی تھیوری والی] ۔  lakatosاس قسم کے اضافی مفروضوں کو Protective Belts کہا جاتاہے کہ جن کا مقصد پیراڈایم کو تنقید سے بچانا ہوتا ہے۔ چناں چہ ان علماءکے نزدیک ایک پختہ سائنس [Mature Science] اور خام سائنس [Pre-mature Science]میں فرق ہی اس بات کا ہوتا ہے کہ پختہ سائنس کی ایک خاص پیراڈایم ہوتی ہے جس پر تنقید نہیں کی جاتی جب کہ خام سائنس کہتے ہی ایسی سائنس کو ہیں جس میں یہ معلوم نہ ہو کہ اس کی خاص پیرا ڈایم کیا ہے اور اس مضمون کے ماہرین بنیادی باتوں میں بھی اختلاف رکھتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں جس کی وجہ سے اس سائنسی علم کی تفصیلات کے بارے میں کچھ حتمی بات معلوم نہیں ہوپاتی۔ایک پختہ سائنس کی نشانی یہ ہوتی ہے کہ اس کے ماہرین اس بات پر کامل ایمان رکھتے ہیں کہ ان کی پیراڈایم میں ہر مسئلے کا حل موجود ہے۔
البتہ اس بات کا امکان بہر حال موجود ہوتا ہے کہ کوئی ایسا تجربہ مشاہدے میں آجائے جس کی وضاحت پیراڈایم کے فراہم کردہ اصولوں کی روشنی میں ممکن نہ ہو۔ایسے بے قاعدہ مشاہدوں کو جو پیراڈایم سے مطابقت نہ رکھتے ہوںAnomalies [بے قاعدہ مشاہدات] کہتے ہیں۔ لیکن اس قسم کی بے قاعدگیاں ہر سائنس میں پائی جاتی ہیں اس لیے ان کے ہونے سے نارمل سائنس پر کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ اس قسم کے بے قاعدہ مشاہدوں کی اہمیت اس وقت بڑھ جاتی ہے کہ جب وہ مشاہدہ اس پیراڈایم کے کسی بنیادی اصول یا معیار سے ٹکراتا ہو اور سائنسدان اپنی بار بار کی کوشش کے باوجود اسے حل کرنے میں ناکام رہے ہوں یا یہ کہ وہ بے قاعدہ مشاہدہ کسی معاشرتی اہمیت کا حامل ہو جس کی وجہ سے اُس مشاہدے کی وضاحت میں نا کامی اُس پیراڈایم کے لیے باعث چیلنج بن جاتی ہے۔ یا پھر یہ کہ اس قسم کے بے قاعدہ مشاہدات ایک کثیر تعداد میں سامنے آنے لگیں۔ اس قسم کی صورت حال کسی بھی نارمل سائنس کے ماہرین میں ایک پیشہ ورانہ بے یقینی کی کیفیت اجاگر کردیتی ہے۔ مختلف ماہرین علم مسئلے کے حل کے سلسلے میں نئی نئی تجاویز پیش کرتے ہیں جو اُس پیراڈایم کے مبینہ اصولو ںکی خلاف ورزی کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ بعض اوقات ماہرین پیرا ڈایم کے مابعد الطبعیاتی نظریات پر بھی جرح و تنقید کرنے لگتے ہیں۔جب کوئی پیراڈایم اس حد تک کمزور ہو جاتا ہے کہ اس کے ماہرین اس کے بنیادی اصولوں کے بارے میں مشکوک ہوجائیں تو یہی وہ وقت ہوتاہے جسے سائنسی انقلاب[Scientific Revolution]کہتے ہیں۔
کسی نارمل سائنس کے بحران کی شدت اس بات پر بھی منحصر ہوتی ہے کہ آیا کوئی متبادل پیراڈایم سامنے ہے یا نہیں۔ عام طور پر جب کوئی نارمل سائنس بحران کا شکار ہوتی ہے تو اس کے مدمقابل کوئی دوسری پیراڈایم سامنے آتی ہے جو نہ صرف یہ کہ پچھلے تمام مشاہدات کی تشریح کرتی ہے بلکہ اُن بے قاعدے مشاہدات کی تشریح کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔البتہ وہ نئی پیراڈایم [یا ریسرچ پروگرام]پہلی کے برعکس چند اور ہی قسم کے اصولوں اور مفروضوں پر قائم ہوتی ہے۔دونوں پیراڈائمز دنیا کے مشاہدات و تجربات کی تشریح و توضیح دو مختلف زاویوں اور اصولوں کے تحت کرتی ہیں۔ دونوں پیراڈایمز میں مختلف قسم کے سوالات اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اور ہر پیراڈایم کے معیارات بالکل مختلف نوعیت کے ہوتے ہیں ۔اکثر اوقات جو سوال ایک پیراڈایم میں سب سے زیادہ بنیادی اہمیت کا حامل ہوتا ہے دوسری پیراڈایم میں اس سے کوئی سروکار نہیں ہوتا کیوں کہ کائنات اور انسان کے بارے میں اس کا تصور ہی یکسر مختلف ہوتا ہے۔ چوں کہ دونوں پیراڈایم مختلف اصولوں ، اقدار اور معیارات کی حامل ہوتی ہیں، لہٰذا اُن دو میں سے کسی ایک کو دوسرے پر فوقیت دینے کی کوئی عقلی بنیاد موجود نہیں ہوتی۔ جب پیرا ڈایم ’الف‘ کو اس کے اپنے معیارات پر جانچا جاتا ہے تو وہ پیرا ڈایم ’ب‘ سے برتر نظر آتی ہے لیکن اگر پیراڈایم ’ب‘ کے معیارات کو کسوٹی بنالیا جائے تو پھر یہ ترتیب بدل جاتی ہے۔ چوں کہ ہر پیراڈایم کے ماہرین دوسرے پیراڈایم کے بنیادی تصورات کا انکار کرتے ہیں لہٰذا وہ ایک دوسرے کے دلائل سے بھی متاثر نہیں ہوتے جو وہ اپنے اپنے اصولوں کے تحت پیش کرتے ہیں۔
ساختی نظریہ سائنس کے مطابق کسی سائنسی علم کے ماہرین جب ایک پیراڈایم کو چھوڑ کر کسی دوسری پیراڈایم کو اختیار کرتے ہیں تو اُن کے پاس اس کی کوئی ایسی عقلی اور معروضی توجیہہ نہیں ہوتی جو آفاقی ہو۔ ان کے خیالات کی اس تبدیلی کو مذہبی تبدیلی کی طرح سمجھنا چاہیے یعنی جیسے ایک مذہب پر ایمان رکھنے والا اسے چھوڑ کر دوسرے مذہب پر ایمان لے آتا ہے تو اس کے پاس کوئی ایسی توجیہہ نہیں ہوتی جسے پیش کرکے وہ اپنے ہم نوا تمام لوگوں کو دوسرے مذہب کی حقانیت کا قائل کرلے۔ درحقیقت جیسے ہر شخص کی تبدیلیء مذہب کی وجہ مختلف ہوتی ہے ایسے ہی سائنس دانوں کی ایک پیرا ڈایم سے نکل کر دوسری اختیار کرلینے کی وجوہات کثیر النوع ہوتی ہیں۔ بعض کے نزدیک کسی پیراڈایم کی سادگی [simpilicity] بعض کے نزدیک اس کی حقیقت پسندی [Realism] بعض کے خیال میں اس کی معاشرتی مسائل کے ساتھ ہم آہنگی، بعض کے ہاں اس کی خاص قسم کے مسائل حل کرسکنے کی صلاحیت وغیرہم ان کی اس تبدیلی کی وجہ تسمیہ ہوتی ہے۔ کیوں کہ کسی ایک پیراڈایم کو جانچنے کے معیارات مختلف النوع ہوسکتے ہیں[جن میں سے چند ابھی ذکر کیے گئے] لہٰذا اس بات کا فیصلہ کرنا کہ کونسا معیار کتنی اہمیت کا حامل ہے عقلاً ممکن نہیں اس لئے دو مختلف پیراڈایم کے علماءکا مکالمہ در حقیقت دلیل سے زیادہ دعوت کے اصول پرقائم ہوتا ہے۔ لہٰذا کسی بھی پیراڈایم کے ماہرین کا کثیر تعداد میں ایک پیراڈایم اختیار کرلینا کسی منطقی یا عقلی دلیل کی بنیاد پر نہیں بلکہ خاص قسم کی معاشرتی اور ثقافتی تبدیلیوں کے پس منظر میں ہی سمجھا جاسکتا ہے جو کسی خاص معاشرے میں کسی خاص پیراڈایم کے بحران کے وقت پیش آتی ہیں۔ ساختی علمائے سائنس کے نزدیک اس قسم کی نظریاتی تبدیلی جب کثیر تعداد میں رونما ہوتی ہے تو اسے scientific revolution [سائنس کی دنیا میں انقلاب] کے نام سے یاد رکھا جاتا ہے۔ اس قسم کے انقلاب کے بعد پرانے پیراڈایم کے اکثر ماہرین اس سے کنارہ کشی اختیار کرلیتے ہیں۔جبکہ چند ارباب فکر و نظر پھر بھی اُس سے چمٹے رہتے ہیں جنھیں سائنس دانوں کی فہرست سے خارج کردیا جاتا ہے یا وہ فلسفے کے شعبے میں داخلہ لے لیتے ہیں جہاں وہ آخر کار مرجاتے ہیں۔
آگے کی کہانی خود ان کی زبانی:فیرا بینڈ کا فیصلہ
مندرجہ بالا صفحات میں ہم نے سائنس کے ساختی نظریے کی بنیادی باتوں پر روشنی ڈالی ۔ ہمیں امید ہے کہ ہمارے قارئین سمجھ رہے ہوں گے کہ ہم انھیں کسی سمت میں لے جانا چاہتے ہیں اور اس ساری بحث سے کیا نتیجہ اخذ کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن بجائے اس کہ ہم اپنے الفاظ میں کچھ کہیں، ہم مغرب کے ہی علماءکی زبان میں آپ کو وہ نتیجہ بھی سناناچاہتے ہیں تاکہ کسی کو یہ وہم نہ ہو جائے کہ ہم نے یہ نتیجہ از خود نکال کر مغرب کے منہ میں ڈال دیا ہے۔ اس ضمن میں ہم بنیادی مفکر فئیر ا بینڈ [Feyerabend] کے نظریات کی تلخیص بیان کرتے ہیں۔ البتہ فئیرابینڈ کے نظریات کے فہم کے لیے مغربی فکر میں ہونے والی ایک بنیادی بحث کا تصور واضح ہونا ضروری ہے۔ اس بحث کو عقلیت [یا آفاقیت] بمقابلہ اضافیت [Rationalism vs Relativism] کے نام سے یاد رکھا جاتا ہے اسی بحث کو ایک اور انداز سے بیان کرنے کا نام جدیدیت بمقابلہ پس جدیدیت ہے۔ عقلیت پسند علمائے سائنس کا خیال ہے کہ حق کو جانچنے کا ایک ایسا آفاقی تصور موجود ہے جسے عقل کے ذریعے دریافت کیا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر استقرائی علمائے سائنس کے نزدیک حق کو جانچنے کا آفاقی معیار استقرائی طریقہ سائنس تھا جب کہ تردیدی علمائے سائنس نظریہ تردیدیت [یا تکذیبیت] کو حق تک رسائی کے لیے معیار قرار دیتے ہیں۔ اس کے برعکس جدیدعلمائے سائنس اس بات کے قائل ہیں کہ کوئی ایسا عقلی اور آفاقی معیار موجود نہیں ہے کہ جس کی بنیاد پر کسی ایسے حق کی نشاندہی کی جاسکے جو آفاقی نوعیت کا ہو۔ ان کے خیال میں حق، خیر و شر کے معیارات خاص قسم کی تہذیبی اور معاشرتی صف بندی کے نتیجے میں اخذ کیے جاتے ہیں۔ معیار حق و خیر لازماً چند ما بعد الطبعیاتی تصورات کے ہی مرہون منت ہوتے ہیں یعنی کسی قسم کی تجربیت کی مدد سے حق و خیر کا تعین ممکن نہیں ہے[ ہم نے اوپر کی بحث میں یہ دیکھا کہ تجربیت کے طریقے سے حق کا علم حاصل کرنا نا ممکن بات ہے]۔فئیر ا بینڈ کا شمار بھی اُن علمائے سائنس میں ہوتا ہے جو سائنس کے اسی دوسرے نظریے پر یقین رکھتے ہیں۔ چناں چہ ان علماءکا کہنا ہے کہ علم حاصل کرنے کے مقصد کا انحصار اصل میں اس اس شے پر ہے کہ آیا کوئی شخص یا معاشرہ تصور حق اور تصور خیر کے کس نظریے پر ایمان رکھتا ہے ۔مثال کے طور پر ایک سرمایہ دارانہ ریاست میں اس علم کو معاشرتی فوقیت حاصل ہوگی جس کے ذریعے فطرت پر قابو پایا جاسکے کیوں کہ سرمایہ دارانہ معاشرت میں خیراعلیٰ آزادی کو سمجھا جاتاہے جس کی عملی تشکیل کی واحد صورت سرمائے کی بڑھوتری ہوتی ہے جو فطرت کو قابو میں لائے بغیر ممکن الوقوع نہیں۔ مگر وہی نظریہء علم ایک ایسے معاشرے میں کہ جس میں علم کا بنیادی مقصد اور تصور خیر امن و سکون کی زندگی یا عبدیت کا فروغ ہو بالکل ثانوی حیثیت کا حامل ہوگا۔ لہٰذا علمی ترقی اور علم کا معیار مختلف معاشرتی اقدار سے طے پاتے ہیں۔
مغربی ممالک میں سائنس و تکنالوجی کی ترقی کا راز:
فیئر ا بینڈ اور اس کے فکر کے علماءاس بات کے قائل نہیں کہ جدید یا مغربی سائنس کوئی ایسا عقلی طریقہ حصول علم ہے جو دوسرے طریقہ حصول علم سے برتر و افضل ہے۔اور نہ ہی سائنسی علم کی آفاقیت اور برتری کی کوئی ایسی عقلی توجیہہ پیش کی جاسکتی ہے جو ہر معاشرے کے لیے یکساں قابل قبول ہو۔ ان علماءکے خیال میں اگر مغربی ممالک میں سائنس کی معاشرتی فوقیت کا راز سمجھنا مقصود ہوتو اس کا جواب خود سائنس کے طریقہ علم کا تجزیہ کرنے سے نہیں بلکہ مغربی معاشروں کے خیر و شر کے بنیادی تصورات کا فہم حاصل کرنے سے معلوم ہوسکے گا یعنی اس بات کو سمجھنے کے لیے کہ آیا کیوں مغربی ممالک نے سائنس اور ٹیکنالوجی کے حصول کی جدوجہد کو زندگی کا مطمع نظر بنایا ہے ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مغرب کے ہاں حق و خیر کے مابعد الطبعیاتی تصورات کیا ہیں ان کی خاص اقدار کیا ہیں اور اُن تصورات اور اقدار کو معاشرے میں نافذ کرنے کے لیے کون سے ادارے ضروری ہیں اور اُن اداروں کا اس خاص قسم کے تصورات حق کے حصول کے لیے خاص قسم کی معاشرتی صف بندی میں کیا کردار ہوتا ہے۔ چناں چہ ان سوالوں کا صحیح فہم حاصل کیے بغیر سائنس کو محض ایک غیر اقداری علم یافن سمجھنا نادانی کی بات ہے ۔اگر سائنس کا مقابلہ کسی دوسرے طریقہ علم سے کرنا ہے تو اس کے لیے ہمیں صرف اُن کے طریقہ حصول علم کا ہی نہیں بلکہ دونوں علوم کی اصل حقیقت اور مقاصد کا جائزہ بھی لینا ہوگا جس کے لیے ہمیں اس علم کے ارتقاءکا تاریخی مطالعہ کرنا ہوگا۔سائنسی علم کی تاریخی اور مغربی تہذیب میں اس کا خاص کردار سمجھے بغیر اسے کسی دوسری تہذیب کی تاریخ میں تلاش کرنا اور اسے کسی دوسرے قسم کے معاشرے میں رواج دینا ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص موٹر سائیکل میں کار کے چار پہیے اور کار جیسی سیٹ تلاش کرے۔لہٰذا کسی ایک طریقہ علم کو یہ کہہ کر رد کرنا کہ اس میں اس دوسرے طریقہء علم کے خدو خال اور اصولوں کا لحاظ نہیں رکھا گیا انتہائی احمقانہ بات ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ جب ہر طریقہ علم ایک خاص قسم کی معاشرتی اقدار کے تحت پروان چڑھتا ہے تو ان کے اصول و مبادی اور ماخذات و مقاصد میں بھی لازماً فرق ہوگا۔ کسی ایک معاشرے کے غالب طریقہ علم کو کسی دوسرے معاشرے میں غالب کرنے کی کوشش کا مطلب سوائے اس کے کوئی اور نہیں ہوتا کہ آپ دوسرے معاشرے میں انھیں ما بعد الطبعیاتی تصورات اور مقاصد زندگی کو پروان چڑھانا چاہتے ہیں جو پہلے میں رائج ہیں۔
فئیربینڈ اور اس کے ہم نوا علمائے سائنس تو مغربی ممالک میں سائنس کی ریاستی سرپرستی کے بھی سخت خلاف ہیں۔ اُن کے نزدیک ایک امریکی شخص کو مذہب کی تبدیلی کے معاملے میں تو آزادی حاصل ہے مگر اسے یہ آزادی حاصل نہیں کہ وہ اپنے بچے کے لیے اسکول میں سائنس کے بجائے کسی اور دوسرے طریقہ علم کی فریاد کرسکے [جیسے کہ مذہبی علوم، جادو وغیرہ] ۔گو کہ مغرب میں سیکولرزم اور آزادی کے نام پر مذہب اور ریاست کو الگ کردیا گیا ہے مگر ریاست اور سائنس لازم و ملزوم سمجھے جاتے ہیں یعنی وہ سرپرستی جو پہلے ریاست مذہبی علم کی تعمیر کے لیے کرتی تھی اب سائنس کے لیے کرتی ہے۔ سرپرستی کی اس نوعیت کی تبدیلی درحقیقت کسی عقلی بنیاد پر نہیں بلکہ اُن مخصوص حالات کی مرہون منت ہے جو مغرب میں سترہویں صدی میں پیش آئے جس کے نتیجے میں لوگوں کے تصورات حق، خیر و شر ، کامیابی اور ناکامی ، عدل و ظلم، علم و جہالت سب میں یکسر تبدیلی آئی اور انسانیت کے جہاز کا سفر آخروی نجات سے ہٹا کر دنیاوی عیش و عشرت، تسخیرو اصلاح قلب کے بجائے تسخیر کائنات کی منزل کی طرف موڑ دیا گیا ۔مغربی سائنس درحقیقت مقاصد کی انھیں تبدیلیوں کے باعث پیدا نے والا ایک نیا طریقہ علم تھا جوان نئے قسم کے مقاصد کی تکمیل کے لیے ضروری تھا۔

محمد زاہد صدیق مغل بشکریہ: ایقاظ 

تلاش کیجئے