21 مارچ، 2015

قیام پاکستان

قیام پاکستان کی تحریک میں انتہائی اہم موڑ 23مارچ 1940کا تھا ۔اس دن لاہورمیں آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس منٹوپارک موجودہ اقبال پارک میں ہوا ۔ اس اجلاس میں دوٹوک انداز میں یہ اعلان کیا گیا کہ اب ہماری تحریک کا مقصد صرف اور صرف ایک آزاد اور خودمختار مسلم ریاست ہے،اس سے کم پر کسی بھی قسم کا کوئی بھی سمجھوتہ نہ ہو گا۔ یہاں سے یہ نعرہ زبان زد عام ہو ’’لے کے رہیں گے پاکستان ،بٹ کے رہے گا ہندوستان‘‘۔اس اجلاس کی رپورٹنگ کرتے ہوئے اخبارات نے اس قرار داد لاہور کے ’’قرار داد پاکستان ‘‘کا نام دے دیا اور یوں مسلمانوں میں بھی قرار داد پاکستان ہی چل نکلا۔ اس اجلاس کے بعد قوم کو آزادی کی منزل قریب نظر آنے لگی ان حالات نے تحریک پاکستان میں ایک نئی روح پھونک دی ۔ تحریک آزادی میں اس نئے جوش و ولولہ کی وجہ سے انتہاء درجہ کی تیزی آگئی۔ ہر خاص و عام ،مردوزن،کسان وطالبعلم الغرض ہر شبعہ زندگی سے وابستہ لوگوں کی زبان پر ایک ہی نعرہ آگیا کہ ’’لے رہیں گے پاکستان بٹ کے رہے گا ہندوستان‘‘ ۔یہ جوش و ولولہ دن دگنی رات چوگنی ترقی کرنے لگا۔اس دوران دوسری عالمی جنگ شروع ہو گئی جس سے سلطنت برطانیہ کمزور ہو گئی۔ اور ساتھ ساتھ تحریک آزادی بھی شدید ہوتی گئی اور یوں مسلمانان برصغیر کے دلوں کی خواہش 14 اگست 1047میں پوری ہوئی اور اس دنیا پر ایک نیا مسلم ملک ’’پاکستان ‘‘ معرض وجود میں آیا۔ایک ایسا ملک کہ جس نے علاقائی،لسانی اور قبائلی عصبیتوں کو شکست دی۔ جس نے مسلم نظریہ کی بنیاد پر آزادی حاصل کی۔پاکستان کے ساتھ محبت کا یہ عالم تھے کہ جو علاقے پاکستان میں شامل نہ ہو سکے وہاں سے لاکھوں مسلمان اپنا گھربار،کاروبار اور جائیدادیں تک چھوڑ کر نئے اور آزاد ملک کے جانب مہاجرت پر عمل پیراء ہوئے تاکہ وہاں وہ اپنے عقیدہ کے مطابق آزاد زندگی بسر کر سکیں۔اس ہجرت میں مالی نقصان تو ہوا ہی ہوا لیکن لاکھوں لوگ اپنی جانوں سے بھی گئے،بچے یتیم ہوئے، بوڑھوں کے سہارے تہ تیغ ہوئے،عورتیں بیوہ ہوئیں ان سب نقصانات کے باوجود وہ سب اس ارض پاک پر پہنچ کے مطمئن ہوئے کہ ایک آزاد اور اپنے ملک میں آنیوالی نسلیں سکھ سے رہیں گے اور اپنے عقیدہ کے مطابق زندگی گزاریں گئیں۔
جن علاقوں پر مملکت پاکستان قائم ہوئی تھی اس میں مسلمانوں کے علاوہ دیگر مذاہب کے افراد بھی رہائش پذیر تھے اس لئے قائد اعظم نے فرمایا کے اس نئے ملک میں اقلیتوں کو مذہبی حوالے سے ہر قسم کی آزادی ہو گی ۔ان کی عبادت گائیں محفوظ ہوں گئیں، ان کو اپنے رسوم ورواج اور عقیدہ کے مطابق زندگی گزارنے کی مکمل آزادی ہو گی۔کیونکہ اسلام کی اولین ریاست جو رحمت اللعالمینؐ نے عرب میں قائم کی تھی اس میں بھی غیر مسلموں پر کوئی جبر نہ تھا اور وہ اپنے عقیدہ پر قائم رہ کر زندگی گزار سکتے تھے۔قیام پاکستان کے بعد بالخصوص پنجاب اور دیگر علاقوں سے ہندو اور سکھ تو ہجرت کرگئے اور کچھ یہاں ہی رہ گئے مگر عیسائیوں کے لئے ہندوستان یا پاکستان ایک ہی جیسے تھے کیونکہ دونوں جگہوں پر ان کی آبادی اقلیت میں تھی لہذا جو عیسائی پاکستان کے حدود میں تھے وہ یہیں کے ہو کے رہے۔
آج جب پاکستان کو آزاد ہوئے سڑسٹھ برس سے زیادہ کا وقت گزر چکا ہے تو جب ہم اقلیتوں کی جانب دیکھتے ہیں تو حالات کچھ یوں نظر آتے ہیں ۔ نہ ان کے تعلیمی ادارے محفوظ ہیں، نہ ان کو اچھی نوکریاں ملتی ہیں اور نہ ہی ان کی بسیتاں انسانی بستیاں کہلانے کے لائق ہیں،ا ن کی عبادت گاہیں آئے دن فسادیوں کی زد میں ہیں،غیر مصدقہ اطلاعات پر توہین مذہب کے ذریعے ان کی گردنیں اتارنا انتہائی آسان ہے۔ آج جب ہم غیر مسلموں کی یہ حالت غیر دیکھتے ہیں تو شرمساری و ندامت کے باعث سر اٹھایا نہیں جاتاکہ اول تو اسلام کی رو سے انسانی حقوق حاصل ہیں اور دوئم جس ہستی کی قیادت کیوجہ سے ہم اس آزاد مملکت کے شہری ہیں یعنی قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے اقلیتوں سے وعدہ کی پاسداری بھی نہیں کر سکے۔لیکن اتنا بھی پریشان و نادم ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ بنیادی طور پر یہ ملک ’’مسلمانوں‘‘ کی آزادی وسہولت کے لئے قائم کیا گیا تھا۔مسلمانوں کے آزادی کے لئے لاکھوں لوگ شہید ہوئے تھے اور ہزاروں عصمتیں قربان ہوئیں تھیں ۔لیکن ان مسلمانوں کو ہی اپنے ’’مسلمان بھائیوں ‘‘ سے امان حاصل نہیں ہے۔ مسلمانوں کی عبادت گاہیں مسلمانوں ہی کے ظلم کا شکار ہیں،مسلمانوں کی بیٹیاں ’’مسلمانوں‘‘ ہی کے لئے ’’مباح ہیں،مسلمانوں کے کٹے سر ’’مسلمانوں‘‘ ہی کے لئے فٹ بال کھلینے کا ذریعہ ہیں۔اس لئے میں غیر مسلموں سے زیادہ شرمندہ نہیں ہوں ۔
آج ہم پھر اپنی آزادی و طاقت کے مظاہرہ کے لئے ’’یوم پاکستان‘‘ منانے کے لئے پر عزم ہیں نہ صرف پر عزم ہیں بلکہ پریڈ ایونیوپر فوجی پریڈ کا اہتمام کر رہے ہیں۔کیا یہ طاقت ہماری آزادی ہے؟ نہیں جب تک ہم بطور مسلمان اس ملک میں محفوظ نہیں اور غیرمسلم بطور انسان محفوظ نہیں ہیں اس وقت تک قیام پاکستان کا مقصد پورا نہیں ہوگا۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے ہر ایک فرد کو اپنا اپنا حصہ ڈالنا ہو گا نہیں تو ہم ظلم کے غلام رہیں گے نہ صرف ہم غلام رہیں گے بلکہ آنیوالی نسلیں بھی غلام رہیں گئیں اور اس ظلم کی وجہ سے ہم آنیوالی نسلوں کے قصوروار ہوں گے۔
فوجی طاقت بجا کیونکہ ہماری سرحدوں کی حفاظت ایک جدید منظم اور طاقتور فوج ہی کر سکتی ہے۔لیکن ہمیں قانونی اور انسانی حقوق کے حوالے سے بھی مضبوط ہونا ہو گا۔عقیدہ کے نام پر جہالت کا خاتمہ کرنا ہو گا۔مسالک کے درمیان فروعی اختلافات کو وجہ قتل اور تکفیر بنانے والوں کو تختہ دار پر چڑھانا ہو گا۔اسلام کے آفاقی امن وسلامتی کے پیغام کو اپنانا ہو گا۔قائد اعظم کے افکار کے مطابق اس ملک کے نظام کو چلانا ہو گا۔بصورت دیگر تباہی ہمارا مقدر ہو گی اور ہماری داستاں تک نہ ہو گی داستانوں میں!

تلاش کیجئے