ہم میں سے بہت کم جانتے ہیں (آج کے نوجوان تو بالکل ہی نہیں) کہ 1940 میں آج کے دن یعنی 19 مارچ کو، جی ہاں قرارداد پاکستان کی منظوری سے ٹھیک چار روز پہلے اسی لاہور میں ایک ایسا سانحہ رونما ہوا جو برصغیر بالخصوص مسلمانان ہند کے مقدر کیلئے ایک "ٹرننگ پوائنٹ" ثابت ہوا ..
قارئین گرامی، 19 مارچ 1940 کو قرارداد پاکستان والے منٹو پارک سے چند قدم کے فاصلے پر واقع ٹبی بازار میں مسلمانوں میں "تنظیم" پیدا کر کے ان میں "مکمل آزادی" کے حصول کی اہلیت پیدا کرنے کیلئے عظیم مسلم اسکالر اور مصلح اعظم علامہ عنایت اللہ خان المشرقی کی جاری کردہ خاکسار تحریک کے دستوں پر قابض برٹش سامراج کی پولیس کی یلغار نے قیامت صغریٰ صرف آزادی ہند کے اس عظیم الشان منصوبے پر ہی نہ ڈھائی بلکہ ہندی مسلمانوں کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے نئے مغربی استعمار امریکہ بہادر کے چنگل میں پھانسنے کے اس منصوبہ کی تکمیل کی راہ بهی ہموار کردی، برطانیہ جس سے دوسری جنگ عظیم کے دوران وصول کردہ 14 ملین پونڈ روزانہ کے متواتر قرضے کے عوض برصغیر کو دائمی جنگ کا میدان بنا کر امریکی اسلحہ ساز انڈسٹری کی مستقل مارکیٹ بنانے کی کمٹمنٹ کرچکا تها ..
خواتین و حضرات، آج 68 برس بعد یہ "مملکت خداداد" دہشت گردی سمیت اقتصادی بدحالی کے جس عذاب سے دوچار ہے، کس کو شک ہے کہ اس کے پیچھے اس بدقسمت ریاست کی وہی دائمی غلامی کارفرما نہیں، جس کا آغاز دوسری عالمی جنگ کے ہاتھوں برصغیر سے دستبردار ہونے پر مجبور برطانیہ عظمیٰ کی جانب سے اپنے اس نو آبادیاتی خطے کی کنجیاں نئے عالمی سامراج امریکہ بہادر کے حوالے کرنے سے ہوا تھا.؟ جسے شبہ ہے وہ ایک بار "دولت مشترکہ" کا ایجنڈہ ضرور پڑهے، برطانیہ کی سابق کالونی کے دونوں حصے پاکستان اور بھارت جس کے اب بهی "آزاد رکن" ہیں .. یا پهر وہ کم از کم اس مشاہدے کو جھٹلانے کی دلیل کہیں سے ڈھونڈ لائے کہ آج بهی امریکہ کو اپنے ان دو "فطری اتحادیوں" سے کوئی مسئلہ درپیش آتا ہے، برطانیہ ہی بطور "ضامن" اسے آن حل کرتا ہے ..
صاحبو، بات ہم کر رہے تھے، ہندوستان کی آزادی کی دعویدار کے طور پر تیزی سے منظم ہوتی خاکسار تحریک پر 19 مارچ 1940 کو برطانوی استعمار کے اس فیصلہ کن وار کا، جس کی فوری ضرورت اسے عالمی جنگ کے ہاتھوں تیزی سے بدلتے حالات کے کارن پیش آگئی اور جس کے چوتھے روز خاکسار تحریک کی مقتل گاہ کے عین پہلو میں متبادل تحریک، متبادل نعرے اور متبادل قیادت فراہم کر کے، بالخصوص مسلمانان ہند کیلئے ان حالات کی بنیاد رکھ دی گئی، معرض وجود میں آنے والی دونوں ریاستوں کے مسلمان آج تک جن سے دوچار ہیں ..
حادثے سے بڑھ کر سانحہ یہ ہوا پیارے قارئین کہ انڈیا نے تو جلد ہی کانگریس کی غلطی کا ادراک کرکے لیلائے آزادی کی نعمت بزور بازو چهین لینے کے فطری اصول پر عمل پیرا اور انڈین نیشنل آرمی کے سرخیل سبهاش چندر بهوس کو بجا طور پر "نیتا جی" کا خطاب و اعزاز دے کر اپنی نسلوں کیلئے کم از کم تصویر کے دونوں رخ دیکھنے کا سامان فراہم کردیا جس نے انہیں حالات سنوارنے کیلئے سوچ و بچار کا ماحول مہیا کردیا، جبکہ "ہم" نے ناصرف تقسیم ہند کے منصوبے کی کامیابی کے بعد نئی مسلم ریاست کے استحکام اور ترقی کیلئے مفید طلب تجاویز دے کر مسلمانوں کے جینوئن ریفارمر ہونے کا ثبوت دینے والے علامہ المشرقی کے فارمولوں سے استفادے کا موقع ضائع کردیا بلکہ تاریخ و نصاب کی کتابوں میں اس کے تذکرے کو شجر ممنوعہ قرار دے کر ایک منصوبہ کے تحت نسل کو اس عظیم اسکالر، مصلح اور سائنسدان کے قابل قدر قیمتی علمی و فکری سرمایہ سے فیضیاب ہونے سے بهی محروم کر دیا ..