یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ 23 مارچ 1940 کو جس قرارداد کی "ازخود" منظوری کے مفروضہ پر ہم اس تاریخ کو "یوم پاکستان" کا نام دے کر "جشن" منایا کرتے ہیں، وہ دراصل اس روز نہیں بلکہ ایک روز بعد یعنی 24 مارچ کو منظور کی گئی تھی ..
اصل معاملہ یہ ہے کہ 23 مارچ 1956 کو پہلے ملکی آئین کے نفاذ کے حوالے سے ابتدا میں اس تاریخ کو "یوم جمہوریہ" کے نام نامی سے منانے کا اعلان کیا گیا لیکن 1958 میں ملک پر ایوبی مارشل لاء مسلط ہونے کے بعد نہ وہ آئین رہا اور ظاہر ہے نہ ہی مملکت کسی نسل کی "جمہوریہ" ..
جشن منانے کی "پیدائشی حقدار قوم" نے البتہ اپنے پہلے جشن کی وجہ نزول پهر یہ ڈهونڈ نکالی کہ "قرارداد پاکستان 23 مارچ 1940 کو پیش کی گئی تھی .. جبکہ "یوم جمہوریہ" کا نام ہی بدل کر "یوم پاکستان" رکھ دیا گیا ..
مزید برآں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ 1940 میں پیش اور منظور کی گئی اس قرارداد کا نام بهی قرارداد پاکستان نہیں بلکہ "قرارداد لاہور" تها جس میں لفظ "پاکستان" سرے سے موجود ہی نہیں اور نہ ہی اس قرارداد کے کسی بھی لفظ یا مفہوم سے اسے "مطالبہ آزادی" قرار دیا جاسکتا ہے .. قرارداد کے متن سے زیادہ سے زیادہ یہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ مسلم لیگ کا مذکورہ اجلاس تاج برطانیہ سے انڈین وفاق کے اندر صرف ڈومینئن یعنی نیم خود مختار (ایک نہیں زائد) ریاستوں کے قیام کی درخواست پیش کر رہا تھا ..
ایک اور دلچسپ حقیقت یہ بهی کہ تقسیم ہند کے منصوبے پر عمل در آمد (قیام پاکستان) کا اعلان 14 اگست 1940 کو نہیں بلکہ دراصل 15 اگست 1947 کو نصف شب بارہ بج کر ایک منٹ پر کیا گیا لیکن "ہم" نے اپنی آزادی "از خود اختیار" کے تحت ایک روز قبل ہی اخذ کر لی .. وجہ نزول اس مفروضے کی قارئین صرف یہ ہے کہ ہمارا "ازلی دشمن بھارت چونکہ اپنا یوم آزادی 15 اگست کو منایا کرتا ہے، اسلئے ہم اس سے ایک دن پہلے منائیں گے ..
کہاں تک سنو گے، کہاں تک سنائیں .!