قبل از تقسیم متحدہ پنجاب کے آخری چیف منسٹر سر سکندر
حیات کی صاحبزادی، سابق صوبائی وزیر سردار شوکت حیات کی ہمشیرہ اور معروف
صحافی مظہر علی خان کی اہلیہ مشہور خاتون سماجی رہنما محترمہ طاہرہ مظہر
علی خان کے گذشتہ روز انتقال کی خبر نے یاد دلایا کہ مرحومہ کے برخوردار
سابق طالب علم رہنما، حال مقیم بلکہ جلاوطن لندن، طارق علی نے اپنی
"المشہور" کتاب میں تقسیم ہند کے منصوبے پر عمل در آمد سے صرف ڈیڑھ ماہ قبل
مالابار ہلز بمبے (اب ممبئی) میں نوزائیدہ "مملکت خداداد" کی مقتدر ترین
شخصیت سے دو امریکی سفارت کاروں کی اہم ترین ملاقات کی روداد کچھ ان شرمندہ
کن الفاظ میں بیان کی ہے، جس سے بانیان پاکستان کے نزدیک نئی قائم ہونے
والی ریاست کی "غرض و غایت" بہت ہی اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے .. سنتے جائیے
اور سر دهنتے جائیے، ایمان تازہ نہ ہو جائے تو پیسے واپس ..
پہلا سوال: "کانگریسی رہنماؤں کی جانب سے نئی مملکت کے حصے میں آنے والے اثاثوں کی حوالگی سے واضح انکار کے بعد آپ کے ذہن میں اپنی ریاست کا نظام چلانے کیلئے کیا منصوبہ ہے یعنی آپ درکار ضروری وسائل کہاں سے حاصل کریں گے؟".
جواب: "آپ کو کس نے بتلا دیا کہ یہ میرا درد سر ہے؟. اس ریاست کا قیام سوویت یونین کے سر اٹھاتے الحادی طوفان کا راستہ روکنے کے مقاصد کے تحت توحید پرستوں کے مورچے کی حیثیت میں امریکہ کے فطری اتحادی کے طور پر عمل میں لایا جا رہا ہے اور ہمارے تمام تر مسائل کا حل بهی خود آپ (امریکہ بہادر) کی ہی ذمہ داری ہے"..
دوسرا سوال: "اطلاعات کے مطابق نوزائیدہ ریاست کو مسلح افواج اور گولہ بارود کا مطلوبہ کوٹہ ملنے کے امکانات بهی نہ ہونے کے برابر ہیں، اندریں حالات سرحدی غنیم بھارت کی جانب سے درپیش دفاعی نوعیت کے خدشات سے نمٹنے کیلئے آپ کے پاس کیا پلان ہے؟؟".
جواب: "جیسا کہ میں واضح کر چکا ہوں، نئی مملکت کے اقتصادی مسائل ہوں یا دفاعی ذمہ داری، یہ مجھ سے زیادہ خود یونائیٹڈ اسٹیٹس کا مسئلہ ہے کیونکہ ہم جو کچھ کرنے جارہے ہیں، اس کا تعلق خطے میں امریکی مفادات کے تحفظ سے ہے"..
قارئین گرامی، ہم نے مذکورہ ملاقات کی "رام کہانی" کو پاکستان میں "بوجوہ بین" لیکن ریاست کی طرف سے کبهی چیلنج نہ کی جانے والی اس کتاب کے مندرجات کے مفہوم کے عین مطابق نقل کیا ہے، جس کا سرکاری سطح پر جواب دینے کی ضرورت کم از کم اب تک تو محسوس نہیں کی گئی .. جہاں تک مجھے یاد ہے، مصنف نے اس "سٹوری" کو قلمبند کرتے وقت مذکورہ سفارت کاروں کی طبع شدہ ڈائری سے مکمل حوالہ جات بهی نقل کئے ہیں ..
(ضروری نوٹ؛ ہم نے صرف تاریخ کے طلباء و طالبات کی تحقیقاتی اعانت کی نیت سے "کهوٹے سکے" کا دوسرا رخ پیش کرنے کی جسارت کی ہے، راقم الحروف ورنہ محولہ مصنف کے قول و فعل کا کسی صورت ذمہ دار نہیں) ..
پہلا سوال: "کانگریسی رہنماؤں کی جانب سے نئی مملکت کے حصے میں آنے والے اثاثوں کی حوالگی سے واضح انکار کے بعد آپ کے ذہن میں اپنی ریاست کا نظام چلانے کیلئے کیا منصوبہ ہے یعنی آپ درکار ضروری وسائل کہاں سے حاصل کریں گے؟".
جواب: "آپ کو کس نے بتلا دیا کہ یہ میرا درد سر ہے؟. اس ریاست کا قیام سوویت یونین کے سر اٹھاتے الحادی طوفان کا راستہ روکنے کے مقاصد کے تحت توحید پرستوں کے مورچے کی حیثیت میں امریکہ کے فطری اتحادی کے طور پر عمل میں لایا جا رہا ہے اور ہمارے تمام تر مسائل کا حل بهی خود آپ (امریکہ بہادر) کی ہی ذمہ داری ہے"..
دوسرا سوال: "اطلاعات کے مطابق نوزائیدہ ریاست کو مسلح افواج اور گولہ بارود کا مطلوبہ کوٹہ ملنے کے امکانات بهی نہ ہونے کے برابر ہیں، اندریں حالات سرحدی غنیم بھارت کی جانب سے درپیش دفاعی نوعیت کے خدشات سے نمٹنے کیلئے آپ کے پاس کیا پلان ہے؟؟".
جواب: "جیسا کہ میں واضح کر چکا ہوں، نئی مملکت کے اقتصادی مسائل ہوں یا دفاعی ذمہ داری، یہ مجھ سے زیادہ خود یونائیٹڈ اسٹیٹس کا مسئلہ ہے کیونکہ ہم جو کچھ کرنے جارہے ہیں، اس کا تعلق خطے میں امریکی مفادات کے تحفظ سے ہے"..
قارئین گرامی، ہم نے مذکورہ ملاقات کی "رام کہانی" کو پاکستان میں "بوجوہ بین" لیکن ریاست کی طرف سے کبهی چیلنج نہ کی جانے والی اس کتاب کے مندرجات کے مفہوم کے عین مطابق نقل کیا ہے، جس کا سرکاری سطح پر جواب دینے کی ضرورت کم از کم اب تک تو محسوس نہیں کی گئی .. جہاں تک مجھے یاد ہے، مصنف نے اس "سٹوری" کو قلمبند کرتے وقت مذکورہ سفارت کاروں کی طبع شدہ ڈائری سے مکمل حوالہ جات بهی نقل کئے ہیں ..
(ضروری نوٹ؛ ہم نے صرف تاریخ کے طلباء و طالبات کی تحقیقاتی اعانت کی نیت سے "کهوٹے سکے" کا دوسرا رخ پیش کرنے کی جسارت کی ہے، راقم الحروف ورنہ محولہ مصنف کے قول و فعل کا کسی صورت ذمہ دار نہیں) ..