17 مارچ، 2015

پوائنٹ آف آرڈر .!

 دہشت گردی اور اس کے انسداد کے نام پر جاری ریاستی کارروائی پر میری چند گذشتہ عرض داشتوں پر کچھ احباب کی جانب سے پوچها جاتا رہا کہ میرے پیش نظر اصل مقاصد کیا ہیں؟. جواب میرا گذشتہ کل بهی یہی تها، آج بهی ہے اور آئندہ کل بهی یہی ہوگا کہ "میں اپنی ناچیز معلومات کے تبادلے سے اپنے پڑھنے والوں کو محض یہ سمجھانے کی کوشش کیا کرتا ہوں کہ صورتحال جیسے دکھائی دے رہی ہے، اصل میں ویسے ہے نہیں گویا
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا
اب یوحنا آباد کے اسی تازہ سانحہ کو لے لیجئے، "ہر ایک کی اپنی ڈفلی" .. کسی کیلئے دو چرچز پر بیک وقت خودکش حملہ اور اس میں کام آنے والے مسیحی بهائی تبصرہ کے زیادہ مستحق ہیں تو کوئی زندہ جلائے گئے دو مسلم نوجوانوں کو لے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا نظر آرہا ہے کہ دہشت گردوں کو چھوڑ کر عام مسلمانوں میں قوت برداشت کا مادہ کہیں زیادہ موجود ہے .. 
اسی طرح نائن زیرو پر حالیہ آپریشن کے حوالے سے کوئی اسے ٹیررسٹ گروپ سمجھی جانے والی ایم کیو ایم کے خلاف حق بجانب کارروائی قرار دینے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا تو کسی کے خیال میں یہ محض ایک ڈرامہ اور ملی بھگت کے سوا کچھ بھی نہیں .. 
سچ پوچهئے تو ذاتی طور پر میرے لئے ان واقعات اور ان سے جڑی جزئیات کی بجائے ان کا پس منظر اور ان کے پیچھے کارفرما اصل مقاصد پر تبصرہ یا تجزیہ زیادہ اہمیت رکھتا ہے .. وجہ اس "طرز عمل" کی یہ ہے کہ چوتھائی صدی سے زائد عرصہ پر محیط اپنے مشاہدے بلکہ تجربے کی روشنی میں، میں اب اچھی طرح سمجھ اور جان چکا ہوں کہ ہماری چیخ و پکار اور آہ و بکا اسلئے کار بے کار ہے کہ جب تک پاکستانی نامی ہم بهیڑ بکریاں کسی تربیتی نظام کے مراحل سے گزر کر ایک باقاعدہ "قوم" کے قالب میں ڈھالے نہیں جاتے، ہمارے ساتھ "اجتماعی زیادتی" کی یہ وارداتیں مسلسل ہوتی رہیں گی، جو کسی قسم کے حدود آرڈیننس کی زد میں بهی نہیں آیا کرتیں ..
رہا یہ سوال کہ وہ کونسا ایسا تربیتی نظام ہے، جو افراد کے ہم جیسے بے ہنگم اور منتشر ہجوم کو مختصر ترین مدت میں منظم کرکے ایک "قوم" بنا سکتا ہے.؟ جواب اس اہم ترین سوال کا بهی وہی پرانا ہے کہ "سکاوٹس تحریک جیسا کوئی سسٹم اور وہ بهی محلہ وار سطح پر روزانہ تربیتی قواعد پر مشتمل" . . و ما الینا علی البلاغ

تلاش کیجئے