21 مارچ، 2015

پرانا وقت !

کچھ سال ہوئے، شائد بہت سال۔ میں اس پاکستان میں اکتیس سال کا تھا جس میں وہ دن طلوع ہوتا جس کے شور کا ابتدائیہ مرغا اپنی اذان سے لکھتا۔ ایک ایسی سحر انگیز صبح ہوتی جس میں میری کھڑکی سے متصل امرود کے درخت پر پہلے چڑی چڑے کو بیدار کرتی اور پھر وہ دونوں مل کر مجھے جگاتے۔ مؤذن وہ اذاں دیتا جو تاریکی کے ہمیشہ نہ رہنے کا خدائی استعارہ بنتی۔ پہلے گلی گلی آہنی گیٹوں کے کنڈوں کا شور گونجتا اور پھر ایسا سکوت طاری ہوجاتا جس میں مسجدوں کو جاتے بزرگوں کے قدموں کی چاپ گھروں کے اندر تک سنائی دیتی۔ آنکھیں ملتے بچے سکول جانے کو اٹھتے تو کوئی نہانے سے انکار ی توکسی کو طبیعت کی خرابی کا بہانہ اور جو جانے پر آمادہ ہوتے ان سے موزے چھپن چھپائی کھیل کر یاد دلاتے کہ یہ کائنات تمہاری نئی شرارتوں کی منتظر ہےیوں تیار ہوتے بچوں کی چہکار ایک نئے دن میں انسانی گفتار کا باقاعدہ آغاز بنتا۔ کیسی شاندار صبح ہوتی کہ گھروں سے یہ بچے اور گھونسلوں سے پرند ساتھ ساتھ نکلتے۔ تعلیم گاہیں آباد ہوتیں۔ کارخانے انگڑائی لیتے۔ سڑکوں پر دوڑتی گاڑیاں زندگی کی رفتار کا پتہ دیتیں تو انہی سڑکوں کے اطراف کھڑے مرد و زن کا بار بار گھڑی دیکھنا وقت کی قدر و قیمت کی خبر دیتا۔ بازار آباد تو بیزار ایک بار پھر سو جاتے۔ منڈیاں جوبن تو مندیاں رخصت کی راہ لیتیں۔ کرنسی مارکیٹ میں ڈالر روپے کو آنکھ مارتا اور وہ شرماکر اپنی قدر و قیمت ہلادیتا۔ جو سٹاک میں ہوتا وہ سٹاک نہ رہتا اور جو سٹاک نہ ہوتا وہ سٹاک کر لیا جاتا۔ کوئی بھاؤ دیتا تو کوئی بھاوُک ہوتا۔ کوئی اِس ہاتھ دیتا تو کوئی اُس ہاتھ لیتا۔ کوئی پریشان ہوتا تو کوئی دلاسہ دیتا۔ کوئی شرماتی تو کوئی دل ہارتا۔ کوئی تاک میں ہوتا تو کوئی ٹوک پر آمادہ۔ کوئی جاتے جاتے رکتا نہ رکتے رکتے آتا۔ کوئی جلتے جلتے بجھتا نہ کٹتے کٹتے مرتا۔ کوئی بولتے بولتے بھولتا نہ بھولتا بھولتا سوچتا۔ کوئی کڑھتے کڑھتے جیتا نہ جیتے جیتے کڑھتا۔ کوئی کھاتے کھاتے رکتا نہ رکتے رکتے کھاتا۔ جو جاتا وہ آتا بھی۔ جو بولتا وہ سنتا بھی۔ جو سوچتا وہ کرتا بھی۔ جو پڑھتا وہ سیکھتا بھی۔ جو کھیلتا وہ جیتتا بھی۔ جو روتا وہ ہنستا بھی۔ جو چاہتا وہ بتاتا بھی اور جو بیٹھتا وہ ٹلتا بھی۔ وہ چہرے اور انکا تبسم۔ وہ آنکھیں اور انکی چمک۔ وہ گیسو اور اس کے بل۔ وہ کمر اور اس کی لچک۔ وہ اشارے اور ان کے کنائے۔ وہ بت اور انکے ستم۔ وہ بچے اور انکی قلقاریاں۔ وہ جوان اور انکا جوبن۔ وہ بوڑھے اور انکی دعاء۔ وہ باپ اور اس کی لاٹھی۔ وہ ماں اور اس کے دلاسے۔ وہ بہن اور اس کی فرمائشیں۔ وہ ساس اور اس کی سازشیں۔ وہ ٹھیک ٹھیک وقت پر بدلتے موسم۔ وہ عین اپنے وقت پر آتی بارشیں۔ وہ دکھ کے بعد ہر حال میں آتے سکھ۔ وہ باتیں کم اور کام زیادہ۔ وہ طلاقیں کم اور نکاح زیادہ۔ وہ بیماریاں کم اور دوائیں زیادہ۔ وہ کانٹے کم اور پھول زیادہ۔ وہ دکھڑے کم اور سکھڑے زیادہ۔ وہ کھانا کم اور مہمان زیادہ۔ وہ آلو کم اور بوٹیاں زیادہ۔ وہ پانی کم اور دودھ زیادہ۔ وہ چینی کم اور پتی زیادہ۔ وہ صبح، وہ شام ، وہ رات اور وہ پرانا وقت بہت یاد آتے ہیں، بہت ہی زیادہ۔ کوئی میرا وہ گمشدہ پاکستان ڈھونڈ کے لاؤ یار ! میرے رب کی قسم اس کے منتشر ٹکڑوں میں سے ایک ایک تم میں سے ہر ایک کے پاس ہے۔ بس اپنا اپنا ٹکڑا پیش کر کے وہ میرا وہ پرانا پاکستان جوڑ کے دو۔ میں تھک گیا دھماکے سن سن کے، لاشیں دیکھ کے اور مذمتیں کر کر کے ! ! !

تلاش کیجئے