سیاست بارے تو مانا جاسکتا ہے کہ اس کھیل کے کھلاڑیوں کیلئے، بالخصوص پاکستان جیسی ریاستوں میں قواعد و ضوابط کی پابندی اتنا ضروری امر نہیں سمجھا جاتا لیکن ایک باقاعدہ آئین کی موجودگی میں اگر قانون اور عدل و انصاف جیسی اصطلاحات کا پسند یا ناپسند کے لحاظ سے مختلف مفہوم رواج پاجائے حتیٰ کہ "غداری" جیسی حساس ٹرم کی تعریف میں بھی مختلف"کرداروں"کیلئے حسب ضرورت و حسب مراتب ترمیم کر لی جاتی ہو تو معاملہ بلاشبہ تشویش ناک صورت اختیار کرجاتا ہے ۔
اس قلم کار کے دل میں سابق آرمی چیف و مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل پرویز مُشرف کیلئے کسی قسم کی ہمدردی نہیں اور نہ ہی ان کے کسی اقدام کی تحسین پیش نظر ہے، اپنے قارئین کو صرف یہ یاد دلانا مقصود ہے کہ جنرل موصوف کے خلاف"ہائی ٹریژن" کیس کے نام سے گذشتہ ڈیڑھ دو سال سے جو سپر ہٹ ڈرامہ سیریل جاری ہے، اُ س کی حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں کہ ان کے جاری کردہ ایل ایف او کے تحت حلف اٹھا کر پہلے سپریم کورٹ کی ججی ہتھیانے اور پھر اسی ایل او ایف کے تحت چیف جسٹس آف پاکستان کا منصب جلیل سنبھال کر 12 اکتوبر 1999 کے مارشل لاء کی توثیق کرنے والے"عزت مآب" افتخار چودھری نے فوج کی زیر نگرانی رچائے گئے "لانگ مارچ"کے تحت، امریکی دباؤ پر بحال ہونے کے بعد جنرل صاحب کے 12 اکتوبر کے مارشل لائی اقدام کی بجائے 3 نومبر 2007 کی ایمرجنسی کو "ازخود" غیر آئینی اقدام قرار دے کر ان پر"غداری" کا مقدمہ چلانے کا جو حکم نادر شاہی جاری فرمایا تھا، جس پر جنرل صاحب کے ایک اور "متاثرہ"میاں نواز شریف نے مئی 2013 کے انتخابات، انہی جسٹس چودھری کی مہربانی سے "جیت" کر عمل درآمد کردیا۔
افتخار چودھری کی عدالت سے جنرل مشرف کے خلاف مذکورہ "حُکم"کے اجراء اور بالخصوص شریف حکومت کی طرف سے کیس کے آغاز سے آج تک، قانونی ماہرین اور معاشرتی تجزیہ نگار سب مُسلسل لکھ رہے ہیں کہ مارشل لاء کے دوران اٹھایا گیا یہ ذیلی اقدام کسی بھی طرح"ہائی ٹریژن" کا کیس نہیں بنتا ، البتہ کسی مائی کے لعل میں ہمت ہے تو 12 اکتوبر 99 کے اقدام پر کیس چلایا جائے۔۔
لیکن کچھ عوامل ایسے ہیں، جن کی بناء پر نا تو میاں صاحب جنرل مشرف کے 12 اکتوبر کے اقدام کے خلاف اپنی حامی عدالت میں جانے کی ہمت دکھا سکے اور نا ہی وہ جسٹس چودھری اس پر"ازخود" کارروائی کی جرأ ت کرسکا، جس نے پارلیمنٹ سے مسترد شدہ "توہین عدالت"کا آرڈیننس"بحال" کرنے کے بعد منتخب وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو اس سے "معزول" کرکے ثابت کردیا تھا کہ پارلیمان کی طرف سے جنرل مشرف کے مارشل لاء کی توثیق جیسے بہانے اس کے نزدیک پرکاہ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔ یاد رہے کہ جسٹس چودھری نے "توہین عدالت" نامی جس آرڈیننس کو اپنا ہتھیار قرار دے کر پہلے "بحال" کیا اور اس کے بعد اس کی مدد سے گیلانی کا گلا کاٹا، وہ چودھری کے معتوب اسی مشرف کا جاری کردہ تھا بلکہ درحقیقت جنرل مشرف بھی خود اسے واپس لے کر اس کی جگہ نیا آرڈیننس نافذ کرگئے تھے۔
وہ واضح وجوہات جن کی بدولت 12اکتوبر1999کا "مشرفی اقدام" اس قدر شجر ممنوعہ قرار پایا کہ اچھی مشرقی بیوی کی طرح میاں نواز شریف اور جسٹس افتخار چودھری دونوں اس کا نام تک لینے سے اب بھی شرمائیں، کچھ اس طرح کی ہیں کہ جنرل مشرف کے مارشل لا سمیت اس طرح کے اقدامات فرد واحد کا ذاتی فیصلہ کسی بھی طرح سمجھا اور مانا نہیں جاسکتا کیونکہ اس طرح کے اقدام کے پیچھے ہمیشہ جی ایچ کیو اور کور کمانڈرز سمیت اعلیٰ عسکری قیادت کی متفقہ منظوری بلکہ مشترکہ طاقت کارفرما رہا کرتی ہے، جبکہ جنرل مشرف والا مارشل لاء تو لگایا بھی ان کے ساتھی جنرلز نے تھا اور اس کے پس منظر میں غیر ملکی دورے کے دوران جنرل مشرف کی برطرفی جیسے یک طرفہ اقدام کے علاوہ لینڈنگ زبردستی روک کر ان کے جہاز کا رُخ بھارت کی جانب موڑنے کی کوشش جیسی انتہائی کارروائی بھی کارفرما تھی۔ جس پر جنرل موصوف خود کہا کرتے تھے کہ"میں وہ ہاتھ ڈھونڈ تا رہتا ہوں، جس نے مجھے دھکا دیا"۔ گویا اکتوبر 1999 والی"آئین شکنی" کا ذکر بھڑوں کے کسی چھتے میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف ہوگا کیونکہ مشرف دور کے کئی جنرلز کے اس کی زد میں آنے کے ساتھ ساتھ آرمی چیف سمیت عام مسافروں کے طیارہ کی "ہائی جیکنگ"میں سزا یافتہ موجودہ وزیر اعظم کے خلاف بھی ہائی جیکنگ کیس ازسرنو کھل جانے کے امکانات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔۔
جنرل مشرف کے خلاف جاری مذکورہ کیس میں پر وفاقی اسیکیوٹراکرم شیخ کے چند ماہ قبل ان ریمارکس کے بعد کہ "ہم نے تو غداری کا الزام لگایا ہی نہیں"، راقم الحروف اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ اس کیس میں اگر کچھ باقی رہ جاتا ہے تو محض میاں صاحب کی یہ دیرینہ خواہش کہ "جس طرح سزا دئے جانے کے بعد ہماری گلوخلاصی معافی تلافی کے مراحل سے گذرنے کے بعد ہی ہو پائی تھی، بالکل اسی طرح جنرل مشرف کو بھی ایک بار سزا سنائی جائے اور پھر وہ ہمارے ممنون صدر سے معافی کے خواستگار ہو کر ہمیں مشکور ہونے کا موقع عطا فرمائیں"۔۔
دیکھنا اب یہ ہے قارئین کہ موجودہ آرمی چیف جنرل راحیل اپنے پیش رو کے خلاف اپنے "محسن و مرغوب" وزیر اعظم کی اس "معصومانہ خواہش" کی تکمیل پر راضی ہو جاتے ہیں یا پھر "چھوڑو مارا، بلڈی سویلینز"۔؟؟
اس قلم کار کے دل میں سابق آرمی چیف و مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل پرویز مُشرف کیلئے کسی قسم کی ہمدردی نہیں اور نہ ہی ان کے کسی اقدام کی تحسین پیش نظر ہے، اپنے قارئین کو صرف یہ یاد دلانا مقصود ہے کہ جنرل موصوف کے خلاف"ہائی ٹریژن" کیس کے نام سے گذشتہ ڈیڑھ دو سال سے جو سپر ہٹ ڈرامہ سیریل جاری ہے، اُ س کی حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں کہ ان کے جاری کردہ ایل ایف او کے تحت حلف اٹھا کر پہلے سپریم کورٹ کی ججی ہتھیانے اور پھر اسی ایل او ایف کے تحت چیف جسٹس آف پاکستان کا منصب جلیل سنبھال کر 12 اکتوبر 1999 کے مارشل لاء کی توثیق کرنے والے"عزت مآب" افتخار چودھری نے فوج کی زیر نگرانی رچائے گئے "لانگ مارچ"کے تحت، امریکی دباؤ پر بحال ہونے کے بعد جنرل صاحب کے 12 اکتوبر کے مارشل لائی اقدام کی بجائے 3 نومبر 2007 کی ایمرجنسی کو "ازخود" غیر آئینی اقدام قرار دے کر ان پر"غداری" کا مقدمہ چلانے کا جو حکم نادر شاہی جاری فرمایا تھا، جس پر جنرل صاحب کے ایک اور "متاثرہ"میاں نواز شریف نے مئی 2013 کے انتخابات، انہی جسٹس چودھری کی مہربانی سے "جیت" کر عمل درآمد کردیا۔
افتخار چودھری کی عدالت سے جنرل مشرف کے خلاف مذکورہ "حُکم"کے اجراء اور بالخصوص شریف حکومت کی طرف سے کیس کے آغاز سے آج تک، قانونی ماہرین اور معاشرتی تجزیہ نگار سب مُسلسل لکھ رہے ہیں کہ مارشل لاء کے دوران اٹھایا گیا یہ ذیلی اقدام کسی بھی طرح"ہائی ٹریژن" کا کیس نہیں بنتا ، البتہ کسی مائی کے لعل میں ہمت ہے تو 12 اکتوبر 99 کے اقدام پر کیس چلایا جائے۔۔
لیکن کچھ عوامل ایسے ہیں، جن کی بناء پر نا تو میاں صاحب جنرل مشرف کے 12 اکتوبر کے اقدام کے خلاف اپنی حامی عدالت میں جانے کی ہمت دکھا سکے اور نا ہی وہ جسٹس چودھری اس پر"ازخود" کارروائی کی جرأ ت کرسکا، جس نے پارلیمنٹ سے مسترد شدہ "توہین عدالت"کا آرڈیننس"بحال" کرنے کے بعد منتخب وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو اس سے "معزول" کرکے ثابت کردیا تھا کہ پارلیمان کی طرف سے جنرل مشرف کے مارشل لاء کی توثیق جیسے بہانے اس کے نزدیک پرکاہ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔ یاد رہے کہ جسٹس چودھری نے "توہین عدالت" نامی جس آرڈیننس کو اپنا ہتھیار قرار دے کر پہلے "بحال" کیا اور اس کے بعد اس کی مدد سے گیلانی کا گلا کاٹا، وہ چودھری کے معتوب اسی مشرف کا جاری کردہ تھا بلکہ درحقیقت جنرل مشرف بھی خود اسے واپس لے کر اس کی جگہ نیا آرڈیننس نافذ کرگئے تھے۔
وہ واضح وجوہات جن کی بدولت 12اکتوبر1999کا "مشرفی اقدام" اس قدر شجر ممنوعہ قرار پایا کہ اچھی مشرقی بیوی کی طرح میاں نواز شریف اور جسٹس افتخار چودھری دونوں اس کا نام تک لینے سے اب بھی شرمائیں، کچھ اس طرح کی ہیں کہ جنرل مشرف کے مارشل لا سمیت اس طرح کے اقدامات فرد واحد کا ذاتی فیصلہ کسی بھی طرح سمجھا اور مانا نہیں جاسکتا کیونکہ اس طرح کے اقدام کے پیچھے ہمیشہ جی ایچ کیو اور کور کمانڈرز سمیت اعلیٰ عسکری قیادت کی متفقہ منظوری بلکہ مشترکہ طاقت کارفرما رہا کرتی ہے، جبکہ جنرل مشرف والا مارشل لاء تو لگایا بھی ان کے ساتھی جنرلز نے تھا اور اس کے پس منظر میں غیر ملکی دورے کے دوران جنرل مشرف کی برطرفی جیسے یک طرفہ اقدام کے علاوہ لینڈنگ زبردستی روک کر ان کے جہاز کا رُخ بھارت کی جانب موڑنے کی کوشش جیسی انتہائی کارروائی بھی کارفرما تھی۔ جس پر جنرل موصوف خود کہا کرتے تھے کہ"میں وہ ہاتھ ڈھونڈ تا رہتا ہوں، جس نے مجھے دھکا دیا"۔ گویا اکتوبر 1999 والی"آئین شکنی" کا ذکر بھڑوں کے کسی چھتے میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف ہوگا کیونکہ مشرف دور کے کئی جنرلز کے اس کی زد میں آنے کے ساتھ ساتھ آرمی چیف سمیت عام مسافروں کے طیارہ کی "ہائی جیکنگ"میں سزا یافتہ موجودہ وزیر اعظم کے خلاف بھی ہائی جیکنگ کیس ازسرنو کھل جانے کے امکانات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔۔
جنرل مشرف کے خلاف جاری مذکورہ کیس میں پر وفاقی اسیکیوٹراکرم شیخ کے چند ماہ قبل ان ریمارکس کے بعد کہ "ہم نے تو غداری کا الزام لگایا ہی نہیں"، راقم الحروف اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ اس کیس میں اگر کچھ باقی رہ جاتا ہے تو محض میاں صاحب کی یہ دیرینہ خواہش کہ "جس طرح سزا دئے جانے کے بعد ہماری گلوخلاصی معافی تلافی کے مراحل سے گذرنے کے بعد ہی ہو پائی تھی، بالکل اسی طرح جنرل مشرف کو بھی ایک بار سزا سنائی جائے اور پھر وہ ہمارے ممنون صدر سے معافی کے خواستگار ہو کر ہمیں مشکور ہونے کا موقع عطا فرمائیں"۔۔
دیکھنا اب یہ ہے قارئین کہ موجودہ آرمی چیف جنرل راحیل اپنے پیش رو کے خلاف اپنے "محسن و مرغوب" وزیر اعظم کی اس "معصومانہ خواہش" کی تکمیل پر راضی ہو جاتے ہیں یا پھر "چھوڑو مارا، بلڈی سویلینز"۔؟؟