نہیں کرتا مذّمت!
پاکستان میں مظلومیت کے لئے پاکستانی ہونا ہی کافی ہے۔ آپ کا مسلم یا غیر مسلم ہونا۔ شیعہ یا سنی ہونا کوئی معنیٰ نہیں رکھتا۔ اگر آپ پاکستانی ہیں تو گولی کی گونج اور بم کے ارتعاش کے لئے تیار رہیئے۔ نظر بھر کر سماج کو تو دیکھئے! یہاں صلیب بھی زخمی ہے اور یہاں چاند تارا بھی اپنے زخم گن رہا ہے۔ یہاں فادر کے سینے سے چمٹی بائبل سہمی ہوئی دکھتی ہے اور یہاں قرآن کے پھٹے اورنیم جلے اوراق پر آیات ِ الٰہی مخلوق الٰہی کے خون کا ذائقہ چکھ رہی ہیں۔ یہاں مسجد اور چرچ کے دکھ ایک جیسے ہیں۔ یہاں مذہب صرف کتابوں میں رہ گیا ہے۔ یہاں اخلاق آبِ حیواں کی تلاش میں نکل چکا۔ یہاں انسانوں کا ہجوم اسقدر بڑھ گیا کہ انسانیت کے لئے جگہ ہی نہ بچی۔ یہاں محمد عربی کا دین مولوی کے دین سے بدل دیا گیا۔ یہاں فلسفی بٹیر کے نام پر کوے روسٹ کر رہا ہے۔ یہاں دلالی دانشوری اور دانشوری دلالی قرار پا چکی۔ یہاں دولت باپ اور قدریں پاپ ہو چکیں۔
اہل مصر نے میسنجر (حضرت یوسف علیہ السلام) نیلام کیا تھا، یہاں "میسج" کی بولیاں لگ رہی ہیں۔ اگر عقل گھاس چرنے سے فراغ پائے تو وہ دن یاد کیجئے جو کئی بار آئے اور ہر بار ڈاکو زندہ جلائے گئے۔
تب تالیاں پیٹی تھیں نا؟حوصلہ افزائی کی تھی نا؟ اور داد دی تھی نا؟
تو آج تلملاتے کیوں ہو؟
انسانوں کو زندہ جلانے کی روایت کی آغاز کے ساتھ ہی حوصلہ شکنی کی ہوتی تو وہ آگے بڑھ کر دو معصوم شہریوں کی جان کیوں لیتی؟لاقانونیت وہ اژدھا ہے جو ملک ہی نہیں تہذیبوں کوبھی ہڑپ کرنے پر قادر ہے۔ تم ایک بیمار سماج کو فروغ دو اور میں مذمت کا ذمہ اٹھاؤں؟
جاؤ نہیں کرتا مذّمت!!!