16 مارچ، 2015

بھٹو کا "دوبارہ" عدالتی قتل!

 بھٹو کیس ری ٹرائیل سے انکار!..مادر پدر آزاد عدلیہ کے مکروہ چہرے پر ایک اور بهیانک دھبہ..! انہی ججز کے ناجائز آباء و اجداد کی جانب سے جانبدارانہ و متعصبانہ یک طرفہ ٹرائیل کے بعد مملکت کے پہلے منتخب وزیراعظم کو دی گئی جس سزائے موت کو عالمی سطح پر "جوڈیشل مرڈر" قرار دیا گیا، اس کیس کے ری ٹرائیل کی درخواست نے انہیں پاکستانی عدلیہ کے دامن سے لپٹے بے شمار بدنما داغوں میں سے ایک بہت بڑی غلاظت کو صاف کرنے کا سنہری موقع فراہم کیا تها لیکن بدبخت انتشار چودھری کی ناجائز اولاد نے ناصرف یہ موقع ضائع کردیا بلکہ یہ بهی ثابت کردیا کہ "کتے کی دم کبهی سیدھی نہیں ہوا کرتی" .. 
اس پر طرہ یہ کہ یہ درخواست جس بنیاد پر خارج کی گئی ہے، اس کے پیش نظر تو صنم بھٹو کے علاوہ بھٹو قتل کیس کا متاثرہ کوئی فریق بهی باقی نہیں رہتا .. 
حالانکہ مذکورہ کیس کی سماعت کرنے والے بنچ میں شامل ایک جج جسٹس نسیم حسن شاہ کی طرف سے ضیائی منافقت کے پریشر کا اعتراف، اس وقت کے امریکی اٹارنی جنرل رمزے کلارک کی جانب سے مشاہدہ کے بعد کیس کی متعصبانہ سماعت کی شہادت اور عالمی عدالتی برادری کی طرف سے اس فیصلے کو عدالتی قتل کا نام دئے جانے کے بعد کسی بهی عدالت میں بطور "نظیر" اس کا حوالہ تسلیم نہ کئے جانے جیسے اشاریوں اور عوامل کے پیش نظر سپریم کورٹ آف پاکستان خود اس "مرڈر" کا سب سے زیادہ "متاثرہ فریق" بن جاتی ہے، جس کیلئے بھٹو شہید کی فیملی یا ان کی پارٹی کو "بعدازمرگ بھٹو" ریلیف دینے کی ضرورت سے زیادہ اہم سوال خود اپنے ادارے کیلئے قوم کے سامنے اور قوم کیلئے عالمی برادری کے سامنے، سرخرو تو نہیں کم از کم "پچھتاوے" کے اظہار کا سامان پیدا کرنے کا ہونا چاہئے تها...

تلاش کیجئے