کسی ظاہری خطرے کے بغیر "الحرمین
کی حفاظت" اور السعودیہ کے ساتھ کسی "دیرینہ دوستی" کے بہانے، "مملکت
خدادا" کی مڈل ایسٹ میں سعودی عرب اور ایران کے مابین چپقلش کے نئے میدان
یمن میں غیر معمولی اور غیر ضروری دلچسپی نے سال ڈیڑھ پہلے کے اس معاہدے کی
یاد تازہ کردی، جس کے مطابق "ہم" نے ڈیڑھ ارب امریکی ڈالرز کے عوض ناصرف
السعودیہ کی شہنشاہیت بلکہ بحرین میں اس کی اتحادی حکومت کو "باغیوں" سے
بچانے کا ٹھیکہ حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی بلکہ اس کے نصف یعنی
پچہتر ملین کی پہلی قسط وصول کرنے کے بعد، راجہ ظفرالحق کے اعتراف کے
مطابق اس وقت چار ہزار ٹروپس السعودیہ کے حوالے بھی کردئے تھے، جس میں بقول
جنرل ریٹائرڈ امجد بعد ازاں ان ہزاروں طالبان کا اضافہ بھی کردیا گیا، جو
"مذاق رات" نامی سودابازی کے بعد وہاں روانہ کئے گئے ۔۔
قارئین، تازہ
ترین "کاروباری پیش رفت" کے پس منظر میں اس سوال کی بازگشت بھی ایک بار پھر
ماحول میں گونج اٹھی ہے کہ 1947 میں ہم آزاد بھی ہوئے تھے یا ہندوستان کی
تقسیم کے نتیجے میں صرف ایک ایسی "اسٹیٹ آن رینٹ" کا قیام عمل میں لایا گیا
تھا، جس کا "مقصد حیات" اسلحے کے عالمی سوداگر کی قیادت میں دنیا کو جنگ
کا مستقل میدان بنائے رکھنے والے مغربی بلاک کیلئے، خطے میں فرنٹ لائن
مورچہ کا کردار ادا کرنے کے سوا کچھ بھی نہ تھا؟۔
ذیل میں ہم اپنی ایک پرانی تحریر "نشر مکرر" کے طور پر پیش کر رہے ہیں، امید ہے اس سے کچھ لوگوں کو اصل صورتحال کو سمجھنے میں کچھ نہ کچھ مدد ضرور ملے گی ۔۔ ....................................................
وجہ اس ’’ادھوری آزادی‘‘ کی اس کے سوا کیا ہوسکتی ہے کہ انگریز بہادر کی طرف سے سکھائی گئی ’’سیاست‘‘ نے ہمیں اس خوش فہمی میں مبتلا رکھا کہ بھلے دنیا بھر کی قومیں سامراج کی غلامی سے چھٹکارہ پانے کیلئے متحد اورمنظم اجتماعی طاقت کو واحد وسیلہ جان کر کسی ایسی تنطیم سازی کا راستہ اختیار کرنے کی عادی رہی ہوں جو ڈسپلن پیدا کرنے والے کسی تربیتی نظام پر ’’باقاعدہ عمل ‘‘سے گذرتا ہو، لیکن ہمارا گوری چمڑی والا ’’مہذب‘‘ آقا جب صرف قراردادوں اور ووٹوں کے مظاہرے پر ہی ’’آزادی‘‘ کی نعمت ہماری جھولی میں ڈال کر ’ازخود‘ ہماری جان چھوڑ رہا ہے تو ہمیں مصیبت مول لینے کی کیا ضرورت ہے، چلو آؤ ’’کھوٹے سکوں‘‘ سے ہی کام چلا لیتے ہیں۔۔ اسی لئے ہم نے اقوام کے عروج و زوال کے فطری قوانین کے منفرد شارح علامہ عنات اللہ المشرقی کے اس بروقت انتباہ پر کان دھرنے کی ضرورت محسوس نہ کی کہ ’’برصغیر کی تقسیم کا فیصلہ غاصب انگریز سے کروانا سنجیدہ نوعیت کے نئے تنازعات کو دعوت دینے کے مترادف ہے. لہٰذا مکمل آزادی کیلئے لازم ہے کہ ہندو اور مسلمان متحد ہو کر پہلے سونے کی چڑیا کے پر نوچنے والے سامراج کو نکال باہر کریں اور آپس کے اختلافات بعدازاں باہم بیٹھ کر طے کرلیں‘‘۔
ذیل میں ہم اپنی ایک پرانی تحریر "نشر مکرر" کے طور پر پیش کر رہے ہیں، امید ہے اس سے کچھ لوگوں کو اصل صورتحال کو سمجھنے میں کچھ نہ کچھ مدد ضرور ملے گی ۔۔ ....................................................
وجہ اس ’’ادھوری آزادی‘‘ کی اس کے سوا کیا ہوسکتی ہے کہ انگریز بہادر کی طرف سے سکھائی گئی ’’سیاست‘‘ نے ہمیں اس خوش فہمی میں مبتلا رکھا کہ بھلے دنیا بھر کی قومیں سامراج کی غلامی سے چھٹکارہ پانے کیلئے متحد اورمنظم اجتماعی طاقت کو واحد وسیلہ جان کر کسی ایسی تنطیم سازی کا راستہ اختیار کرنے کی عادی رہی ہوں جو ڈسپلن پیدا کرنے والے کسی تربیتی نظام پر ’’باقاعدہ عمل ‘‘سے گذرتا ہو، لیکن ہمارا گوری چمڑی والا ’’مہذب‘‘ آقا جب صرف قراردادوں اور ووٹوں کے مظاہرے پر ہی ’’آزادی‘‘ کی نعمت ہماری جھولی میں ڈال کر ’ازخود‘ ہماری جان چھوڑ رہا ہے تو ہمیں مصیبت مول لینے کی کیا ضرورت ہے، چلو آؤ ’’کھوٹے سکوں‘‘ سے ہی کام چلا لیتے ہیں۔۔ اسی لئے ہم نے اقوام کے عروج و زوال کے فطری قوانین کے منفرد شارح علامہ عنات اللہ المشرقی کے اس بروقت انتباہ پر کان دھرنے کی ضرورت محسوس نہ کی کہ ’’برصغیر کی تقسیم کا فیصلہ غاصب انگریز سے کروانا سنجیدہ نوعیت کے نئے تنازعات کو دعوت دینے کے مترادف ہے. لہٰذا مکمل آزادی کیلئے لازم ہے کہ ہندو اور مسلمان متحد ہو کر پہلے سونے کی چڑیا کے پر نوچنے والے سامراج کو نکال باہر کریں اور آپس کے اختلافات بعدازاں باہم بیٹھ کر طے کرلیں‘‘۔