5 مارچ، 2015

اب کے مار کے دیکھ ۔!

 عدالتی تاریخ کے متنازعہ ترین"چیف" جسٹس چودھری کی جانب سے صرف لبرل طبقات پر وار کرنے کیلئے شُتر بے مہار کی طرح "آزاد" کرائی گئی سپریم کورٹ آف پاکستان ملک بھر کے کینٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات کے حوالے سے موجودہ وفاقی حکومت کی تئیسویں یقین دہانی کو ایک بار پھر مسترد کرتے ہوئے جب یہ نئی مطہر شاہی بھڑک مار رہی تھی کہ "ایک وزیر اعظم جاتا ہے یا دس، پرواہ نہیں"، تو شاید وہ بھول گئی کہ موجودہ وزیر اعظم کا نام یوسف رضا گیلانی نہیں، نواز شریف ہے اور موصوف کا تعلق پی پی پی اور سرائیکی وسیب سے نہیں، بلکہ "اصلی پنجاب" کی "وڈی پارٹی" سے ہے ۔۔
جسٹس جواد ایس خواجہ کو تو نہیں، ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ اپنے پہلے بجٹ 2013 میں سی این جی سمیت سینکڑوں روزمرہ اشیاء پر لگائے گئے اضافی جی ایس ٹی سے لے کر چند روز پہلے کے پٹرولیم بحران اور مختلف وفاقی اداروں اور محکموں کے سربراہان کی من چاہی تعیناتی سے لے کر بلدیاتی انتخابات کے انعقاد تک سے متعلق، اسی سپریم کورٹ کے اس طرح کے کم از کم چار درجن "احکامات" کو موجودہ وزیراعظم کی طرف سے جوتی کی نوک پر رکھ کر مادر پدر آزاد عدلیہ کا بھرپور مذاق اُڑانے کے باوجود عدالت اب تک ان کا کچھ نہیں بگاڑسکی ۔۔ 
اس موقع پر ہمیں پتہ نہیں کیوں مشہور مزاحیہ کردار مُلا نصیر الدین خوب یاد آ رہا ہے، جس نے اشرفیوں کی تھیلی گُم جانے پر گاوں میں اعلان کیا کہ "شام تک نہ ملی تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔"۔۔ خوف کے مارے سادہ لوح دیہاتی بالآخر چور تلاش کرلینے کے بعد تھیلی لے کر مُلا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پوچھا کہ "حضور، تھیلی اگر نہ ملتی تو آپ ہمارے ساتھ کیا سلوک کرتے؟"۔۔ مُلا نے موجودہ عدلیہ کی سی کمال بے نیازی کے ساتھ جواب دیا ۔۔ "کرنا کیا تھا بھائی لوگو، بس نئی تھیلی بنوا لیتے"۔۔

تلاش کیجئے