(1-اسرائیل)
(2-ایران)
(3-بھارت)
(4-امریکہ)
اسرائیل
موجودہ دنیا میں صرف دو ممالک ایسے ہیں جو مذہبی نظریے کی بنیاد پر وجود میں آئے ہیں۔ ایک پاکستان دوسرا اسرائیل۔ پاکستان ایک جمہوری، آئینی اور قانونی جد و جہد کے نتیجے میں وجود میں آیا ہے جبکہ اسرائیل دنیا کے ہر مہذب ضابطے کے مطابق ایک ناجائز ریاست ہے۔ یہ فلسطین کی مقبوضہ زمین ہے جس پر یہ ریاست کھڑی کی گئی۔ یہ قبضہ اسقدر سنگین جرم تھا کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے خود اسرائیل کے وجود کو چیلنج کرکے مشرق وسطیٰ کے لئے پاکستان کی خارجہ پالیسی کا رخ متعین کردیا تھا اور پاکستان اپنی پوری تاریخ میں اپنے بانی کے اس متعین کردہ رخ پر پورے تسلسل سے چلا آرہا ہے۔ چونکہ اسرائیل مسلسل مسلمانوں کی زمین قبضہ کرتا رہا اور صاف صاف ان عزائم کا اظہار کرتا آیا ہے کہ وہ اپنی ریاستی حدود کو لگ بھگ پورے مشرق وسطیٰ تک پھیلائے گا اور چونکہ اسرائیل نے نہرو کے دور میں ہی بھارت سے خفیہ تعلقات قائم کر لئے اور یہ تعلقات عسکری تعاون کے سوا کچھ نہ تھے اس لئے دو باتیں واضح ہوگئی تھیں۔ پہلی یہ کہ چودہ سو سال میں پہلی بار مسلمانوں کے دونوں مقدس ترین مقامات یعنی حرمین شریفین کو سنگین ترین خطرہ لاحق ہو گیا ہے اور خطرہ بھی ایسا جس کی پشت پناہی کے لئے دنیا کے دو طاقتور ترین ممالک امریکہ و برطانیہ اپنے تمام سیاسی، معاشی و عسکری وسائل کے ساتھ موجود ہیں۔ اگر پاکستان اس خطرے کے راستے میں کھڑا نہیں ہوتا تو اس کا اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنا ہی ایک مذاق سے زیادہ کچھ نہیں رہے گا۔ دوسری بات یہ کہ اسرائیل نے بھارت سے اپنے تعلقات خفیہ کیوں رکھے ہیں ؟ اور یہ صرف عسکری میدان میں کیوں پیش رفت کر رہے ہیں ؟
اس کی وجہ یہ تھی کہ اسرائیل کے وجود کو قائد اعظم اور مہاتما گاندھی دونوں نے ہی مسترد کیا تھا اور گاندھی جی کا موقف بڑا اصولی تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم تو مذہب کے نام پر معرض وجود میں آنے والے پاکستان کی مخالفت کرتے رہے ہیں تو ہم سے یہ توقع کیسے کی جاسکتی ہے کہ مذہب ہی کے نام پر وجود میں آنے والے اسرائیل کو قبول کر لینگے ؟۔ مگر ہوا یہ قائد اعظم کے انتقال کے بعد انکے جانشینوں نے تو اسرائیل کے حوالے سے اپنی پالیسی برقرار رکھی لیکن گاندھی جی کے بعد نہرو نے فورا پالیسی بدل کر اسرائیل کو تسلیم کر لیا اور باور یہ کرایا کہ بس تسلیم ہی کیا ہے سفارتی تعلقات ہم نہیں رکھ رہے جبکہ درحقیقت بہت ہی اعلیٰ سطح کے انتہائی خفیہ تعلقات قائم کر لئے گئے تھے اور پہلے ہی دن سے ان تعلقات میں عسکری تعاون سب سے اہم ایجنڈہ تھا۔ اس وقت تک بھارت کی صرف پاکستان سے دشمنی تھی اس چائنا سے ابھی اس کی کوئی بھی ٹسل شروع نہیں ہوئی تھی جو کہ معرض وجود میں ہی 1948ء کی پاک بھارت جنگ کے ایک سال بعد آیا تھا اور اگر ہم دیکھیں تو آگے چل کر اسرائیل کے چین سے بھی عسکری تعلقات قائم ہوئے جس سے ظاہر ہے کہ اسرائیل کے بھارت سے 1992ء تک چلنے والے خفیہ تعلقات کا تعلق صرف اور صرف پاکستان سے تھا۔ ان دو وجوہات کی بنیاد پر پاکستان نے اسرائیل کو اپنا دشمن نمبر ایک قرار دیدیااور طے کر لیا کہ جب بھی اسرائیل خود کو مزید وسعت دینے اور مسلمانوں کی زمین پر بتدریج قبضہ بڑھاتے بڑھاتے خود کو حرمین کے قریب لانے کی کوشش کرے گا تو پاکستان سفارتی و عسکری دونوں میدانوں میں مزاحمت کے لئے اترے گا۔
چنانچہ آگے چل کر دونوں عرب اسرائیل جنگوں میں پاکستان اسرائیل کے خلاف میدان جنگ میں آیا اور کوئی ڈھکا چھپا بھی نہیں آیا بلکہ اپنے اقدام کو دنیا پر واضح کر کے صاف میسج دیدیا کہ اسرائیل جس توسیع کے خواب دیکھ رہا ہے اس کے لئے اسے صرف عربوں سے ہی نہیں پاکستان سے بھی جنگ لڑنی ہوگی۔ اگر پاکستان اسرائیل کے حوالے سے یہ دو ٹوک اور جارحانہ موقف نہ رکھتا تو یقین کیجئے اسرائیل کب کا ان لولی پوپ ٹائم عرب ریاستوں کو ہڑپ کر چکا ہوتا۔ کیا دنیا نے دیکھا نہیں کہ پہلی عرب اسرائیل جنگ میں اس نے صرف ایک دن میں پوری کی پوری مصری فضائیہ کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا تھا۔ پاکستان اسرائیل کے حوالے سے کوئی جارحانہ عزائم نہیں رکھتا اس کے وجود اور اسکے قبضہ کئے ہوئے علاقوں کے حوالے سے پاکستان صرف سفارتی کوشش کی پالیسی پر کار بند ہے لیکن اگر وہ گریٹر اسرائیل بننے کی غرض سے اپنی موجودہ حدود سے نکلنے کی کوشش کرے گا تو حالات کے تقاضوں کے مطابق پاکستان کی تینوں مسلح افواج میں سے کسی ایک، کسی دو یا تینوں کو سعودی عرب میں اپنا منتظر پائے گا۔ حرمین کے حوالے سے پاکستان کی پالیسی اتنی واضح اور دو ٹوک ہے کہ حالیہ بحران میں پاکستان نے نام لئے بغیر ایران پر بھی واضح کردیا ہے کہ سعودی سرحد اس کے اور پاکستان کے مابین ریڈ لائن کا درجہ رکھتی ہے جو بھی اس ریڈ لائن کو عبور کرے گا پاکستان کو اپنے تمام وسائل سمیت سعودی عرب میں موجود پائے گا۔ میں ذاتی طور پر اس بات پر فخر محسوس کرتا ہوں کہ اللہ نے حرمین کے تحفظ کا کلیدی کردار میرے وطن کے نصیب میں لکھا ہے اور ہماری مسلح افواج نہ صرف ارض وطن بلکہ بیت اللہ اور روضہ رسول ﷺ کی بھی سب سے مضبوط محافظ ہیں۔ یہ تو قدرت کے فیصلے ہیں ، کبھی ابابیلوں سے یہ ڈیوٹی لے لی جاتی ہے تو کبھی پاکستان آرمی کے نصیب میں یہ ذمہ داری لکھ دی جاتی ہے۔
ایران
ایران پاکستان کی خارجہ پالیسی میں خطرناک ممالک کی فہرست دوسرے نمبر پر آتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ بھارت کی طرح ایرانی قوم سے پاکستان کو کوئی مسئلہ درپیش ہے یا دونوں ممالک میں کوئی علاقائی تنازعہ ہے جس سے قومی سطح کی کوئی دشمنی چلی آرہی ہے بلکہ بھارت کے برخلاف ایران سے پاکستان کو درپیش خطرات کا تعلق انقلاب کے بعد برسر اقتدار آنے والے مذہبی عناصر سے ہے۔ اگر آپ ایران کے انقلابیوں کی تاریخ کا بغور جائزہ لیں تو پچھلے پینتیس سال کے دوران ان کی یہ پالیسی پورے تسلس سے چلی آرہی ہے کہ اپنا انقلاب صرف ایران تک نہ رکھا جائے بلکہ اسے پڑوسی ممالک میں ایکسپورٹ کیا جائے۔ اس مقصد کے لئے وہ جائز ناجائز ہر طرح کے حربے آزمانے پر یقین رکھتے ہیں ۔ پڑوسی ممالک میں دہشت گردی کروانا، عدم استحکام پیدا کئے رکھنااور اس کے نتیجے میں بغاوت کرانا اس رجیم کی اہم ترین حکمت عملی ہے۔ اس مقصد کے لئے پڑوسی ممالک میں واقع اپنے ثقافتی مراکز (خانہ فرہنگ) میں ورکشاپس کرائی جاتی ہیں جو بظاہر فارسی زبان کی ترویج اور تہذیبی، ثقافتی اور تعلیمی نوعیت کی ہوتی ہیں لیکن ان کے شرکاء میں سے ہی کام کے بندے چن لئے جاتے ہیں اور انہیں زائرین کے نام پر ایران لے جایا جاتا ہے جہاں پاسداران انقلاب انہیں عسکری تربیت فراہم کرتی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پینتیس برس کے دوران ایک لاکھ سے زائد پاکستانیوں کو عسکری تربیت دی گئی ہے۔
پاکستان کے چار علاقے ایسے ہیں جہاں سے نہ صرف بڑی تعداد میں ریکروٹمنٹ کی گئی ہے بلکہ ان علاقوں کو بارود کا ڈھیر بھی بنا دیا گیا ہے۔ ان میں گلگت، پاڑہ چنار، کویٹہ اور کراچی شامل ہیں۔ پاکستان میں ایرانی مفادات کا پہلا نگہبان علامہ عارف حسین الحسینی تھا جس نے پاڑہ چنار کو دہشت گردی کے اہم مرکز میں تبدیل کردیا تھا۔ جنرل ضیاء الحق نے نہ صرف پاڑہ چنار میں ایک بے رحم خفیہ فوجی آپریشن کروایا بلکہ عارف حسینی بھی نہ رہا۔ ایران کی جانب سے 80 کی دہائی میں نہ صرف یہ کہ اسلام آباد پر قبضے کے لئے پارلیمنٹ اور پاک سیکریٹیریٹ کا محاصرہ کیا گیا بلکہ کوئٹہ میں 6 جولائی 1986ء کو بدترین قتل عام بھی کیا گیا جس میں شہر کو لوٹا بھی گیا۔ اس واقعے میں پاکستان کے سیکیورٹی اداروں نے بڑی تعداد میں پاسداران انقلاب کے اہلکار گرفتار کئے جنہیں ایران سے مذاکرات کے بعد اس کے حوالے کیا گیا ۔ عارف حسین الحسینی خود ایرانی مؤرخین نے عارف حسین الحسینی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ انہوں نے امام خمینی کا مشن عام کرنے کے لئے شاندار خدمات انجام دیں۔ عارف حسینی کے بعد یہ ذمہ داریاں علامہ ساجد نقوی کی سونپی گئیں جو ریکروٹمنٹ تو کراتے رہے لیکن پاکستان میں کوئی بڑا واقعہ کرانے میں ناکام رہے۔ چنانچہ ان سے مایوس ہوکر اب پاکستان میں یہ ذمہ داریاں امین شھیدی اور اس کی مجلس وحدت المسلمین کو سونپی گئی ہیں۔
اگر آپ امین شھیدی کی پھرتیاں دیکھیں تو آپ کو اندازہ لگانے میں مشکل پیش نہیں آئیگی کہ وہ کچھ بڑا "ڈیلیور" کرنے کو کسقدر بے قرار ہیں۔ امین شھیدی کے چارج سنبھالنے کے بعد دو چیزوں میں تیزی آئی۔ ایک یہ کہ کوئٹہ میں ہزارہ آبادی بہت تیزی سے بڑھنے لگی اور دوسری یہ کہ اٹھارہ سے تیس سال کے زائرین کا ایران آنا جانا یکایک بہت بڑھ گیا۔ گزشتہ پانچ برس کے دوران افغانستان اور ایران سے کوئٹہ لا کر بسائے جانے والے ہزارہ قوم کے افراد کی تعداد اکیس ہزار بتائی جاتی ہے جنہیں نادرہ کے جعلی آئی ڈی کارڈ زفراہم کرکے پاکستانی شہری بنایا جا چکا۔ پاکستان کی قومی سلامتی کے ادارے ان چیلنجز سے پوری دانشمندی سے نمٹ رہے ہیں لیکن اپنی سر زمین پر اور یہ نمٹنا اسقدر مؤثر ہے کہ اب ایران نے باقاعدہ تلملانا بھی شروع کردیا ہے۔ وہ نہ صرف پاک ایران باڈر پر ایف سی کو نشانہ بنانے کی کوشش کر رہا ہے بلکہ کچھ عرصہ قبل ایران میں اغوا ہونے والے اپنے فوجیوں کے اغوا میں بھی پاکستان کو ملوث کرنے کی ناکام کوشش کر چکا حالانکہ اغوا کار پاکستان سے سینکڑوں کلومیٹر دور اافغان باڈر کے قریب ایران میں ہی موجود تھے اور ایران نے اغوا کاروں کے ساٹھ قیدیوں کے بدلے میں اپنے فوجی چھڑائے تھے۔ حالیہ عرصے میں اگر آپ گزشتہ برس کراچی آپریشن کے دوران اسے لیڈ کرنے والے ایڈیشنل آئی جی شاہد حیات کی پریس کانفرنس دیکھ لیں تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ کراچی کی ٹارگٹ کلنگز میں صرف ایم کیو ایم ہی نہیں بلکہ براہ راست ایران بھی ملوث ہے۔ شاہد حیات نے اپنی پریس کانفرنس میں ایران کا نام لے کر تفصیل بتائی تھی۔
پاکستان کے حوالے ایران کی سب سے بڑی بد قسمتی یہ ہے کہ پاکستان نوے فیصد شیعہ آبادی اس کے ایجنڈے میں دلچسپی ہی نہیں رکھتی اور اپنے وطن کی سلامتی کے لئے پر عزم ہے۔ چنانچہ اگر آپ غور کریں تو محرم یا دیگر تاریخوں کی مذہبی ایکٹوٹیز میں تو پاکستان کے لاکھوں شیعہ سڑکوں پر نظر آتے ہیں لیکن جب امین شھیدی جیسے لوگ دھرنے کی کال دیتے ہیں تو انہیں بس اتنے ہی لوگ میسر آتے ہیں کہ چار بانسوں والے ایک شامیانہ انکے لئے کافی ہوتا ہے۔ یاد رکھئے ایرانی انقلاب سے قبل پاکستان میں کوئی شیعہ سنی جھگڑہ نہ تھا اس جھگڑے اور فرقہ واریت کی بنیاد ایران نے ڈالی ہے اور ایران میں جب تک موجودہ رجیم ہے تب تک یہ فرقہ واریت ختم نہیں ہو سکتی کیونکہ ایران امریکہ سے دوستی کے بعد پڑوسی ممالک میں بغاوتیں کرانے کی کوششوں میں بے پناہ تیزی لاچکا ہے۔ یاد رکھئے کہ ایران اور اسرائیل دشمن ممالک ہرگز نہیں ہیں انکے مابین ہونے والی ہوائی فائرنگ ایک دھوکے کے سوا کچھ نہیں ایران عراق جنگ کے دوران ایران اسرائیل سے اینٹی ٹینک میزائیل تک خریدتا رہا ہے جسکی ڈیلیوری 1985ء میں شروع ہوئی اور آخری شپمنٹ 1986ء میں تبریز ایئربیس پر اتری۔ اپنا انقلاب عسکری بنیادوں پر پاکستان ایکسپورٹ کرنے کی سرتوڑ کوششوں، پاکستان میں دہشت گردی کے سنگین واقعات میں مسلسل ملوث ہونے اور پاکستان میں بغاوت کی تین ناکام کوششوں کے سبب پاکستان کی خارجہ و ڈیفنس پالیسی میں ایران کو دوسرے بڑے چیلنج کے طور پر رکھا گیا ہے۔
بھارت
بھارت پاکستان کے دشمن ممالک میں تیسرے نمبر پر آتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ایک ایسا کھلا ڈلا دشمن ہے جس کی ناک کے بال کھینچ کھینچ کر ہم اسے پاگل کر سکتے ہیں لیکن گیدڑ بھپکیوں سے آگے نہیں بڑھ سکتا اور اگر بڑھ بھی جائے تو اس کی دشمنی پر پاکستان میں مکمل قومی اتفاق رائے موجود ہے اور اس کی طبیعت صاف کرنے کے لئے ہمارے پاس ہر طرح کے کیل کانٹے موجود ہیں۔ اس کے برخلاف اسرائیل ایک ایسا دشمن ہے جو خود ایک ایٹمی طاقت بھی ہے اور پاکستان کے دشمن نمبر دو سے اس کے خفیہ تعلقات بھی قائم ہیں۔ دشمن نمبر تین کے اس سے چالیس سال تک خفیہ اور اب پچھلے 23 سال سے ایسے کھلے تعلقات ہیں جن کا ہدف پاکستان ہی ہے اور دشمن نمبر چار یعنی امریکہ تو اسکا باپ تایا چاچا اور ماماسب کچھ ہے اسی لئے وہ پاکستان کا سب سے خطرناک دشمن ہے اور پہلے نمبر پر موجود ہے۔ ایران دوسرے نمبر پر اس لئے ہے کہ وہ آستین کا ایسا سانپ ہے جو کھل کر سامنے نہیں آتا ۔ وہ کمر میں چھرا گھونپنے کی پالیسی رکھنے والا ایسا ملک ہے جسے پاکستان کے اندر سے بہت بڑی تعداد میں ایجنٹ دستیاب ہیں اور جسے دشمن ڈیکلیئر کرنے کی صورت میں بھارت جیسا قومی اتفاق رائے نہیں بن سکتا کیونکہ ایران ایک مثبت ذہن رکھنے والے پاکستانی شیعہ کے لئے بھی قابل احترام مقام ہے جو قابل فہم بات ہے اور اس پر کسی کو اعتراض بھی نہیں ہونا چاہئے۔ جنرل موسیٰ خان 65ء کی جنگ میں پاکستان آرمی کے کمانڈر انچیف تھے۔ انہوں نے پوری دلیری سے اس جنگ میں آرمی کی کمانڈ کی، بعد میں گونر بلوچستان بھی رھے، اپنی کتاب اور الطاف حسن قریشی کو دیئے گئے انٹرویو میں 65ء کی جنگ میں آرمی میں موجود قادیانی افسران کی سازشوں کو بے نقاب بھی کیا۔ خلاصہ یہ کہ وہ ایک سچے کھرے پاکستانی تھے لیکن دفن ہونا انہوں نے ایران میں پسند کیا کیونکہ بطور شیعہ ایران انکے لئے ایک قابل احترام مقام تھا۔ ان کا وہاں دفن ہونا باالکل اسی طرح قابل فہم ہے جس طرح باچا خان کا جلال آباد میں دفن ہونا۔
بھارت کے حوالے سے آپ سب کچھ جانتے ہیں۔ اس لئے اس میں زیادہ تفصیل کی ضرورت ہی نہیں البتہ دو تین ایسے پہلوؤں کی جانب متوجہ کرنا چاہونگا جو اہم ہیں۔ بھارت سے ہماری دشمنی کی دو بنیادی وجوہات ہیں۔ ایک یہ کہ دو قومی نظریے میں ہندو ایک حریف ڈیکلیئر ہوا قائد اعظم کا یہ کہنا کہ ہم ہندوؤں کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے یہ ہندوؤں کی عزت نفس مجروح کر گیا ہے جس کا غصہ مٹ نہیں رہا۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ آپ ایک محفل میں بیٹھے ہوں اور ایک صاحب سب کے سامنے کہدیں کہ میں ان کے ساتھ صوفے پر نہیں بیٹھونگا، مجھے کوئی الگ نشست دی جائے، ظاہر ہے آپ تذلیل ہی محسوس کرینگے۔ دوسری بات یہ کہ کشمیر پر ہمارا ان سے دیرینہ تنازعہ ہے۔ تمامتر تلخیوں کے باوجود دونوں جانب اس بات کا ادراک ہے کہ بہت سی ایسی چیزیں ہیں جن کے سبب دونوں ملکوں کے عوام کا ایک دوسرے سے کٹے رہنا ممکن ہی نہیں۔ مثلا پہلی یہ کہ پاکستان میں لگ بھگ ایک کروڑ ایسے مہاجر ہیں جن کے خاندانوں کا ایک بڑا حصہ آج بھی انڈیا میں آباد ہے۔ یہ خونی رشتے ہیں جو کبھی نہیں ٹوٹ سکتے، دونوں جانب کے ان خاندانوں کا دونوں ممالک میں آنا جانا روز کا معمول ہے۔ دوسری یہ کہ سکھ مذہب کے گیارہ مقدس مقامات پاکستان میں واقع ہیں، اپنی مذہبی رسومات کے لئے نہ صرف بھارت سے بلکہ دنیا بھر سے سکھوں کو پاکستان آنا ہی آنا ہے۔ تیسری یہ بریلوی مکتبہ فکر کا مرکز انڈیا میں ہے ایک راسخ العقیدہ بریلوی اس مقام پر جانا اپنے لئے سعادت سمجھتا ہے۔ چوتھی یہ کہ دیوبندی مکتبہ فکر کا مرکز بھی انڈیا ہی میں ہے، ہر راسخ العقیدہ دیوبندی دارالعلوم دیوبند دیکھنا چاہتا ہے۔ پانچویں یہ کہ برصغیر میں ماڈرن ایجوکیشن کی جنم بھومی علی گڑھ یونیورسٹی بھی انڈیا میں ہے جو مسلمانوں کے لئے ایک علمی استعارے کا درجہ رکھتی ہے۔ اسے قریب سے دیکھنے کا شوق بھی ہر طرف موجود ہے۔ چھٹی یہ کہ سندھ میں ہندوؤں کی بہت نمایاں آبادی ہے جو اپنی مذہبی رسومات کے لئے بھارت جائے بغیر نہیں رہ سکتے۔
یہ چھ انسانی قدریں دونوں ہی ممالک کے لئے ایک ایسا پریشر بنائے رکھتی ہیں جس کے تحت یہ خواہش دونوں ہی جانب پائی جاتی ہے کہ یہ دشمنی ختم ہو اور لوگوں کی آزادانہ آمد و رفت شروع ہو لیکن دونوں ہی ممالک کشمیر سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔ بھارت اس لئے کہ اسے پاکستان پر سٹریٹیجک بالادستی حاصل ہی کشمیر کے ذریعے ہے جبکہ پاکستان اس لئے کہ ایک تو وہ پاکستان کی شہ رگ ہے اور دوسری طرف یہ بھی ہے کہ لاکھوں کشمیری پاکستان کے روحانی شہری ہیں۔ وہ آج بھی پاکستان کا پرچم پہلے عقیدت سے چومتے اور پھر لہراتے ہیں، جس کے نتیجے میں انہیں کڑی سزا سے گزرنا پڑتا ہے اور وہ اس سزا سے گزر لیتے ہیں اور سزا ہی کیا جان سے بھی گزر جاتے ہیں لیکن پاکستان سے اپنی وابستگی کسی صورت نہیں چھوڑتے۔ 68 سال کی ان قربانیوں اور محبتوں کو پاکستان کیسے نظر انداز کر سکتا ہے ؟ مجھے اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ دونوں ہی ممالک دوستی چاہتے ہیں لیکن کشمیر کا مسئلہ حل ہونا نہایت ہی مشکل مرحلہ ہے۔ بھارت چاہتا ہے کہ اس مسئلے کو نظر انداز کرکے کوئی حل نکالا جائے اور وہ نظر انداز اس لئے کروانا چاہتا ہے تاکہ اس کا ناجائز قبضہ برقرار رہ سکے اور یہ پاکستان کسی صورت قبول کر نہیں سکتا۔
نواز شریف کے حالیہ دور میں پاک چائنا اکنامک کوریڈور کا جو عظیم الشان منصوبہ شروع ہوا ہے اس کے پورا ہونے پر نہ صرف چائنہ کی ساری دنیا سے ایکسپورٹس اور امپورٹس اس روٹ سے شرع ہو جائینگی جس سے چائنہ کو سالانہ اربوں ڈالرز کی بچت ہوگی بلکہ پاکستان کے لئے بھی معاشی ترقی کے لامتناہی امکانات پیدا ہو جائینگے۔ اور یہ صرف اس ایک روٹ تک محدود نہیں رہے گا بلکہ افغانستان کا امن ہر حال میں یقینی بنا کر وسطی ایشیا کو بھی اس روٹ سے جوڑ دیا جائے گا جہاں جانے کے لئے بھارت پوری طرح بیقرار ہے۔ یہ روٹ جوں جوں تکمیل تک پہنچے گا بھارتی صنعتکاروں کا دباؤ اپنی حکومت پر اتنا ہی بڑھتا چلا جائے گا اور انشاء اللہ وہ دن آئے گا کہ بھارت کو لامتناہی تجارتی مفادات اور کشمیر میں سے کسی ایک کو چننے کا فیصلہ کرنا ہوگا ورنہ وہ ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جائے گا۔ اس پروجیکٹ کی اس بے پناہ اہمیت کے سبب امریکہ، بھارت اور ایران تینوں ہی اس کے دشمن ہیں۔ اسے پورا کرنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ ہر پاکستانی کو نہ صرف اس کی کامیابی کے لئے دعاء گو رہنا ہوگا بلکہ آنکھیں بھی کھلی رکھنی ہونگی۔ آپ دیکھ چکے کہ چائنیز صدر کا دورہ پاکستان دوبار ناکام بنایا جاچکا اور ایسا ان لوگوں کے ذریعے کروایا گیا جو ہماری اپنی ہی صفوں میں موجود ہیں۔ اب بالآخر آٹھ اپریل کو چائنیز صدر پاکستان آ رہے ہیں جو پاک چائنا ریلیشنز کی تاریخ کا سب سے اہم ترین دورہ ہے۔ اللہ پاکستان کو سرخرو اور کامیاب کرے۔ آمین
امریکہ
پاکستان کے لئے خطرناک ممالک کی فہرست میں امریکہ چوتھے نمبر پر آتا ہے۔ امریکہ سے پاکستان کے تعلقات ابتدائی دور میں اس درجے کے دوستانہ تھے کہ جب فیلڈ مارشل ایوب خان امریکہ کے دورے پر گئے تو صدر جان ایف کینیڈی نے اپنی اہلیہ اور اعلیٰ حکام سمیت پورے فوجی اعزاز کے ساتھ ائیرپورٹ پر ان کا استقبال کیا۔ اپنی استقبالیہ تقریر میں صدر کینیڈی نے کہا کہ ایوب خان کا استقبال میرے لئے اعزاز کی بات ہے۔ قافلہ ائیر پورٹ سے نکلا تو منزل مقصود تک سڑک کے دونوں جانب ہزاروں امریکیوں نے تالیوں اور استقبالی کلمات سے ایوب خان کا عوامی استقبال کیا جو صدر کینیڈی کے ساتھ کھلی چھت والی لیموزین میں سوار تھے۔ یہ ہر لحاظ سے ایک ایسا استقبال تھا جو کسی عظیم طاقت والے ملک کے سربراہ کا ہی ہوسکتا تھا حالانکہ تب پاکستان کی کل عمر ہی 14 سال تھی اور وہ کسی اینگل سے بھی ایک عظیم طاقت نہیں تھا۔ اس استقبال کی بنیادی وجہ یہ تھی خطے میں افغانستان اور بھارت سوویت یونین کے اتحادی تھے جبکہ کمیونسٹ چین بھی وجود میں آچکا تھا۔ ایران کے بعد پاکستان دوسرا ملک تھا جو امریکہ کا سٹریٹیجک پارٹنر تھا۔ مگر 1967ء میں اسرائیل نے عرب دنیا سے جنگ چھیڑ ی تو پاک فضائیہ کے پائلٹ عربوں کی مدد کو جا پہنچے۔ یہ وہ موقع تھا جب امریکہ تلملا کر رہ گیا اور اسے یہ اندازہ ہوا کہ مشرق وسطیٰ میں اس کے لاڈلے منے کو تو اس کے اس سٹریٹیجک پارٹنر سے خطرات لاحق ہیں۔ یوں دوستی ایک خفیہ دشمنی میں بدل گئی اور پاکستان کو کمزور کرنا اس کی اہم ضرورت بن گیا کیونکہ طاقتور پاکستان اسرائیل کے راستے کی رکاوٹ ہوتا۔
چنانچہ جلد ہی ہم نے دیکھا کہ بھارت اور سوویت یونین نے جب مشرقی پاکستان کو الگ کرنے کی ملٹری مہم شروع کی تو پاکستان امریکی بحری بیڑے کا انتظار ہی کرتا رہ گیا۔ امریکہ نے بھارت اور سوویت یونین کو یہ کھلا راستہ اسی لئے دیا تاکہ حجم کے لحاظ سے پاکستان کم ہو سکے۔ اس جنگ میں آدھا ملک ہاتھ سے گیا، پاکستان کے نوے ہزار فوجی بھارت کی قید میں چلے گئے۔ فوجی سربراہ برطرف کردیے گئے۔ یوں گویا عسکری لحاظ سے پاکستان شرمناک ہی نہیں بدترین دور میں بھی کھڑا ہو گیا۔ اب پاکستان کو مستقل کمزور رکھنا اور اسرائیل کو طاقتور سے طاقتور بنانا امریکہ کے لئے بائیں ہاتھ کا کھیل نظر آتا تھالیکن یہ کیا ؟ ملک ٹوٹنے کے صرف دو سال بعد پاک فضائیہ کے پائلٹ ایک بار پھر عرب اسرائیل جنگ میں ؟ تو گویا کہ ملک ضرور ٹوٹا ہے لیکن حوصلے نہیں ٹوٹے۔ اب قدرت کا کھیل دیکھئے کہ اِدھر ذوالفقار علی بھٹو نے ایٹمی پروگرام کی داغ بیل ڈالنی شروع کی اُدھر سوویت یونین افغانستان میں فوج اتار کر کمزور پاکستان کی جانب لپکنے کی تیاری میں لگ گیا۔ بھٹو ایٹمی پروگرام کی وجہ سے آمریکہ کی نظر میں دشمن قرار پا گئے اور حل یہ سوچ لیا گیا کہ انہیں ملٹری کے ذریعے پھانسی پر لٹکا دیا جائے تو یہ ایٹمی پروگرام رک جائے گا۔ مگر ہوا یہ کہ نہایت ذہین مگر جذباتی بھٹو کی جگہ نہایت شاطر مگر مسکین دکھنے والا جنرل ضیاء اقتدار میں آگیا۔ جس نے سوویت خطرے سے ڈرا ڈرا کر نہ صرف امریکہ سے کنوینشنل وار فیئر کے ہتھیار لینے شروع کردئے بلکہ اسی خطرے کی آڑ لیتے ہوئے امریکی مجبوری کا فائدہ اٹھا کر 1984ء میں پاکستان کو ایٹمی ملک بھی بنا دیا۔ چنانچہ 1991ء میں امریکہ جیسے ہی سوویت جھنجٹ سے آزاد ہوا اس نے پاکستان پر پابندیاں لگا کر ایٹمی پروگرام روبیک کرنے کے مطالبے شروع کردئے جو نہ فوج نے مانے نہ ہی نواز شریف اور بینظیر بھٹو نے۔
نائن الیون ہوا تو امریکہ کے لئے یہ ایک سنہری موقع بن گیا کہ وہ بقدم خود پاکستان کے باڈر پر آکر بیٹھ جائے اور وہ آیا۔ جو عقل کے اندھے یہ سمجھتے ہیں کہ اسامہ بن لادن اور اس کے چھ سو ساتھیوں کے خلاف امریکہ نے ایک لاکھ پچیس ہزار فوج افغانستان میں اتاری تھی انکی عقل کا ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔ وہ پاکستان کی ایٹمی قوت ختم کرنے کی غرض سے ہی یہاں آیا تھا۔ یہ سوال آپ کے ذہن میں آ سکتا ہے کہ پھر اس نے ایسا کیا کیوں نہیں ؟ تو جواب یہ ہے کہ ایک اندازے کے مطابق پاکستان ایک سو سات ایٹمی ہتھیاروں والا ملک ہے مگر انکے تحفظ کے لئے ایسا شاندار میکنزم بنایا گیا ہے کہ پاکستان میں ایک بھی ایسا سول یا فوجی شخص نہیں ہے بشمول آرمی چیف کے جو تمام ہتھیاروں کے مقام سے واقف ہو کہ وہ کہاں کہاں موجود ہیں ؟ اگر امریکہ ملٹری آپریشن کے ذریعے اٹھانا بھی چاہے تو تمام دانے کسی صورت نہیں اٹھا سکتا۔ پاکستان کی اس حکمت عملی کے پیچھے یہ سوچ موجود ہے کہ اگر ٹاپ لیول پر بھی کوئی غدار پیدا ہو جائے تو وہ بھی فقط چند ہتھیاروں کا درست مقام بتا سکے۔ تو جب خفیہ فوجی آپریشن کے ذریعے پاکستان کو ایٹمی ہتھیاروں سے یقینی طور پر غیر مسلح کرنا ممکن ہی نہیں تو اس کا فائدہ ؟۔ ان حالات میں امریکہ کے لئے واحد آپشن یہی تھی کہ ملک کو اندر سے سیاسی وعسکری طور پر اتنے زخم لگائے جائیں کہ یہ بکھر کر رہ جائے اور اس میں خانہ جنگی کی ایسی کیفیت بنادی جائے جس سے پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کا ملک پر کنٹرول ختم ہو جائے اور جسے جواز بنا کر یہاں اقوام متحدہ کی فوج اتاری جائے اور خوب تسلی سے سارے "دانے" ڈھونڈ لئے جائیں۔ چنانچہ ایک طرف ٹی ٹی پی کھڑی کی گئی جسے یہ ہدف دیا گیا کہ تم اس ملک کو عسکری زخم لگاؤ اور دوسری طرف صحافیوں اور دانشوروں کو خریدا گیا جنہیں یہ ہدف دیا گیا کہ تم عوام کا اعتماد تباہ کرو اور انہیں فوج سے بدظن کرو۔ دونوں ہی نے ایڑی چوٹی کا زور لگا لیا لیکن جس ملک نے حرمین کے تحفظ کی ذمہ داری کا بیڑہ اٹھا رکھا ہو اس کے تحفظ کے لئے اللہ ہی کافی تھا۔ نتیجہ یہ کہ امریکہ اپنے زخم چاٹتا ہوا انخلا کر رہا ہے اور پاکستان اپنے اندرونی دشمنوں کو چن چن کر مار رہا ہے اور میری یہ بات یاد رکھیں کہ بچینگے وہ دانشور اور صحافی بھی نہیں جو گزشتہ دس سال کے دوران سی ڈی 70 موٹر سائیکل سے ڈیڑھ ڈیڑھ کروڑ کی گاڑیوں تک پہنچ گئے ہیں انہیں بتانا ہوگا کہ 5000 سے بیس ہزار تک کی تک کی تنخواہ پانے والا ورکنگ جرنلسٹ صرف دس سال میں کروڑوں اور اربوں روپے کا مالک کیسے بن سکتا ہے ؟۔
الحمدللہ اب پاکستان اپنے مستقبل کے منصوبوں کی جانب بڑھ رہا ہے اور ان منصوبوں میں پاک چائنا اکنامک کوریڈور اتنا عظیم الشان منصوبہ ہے جو پاکستان کا مقدر بدل کر رکھدیگا جبکہ دوسری طرف عرب کہہ رہے ہیں کہ ہم سے بلینک چیک لے لو لیکن ہمارا دفاع مضبوط کرنے میں اپنا کردار ادا کردو۔ 6 عرب ملک پاکستان کے لئے اپنے خزانوں کے منہ کھولنے کو تیار بیٹھے ہیں۔ ترکی طویل المیعاد منصوبوں میں پاکستان کے ساتھ شراکت ڈیزائن کر رہا ہے۔ چائنا پینتیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہےجس کے بارے میں کہا جا تا ہے کہ یہ اصل فگر نہیں ہے، حقیقی فگر اس سے کہیں بڑا ہے۔ ان حالات میں یہ دو ٹکے کے دانشور جو آپ کو تلملاتے نظر آرہے ہیں یہ وہ بھاڑے کی فکری فوج ہے جو آپ کا اعتماد قائم نہیں ہونے دیتی اور آپ کو ہر وقت شکوک و شبہات میں مبتلا رکھنا چاہتی ہے تاکہ ملک ترقی کی راہ پر یکسو نہ ہوسکے۔ آپ کے اسی ذہنی انتشار کا فائدہ اٹھا کر دھرنوں اور مارچوں کا بازار گرم کر کے ترکی، چائنا اور سعودی عرب کی مدد سے شروع ہونے والے ترقی کے سفر کو آغاز میں ہی ختم کرنا چاہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آپ امریکی مفادات کے لئے استعمال ہونا چاہتے ہیں یا نہیں ؟ آپ کی آنکھیں کھلی ہیں کہ نہیں ؟ آپ کا دماغ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے کہ نہیں ؟۔ ترقی کا یہ سفر پندرہ سے بیس سال کا ہے جس میں کئی حکومتیں آئینگی اور جائینگی۔ میری رائے یہ ہے کہ جو بھی حکومت آئے، جس کی بھی آئے اسے کام کرنے دیں اسے کمزور مت کریں کیونکہ اب آپ حکومتوں کو نہیں بلکہ اپنے مستقبل کو کمزور کر رہے ہونگے۔ میں اور آپ ایک کمزور اور زخمی پاکستان میں جئے۔ کیا اپنی اولاد کو بھی کمزور اور زخمی پاکستان دینا ہے ؟