ہم نے چند ماہ پہلے پشاور میں سیکورٹی اہلکاروں کے
معصوم بچوں کے خون سے کھیلی گئی ہولی کے صدمے کے زیر اثر بڑے جوش و خروش سے
دہشت گردوں کے خلاف نیشنل ایکشن پلان نامی جس "قومی عزم" کا آغاز کیا تھا،
اس کا رخ بہت جلد غیر محسوس طریقے سے طالبان مخالف پارٹیز اور شخصیات کے
خلاف موڑ دیا گیا .. حتیٰ کہ زندہ شہید جنرل مشرف کے "قاتلوں" کو پھندے پر
جُھلانے کے بعد اب پھانسی کا سلسلہ بھی انفرادی نوعیت کی قتل و غارت کے
جرائم میں سزائے موت پانے والے قیدیوں تک محدود کر دیا گیا ہے اور وہ فوجی عدالتیں، جو گرفتار دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے قائم کی جانی تھیں، صرف کاغذات میں ہی رہ گئیں ۔۔
اسی طرح زرداری / گیلانی دور میں جس "فوجی ڈاکٹرائن" کا رُخ مشرقی سرحدوں سے موڑ کر شمال مغرب میں "ازخود" پروان چڑھائے گئے دہشت گردوں کی جانب کرنے کا اعلان کیا گیا، موجودہ "رجیم" کے انہی دہشت گردوں کے "بھرپور عملی تعاون" سے برسر اقتدار آتے ہی اسے بھی مشرق کی سمت واپس گُھما دیا گیا ہے ۔۔
اس "عسکری یو ٹرن" کا آغاز گو پی پی پی حکومت کی مدت مکمل ہوتے ہی سابق آرمی چیف جنرل کیانی کے اس "اعلان حق" کے ساتھ ہی کردیا گیا تھا کہ "ہمارا اصل دُشمن اب بھی بھارت ہی ہے"، لیکن اس کی تکمیل کا مظاہرہ گذشتہ روز واشنگٹن میں منعقدہ "جوہری تحفظ کانفرنس" سے اپنے خطاب میں ہماری نیشنل کمانڈ اتھارٹی کے رُکن رکین جنرل خالد قدوائی کی طرف سے سامنے آیا جو اس "انکشاف" کے بعد کہ "پاکستان کا میزائیل پروگرام صرف بھارت کو مدنظر رکھ کر تیار کیا گیا ہے"، بھارتی مندوب کی جانب سے مسلسل انکار کے باوجود فخریہ انداز میں یہ اصرار کرتے دکھائی دئے کہ بھارت بنا رہا ہے یا نہیں "ہمارے پاس ٹیکٹیکل جوہری ہتھیار بہرحال موجود ہیں"۔۔
امریکی اور بھارتی دفاعی اہلکاروں کی جانب سے اس انکشاف کو "پاکستان کی غیر ذمہ دارانہ حرکت" قرار دینے کے باوجود آنجناب ان جوہری ہتھیاروں کو خطے کیلئے "امن کی ضمانت" ثابت کرنے پر مصر دکھائی دئے، یہ سوچے سمجھے بغیر کہ انٹرنیشنل لیول کے ایسے فورمز پر اس طرح کے "انکشافات" بسا اوقات کسی بھی ریاست کی جانب سے "اعتراف جُرم" کی حیثیت اختیار کرجاتے ہیں جنہیں پھر مناسب موقع پر ہمارے خلاف استعمال بھی کیا جاسکتا ہے ۔۔
المختصر قارئین کرام، پندرہ برس تک پاکستان کے جوہری پروگرام کے سربراہ رہنے والے ہمارے ریٹائرڈ جنرل صاحب کی مذکورہ تقریر شروع سے آخر تک "جوہری ہتھیاروں کی دوڑ" میں پاکستان کو غیر ضروری طور پر بھارت سے بالاتر ثابت کرنے کی شعوری لیکن بچگانہ کوشش کے نادر نمونہ کے سوا کچھ نہ تھی ۔۔
اسی طرح زرداری / گیلانی دور میں جس "فوجی ڈاکٹرائن" کا رُخ مشرقی سرحدوں سے موڑ کر شمال مغرب میں "ازخود" پروان چڑھائے گئے دہشت گردوں کی جانب کرنے کا اعلان کیا گیا، موجودہ "رجیم" کے انہی دہشت گردوں کے "بھرپور عملی تعاون" سے برسر اقتدار آتے ہی اسے بھی مشرق کی سمت واپس گُھما دیا گیا ہے ۔۔
اس "عسکری یو ٹرن" کا آغاز گو پی پی پی حکومت کی مدت مکمل ہوتے ہی سابق آرمی چیف جنرل کیانی کے اس "اعلان حق" کے ساتھ ہی کردیا گیا تھا کہ "ہمارا اصل دُشمن اب بھی بھارت ہی ہے"، لیکن اس کی تکمیل کا مظاہرہ گذشتہ روز واشنگٹن میں منعقدہ "جوہری تحفظ کانفرنس" سے اپنے خطاب میں ہماری نیشنل کمانڈ اتھارٹی کے رُکن رکین جنرل خالد قدوائی کی طرف سے سامنے آیا جو اس "انکشاف" کے بعد کہ "پاکستان کا میزائیل پروگرام صرف بھارت کو مدنظر رکھ کر تیار کیا گیا ہے"، بھارتی مندوب کی جانب سے مسلسل انکار کے باوجود فخریہ انداز میں یہ اصرار کرتے دکھائی دئے کہ بھارت بنا رہا ہے یا نہیں "ہمارے پاس ٹیکٹیکل جوہری ہتھیار بہرحال موجود ہیں"۔۔
امریکی اور بھارتی دفاعی اہلکاروں کی جانب سے اس انکشاف کو "پاکستان کی غیر ذمہ دارانہ حرکت" قرار دینے کے باوجود آنجناب ان جوہری ہتھیاروں کو خطے کیلئے "امن کی ضمانت" ثابت کرنے پر مصر دکھائی دئے، یہ سوچے سمجھے بغیر کہ انٹرنیشنل لیول کے ایسے فورمز پر اس طرح کے "انکشافات" بسا اوقات کسی بھی ریاست کی جانب سے "اعتراف جُرم" کی حیثیت اختیار کرجاتے ہیں جنہیں پھر مناسب موقع پر ہمارے خلاف استعمال بھی کیا جاسکتا ہے ۔۔
المختصر قارئین کرام، پندرہ برس تک پاکستان کے جوہری پروگرام کے سربراہ رہنے والے ہمارے ریٹائرڈ جنرل صاحب کی مذکورہ تقریر شروع سے آخر تک "جوہری ہتھیاروں کی دوڑ" میں پاکستان کو غیر ضروری طور پر بھارت سے بالاتر ثابت کرنے کی شعوری لیکن بچگانہ کوشش کے نادر نمونہ کے سوا کچھ نہ تھی ۔۔