2 مارچ، 2015

کارپوریٹ میڈیا

"جوہری جنگ "کے ممکنہ نتائج پر بحث میں اُلجھا آج کا انسان اصل میں"لامتناہی زندگی" کے نسخہ کی کھوج میں ہے، جبکہ ایٹمی ہتھیاروں میں آئے روز کی"جدت" نامی بے شرمی معاشرے کی" منفی سوچ" کی اس قدر واضع شبیہ ہے کہ ایک طبقہ تعداد میں مٹھی بھر ہو کر بھی سرنگوں ہو جانے والے دوسرے طبقہ کو طاقت کا برائے نام منبع ثابت کرنے کے لئے وضع کی گئی سرمایہ دارانہ نظام کی امپورٹڈ پراڈکٹ، "جمہوریت "نامی قلفی کو پگھلنے سے"بچانے" اور"مکھیاں اڑا نے" میں نا کامِ عمل "فورس" یعنی میڈیا کو ہمیشہ ایک ہی "الزامِ منافقت" کا سامنا رہتا ہے کیونکہ حقیقی معنوں میں نچلے طبقات سے تعلق رکھتے ہوئے بھی محض "ذاتی اور گروہی مفادات" میں مصنوعی قربت پا نے کے لئے انسانیت کا پرچار کرنے والوں کا سا چال چلن اپنا کر، ان کی مورتیوں سے گرد جھاڑنے اوران بتوں کے اشنان کی سعادت سے بہرہ مند ہونے کے یہ خواہش مند جدید ایٹمی ہتھیار کو ہی اصل طاقت باور کروانے کی سعی میں وقتاً فوقتاً "قبلہ" کی سمت میں نہایت بے شرمی و ڈھٹائی سے تبدیلی و ترمیم کی تاریخ رکھتے ہیں، جو کبھی "اذان روس" پر لبیک کی صدائیں بلند کرتے ہیں توکبھی امریکہ بہادر کو واشنگٹن سے وا شنگٹن "ڈیمو کریٹک" کے القابات سے نوازتے دکھائی دیئے ہیں۔۔ بس دیکھتے جائیے، یہ سب "中国 Zhōngguó" سیکھنے کے لئے عنقریب کسی "پھِینے" کے گرد منڈلاتے نظر آئیں گے۔اور اگر یہ حقیقت نہ ہوتی تو میڈیا "اب امریکہ کیوں؟" کے سوال کو اپنی بغلوں میں دبائی سیریل وائز رنگین تصویروں کے "موجود" کی شان میں گستاخی جان کر یکدم حواس باختہ ہو کر منہ سے تھوک نہ اڑانے لگتا۔ یاد رکھیئے، میڈیا کی یہ یک طرفہ پالیسی دراصل "ڈیوائڈ اینڈ رول" کی نئی جنگی حکمت عملی کا حصہ ہے۔

تلاش کیجئے