اس ملک میں حقیقی اور سنجیدہ تقسیم صرف ایک ہی ہے اور یہ دین و لادین کی تقسیم ہے۔ اہل مذہب کی تفرقہ بازی نے پہلے لوگوں کو بتدریج مولوی سے بد گماں کیا اور جب نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ پگڑیاں باندھنے قرآنی آیات پڑھنے اور جہادی ترانے گانے والوں نے آن کیمرہ یہ کہہ کر مسلمانوں کو دنبے اور گائے کی طرح ذبح کرنا شروع کردیا کہ وہ "دین" کا حکم پورا کر رہے تو لوگوں میں اس خیال نے جنم لینا شروع کردیا کہ قصور مولوی کا نہیں بلکہ دین کا ہے کیونکہ وزیرستان کے قصائی مولوی تو قرآن کی آیات پڑھ پڑھ کر بتا رہے ہیں کہ مساجد پر عین نماز جمعہ میں بم حملے کرنا اور مسلمانوں کو زمین پر لٹکا کر بسم اللہ، اللہ اکبر پڑھ کر انہیں ذبح کرنے کا حکم دین نے دیا ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے دین نامی درندے سے خود کو لگ کرنا شروع کردیا جس سے پاکستان میں الحاد کو فروغ حاصل ہوا۔ میری کل رات والی پوسٹ پر ایک ارسطو نے لکھا ہے کہ "حوثی باغیوں کی وہ ویڈیو دیکھیں جس میں وہ سنیوں کو ذبح کر رہے ہیں۔ پھر بھی شیعہ سنی بھائی بھائی ؟" اس ارسطو کے علم میں لانا چاہتا ہوں کہ بیت اللہ محسود اور حکیم اللہ محسود دیوبندی تھے اور انہوں نے جتنوں کو ذبح کیا وہ صرف سنی ہی نہیں دیوبندی بھی تھے۔
آپ غور کیجئے اس ملک کے چند مشہور مدرسوں کی چھتوں سے شیعہ جلوسوں پر پتھراؤ ہوا کرتا تھا اور اس اعلان کے ساتھ ہوا کرتا تھا کہ شیعہ کافر ہیں۔ جب جنرل مشرف کے دور میں پہلی بار سنجیدگی سے مدارس ریفامز کی بات ہوئی تو تمام مسالک کے وفاق ایک پلیٹ فارم پر "تنظیمات مدارس دینیہ" کے نام سے جمع ہوگئے تاکہ اپنے بیس بیس کنال کے مدرسے بچائے جاسکیں۔ اس تنظیم میں شیعہ وفاق کو بھی شامل کیا گیا۔ اس تنظیم کا دعویٰ ہے کہ یہ اسلام کو لاحق خطرے کے خلاف یکجا ہوئے ہیں اور اس تنظیم کے تمام اراکین اسلام کے سچے سپاہی ہیں۔ اب نہ شیعہ کافر رہا، نہ بریلوی مشرک رہا، نہ مودودی گمراہ رہا اور نہ ہی اہلحدیث وھابی رہا۔ اگر آپ دس سے بیس کنال کا مدرسہ بچانے کے لئے متحد ہو سکتے ہیں، ایک دوسرے سے اختلافات بھلا سکتے ہیں تو آپ اسلام دین کی خاطر کیوں ایک نہیں ہوسکتے ؟ میری سوچ یہ ہے کہ اگر پاکستان میں پھیلتے ارتداد کا راستہ روکنا ہے اور لوگوں کو دین سے جوڑنا ہے تو تمام اہل مذہب کو حقیقی بنیاد پر اپنے اختلافات نظر انداز کرنے ہونگے۔ اہمیت اختلافی باتوں کو نہیں بلکہ متفقہ باتوں کو دینی ہوگی۔ میں یہ نہیں کہتا کہ دیوبندی کو مولانا احمد رضا خان بریلوی رحمہ اللہ کی جو باتیں غلط لگتی ہیں انہیں درست مان لے یا بریلوی کو مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کی جو باتیں غلط دکھتی ہیں انہیں ٹھیک تسلیم کر لے بلکہ میں یہ کہتا ہوں کہ اہمیت ان باتوں کو دینا شروع کیجئے جو آپ کو ایک دوسرے کی ٹھیک اور درست لگتی ہیں اور چونکہ یہ متفقہ باتیں 99 فیصد اور اختلافی ایک فیصد ہیں لھذا عقل و خرد کے کسی پیمانے پر بھی کوئی جواز نہیں بنتا کہ آپ میں دشمنی ہو۔ میں آپ کے سامنے ایک فقہی نکتہ پیش کرتا ہوں۔ احناف کا یہ مسلک ہے کہ مسلمان رعایا اپنی حکومت کے خلاف اس وقت تک ہتھیار نہیں اٹھا سکتی جب تک حکمران کفر بواح اختیار نہ کرلے۔ کفر بواح سے مراد عیسائیت، یہودیت، مجوسیت ہندومت، سکھ اور الحاد وغیرہ جیسے صریح کفر ہیں۔ آخر امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہما اللہ جیسے جلیل القدر فقہاء نے کفر بواح جیسی شرط کیوں رکھی ؟ یہ اسی لئے رکھی کہ فی الواقع کفر یہی ہے اس کے علاوہ جتنے کفر ہیں یہ تاویلی کفر ہیں جس کے فتوے عناد میں آکر مسلمان خود مسلمان پر لگانا شروع کردیتے ہیں جن کا کوئی اعتبار نہیں۔ اگر احناف فقہاء کفر بواح کی شرط نہ لگاتے تو انصاف سے بتایے کیا آج کا دیوبندی بریلوی مسلک والے نواز شریف کے خلاف ہتھیار اٹھاتا کہ نہیں ؟ اور آج کا بریلوی کسی دیوبندی وزیر اعظم کے خلاف ہتھیار اٹھاتا کہ نہیں ؟ اور یہ دونوں ملکر آصف علی زرداری کے خلاف اعلان جنگ کرتے کہ نہیں ؟ اس لئے میرے بھائی ہاتھ جوڑ کر کہتا ہوں ان تاویلی کفریات کے چکروں سے باہر نکلو اور ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر لادینیت کا راستہ روکو جو پاکستان میں 300 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے پھیل رہی ہے۔
ہر وہ پلیٹ فارم جو دین کے نام سے کام کر رہا ہے میرا اپنا پلیٹ فارم ہے چاہے وہ دیوبندی ہے، چاہے بریلوی ہے، چاہے مودودی ہے، چاہے اہلحدیث ہے اور چاہے غامدی ہے۔ چونکہ میں کٹر دیوبندی ہوں اس لئے مجھے ان تمام مکاتب فکر سے وہ علمی اختلافات بھی ہیں جو دیوبندی مسلک کے اختلافات ہیں لیکن مجھ میں اور دوسرے دیوبندیوں میں فرق یہ ہے کہ وہ اختلافی امور کو اہمیت دیتے ہیں جبکہ میں متفقہ امور کو ترجیح دیتا ہوں اور یہ میری کوئی ذاتی سوچ نہیں بلکہ امام ابوحنیفہ، امام ابویوسف، امام محمد اور علامہ سرخسی علیھم الرحمہ کی ہی تعلیمات ہیں۔ جنہوں نے صاف صاف کہا ہے کہ اگر فتنہ پیدا ہو رہا ہو اور نقصان کا اندیشہ ہو تو قول راجح نہیں قول مرجوح اختیار کیا جائے گا۔ عامی دوستوں کے لئے قول راجح اور قول مرجوح کی سادہ تشریح یہ ہے کہ قول راجح اسے کہتے ہیں جس کے دلائل زیادہ قوی اور لاجیکل ہوں جبکہ قول مرجوح اس کا اپوزٹ ہے۔ تو گویا فقہاء یہ کہتے ہیں کہ اگر مضبوط اور لاجیکل نظر آنے والے علمی موقف کو اختیار کرنے سے معاشرے میں جھگڑے اور فساد کا خطرہ ہو تو فساد اور فتنے کو ختم کرنے کو ترجیح دی جائیگی اور قول مرجوح اختیار کرنا ہوگا۔ اگر آج کے حنفی واقعی حنفی بن جائیں تو فرقہ واریت کا فتنہ راتوں رات ختم ہو سکتا ہے۔
حقیقی تقسیم:::::::::::::::اس ملک میں حقیقی اور سنجیدہ تقسیم صرف ایک ہی ہے اور یہ دین و لادین کی تقسیم ہے۔ اہل مذہب کی...
Posted by Riayatullah Farooqui on Monday, March 30, 2015