3 مارچ، 2015

ترقیاتی منصوبے۔ کامیابی کی ضمانت؟

ہمارے بلدیا ت کومضبوط کرنے کے بجائے قومی و صوبائی اسمبلی کے ممبران کو علاقے کیلئے ترقیاتی فنڈز کا اجراء کیا جاتا ہے تا کہ ان کا ’’کلہ‘‘ مضبوط رہے۔یہ سلسلہ بالخصوص ضیاء الحق کے مارشل لاء کا کارنامہ ہے جو بدقسمتی سے نہ صرف جمہوری ادوار میں جاری رہا بلکہ مزید مستحکم ہوا۔آج کل بھی جہاں اراکین اسمبلی کو سینیٹ کے انتخابات کیوجہ سے لائق ملاقات سمجھا جا رہا ہے وہاں تقریبا تمام صوبائی حکومتیں بشمول وفاق ان کے صوابدیدی فنڈز بھی جاری کر ہی ہیں۔
حلقہ این ۔اے باون اس حوالے سے میڈیا کی زینت بنا رہتا ہے کہ یہا ں دیگر حلقہ جات کی نسبت زیادہ ترقیاتی کام ہو رہے ہیں۔ان ترقیاتی منصونہ جات کی بعض اوقات از حد تعریف کر کے یہ منظر نامہ پیش کیا جاتا ہے کہ اس حلقہ سے ملحق کچھ علاقے انتہائی بیقرار ہیں کہ ان کو کب حلقہ این ۔اے باون کا حصہ بنیں تاکہ ان کے کام بھی ہوں۔خیر اپنے اصل مضمون کی طرف آتے ہیں کہ انہی ترقیاتی منصوبہ جات کیوجہ سے یہ نظریہ پیش کیا جا رہا ہے کہ حلقہ این۔اے باون موجودہ ایم این اے کے لیئے مختص ہو چکا ہے۔لہذا اب کوئی امیدوار یہاں سے منتخب نہیں ہو سکتا۔ صرف ترقیاتی منصوبہ جات کی بنیاد پر جیت کے نظریہ کو علاقہ کے سابق انتخابات اور ترقیاتی کاموں کا تجزیہ کیا گیا تو اس نظریہ کو کسی حد تک غیر منطقی پایا۔
1988میں جب پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت تشکیل پائی تو اس حکومت میں وفاقی وزیر صنعتی پیداوار راجہ شاہد ظفر نے مانکیالہ کے مقام پر ریلوے کی اراضی پرخشک بندرگاہ کا منصوبہ بنایا اور اس کا افتتاح اس وقت کی وزیر اعظیم شہید بینظر بھٹو نے کیا۔اس موقع پر روات سے کلرسیداں کے لئے گیس پائپ لائن بچھانے کی منظوری بھی دی گئی۔ان میگا پروجیکٹس کے باوجود 1990کے انتخابات میں راجہ شاہد ظفر الیکشن ہار گئے۔سابق صوبائی حلقہ پی پی سات میں پیپلز پارٹی کے دوسرے دورے حکومت میں تعلیمی اداروں کی تعمیر و توسیع،پختگی گلیات،فراہمی آب کے منصوبہ جات،بجلی فراہمی اور ٹیلی فون کی سہولیات کے متعدد منصوبے مکمل کروائے گے جبکہ حلقہ میں میرٹ کی بنیاد پر نوکریاں بھی فراہم کی گئیں۔ان تمام تر ترقیاتی منصوبہ جات اور ذاتی طور پر چوہدری خالد کی اچھی شہرت بھی ان کو 1997میں شکست سے نہیں بچا سکی۔’’دھمیال ہاؤس‘‘ کے راجگان نے ق لیگ کے دور حکومت میں روات کلرسیداں گیس پائپ لائن بحالی،مانکیالہ اوور ہیڈ برج کی تعمیر اور کلرسیداں کو تحصیل کادرجہ دلوانے کے باوجود تاحال فتح کی ہما سے ان کا سر محروم ہے۔یاد رہے کہ دھمیال ہاؤس والوں نے اس دور میں بلدیات کے ذریعے بھی کافی سارے کا م کروائے۔اسی طرح اگر گوجر خان کی بات کی جائے تو سابق دور حکومت میں گوجر خان بھر میں سوئی گیس فراہمی،بجلی کی تنصیب،ذیلی اور مرکزی شاہرات کی ازسر نوتعمیر،تعلیمی ادارہ جات کو فنڈز کی فراہمی، گلیات کی پختگی حتی کہ سرکاری نوکریاں بھی سینکڑوں افراد کو دی گئیں۔راجہ پرویز اشرف نے گوجرخان کو اس حد تک فوقیت دی کہ ان کو جیالے بطور طنز وزیر اعظم پاکستان کے بجائے ’’وزیراعظم گوجرخان‘‘ کہا کرتے تھے۔ ان تمام تر منصوبہ جات کے باوجود راجہ پرویز اشرف 2013کے انتخابات ہار گئے ہیں۔
مندرجہ بالا تمام امثال یہ ثابت کرتی ہیں کہ صرف اور صرف ترقیاتی کاموں کی بنیاد پر کسی بھی علاقہ پر مخصوص شخصیت کی گرفت قائم رہنا ناممکن ہے۔ہار جیت میں ترقیاتی منصوبہ جات کلیدی حیثیت نہیں رکھتے۔شاید اسی نزاکت کو سمجھتے ہوئے چوہدری نثار علی خان گذشتہ دورہ کلرسیداں میں خلاف معمول اور خلاف توقع مسلم لیگی کارکنان کے گھروں میں گئے۔اس دورہ میں چوہدری نثار علی خان نے حزب اختلاف کے انداز میں خطاب کیئے۔جبکہ ساتھ ساتھ اپنے ترقیاتی کاموں اور ذاتی کردار کی بات کرتے رہے تاکہ جب بھی انتخابی دنگل ہو تو اہل حلقہ سماجی رویے اور عمرانی اصولوں کے برخلاف ان ہی کو منتخب کریں۔
راقم سمجھتا ہے کہ چوہدری نثارعلی خان جو کہ انتہائی تجربہ کار سیاستدان ہیں وہ ان سماجی حرکیات کا علم باخوبی رکھتے ہیں کہ عمومی حکومتی کارکردگی کے اثرات ہر امیدوار کے ووٹ بینک کو متاثر کرتی ہے۔ان عمومی اثرات و حالات کے علاوہ اب ’’پنجابی پگ کے داغ‘‘ کا نعرہ بھی اپنی وقعت کھو چکا ہے۔’’دو پارٹی‘‘ نظام کے بجائے اب تیسری پارٹی بھی ’’ان‘‘ ہو چکی ہے۔ تیسری پارٹی کی قیادت گوپہ درپہ غیر سیاسی فیصلے کر چکی ہے اس کے باوجود اس کی حیثیت مسلم ہو چکی ہے۔جس کی وجہ سے مقابلہ کی نوعیت تبدیل ہو چکی ہے اور اب ’’مخصوص نشت ‘‘ کا تصور مشکوک ہوچکا ہے۔2013کے انتخابات کے نتائج کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ چوہدری نثارعلی خان کے مخالف پڑھنے والاووٹ مجموعی طور پر خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے۔شاید انہی امور کو مدنظر رکھتے ہوئے چوہدری نثار علی خان نے انتہائی طور پر قبل از وقت انتخابی مہم شروع کر دی ہے۔یا پھر یہ بھی ممکن ہے کو چوہدری نثار علی خان کو عنقریب انتخابات کا میلہ سجتا نظرآرہا ہے۔جبکہ تیسری پارٹی کے خوف بھی کہا جاسکتا ہے۔ایک خبر یہ بھی ہے کہ شاید آنیوالے انتخابات میں چوہدری نثار علی خان کو ایک حلقہ تک ’’ محدود ‘‘ کیا جائے۔وجہ جو بھی ہو ’’ راوی ہر طرف چین کی بانسری بجاتا نظر نہیں آرہا‘‘۔

تلاش کیجئے