15 اپریل، 2015

اسلحہ اور دہشت گردی

اسلحہ سازی، دہشت گردی اور فرقہ واریت کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اگر اسلحے کا استعمال ختم ہو جائے تو اسلحہ بنانے کی فیکٹریاں بند ہو جائیں گی اس لیے اسلحہ بنانے والے دہشت گردی کو ختم ہوتا نہیں دیکھ سکتے۔اور دہشت گردی کے لیے نفرت کا فروغ بہت ضروری ہے۔ نفرت قائم رکھنے کے لیے جہالت کا تسلسل بہت ضروری ہے، فرقہ واریت بہت ضروری ہے، عدم برداشت ضروری ہے۔ یہ کام ملا کر سکتا ہے۔ فرقہ وارانہ مدرسے کر سکتے ہیں جہاں دوسروں کے خلاف نفرت اور قتال کی تعلیم و تربیت کا بندوبست موجود ہوتا ہے۔ اس لیے اسلحہ بنانے والے اس زنجیر کو ٹوٹتا دیکھ ہی نہیں سکتے۔ وہ اسلحہ بھی بنائیں گے اور تمام فرقوں کے ملاؤں کی سرپرستی بھی کریں گے۔ انہیں تو فقط تاریکی، قتال اور خون پسند ہے۔ مگر یہ بھی حقیقت ابدی ہے کہ تاریکیاں ختم ہو جاتی ہیں، اسلحے اور خون کی جنگ میں فتح ہمیشہ خون کی ہوتی ہے۔ خون خواہ کتنے ہی خفیہ طریقے سے بہایا جائے یہ چھپ نہیں سکتا۔ کیونکہ
خون پھر خون ہے، بہتا ہے تو جم جاتا ہے
کف قاتل پہ جمے یا رگ سلاسل پہ جمے
خون دیتا ہے قاتل کے مسکن کا سراغ
خون جلاتا ہے، اندھیری راتوں میں چراغ 
خون اور تلوار کی جنگ میں فتح ہمیشہ خون کی ہوتی ہے۔ خون آگے بڑھے گا، جہالت ختم ہو گی۔ اسلحہ کی فیکٹریاں بند ہوں گی، ملا کا کاروبار بھی ختم ہو گا۔ خون مسکرائے گا، قہقہے لگائے گا۔ کہ یہی تاریخ کا دائمی قانون ہے۔
مکمل تحریر >>

جنت اور جہنم کا محل وقوع؟؟؟؟

ہر چیز کا کوئی نہ کوئی محل وقوع ہے، اس وسیع و عریض کائنات میں، کسی نہ کسی سیارے پر، زمین پر۔ زمین کے اوپر، زمین کے اندر، سمندر کے اندر، کسی دریا کے کنارے پر، کسی پہاڑ کی وادی پر یا چوٹی پر۔
کوئی نہ کوئی تو مقام ہو گا جہاں اگلا جہان ہو گا، جہاں جنت اور دوزخ موجود ہو گی۔
علامہ اقبالؒ کہتے ہیں:
خرد مندوں سے کیا پوچھوں کہ میری ابتدا کیا ہے
میں تو اس فکر میں ہوں کہ میری انتہا کیا ہے
ہر ذی شعور انسان سوچتا ہے کہ اس زندگی کا تسلسل کیا ہے، کس شکل و صورت میں ہے، کہاں جانا ہے، کس شکل میں جانا ہے۔ جنت کہاں ہے؟ جہنم کہاں ہے؟ 
مذہبی راہنما ان چیزوں کو جاننے کے حتمی دعوے کرتے ہیں۔ وہ الہامی کتابوں کی تفسیریں بیان کرتے ہیں۔ ان میں علماء بھی ہیں، علامہ بھی ہیں، مولانا بھی ہیں، شیخ الاسلام بھی ہیں، آیت اللہ بھی ہیں، حجت اللہ بھی ہیں۔ اور کئی نام ہیں۔ انہوں نے بڑی محنت اور کاوش سے تفسیریں لکھی ہیں۔ ابراہیم ؑ، موسیٰ ؑ  اور دوسروں کے حالات پر روشنی ڈالی ہے، ذوالقرنین کے کارناموں کی وضاحت کی ہے۔ یہ سب واقعات اسی زمین پر رونما ہو چکے ہیں، ان کا کوئی نہ کوئی جغرافیہ ہے، محل وقوع ہے۔ یہ کسی نہ کسی دریا، سمندر، پہاڑ، صحرا، براعظم، جزیرے وغیرہ پر واقع ہوئے ہیں۔ 
افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مفسرین نے ان واقعات کے جو محل وقوع بتائے ہیں ان میں سے اکثر غلط ہیں۔ جب جغرافیہ ہی غلط ہے تو باقی کی تفسیر درست کیسے ہو سکتی ہے۔ 
افسوس تو اس بات کا بھی ہے کہ جنہیں زمین کے اہم واقعات کے محل وقوع کا علم نہیں وہ ہمیں جنت اور جہنم کا نقشہ کیا سمجھائیں گے؟
افسوس تو یہ بھی ہے کہ اپنے آپ کو حرف آخر ہونے کا دعوی کرنے والوں نے اور جنت کی سندیں تقسیم کرنے والوں نے اس دنیا کو جہنم بنایا ہوا ہے۔ 
ہمیں جہالت کے جہنم سے نجات چاہیے، امن چاہیے، سکون چاہیے، ہمارے لیے یہی جنت ہے۔
غور کیجیے، فکر کیجیے، اس زندگی کو جنت بنائیے، اگلی دنیا والی جنت جہاں کہیں بھی ہو گی، خود بخود مل جائےگی۔
مکمل تحریر >>

ایم کیو ایم ہماری اسٹیبلش منٹ کا تذویراتی اثاثہ- Strategic Asset

بھلا اتنی محنت سے بنائے ہوئے اثاثے کوئی ختم کرتا ہے۔ ہاں البتہ نئی ضرورتوں کے تحت اثاثے مزید مضبوط کرنے کے لیے update کیے جاتے ہیں۔ اگر ختم ہی کرنا ہوتا تو جنرل نصیراللہ بابر والے آپریشن سے نہ بچایا جاتا۔ اب تو یہ ایک لسانی گروپ کی مستند تنظیم بن چکی ہے۔ بس ذرا اپنے مکمل کنٹرول میں لانے کی ضرورت ہو گی۔
نون لیگ بھی تذویراتی اثاثہ تھی لیکن ذرا کنٹرول سے باہر جا رہی تھی، اسے عمران کے دھرنے کے ذریعے راہ راست پر لایا جا چکا ہے۔ آب اپنے دونوں اثاثوں نون لیگ اور پی ٹی آئی کی صلح کروائی جا رہی ہے۔ کیونکہ اب نون لیگ کو اپنی مطلوبہ ضرورت کے تحت بچہ جمہورا بنایا جا چکا ہے۔
یوں بھی ہوتا ہے کہ اصل کام کوئی اور کرنا ہوتا ہے اور اس سے توجہ ہٹانے کے لیے نئی نئی پر کشش خبریں بنائی جاتی ہیں اور اپنے گوناگوں تذویراتی اثاثوں کو آپس میں لڑوا کر خبروں کا رخ موڑ دیا جاتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ دو تذویراتی اثاثے، ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی آپس میں "ڈانگو ڈانگ" ہو رہے ہوتے ہیں اور اچانک تازہ خبر آ جاتی ہے کہ 
"عمران الطاف دا بھائی اے"
تحفے دئیے جا رہے ہوتے ہیں، دعوتوں کے پر تکلف اہتمام کیے جا رہے ہوتے ہیں۔ اور ایسے لگتا ہے کہ جیسی کبھی کوئی مخالفت موجود ہی نہ تھی۔ ہم خواہ مخواہ انصاف کی امید لگا لیتے ہیں۔
ہاں البتہ اگر انصاف کرنا ہی ہے تو ماڈل ٹاؤن لاہور کے دن دہاڑے قتل عام کے مجرموں کو بھی کٹہرے میں لائیں اور تین سو کنال کی کرپشن فری جھگی میں مقیم بین الاقوامی طور پر ثابت شدہ مجرم کو استعمال کرنے کی بجائے نا اہل قرار دلوائیں۔ مگر ایسا نہیں ہو گا۔ اب تو تمام مجرموں کو بشمول صولت مرزا اور عزیر بلوچ کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی روش چل پڑی ہے۔ لگتا تو یوں ہے کہ تمام بڑے بڑے مجرم بھی تذویراتی اثاثے ہی ہیں۔ شاید ان تذویراتی اثاثوں کا تحفظ کیا جا رہا ہے ورنہ پھانسی گھاٹ سے اتار کر وعدہ معاف گواہ بنانے کا کونسا قانون کہیں موجود ہے؟
چلیں ہم بھی امید باندھ لیتے ہیں کہ تمام مجرم ختم ہو جائیں گے۔ دل کے خوش رکھنے کو یہ خیال اچھا ہے۔ ویسے ہم وہ قوم ہیں جو تنکوں کا سہارا ڈھونڈتے ہیں۔ ہم تو ہارے ہوئے سابقہ کرکٹ میچ کی ریکارڈنگ دیکھتے ہوئے جیت کی دعائیں مانگنے لگ جاتے ہیں۔
لگتا ہے کہ آجکل یمن و عرب کے اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے نئی نئی خبریں پھیلائی جا رہی ہیں اور ہم اپنی خواہشات کے غلام سرابوں کے پیچھے بھاگنے لگ جاتے ہیں اور ہزاروں دفعہ دھوکے کھانے کے باوجود امیدیں باندھ لیتے ہیں۔ گویا ہوئے جس کے سبب بیمار ہم۔ اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں۔ چلیں ایک دفعہ اور سہی۔
مکمل تحریر >>

بحران یمن پر "اصل نیشنل پالیسی".!

راقم الحروف گذشتہ چند روز کے دوران بار بار یہی لکھتا رہا ہے اور اس موضوع کو سمیٹنے کی کوشش میں ایک مرتبہ پھر عرض ہے کہ "متفقہ پارلیمانی قرارداد" ہو یا اس پر عربی ردعمل کے توڑ میں "ریاستی قلابازیاں"، اس سب کچھ میں چھپا راز صرف اتنا ہے کہ "ہم نے السعودیہ سے ڈیڑھ ارب ڈالرز کا سودا صرف جہاد شام و بحرین کی حد تک کیا تها، اب یمن کے نئے جہاد کیلئے نیا کنٹریکٹ نئی شرائط پر سائن کرنا ہو گا"، لہٰذا ہم آجر کا یہ مطالبہ ماننے سے قاصر ہیں کہ "پرائی تنخواہ پر ہی کام جاری رکھا جائے"! .
جی ہاں، "نشان حیدر خاندان" سے تعلق رکهنے والے سپہ سالار اعظم سے "قومی غیرت" کی "نیک خواہشات" وابستہ کرنے والے محبان وطن کے "پرجوش جذبات" کی حدت اب "زمینی حقائق" کو پگهلانے سے تو رہی اور تازہ ترین "یخ بستہ حقیقت" بہرحال یہ ہے کہ "پارلیمانی اتفاق رائے" کے پیچھے اگرچہ "خاکی شریف" کی اڑھائی فُٹ طویل "اسٹک" کارفرما رہی، لیکن اس "اسٹک" کے ساتھ مستقل طور پر ہیوستہ "کیرٹ" آپ کے پروفشنل سولجر کے "پیٹ" میں اُسی وقت سے ہی جگہ بنائے ہوئے ہے، جب عمران خان کے دھرنے کے دوران ہمارے سُرخ و سفید شریف نے اپنے اس خاکی بھائی کو "وار آن ٹیرر" کے بزنس میں باقاعدہ "پارٹنر" ڈیکلئر کر کے، اس وار کے گلف فیز بنام "جہاد شام و بحرین" کے ڈیڑھ ارب ڈالرز معاوضہ کی دوسری قسط بمقدار مبلغ پچھتر ملین ڈالرز سکہ رائج الوقت کی وصولی کیلئے سابق شاہ السعودیہ کی خدمت میں روانہ کیا تھا۔۔
اندریں حالات، چند روز کے اندر ہی واضح ہوجائے گا کہ پارلیمنٹ کا کاندھا سفید و خاکی شرفاء دونوں پارٹنرز کے مشترکہ منصوبہ کے مطابق، مذکورہ "جہاد" میں "محاذ یمن" کے اضافہ کے بعد نئے فرنٹ کیلئے الگ "ڈیل" کے مطالبہ کی پیش بندی کے طور پر استعمال کیا گیا، جس کیلئے شاید ابھی تک السعودیہ نے مکمل رضامندی ظاہر نہیں کی۔۔ 
باقی رہا فوجی دستے یمن بھجوانے کا معاملہ تو بے فکر رہئیے، "ڈیل" طے ہوتے ہی جب انہیں روانہ کیا جائے گا تو عوام اور پارلیمنٹ تو رہی دور کی بات، میڈیا تک کو اس کی ہوا نہیں لگنے دی جائے گی۔۔.
مکمل تحریر >>

14 اپریل، 2015

انقلابی پکوڑے

ایک بات سمجھ نہیں آ رہی۔ عمران خان کے دورہ کراچی سے قبل ضمنی الیکشن والے حلقہ 246 میں پی ٹی آئی بھر پور سرگرمی دکھا رہی تھی جسے رینجرز کی جانب سے مکمل سیکیورٹی اور میڈیا کی جانب سے زبردست کوریج بھی حاصل تھی جبکہ جماعت اسلامی کچھ ڈھیلی بھی نظر آ رہی تھی اور اس کی ریلی کو سیکیورٹی اور جلسے کو پی ٹی آئی جیسی کوریج بھی نہیں ملی لیکن عمران کے دورے کے بعد سے پی ٹی آئی کی سرگرمیاں اس حلقے میں یکدم معدوم ہو گئی ہیں جبکہ جماعت اسلامی اب چھائی نظر آ رہی ہے۔ دوسری طرف پی ٹی آئی کی ویب سائٹ پر اس حلقے میں پولنگ ایجنٹوں کے لئے اپیل کی گئی ہے جو بجائے خود ایک حیران کن بات ہے کیونکہ پولنگ ایجنٹ سیاسی جماعتوں کے قابل اعتماد ورکرز ہوتے ہیں جنہیں امیدوار خود اپنے اعتماد اور شناخت کی بنیاد پر چنتا ہے۔ جس حلقے سے گزشتہ الیکشن میں پی ٹی آئی نے تیس ہزار سے زائد ووٹ لئے وہاں پولنگ ایجنٹوں کے لئے اپیل سمجھ نہ آنے والی بات ہے۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ عمران خان کے بیانات انتخابی سے زیادہ انقلابی تھے۔ غالبا وہ اس تصور کے ساتھ کراچی گئے تھے کہ پورا کراچی ان کے تاریخ ساز استقبال کے لئے نکل آئے گا جس سے کراچی میں انقلاب برپا ہو جائے گا لیکن انکے استقبال کے لئے تیس ہزار ووٹرز کا دسواں حصہ بھی باہر نہیں آیا، شائد اسی چیز نے پی ٹی آئی کو خان صاحب کے دورے کے بعد سے سناٹے سے دو چار کردیا ہے۔ دوسری جانب سراج الحق کوئی انقلاب برپا کرنے نہیں گئے بلکہ انہوں نے اپنی ٹون انتخابی مہم تک محدود رکھی جو انکے منجھے ہوئے سیاستدان ہونے کی دلیل تھی۔ خان صاحب کا المیہ ہی یہ ہے کہ وہ منہ ضرورت سے زیادہ کھول دیتے ہیں اور دعوے اتنے بڑے کر ڈالتے ہیں کہ ہمالیہ اور قراقرم کی چوٹیاں بھی حیرت سے ایک دوسرے کو تکنے لگتی ہیں اور ان کی یہ حیرت تب ہی ختم ہوتی ہے جب کنٹینروں کے نیچے سے مرے ہوئے چوہے برآمد ہو جاتے ہیں۔ وہ شخص پی ٹی آئی کا سب سے بڑا محسن ہوگا جو خان صاحب کو اس بات پر قائل کرلے کہ پاکستانی عوام کی غالب اکثریت کو واقعی ان کے انقلاب میں کوئی دلچسپی نہیں لھذا بہتر یہی ہے کہ دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح پی ٹی آئی بھی نارمل سیاست کرے "انقلابی پکوڑے" فی الحال نہیں چل سکتے۔
مکمل تحریر >>

دیوارِ خوف سے دیوار امن تک

انسانی تاریخ میں دو دیواروں کو عالمگیر شہرت ملی ہے۔ ایک دیوار چین اور دوسری دیوارِ برلن۔ یہ تعبیر اس سے قبل استعمال تو نہیں ہوئی لیکن یوں کہنا بے جا نہ ہوگا کہ دیوارِ چین "دیوار امن" ہے جبکہ دیوار برلن "دیوارِ خوف" تھی ان دو دیواروں کے بعد اگر ہمارے ہاں کسی دیوار کو شہرت ملی ہے تو وہ کراچی کی دو دیواریں ہیں۔ ایک وہ جو ایم کیو ایم نے تعمیر کی اور دوسری وہ جس سے ایم کیو ایم کو لگایا جا رہا ہے۔ ایم کیو ایم کی یہی خوبصورتی جان لیوا ہے کہ اس میں قائد اور ورکر ایک ہی "صف" میں کھڑے ملتے ہیں۔ اب یہی دیکھ لیجئے جس وقت ڈاکٹر عمران فاروق قتل کے ماسٹر مائنڈ معظم علی کو کراچی سٹی کورٹ کی دیوار سے لگایا جا رہا تھا عین اسی وقت الطاف حسین نے بھی خود کو لندن کے ایک پولیس سٹیشن کی دیوار سے لگنے کے لئے پیش کردیا۔ یاد رہے کہ کل ایک بڑے بلڈر یعنی دیواریں بنانے والے بابر چغتائی کو بھی دیوار سے لگایا جا چکا جبکہ جاوید لنگڑا کی بھی دیوار سے لگائے جانے کی اطلاعات گردش کر رہی ہیں جو پاک بھارت دیوار کے اُس پار سے آیا تھا۔ ایم کیو ایم کے کو دیوار سے لگائے جانے کا عمل اس وقت سے نازک مرحلے میں ہے جب مچھ جیل کی دیوار سے لگے صولت مرزا نے پھانسی کے لئے دیوار چھوڑنے سے انکار کرتے ہوئے کچھ اہم ترین لوگوں کو دیوار سے لگوانے کے لئے سب کچھ بتانے کا اعلان کیا۔ تب سے صولت مرزا سکون سے دیوار سے لگا بیٹھا ہے اور اس کے انکشافات کی روشنی میں کراچی سے یہ اہم گرفتاریاں شروع ہوگئی ہیں۔ روز کسی نہ کسی کی گرفتاری ہوتی ہے اور روز رینجرز کسی کو 14 دن تو کسی کو 90 روز کے لئے دیوار سے لگانے لے جاتی ہے۔ ایم کیو ایم پر الزام ہے کہ اس نے سیاست کی آڑ میں جرائم کے اڈوں کی دیواریں تعمیر کیں جن سے کراچی میں دیوارِ خوف تعمیر ہوتی چلی گئی۔ کراچی کی یہ دیوار خوف ہمیشہ نواز شریف کے نشانے پر رہی ہے، گزشتہ ادوار کی طرح اس بار بھی وہ اپنے دور حکومت میں اس دیوار کو گرا رہے ہیں اور ایسی دیوارِ امن تعمیر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو کراچی کے شہریوں کو تحفظ فراہم کر سکے۔ ان کی پچھلی دو کوششیں تو ناکام رہی تھیں لیکن لندن کے ایک پولیس سٹیشن کی دیوار بتاتی ہے کہ دیوارِ خوف سے دیوار امن کا یہ سفر اس بار مکمل ہو کر رہے گا۔ دیوار برلن جیسی دیوارِ خوف کو گرنا ہی ہوتا ہے، پائیداری صرف دیوارِ چین جیسی دیوارِ امن کے حصے میں آتی ہے۔
مکمل تحریر >>

معیاری تعلیم کی بنیادعمارتیں نہیں، معیاری اساتذہ!

میرا پرائمری سکول اور یاد داشتیں
نام: گورنمنٹ پرائمری سکول راجہ ہرپال، ضلع سیالکوٹ
محل وقوع: سیالکوٹ شہر سے مشرق کی جانب تقریباً چھ میل کے فاصلے پر اور بذریعہ سڑک آٹھ میل کے فاصلے پر، ریاست جموں و کشمیر کی سرحد سے ایک کلو میٹر مغرب کی جانب، یعنی سیالکوٹ شہر اور جموں شہر کے درمیان میں، نالہ آیک کے کنارے پر۔
اساتذہ اکرام: ہیڈ ماسٹر محمد سخی ہاشمی آف رسول پور بھلیاں، ماسٹر ملک شیر محمد اعوان آف کھرانے، ماسٹر مہر محمد صدیق آف لالوکے۔
(تینوں وفات پا چکے ہیں، اللہ تعالی انہیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا کرے آمین) 
عرصہ تعلیم: 1957ء سے 1962ء تک۔
عمارت: سکھوں کا جنج گھر۔ ایک وسیع و عریض ہال اور کشادہ صحن۔ واضع رہے کہ 1947ء سے پہلے گاؤں راجہ ہرپال کی آبادی مسلمانوں اور سکھوں پر مشتمل تھی، دونوں کی تعداد پچاس پچاس فی صد تھی۔ آپس میں مثالی اتحاد تھا۔ سکھوں کی ایک مشہور شخصیت، سردار سنگھ صاحب، سیالکوٹ میں ایک اعلی عہدے پر فائز تھے۔ سردار سنگھ کو راجہ ہرپال سے عشق تھا، انہوں نے ایک خوبصورت باغ، ایک محل، ایک چوبارہ بنوایا اور باغ کی آبپاشی کا زبردست نظام بنایا تھا۔ انہوں نے ایک عمارت جنج گھر کے نام سے بنوائی تھی، جس سے سکھ اور مسلمان برابر مستفید ہوتے تھے۔
تقسیم ہند کے بعد سکھ تو بھارت منتقل ہو گئے اور ان کی جگہ جموں کے علاقے سے آنے والے مسلمان پناہ گیروں نے لے لی۔
پاکستان قائم ہونے کے بعد جنج گھر کی عمارت پرائمری سکول کے طور پر استعمال ہونے لگی۔ یہ عمارت 1965ء کی پاک بھارت جنگ تک قائم رہی اور بھارتی فوج کے قبضے کے دوران تباہ ہوئی۔ آج بھی اس کی دیواروں کے کچھ آثار موجود ہیں۔ سکول کی عمارت نئی جگہ بنا دی گئی ہے۔
فرنیچر: اس کا مکمل فقدان تھا حتی کہ ٹاٹ بھی نہ تھے۔ ہم لوگ اپنے گھروں سے بوری لے کر آتے تھے اور اساتذہ ساتھ والے گھروں سے چارپائی منگوا لیتے تھے۔ اساتذہ انتہاء محنتی، فرض شناس، قابل ترین اور ہونہار تھے، ان کی خوش خطی بہت خوبصورت اور قابل دید تھی۔ اس لیے میں کہتا ہوں۔
Proud to be Borian
ماسٹر محمد سخی ہاشمی کی خدمات: ماسٹر صاحب طویل عرصہ تک راجہ ہرپال میں تعینات رہے، وہ گاؤں کی تین نسلوں کے استاد تھے، وہ اپنے شاگردوں خصوصاً ذہین طالب علموں سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ راجہ ہرپال کے تو گویا عاشق تھے۔ ان کی کوشش ہوتی تھی کہ راجہ ہرپال میں ہر قسم کی سہولتیں دستیاب ہوں، وہ گویا راجہ ہرپال کے دوسرے سردار سنگھ تھے۔ گاؤں میں بجلی نہ تھی، ان کی کوشش تھی کہ راجہ ہرپال میں بجلی آئے اور تمام دیہات سے پہلے آئے۔ وہ بھٹو کے دیوانے اور پیپلز پارٹی کے زبردست جیالے تھے۔ وہ اپنی ذاتی کوششوں اور پیپلز پارٹی سے اپنے مضبوط رابطوں کو استعمال کرتے ہوئے1973ء میں بجلی لے آئے جبکہ بجلی کے کھمبوں کی طویل لائن کے راستے میں آنے والے کئی دیہات میں کئی سال بعد بجلی فراہم ہو سکی۔ 
میں اپنی والدہ کی خواہشات اور دعاؤں کی بدولت تعلیم میں اچھا تھا۔ اس لیے ماسٹر صاحبان نے مجھے خصوصی مقام عطا کیا ہوا تھا۔ وہ مجھ سے بے پناہ شفقت کرتے تھے۔ مہابھارت کی کہانی کے مطابق ماسٹر سخی گویا میرے درون تھے اور میں ان کا ارجن۔ مہابھارت کا ہیرو ارجن کا اتالیق درون تھا اور اس پر کرشن مہاراج کی نظر کرم تھی۔ یوں ارجن مہابھارت کی جنگ میں ہزاروں پر بھاری پڑا تھا۔
پرائمری سکول کاسب سے اہم واقعہ ضلع سیالکوٹ کا وظیفے کا امتحان تھا۔ اس وقت کے ضلع سیالکوٹ میں ضلع نارووال بھی شامل تھا۔ یہ مقابلے کا امتحان پورے ضلع کے شہری اور دیہاتی پرائمری سکولوں کے نہایت ہونہار طلباء میں سے صرف پانچ طالب علموں کو منتخب کرنے کے لیے ہوتا تھا۔
ضلع بھر کے قابل ترین اساتذہ اپنے قابل ترین شاگردوں کو اس امتحان میں شرکت کے لیے سال بھر کی تیاری کے بعد یہ اعزاز حاصل کرنے کیلئے لاتے تھے۔ راجا ہرپال کیاساتذہ نے بھی پہلی بار مجھے اس امتحان میں شرکت کے لیے تیاری کروائی۔ اس امتحان میں شرکت کے لیے ہزاروں امیدوار لائے جاتے تھے اور انتخاب صرف پانچ کا ہونا ہوتا تھا۔
مجھے اس امتحان کی بھر پور تیاری کروائی گئی۔ ماسٹر شیر محمد نے پانچویں جماعت کے علاوہ چھٹی، ساتویں اور آٹھویں جماعت کے "حساب" کے سوالات بھی حل کروا دئیے۔ سب سے بڑھ کر میری والدہ یعنی میری کرشن مہاراج کی دعائیں شامل تھیں۔
یہ امتحان سیالکوٹ کے جناح پارک کی وسیع و عریض گراؤنڈ میں ہوا تھا جہاں بعد میں کرکٹ اسٹیڈیم اور جامعہ سکول بنادیا گیا۔ ضلع بھر سے ہزاروں طالب علموں نے حصہ لیا۔ ماسٹر سخی صاحب مجھے وہاں چھوڑ کر اپنے دیگر کاموں کے لئے کہیں شہر میں چلے گئے۔ ایک جامع قسم کے تحریری اور زبانی امتحان کے بعد نتیجے کے اعلان کے لمحات بھی آ گئے۔ اعلان کیا جانے لگا۔ ماسٹر سخی موجود نہ تھے۔ پانچ کامیاب امیدواروں میں محمد یوسف گورنمنٹ پرائمری سکول راجہ ہرپال کا نام پکارا گیا تو میری خوشیوں کی انتہا نہ رہی مگر بہت سوں کے ہوش گم ہو گئے۔ وہاں پر ضلع بھر کے اساتذہ جمع تھے جن میں سیالکوٹ شہر، ڑسکہ، سمبڑیال، پسرور، نارووال، شکر گڑھ اور تمام چھوٹے بڑے قصبے اور دیہات شامل تھے۔ سب حیران تھے کہ راجہ ہرپال بھی کوئی سکولوں میں سے سکول ہے، کوئی کہہ رہا تھا کہ وہ ماسٹر سخی کا سکول، جو سکھوں کے جنج گھر میں ہے، کوئی کہہ رہا تھا کہ وہ تو ٹاٹ سکول بھی نہیں ہے۔ 
ماسٹر سخی صاحب آئے اور بہت خوش ہوئے کہ آج ان کا ارجن جیت گیا۔ گھر پہنچے تو یہ خبر سن کر والدین کی خوشیوں کی کوئی انتہا نہ تھی۔ والدہ نے پورے گاؤں راجہ ہرپال اور ملکے شرف الدین میں گھر گھر جا کر خود مٹھاء ی اور خطائیاں بانٹیں اور ہر ایک کو بتایا کہ میرے محمد یوسف نے وظیفے کا امتحان جیت لیا ہے۔ میرے راجہ ہرپال کا نام روشن ہو گیا۔ 
یہ ثابت ہو گیا کہ سکول کی عمارت اور فرنیچر اہم نہیں ہوتا، اساتذہ اہم ہوتے ہیں، ان کی قابلیت اور جذبہ اہم ہوتا ہے۔ فیکلٹی اہم ہوتی ہے، جنون اہم ہوتا ہے۔
Proud to be Borian of Raja Harpal
Proud to have Excellent Parents and Brilliant Teachers.

مکمل تحریر >>

انسانیت

انسان کی منزل انسانیت کے اعلی معیار کا حصول ہے۔ مذہبی معاشرے دعوی کرتے ہیں کہ وہ اخلاقیات کا مثالی نظام رکھتے ہیں اور دنیا و آخرت کی کامیابیوں کے لیے ان کے پاس جامع نظام حیات موجود ہے۔ یوں وہ فخر و مباحات میں مگن رہتے ہیں۔ مگر عجب اتفاق ہے کہ غیر مذہبی معاشرے جہاں لوگ آخرت کے انعام و اکرام کی کوئی امید نہیں رکھتے، وہ جزا و سزا پر بھی یقین نہیں رکھتے۔ وہاں انسانیت کا معیار بہتر ہی نہیں بلکہ بہت بہترہے۔ وہاں سچائی کا معیار بہتر ہے، ایمانداری کا درجہ بلند ہے۔ ایک انسان دوسرے انسان کواپنے جیسا سمجھتا ہے، انسان انسان کے کام آتا ہے۔ سماجی بہبود کا نظام ہے، قانون کی حکمرانی ہے۔ یہ درست ہے کہ وہاں بھی بہت سے مسائل حل طلب ہیں۔ 
دوسری طرف مذہبی معاشروں میں بہت ساری بنیادی اخلاقیات کا فقدان ہے۔ بہت سے مذہبی راہنما اور تنظیمیں خلق خدا کو لوٹنے میں مصروف ہیں۔ مذہبی لوگوں کے لیے ضروری کہ ایک اعلی معاشرہ تشکیل دے کر مثال قائم کریں۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں خوف نہ ہو، حزن نہ ہو، اعتماد ہو۔ انسانیت کے اعلی ترین معیار کا عملی نمونہ ہو اور بہترین مثال ہو ورنہ محض دعووں سے کوء فرق نہیں پڑنے والا۔ پھر تو اگر غیر مذہبی معاشرے انسانیت کے زیادہ قریب ہیں تو انہیں مذہب کی کیا ضرورت ہو گی۔
حقیقت تو یہ بھی ہے کہ خلق خدا کی کمائی ہر ہر حربے سے لوٹی جا رہی ہے۔ اور زیادہ تر یہ لوٹ مذہب ہی کے نام پر کی جا رہی ہے۔
امیر شہر فقیروں کو لوٹ لیتا ہے
کبھی بحیلئہ مذہب، کبھی بنام وطن
احمد فراز
اور اقبالؒ فرماتے ہیں:
خلق خدا کی گھات میں، رند و فقیہہ و میر و پیر
تیرے جہاں میں ہے وہی گردش صبح و شام ابھی

مکمل تحریر >>

اقلیمہ

جو ہابیل اور قابیل کی ماں جائی تھی، نسل انسانی کی امین تھی۔ اپنی شناخت بلکہ نام تک کھو بیٹھی ہے۔ اس کے تمام حقوق پر ڈاکہ ڈالا جا چکا ہے۔ اس کا نام بھی اب اقلیمہ نہیں ہے۔ اس کی ہم نسلیں اب اپنا کوئی نام نہیں رکھتیں۔ اب ان کا نام کرمداد کی بیٹی، نتھے خان کی بہن، بانے خان کی بیوی، چراغدین کی والدہ اور محمد یوسف کی دادی رہ گیا۔ گویا اقلیمہ کی ہم نسل اپنا نام برکت بی بی بھی گم کر بیٹھی۔ اقلیمہ پر اس کے اپنوں نے قبضہ جما لیا۔ مگر اقلیمہ کی ہم نسلوں نے اپنے فرض سے کوتاہی نہیں برتی۔ وہ قربان ہو ہو کر نسل انسانی کے تسلسل کو قائم رکھتی آ رہی ہیں۔ عہد وفا نبھا رہی ہیں۔ اپنا نام تک چھن جانے کی پرواہ نہیں کی۔ انہیں زندہ در گور کیا جاتا رہا۔ اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر، اپنے بدن کی شکست و ریخت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے، اپنی راتوں کی نیند حرام کرتے ہوئے، قسم قسم کے طعن و تشنیع اور بد زبانی کو برداشت کرتے ہوئے اپنے فرض منصبی کو انجام دیتی رہیں۔ انھوں نے کسی سے گلہ نہیں کیا اور نہ ہی شکریے کی امید رکھی۔ انہوں نے وفا کا سلسلہ جاری رکھا۔ سارہ، حاجرہ، آسیہ، مریم، خدیجہ، فاطمہ، زینب وفا کا ہی تسلسل ہے۔ 
انسانیت اس وقت تک تکمیل کا مرتبہ حاصل نہیں کر سکتی جب تک اقلیمہ کے حقوق ادا نہیں کرتی، اقلیمہ کے احسان کو نہیں مانتی۔ اقلیمہ یقینی طور پر عظمتوں کی داستان ہے-
مکمل تحریر >>

سانجھی منزل-Common Destiny

تمام انسانوں کی منزل ایک!
امن
عدل
مساوات
محبت اور بھائی چارہ
البتہ سب کے راستے جدا جدا ہیں اور سب کے راستوں میں ایک جیسی رکاوٹیں ہیں۔ کسی بھی مذہب کو ماننے والے یا کسی بھی مذہب کو نہ ماننے والوں کی منزل یکساں ہے، ایک ہے۔ ہر کوئی کسی نہ کسی کا منتظر ہے کہ وہ آئے اور پوری دنیا میں امن، عدل اور مساوات قائم کرے اور ہر کوئی اس تحریک کا پر جوش طریقے سے حصہ بننا چاہتا ہے۔ 
مسلمانوں کا ایک فرقہ امام مہدی کے پیدا ہونے کا منتظر ہے، دوسرا فرقہ ان کے ظہور کی دعائیں مانگتا رہتا ہے۔ اہل یہود حضرت عزیرؑ کی دوبارہ آمد کے منتظر ہیں تو عیسائی حضرت عیسیٰ  ؑکی دوبارہ آمد کے منتظر۔ بدھ مت کے پیروکار مہاتما بدھ کی آمد کا انتظار کر رہے ہیں، ہندو اپنے اوتاروں کے منتظر اور سکھ گروکوربند سنگھ کے۔
کمیونسٹ پوری دنیا میں اشتراکی انقلاب پر یقین رکھتے ہیں اور تمام دنیا میں انٹر نیشنال انسان کا خواب دیکھتے ہیں۔ گویا سب کی منزل ایک ہے۔
تمام انسان لوٹ کھسوٹ کے نظام سے چھٹکارا چاہتے ہیں مگر سامراج نے سب کو اپنے گماشتوں کے ذریعے استحصالی نظام میں جھکڑا ہوا ہے۔ تمام مذاہب کے ہامانوں نے عوام الناس کو انتظار کے عجیب و غریب فریب میں جکڑا ہوا ہے اور استحصالیوں کو لوٹ مار کا کھلا موقع فراہم کیا ہوا ہے۔ یعنی عوام الناس تو کسی کا انتظار کرتے رہیں اور فرعونوں، ہامانوں اور قارونوں کا کٹھ جوڑ مزے لوٹتا رہے۔ 
انسانوں کو متحد ہونا ہو گا۔ قبیلوں، کنبوں، علاقوں، رنگوں، نسلوں کی تقسیم سے اوپر اٹھنا ہوگا۔ نسل آدم کی جسمانی تکمیل بھی آپس کیمیل ملاپ سے ہی ہو گی۔ قسم قسم کی مٹی سے بنے ہوئے آدم اپنی اپنی جینز کی کمزوریاں باہمی ملاپ سے دور کریں گیاور ایک مکمل آدم کی منزل پائیں گے۔ اقبالؒ فرماتے ہیں:
عقل ہے ہیزمام ابھی، عشق ہے بے مقام ابھی
نقش گر ازل! تیرا نقش ہے نا تمام ابھی
انسانوں کی سماجی منزل بھی ایک ہے اور تمام انسانوں کو مل کر جدوجہد کرنا ہو گی اور انتظار کے پیچیدہ فلسفے سے آزاد ہونا ہو گا۔ ہمارے سابقہ راہنماؤں نے منزل اور راستے کا تعین کر دیا ہے۔ انہوں نے اپنے حصے کی قربانیاں دے دی ہیں۔ اب ہم نے آگے بڑھنا ہے۔ اب ہم نے ان کی قتل گاہوں سے ان کے علم چن کر عشاق کے قافلے بننا ہے۔ 
اقبالؒ فرماتے ہیں:
کھلے جاتے ہیں اسرار نہانی
گیا دور حدیث لن ترانی
جس کی خودی ہوئی پہلے نمودار
وہی مہدی وہی آخر زمانی
اور لیڈر (امام) کی شناخت یوں کرواتے ہیں:
ہے تیرے زمانے کا وہی امام بر حق
جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے
موت کے آئینے میں دکھا کر رخ دوست
زندگی تیرے لیے اور بھی دشوار کرے
ہے فتنہ ملت بیضا امامت اس کی
جو مسلماں کو سلاطین کا پرستار کرے
مکمل تحریر >>

یا منافقت تیرا ہی آسرا .!

متفقہ پارلیمانی قرارداد کا "ذکر خیر" اور پھراُسی سانس میں اُس کی "الباکستانی تشریح"۔۔ جی ہاں، "جو چاہے آپ کا حُسن کرشمہ ساز کرے"۔!!
''پارلیمنٹ کی متفقہ قرارداد کی روشنی میں یمن میں غیر جانبداری کے اصولی موقف پر قائم ہیں "!"یمن میں صدر ہادی کی حکومت بحال کرانے کیلئے ہر حد تک جائیں گے"!"سعودی عرب جیسے سٹریٹجک پارٹنر کو ناراض نہیں کر سکتے"!
"اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ سعودی عرب کی سلامتی کو یمن بحران سے کس صورت میں خطرات لاحق ہوسکتے ہیں "! جی ہاں خواتین و حضرات، یہ ہیں ریاست الباکستان کے "سویلین شریف جاتی امرا"، پارلیمانی قرارداد کی نئی "تعریف" کے ساتھ .. دیکھنا اب یہ ہے کہ "خاکی شریف راولپنڈی" اس قسم کی نیوز کانفرنس، اپنے جوانوں کو یمن میں "مصروف جہاد" اپنے "اثاثہ جات" کی جگہ لینے کیلئے بھجوا دینے کے بعد کرتے ہیں یا اس سے ذرا پہلے؟؟ آپ کو یاد ہوگا قارئین کرام کہ ہم نے پارلیمان کی "متفقہ غیرت قرارداد" کی منظوری کے فوراً بعد آپ کو بتلا دیا تھا کہ "شریف" چاہے سرخ و سفید ہو یا خاکی النسل، ہر ایک کے نزدیک سعودی جہاد یمن میں "غیر جانبداری" کا مطلب "یمن کے معزول صدر ہادی کی بذور بحالی کیلئے، حوثی جنگجووں کے خلاف جہاد میں اتحادی افواج کے شانہ بشانہ عملاً شمولیت" کے سوا کچھ بھی نہیں اور السعودیہ یا حرمین کو کسی بھی قسم کے خطرے کی عدم موجودگی کے باوجود، اس قرارداد میں "سعودی عرب کی حفاظت" کی شق زبردستی ڈالنے کی غرض و غایت بھی اس کے علاوہ کچھ نہیں بنتی کہ بوقت ضرورت سعودی عرب یا مقامات مقدسہ کو درپیش "ازخود خطرات" پیدا کر کے، الباکستانی دستوں کو یمن میں "باغیوں " کے خلاف برسر پیکار اتحادیوں کی کمک کیلئے بھجوانے کا جواز تراشا جاسکے .. کیا فرماتے ہیں بیچ اس مسئلہ کے اب، ریاست الباکستان اور الباکستانی محافظین سے "غیرت مندی" کی اندھی عقیدتیں باندھ کر اس ناچیز کو "رجائیت پسندی" کے درس دینے والے احباب گرامی؟؟؟
مکمل تحریر >>

13 اپریل، 2015

تعلیم و تدریس

تعلیم علم حاصل کرنے کا نام ہے اور تدریس علم تقسیم کرنے کا نام ہے، اکثر چیزیں تقسیم کرنے سے کم ہوتی ہوتی ختم ہو جاتی ہیں لیکن علم وہ واحد چیز ہے کہ جو تقسیم کرنے سے بڑھتی ہے بلکہ جتنا زیادہ تقسیم کیا جائے، اتنا اور زیادہ بڑھتا ہے۔ اگر اسے چھپا کر رکھا جائے تو بالآخر ختم ہو جاتا ہے۔ علم میں "تقسیم" کا مطلب "ضرب" ہوتا ہے۔ حصول علم کی ابتدا معلومات سے ہوتی ہے اور معلومات حواس خمسہ کے ذریعے اکٹھی کی جاتی ہیں یعنی سنتے کانوں اور دیکھتی آنکھوں کے ذریعے اور دیگر حواس کی مدد سے تصدیق بھی ضروری ہے۔ دیگر حواس میں سونگھنا، چھونا اور چکھنا شامل ہیں۔ اہم اور قابل اعتماد معلومات ہڈ بیتیاں ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ جگ بیتیاں بھی معلومات فراہم کرتی ہیں۔ جگ بیتیاں دوسروں کی ہڈ بیتیاں، مشاہدات اور تجربات ہوتے ہیں۔ ان کی تصدیق اپنے حواس خمسہ سے بھی کی جاتی ہے۔ آجکل جگ بیتیوں کے انبار لگے ہوئے ہیں، ایک ہی موضوع پر بے شمار Websites ہیں۔ معلومات کے ذخیرے ہیں اور اکثر معلومات کے لیے Website کا انتخاب مشکل ہو جاتا ہے کہ "علم تو معلومات میں گم ہو گیا ہے" Knowledge is lost in information"
اس طرح جمع شدہ معلومات میں سے غور وفکر اور تجزیے کے ذریعے علم اخذ کیا جاتا ہے۔ علم ایک بہت بڑی قوت ہے لیکن اس کا استعمال دو قسم کا ہوتا ہے۔ ایک تو منفی ہوتا ہے اور دوسرا مثبت۔
منفی استعمال سے فوری فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے، دوسروں کو دھوکا دیا جا سکتا ہے، خلق خدا کا شکار کیا جا سکتا ہے۔ ایسے لوگوں کو Evil Genius کہا جاتا ہے۔ اس میں ساحرانہ رویوں اور عمل سے دوسروں کی جیب پر ہاتھ صاف کیا جاتا ہے۔ ان میں قسم قسم کے ہامان، فرعون اور قارون شامل ہیں۔
اقبالؒ کہتے ہیں:
خلق خدا کی گھات میں، رند و فقیہہ و میر و پیر
تیرے جہاں میں ہے وہی گردش صبح و شام ابھی
دانش و دین و علم و فن، بندگی ہوس تمام
عشق گرہ کشائے کا فیض نہیں ہے عام ابھی
یوں علم کا منفی استعمال بہت نقصان دہ ہوتا ہے، ترقی و خوشحالی کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے، استحصالی نظام کو تحفظ فراہم کرتا رہتا ہے۔ 
علم کا مثبت استعمال نئی نئی راہیں کھولتا ہے، یہ علم کے تقاضوں کے مطابق ہوتا ہے، اس میں میدان عمل میں بے خوف و خطر کودنا ہوتا ہے، قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔ ایسے لوگوں کی زندگیاں مشکلات میں گزرتی ہیں لیکن انہی کی بدولت انسانی قافلہ اعلی و ارفع منازل کی طرف رواں دواں ہے۔
آجکل تدریسی عمل حرص و ہوا کے گرد طواف کر رہا ہوتا ہے۔ علم سے عشق نہیں بلکہ صرف مفاد وابستہ ہوتا ہے۔ اسی لیے تو ساون بھادوں کی گھاس طرح اگنے والے گونا گوں تعلیمی ادارے، سکول، کالج اور یونیورسٹیاں محض روبوٹ پیدا کر رہے ہیں۔ شاعروں،ادیبوں اور فلاسفروں کا فقدان ہے، شعور ناپید ہے۔ کلاس روموں میں پاور پوائنٹ اور ملٹی میڈیا کا استعمال عام ہے۔ بحث و مباحثہ کا فقدان ہے، سوال پوچھنے کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے کیونکہ معلم کو اپنے اوپر اعتماد نہیں ہوتا، علم کی پختگی نہیں ہوتی۔ اسی لیے سادگی نہیں ہوتی، اس لیے اپنے اوپر نام نہاد علمیت کا خول چڑھا کر طالبعلموں سے فاصلہ رکھا جاتا ہے۔ خود اپنے موضوع پر عبور نہیں ہوتا اور دوسروں کو بھی گنجھلدار بجھارتوں میں الجھا دیتے ہیں:
"Confused people spread confusion."
"Simplicity follows clarity."
معلم کا اصل کام طالب علم میں تجسس اور علم سے عشق پیدا کرنا ہوتا ہے، اسے علم کا جنونی بنانا ہوتا ہے، آگے کی منزلیں تو پھر اس کے قدموں میں ہوں گی۔
تدریس ایک معزز شعبہ ہے، یہ پیغمبرانہ عمل ہے۔ علم کے ساتھ جنون کی حد تک وابستگی مانگتا ہے۔ یہ کمائی کا ذریعہ یا پیشہ نہیں ہے۔ یہ تو عشق سے بھی آگے کی منزل ہے۔ یہ تو بے پناہ طاقت کا حامل بن جاتا ہے۔ اور جب علم اور شجاعت مل جاتے ہیں تو کس کی مجال ہے کہ سامنے کھڑا ہو سکے۔ وہ عمرو ابن عبدود ہو یا مرحب، علم و شجاعت کی ضرب حیدری سے پاش پاش ہو جاتا ہے۔ اس طاقت کا امیری و غریبی سے کوئی واسطہ ہی نہیں ہے۔
تیری خاک میں ہے اگر شرر تو خیال فقر و غنا نہ کر
کہ جہاں میں نان شعیر پر ہے مدار قوت حیدری
علامہ اقبالؒ 

مکمل تحریر >>

اونٹ-Camel

اونٹ ایک ایسا جانور ہے جو انسان کے بہت سے کام سرانجام دے سکتا ہے۔ ویسے تو بہت سے جانور انسان کے کام آتے ہیں مثلاً گائے، بیل، بھینس، گھوڑا وغیرہ، لیکن اونٹ سب سے زیادہ کام انجام دے سکتا ہے، جو مندرجہ ذیل ہیں۔
۱۔ دودھ
۲۔ گوشت
۳۔ کھال
۴۔سواری
۵۔ مال برداری
۶۔ کھیتی باڑی
اونٹ کی یہ خوبی ہے کہ اس پر بچے، بوڑھے، خواتین اور کمزور اشخاص آسانی سے سوار ہو سکتے ہیں، اس پر آسانی سے بوجھ لادا جا سکتا ہے۔ یہ جتنا بوجھ اٹھا کر چل سکتا ہے، اتنا لادا ہوا بوجھ بیٹھا ہوا اور لدا ہوا لیکر اٹھ بھی سکتا ہے۔
اونٹ ریگستان میں اور ریت کے طوفان میں باآسانی سفر کر سکتا ہے۔ اونٹ کی آنکھ کے دو پردے ہوتے ہیں، ایک پردہ شفاف ہوتا ہے اور ریت کے طوفان میں ریت سے بچاتا ہے اور اپنا راستہ بھی دیکھ سکتا ہےانہی خوبیوں کی بدولت اونٹ کو صحرائی جہاز بھی کہا جاتاہے۔
اونٹ ایک کفائیت شعار جانور ہے۔ یہ اپنی پاس دس دنوں کے لیے پانی اور چالیس دنوں کے لیے خوراک کا ذخیرہ محفوظ رکھتا ہے۔ اس لیے بے آب و گیاہ ریگستانوں میں سفر کر سکتا ہے۔ خوراک اور پانی کے ذخیرے میں جو کمی واقع ہوتی ہے اسے دستیاب ہونے پر ذخیرہ مکمل کر لیتا ہے۔ 
انسانی صحت کے اعتبار سے اس کا دودھ اور گوشت انتہائی مفید ہے۔
قرآن کریم میں بھی اونٹ کو اللہ تعالی کی ایک آیت کہا گیا ہے۔ 
محاورہ ہے کہ " اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی "۔ لیکن اس کی لمبی گردن ہی بیٹھے ہوئے اونٹ کو وزن اور سواریوں سمیت اٹھنے میں مدد دیتی ہے، یہ گویا ایک لیور کا کام کرتی ہے۔ 
"نہیں ہے نکمّی کوئی چیز قدرت کے کارخانے میں "۔

مکمل تحریر >>

شہد کی مکھی Honey Bee

شہد کی مکھی، Honey Bee، زنبورعسل،نحل
یہ بہت چھوٹی سی مگر انتہائی دلچسپ مخلوق ہے۔ اس کا نظم و ضبط، جانفشانی، یاد داشت، رسل و رسائل کا نظام اپنی مثال آپ ہے۔ شہد کی مکھیوں کا ایک چھتہ ہوتا ہے جہاں تمام سوراخ یعنی مکھیوں کے تمام گھر ایک جیسے ہوتے ہیں۔ ہر مکھی کا Cell اپنا اپنا ہوتا ہے۔ اس پر کوئی رنگ، نمبر وغیرہ بھی نہیں ہوتا مگر کوئی مکھی اپنا گھر Cellکبھی نہیں بھولتی جو کہ انسانوں کے لیے غور طلب ہے۔ شہد کی مکھیوں کی ایک ملکہ Queen ہوتی ہے جو نہایت اعلی طریقے سے تمام نظم و نسق کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ ملکہ کی ایک منظم پارلیمنٹ ہوتی ہے جس سے انسانوں کو بھی سیکھنا چاہیے۔
ملکہ کی زیر نگرانی ایک ہراول دستہ Survey Team ہوتی ہے جو جنگل میں سروے کرتی ہے کہ رس دینے والے پھول کہاں کہاں ہیں اور ان سے کس کس وقت رس حاصل کیا جا سکتا ہے۔ بعض اوقات رس والے پھولوں کی تلاش میں سروے ٹیم دس دس میل تک چھتے سے دور چلی جاتی ہیں۔ وہ مکھیاں واپس آ کر تفصیلی رپورٹ دیتی ہیں کہ رس والے پھول کہاں کہاں واقع ہیں اور وہ کس وقت رس دے سکتے ہیں، کیونکہ کچھ پھول صبح کے وقت رس دیتے ہیں اور بعض دوپہر، سہ پہر اور شام کو۔ تعجب کی بات تو یہ بھی ہے کہ مکھیاں جنگل کے پیچیدہ راستوں میں گم نہیں ہوتیں اور نہ ہی چھتے میں اپنے اپنے مخصوص گھر کا رستہ بھولتی ہیں۔ در اصل ہوتا یہ ہے کہ مکھیاں جہاں جاتی ہیں رستے میں ایک خوشبو چھوڑتی جاتی ہیں جس کا اثر چوبیس گھنٹے تک رہتا ہے اور مکھی اسی خوشبو کے سہارے اپنے گھر تک پہنچ جاتی ہے۔
کچھ پھولوں کا رس زہریلا بھی ہوتا ہے اور اگر یہ شہد بنانے میں شامل ہو جائے تو خطر ناک ہو سکتا ہے مگر شہد کی مکھیوں میں ایک ایسی مکھی ہوتی جو ہر مکھی کے لائے ہوئے رس کا معائنہ کرتی ہے اور زہریلے رس والی مکھی کو چھتے میں داخل نہیں ہونے دیتی اور اسے مار دیتی ہے۔ اس مکھی کا نام یعسوب ہے۔ یوں ہر لحاظ سے صحت مند شہد تیار ہوتا ہے۔
ایک اور حقیقت کہ محض دس گرام شہد بنانے کے لیے ایک مکھی کو اتنی بار رس لینے کے لیے پھولوں کی طرف بار بار جانا پڑتا ہے کہ یہ فاصلہ کرۂ ارض کے گرد ایک چکر کے برابر ہو جاتا ہے۔ شہد کی مکھی کے ایک گھر کے ڈیزائن کے بارے میں ایک اور زبردست حقیقت عیاں ہوئی وہ اس طرح کہ جرمنی میں ایک سکالر نے اپنے پی ایچ ڈی تھیسز کے لیے کچھ ماڈل بنا کر تحقیق کی کہ کونسی شکل کا ماڈل زیادہ مضبوط ہے کہ جس میں میٹریل بھی کم سے کم استعمال ہو۔ یہ سول انجنیئرنگ کا تھیسز تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ یہ چھ ضلعوں والی شکل کا ماڈل تھا اور اندر سے سلنڈر نما اور اس کا اندرونی زاویہ109 ڈگری اور 26منٹ کا تھا۔ پی ایچ ڈی مکمل ہو گئی۔ یعنی Cylindrical Hexagon .
یونیورسٹی نے کچھ عرصہ بعد ایک اور انجنئیر سے تصدیق کروائی، دوبارہ سارے ماڈلز کی ٹیسٹنگ کی گئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پہلے انجنئیر کے حاصل کردہ تحقیقی نتائج درست ہیں البتہ اندرونی زاویے میں فقط دو منٹ کا فرق ہے۔ یہ زاویہ109 ڈگری اور28 منٹ نکلا۔
بعد میں معلوم ہوا کہ شہد کی مکھی کا ایک گھر ایسی ہی شکل کا ہے اور اس کا اندرونی زاویہ بھی109 ڈگری اور28 منٹ ہے۔ قرآن کریم کی سورہ نحل میں شہد کی مکھی کے گھر پر غور کرنے کا ذکر ہے۔ 
شہد کی مکھی کا سب سے بڑا کارنامہ شہد ہے جو انسانی صحت کے انتہائی مفید ہے۔

مکمل تحریر >>

دڑھ وٹ، زمانہ کٹ!

دڑھ وٹ، زمانہ کٹ،بھلے دن آون گے،مایوسی گناہ ہے،آخری فتح سچ کی ہو گی،سچ کا سورج چمکے گا تو تمام اندھیری راتیں ختم ہو جائیں گی۔ مگریہ سب خودبخودتونہیں ہوگا،کچھ توکرناہوگا، جدوجہد، تنظیم،اتحاد،قربانیاں تولازم ہیں۔
فی الحال تو نہ کوئی تنظیم ہے اور نہ کوئی لیڈر۔ لیڈرشپ کا قحط الرجال ہے اور کوئی ایسا ویسا قحط الرجال۔ ابھی تو ہمارے اپنے ہاتھوں سے قبر کھدوائی جا رہی ہے اور دفن بھی ہمارے ہی ہاتھوں سے کروایا جا رہا ہے۔ عالمی سامراجی قوتوں کا وسیع تجربہ ہے۔ انہوں نے اپنی بین الاقوامی تجارتی راہداری کا مکمل تحفظ کرنا ہے۔ یہ اہم راہداری بحر الکاہل سے شروع ہوتی ہے اور جبرالٹر کے راستے سے بحیرۂ روم میں داخل ہوتی ہے۔ جبرالٹر کے اہم مقام پر برطانیہ کا مسلح بحری بیڑہ بحری تجارت کے تحفظ کے لیے موجود ہے تا کہ یورپ کی مخالف سمت میں واقع مسلمان افریقی ممالک تجارتی راہداری میں کوئی رکاوٹ نہ ڈال سکیں۔ ان ممالک میں مراکش، الجیریا، تیونس، لیبیا اور مصر شامل ہیں۔ مصر کو تو بہت پہلے سبق سکھا کر سر نگوں کر دیا گیا۔ تیونس، لیبیا اور دیگر ممالک کو کنٹرول کیا جا چکا ہے۔ اسرائیل کی صورت میں بحیرۂ روم کے مشرق میں تجارتی راہداری کے تحفظ کے لیے مضبوط کیا جا چکا ہے۔ بحیرۂ روم سے نہر سویز میں سے ہوتے ہوئے راہداری بحیرۂ احمر میں داخل ہوتی ہے۔  بحیرۂ احمر میں مشرق کی طرف قابل اعتماد سعودی عرب موجود ہے۔ مغرب میں واقعہ مصر، سوڈان، اریٹیریا، جبوتی، ایتھوپیا کنٹرول میں لائے جا چکے ہیں۔ اب مسئلہ صرف یمن اور صومالیہ کا ہے۔ یمن کی آبنائے باب المندب انتہائی اہم ہے۔ اس پر کنٹرول تجارتی راہداری کی ضرورت ہے۔ یہ کنٹرول سعودی عرب کی سربراہی میں حاصل کیا جا رہا ہے۔ یمن کے حوثیوں نے نہ تو سعودی عرب پر حملہ کرنے کی کوئی دھمکی دی ہے اور نہ کوئی ارادہ ظاہر کیا ہے۔ سارا معاملہ بحری راہداری پر مکمل کنٹرول کا ہے۔ یمن اور صومالیہ کو منصوبے کے مطابق کنٹرول کیا جانا ہے، خواہ انہیں تقسیم در تقسیم ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ ایران بھی رابطے میں ہے کیونکہ حوثی دہشت گرد نہیں ہیں اور ان کا دم خم نکالنے کے بعد مذاکرات ہی کرنا پڑیں گے اور اس وقت حوثیوں کے ساتھ ساتھ ایران کی بھی ضرورت ہو گی۔
دیکھتے جائیے، کس کس طریقے سے یہ سامراجی منصوبہ پایا تکمیل کو پہنچتا ہے۔
مکمل تحریر >>

ہاتھی کے دانت.!

عقل سلیم رکھنے والوں کیلئے متحدہ عرب امارات کے نائب وزیر برائے خارجہ امور کی "ننگی دھمکی" پر یو اے ای کے سفیر کی طلبی کی بجائے، "خود مختار ریاست" کے دفتر خارجہ کے اس "زنانہ" استدلال میں بہت کچھ چھپا ہے کہ "ردعمل تصدیق کے بعد ظاہر کیا جائے گا".. بالفاظ دیگر "معاف کر دیجئے حضور، غلطی کی تلافی جلد کر دی جائے گی"!
جی ہاں، وزیراعظم کی شاہ سعودیہ سے ملاقات کے بعد شاہ کے ترجمان اور پهر وزیر دفاع کے دورہ کے بعد ان کے سعودی ہم منصب شہزادہ مقرن کے ذاتی بیان، دونوں کی رو سے "پاکستان نے یمن میں فوجی تعاون کی یقین دہانی کرا رکھی ہے" ..
آگے آپ خود سمجھ دار ہیں، ماشاء اللہ!
مکمل تحریر >>

تخلیق آدم اور تکمیل آدم-اُمّ الکتاب کی روشنی میں

آدم کی تخلیق کائنات کی تخلیق کا حصہ ہے۔ کائنات چھ ایام (ستہ ایام) یعنی چھ ادوار میں تخلیق ہوئی۔ تخلیق ایک قاعدے، قانون یعنی ایک فارمولے کے تحت ہوئی۔ تخلیق کے بعد ہر چیز ارتقاء پذیر ہے۔ پوری کائنات پھیل رہی ہے۔ تخلیق فضل ربّی ہے اور فضل ربّی جاری و ساری ہے۔
اقبالؒ کہتے ہیں:
شاید کہ یہ کائنات ہے ناتمام ابھی
آرہی ہے دمادم صدائے کن فیکون
سائنس دان بھی تصدیق کرتے ہیں کہ افق پر مسلسل ہائیڈروجن کے ایٹم پیدا ہو رہے ہیں اور کائنات وسعت اختیار کر رہی ہے۔
کائنات میں ضرورت پہلے پیدا کی گئی ہے اور ضرورت مند بعد میں۔
ابتدا میں ایک گیسی گولہ یعنی دخان تھا جس میں حرکت اور توسیع کا قانون گامزن تھا یعنی Movement and Expansion تھی۔ دوسری اسٹیج یا دور میں Galaxies اور Solar Systems تخلیق ہوئے۔ انہی میں سے ایک نظام شمسی (Solar System) کا حصہ ہمارا Planet زمین تھی۔ زمین اپنے سورج کے گردانتہائی تیز رفتاری کے ساتھ گھوم رہی تھی اور انتہائی گرم تھی۔ زمین گویا آگ کا ایک گولہ تھا۔ اس پر کوئی چیز نہ ٹھہر سکتی تھی اور نہ اُگ سکتی تھی۔ تخلیق کے باقی کے چار ادوار یعنی اربعتہ الایام کا تعلق زمین کے اوپر ہی بیان کیا گیا ہے۔ ان میں سے پہلے دور اور مجموعی طور پر تیسرے دور میں پانی اور پہاڑ پیدا کئے گئے۔ یہ عمل لاکھوں سال جاری رہا۔ پانی پر ہی زندگی کا دارومدار ہے۔ پانی سے زمین کا گرم کولہ ٹھنڈا ہوا، نرم ہوا، کیچڑ بنا، اس طرح یہ کوئی چیز اگانے کے قابل ہوا اور یہاں کا درجہ حرارت برداشت کے قابل ہوا پھر اس کی تیز رفتاری کو کم کرنے کے لئے پہاڑ پیدا کئے گئے یعنی پہاڑوں کی میخیں گاڑی گئیں۔ 
اس طرح زمین میں Fertility یعنی ذرخیزی پیدا ہوئی اور پہاڑوں کی وجہ سے Stability یعنی حرکت میں یعنی رفتار میں کمی آئی۔
اب چوتھا دور شروع ہوا یعنی تمام قسم کی نباتات پیدا کی گئیں، واضع رہے کہ ہر قسم کی نباتات کی ضرورت پانی، زمین کی ذرخیزی اور مناسب درجہ حرارت ہے جس کا بندوبست اس سے پہلے مرحلے میں کر دیا گیا ہے۔ ہر تخلیق کی بنیاد جوڑوں پر رکھی گئی۔ 
اور ان میں بے پناہ ذوق و کشش پیدا کر دی گئی، گویا خود بخود ایک دوسرے کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں۔ 
اقبالؒ کہتے ہیں:
مذاق دوئی سے بنی زوج زوج
اٹھی دشت و کہسار سے فوج فوج
پانچویں دور میں حیوانات، پرندے اور درندے پیدا ہوئے۔
اب چھٹے دور میں کرۂ ارض کے شہنشاہ کو پیدا کیا گیا۔ یعنی پورے کرہ ارض پر آدم تخلیق ہوا۔ قسم قسم کی مٹی Soil سے،واضع رہے کہ آدم ایک specie یعنی ایک نوع یا نسل کا نام ہے۔ آدم مذکر بھی ہے اور مؤنث بھی ہے۔ قرآن میں حوا Eve کا لفظ سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ لفظ زوج Spouse کے معنوں میں ہے۔
آدم کے لئے جنت ارضی سجا دی گئی۔ قسم قسم کے پھل، سبزیاں، نباتات، حیوانات، جمادات، دریا غرضیکہ ضرورت کی ہر چیز مہیا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس میں یہ صلاحیت رکھ دی گئی کہ کائنات کی ہر چیز کو سمجھ سکے، اپنی تابع فرمان بنا سکے، اور ارتقاء کی اگلی منزلوں کی جانب استفادہ حاصل کر سکے۔
اب یہ انسان پر منحصر ہے کہ اپنی صلاحیتوں کو کب اور کتنا بروئے کار لاتا ہے اورمسجود ملائکہ بنتا ہے کہ تمام ملکوتی قوتیں اس کے قدموں میں سجدہ ریز ہو جائیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ابھی آدم کی تکمیل نہیں ہوئی۔
عقل ہے بے زمام ابھی، عشق ہے بے مقام ابھی
نقش گر ازل! تیرا نقش ہے ناتمام ابھی
علامہ اقبالؒ
افسوس کہ یہ ملا جو ابن الکتاب بن بیٹھا ہے، تکمیل آدم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
تکمیل آدم جسمانی طور پر بھی تبھی ممکن ہے کہ تمام انسان آپس میں ملیں، باہم ملاپ ہو اور قسم قسم کی مٹی سے بنے ہوئے جینز میں جو الگ الگ نقائص ہیں، وہ دور ہوں۔ ایک ضابطہ اخلاق ہو، باہمی احترام ہو۔ اور بالخصوص عورت کا احترام ہو کیونکہ وہی تو نسل انسانی کی امین ہے اور اس نے یہ فرض منصبی تمام تر نا ہمواریوں کے باوجود احسن طریقے سے نبھایا ہے۔
مکمل تحریر >>

پاکستان کی خارجہ پالیسی۔ ضمیمہ

یو اے ای
خارجہ پالیسی میں عرب ملکوں کا ذکر کرتے ہوئے میں نے جان بوجھ کر یو اے ای کا ذکر نہیں کیا تھا البتہ وہ جو لکھا تھا کہ "ان میں سے بعض تو برادران یوسف ثابت ہوتے رہے ہیں " اس سے یو اے ای ہی مراد تھا۔ میرا اسے حساسیت کے سبب ذکر نہ کرنا غلط ثابت ہوچکا سو چلئیاب ہلکا سا بیان کر دینا بہتر ہوگا۔یو اے ای اور پاکستان کے تعلقات درحقیقت پیپلز پارٹی اور یو اے ای کے تعلقات ہیں۔ یہ ہمیشہ پیپلز پارٹی کے دور میں خوشگوار رہتے ہیں جبکہ دیگر ادوار میں ٹھنڈے پڑے رہتے ہیں۔ پاکستان نے گوادر پورٹ کی تعمیر شروع کی تو بلوچستان میں وہ بغاوت شروع کرائی گئی جو اس وقت بھی جاری ہے۔ اس بغاوت کے پیچھے چار ممالک موجود تھے جن میں یو اے ای ٹاپ پر تھا۔ یو اے ای کے ذمے اس بغاوت کے اخراجات اور دبئی کو بطور ہیڈ کوارٹر پیش کرنا شامل تھا جو جنرل کیانی کے دور تک وہ کرتا رہا۔ امریکہ کو گوادر پورٹ سے یہ تکلیف ہے کہ یہ چائنا کا ایکسپورٹ اینڈ امپورٹ سینٹر بننے جا رہی ہیجبکہ ساتھ ہی پاکستان نیوی کو آبنائے ہرمز پر مکمل بالادستی فراہم کرتی ہے جو دنیا کو جانے والے ساٹھ فیصد آئل کی واحد گزرگاہ ہے۔ ایران کو یہ تکلیف ہے کہ اس کی چاہ بہار پورٹ کی حیثیت اس سے دوٹکے کی ہوجاتی ہے اور یہ کہ ایرانی نیوی کے عین دروازے پر پاکستان نیوی آ کر بیٹھ سکتی ہے جو کڑے وقت میں ایرانی نیوی کو مکمل بے اثر کرسکتی ہے۔ بھارت کو یہ تکلیف ہے کہ اس سے پاکستان نیوی اس کی رینج سے نکل گئی ہے۔ جبکہ شیخ زید بن سلطان لہولہان کی اولاد کا صدمہ یہ ہے کہ اگر پاکستان گوادر کو فری پورٹ بنا دیتا ہے تو دبئی اس خطے میں واحد آپشن نہیں رہے گی جس سے اس کی مارکیٹ گرنی شروع ہو جائیگی۔ جنرل کیانی اور پاشا نے مل کر یو اے ای کو ڈنڈا کیا تھا اور اسے اس سازش سے باہر نکالنے میں اس حد تک کامیابی حاصل کی کہ ریٹائرڈ ہوتے ہی جنرل پاشا یو اے ای میں جا کر انہیں کی تنخواہ پر پاکستان کے مفادات کے مستقل محافظ بن گئے ہیں۔ جب سے یو ای کے درہم بند ہوئے ہیں بلوچستان کے باغی کمزور ہونا شروع ہوگئے ہیں اور اب وہ ایک دوسرے سے لڑنے لگے ہیں۔ یمن کے پس منظر میں یو اے ای کی "ٹویٹر دھمکی" کا یمن سے کوئی تعلق نہیں بلکہ درحقیقت یہ موقع کا فائدہ اٹھا کر اپنا وہ بازو چھڑانے کی ناکام کوشش ہے جو جنرل پاشا مستقل مروڑے بیٹھے ہیں۔
مکمل تحریر >>

12 اپریل، 2015

سندھ اور ھند

بر صغیر Subcontinent کی اہم تہذیبیں 
1۔ وادیءِ سندھ کی تہذیب Indus Valley Civilization
2۔ وادیءِ گنگا کی تہذیب Ganges Valley Civilization
یہ دونوں تہذیبیں پانیوں کے دو عظیم سلسلوں کی مرہون منت قائم ہوئیں اور پروان چڑھتی رہیں۔ پانیوں کے ان سلسلوں کے منبع کوہ ہمالیہ میں واقع ہیں، یہ دونوں سلسلے ہمالیہ کے برف پوش پہاڑوں سے شروع ہوتے ہیں۔ ایک سلسلے کا سرخیل دریائے سندھ ہے۔ یہ شمال سے شروع ہو کر جنوب مغرب کی طرف بہتا ہوا اور گردو نواح کے چھوٹے بڑے پانیوں اور دریاؤں کو ساتھ لیتے ہوئے بالآخر بحیرۂ عرب میں جا گرتا ہے۔ دریائے سندھ میں کشمیر اور پاکستان و افغانستان کے تمام دریاؤں اور ندی نالوں کا پانی شامل ہو جاتا ہے۔ پنجاب کے پانچوں دریا بھی ایک وسیع و عریض علاقے کو سیراب کرتے ہوئے دریائے سندھ میں جا گرتے ہیں۔ پنجاب کے دریاؤں میں جہلم، چناب، راوی، بیاس اور ستلج شامل ہیں۔ یوں دریائے سندھ سے جڑے ہوئے پانیوں کا سلسلہ تقریباً آدھے بر صغیر میں پھیلا ہوا ہے۔ اس سارے علاقے کو سندھ کہا جاتا ہے۔ اس میں پورا پاکستان، جموں و کشمیر، بھارت کی ریاستیں، ہماچل پردیش، ہریانہ، پنجاب، راجستھان، مہاراشٹر اور گجرات شامل ہیں۔ یوں وادیءِ سندھ کا علاقہ آدھا پاکستان میں اور آدھا بھارت میں واقع ہے۔ وادیءِ سندھ کی عظیم تہذیب کے آثارِقدیمہ موہنجوداڑو اور ھڑپہ کے مقامات پر موجود ہیں۔
بر صغیر کی دوسری اہم تہذیب وادیءِ گنگا کی تہذیب ہے۔ یہ پانیوں کے دوسرے سلسلے پر پھیلی ہوئی ہے یہ سلسلہ بھی کوہ ہمالیہ سے شروع ہو کر مشرق اور جنوب مشرق کی طرف پھیلے ہوئے دریاؤں پر مشتمل ہے۔ اس سلسلے کا اہم دریا، دریائے گنگا ہے اس سارے علاقے کو ھند کہا جاتا ہے۔ اس میں پورا بھارت، بنگلہ دیش، بھوٹان اور نیپال شامل ہے۔ 
برصغیر کی تقسیم1947ء میں پورا ھند اور سندھ کا ایک بڑا حصہ بھارت میں شامل ہے یوں قصور کے پاس ایک نئی سرحد قائم کر دی گئی اور سندھ تقسیم ہو کیا۔
ھند تے سندھ دی ونڈ ہوسی، 
کجھ حصہ قصور دا جاسی۔
پت سندھڑی دا حکمران ہوسی،
تے بنا عدل اوہ ماریا جاسی۔ 
وارث شاہ بقول عباس اطہر

مکمل تحریر >>

11 اپریل، 2015

ہماری بلی، ہمی کو میاؤں .!

یمن کے "سعودی جہاد" میں غیر جانبداری کے "ظاہری مفہوم" پر مبنی، ہماری پارلیمنٹ کی متفقہ قرارداد پر "ردعمل" دیتے ہوئے، الباکستان کی "پالنہار" ریاستوں میں شامل متحدہ عرب امارات کے وزیر داخلہ نے دھمکی آمیز لہجے میں "خبردار" کیا ہے کہ "پاکستان کو یہ رویہ مہنگا پڑے گا" .. دوسرے الفاظ میں "ہمارا کھانے والوں کی یہ ہمت کہ ہمارے حکم سے سرتابی کرتے ہوئے، ہمارے بندے کے باغیوں کا سر کچلنے کیلئے وہ ہتھیار ہمارے حوالے کرنے سے انکار کر دیں، جن پر ہم عرصہ دراز سے سرمایہ کاری کر رہے ہیں " ..
قارئین گرامی، "برادر اسلامی ملک" کے مقتدر وزیر کی اس دو ٹوک دھمکی کو اسی قرارداد بارے سعودی مسلح افواج کے اس "انکشاف" کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو معاملہ کافی حد تک واضح ہو جاتا ہے کہ "ہمیں اس ڈویلپمنٹ پر اعتماد میں نہیں لیا گیا اور ہمیں امید ہے کہ پاکستانی افواج یمن بحران میں ہمارا ساتھ دیں گی" .. 
ان دو تازہ ترین بیانات نے، اسی حوالے سے چند روز قبل کے دو اور بیانات بھی ہمیں یاد کرا دئیے ہیں ..
آپ کو یاد ہوگا کہ اس بحران کے آغاز میں جب السعودی فرمانروا نے اپنے باجگذار ہمارے وزیراعظم کو طلب کر کے پاکستان کے فوجی دستوں کو یمن بھیجنے کا حکم نامہ تھمایا تو وطن واپسی پر نواز شریف کے گول مول بیان پر شاہ سلطان کے ترجمان کی فوری وضاحت سامنے آگئی تھی کہ "پاکستان نے ہمیں فوجی تعاون کی یقین دہانی کرا دی ہے" ..
بعینہ اسی مفہوم کا بیان سعودی وزیر دفاع اور نائب ولی عہد پرنس مقرن کی جانب سے بھی اس وقت جاری کیا گیا جب، ابھی دو دن پہلے ہی، ہمارے وزیر دفاع نے اعلی سطحی وفد کے ہمراہ السعودیہ کے اپنے دورے سے واپسی پر اپنے وزیراعظم کی طرح اس قسم کا دوغلا بیان داغا تھا کہ "سعودی عرب نے ہم سے فوجی تعاون کی درخواست کی ہے، لیکن ہم نے ابھی تک کوئی جواب نہیں دیا"!

مکمل تحریر >>

ہے جُرم ِضعیفی کی سزا، مرگِ مفاجات!!

سُر ہووے تے اوتھے سپ
مہک ہووے تے اوتھے سپ
دھرتی ھیٹھ ھنیریاں اندر
زر ہووے تے اوتھے سپ
جہاں جہاں بھی کوئی پر کشش و نایاب جنس، قدرتی خزائن، معدنیات،اہم محلاتِ وقوع ہوں، اور وہ کمزوروں کی ملکیت ہو ں تووہاں طاقتور قبضہ کرنے پہنچ جاتے ہیں۔ طاقتور کسی منطق کو نہیں مانتے، کسی قاعدے، کسی قانون،کے پیروکارنہیں ہوتے نہ ہی کسی قسم کی اخلاقیات سے آشنا ہوتے ہیں۔ ان کے ہاں غیرت نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی، صرف مفاد ہوتا ہے، اس دنیا میں کمزور ہونا سب سے بڑا جرم ہے۔
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جُرم ِضعیفی کی سزا، مرگ مفاجات
وارث شاہ نے بھی کہا ہے:
زورا ور نوں کرے نہ کوئی جھوٹا تے کنگال جھوٹا کر ٹول دے نی
ساک ماڑیاں دی کھو لین ڈاہڈے، ماڑے ماڑیاں دے دکھ پھؤل دے نی
یمن اور صومالیہ کا جرم یہ ہے کہ وہ کمزور ہیں تو اتنے اہم محل وقوع یعنی بحرۂ احمر، آبنائے باب المندب اور خلیج عدن پر واقع کیوں ہیں! اگر ہیں اور کمزور ہیں تو پھر سر جھکا کر رہیں، غلام بن کر رہیں، سر اٹھانے کی جرات کیوں کرتے ہیں! انہیں بحرۂ روم اور بحرۂ احمر کی بین الاقوامی تجارتی راہداری پر واقعہ کمزور ملکوں کے حشر سے سبق سیکھنا چاہئے۔
اگر سر اٹھا کر جینا ہے جو ہر ایک کا فطری حق ہے تو کمزوری دور کرو، طاقتور بنو، کمزوروں کا اتحاد قائم کرو۔
مکمل تحریر >>

دو مکاتب فکر(Two Schools Of Thought)

علامہ اقبال نے دو قسم کے لوگوں کا ذکر کیا ہے۔ ایک وہ جو سماج کو آگے لے کر جانا چاہتے ہیں اور دوسرے وہ جو سماج کو جکڑ کر رکھتے ہیں۔
ایک وہ جو سود و زیاں، نفع ونقصان کی پرواہ کئے بغیر، اپنی جان کو جوکھوں میں ڈال کر انسانی تمدن کو عظیم منزلوں کی جانب گامزن کرنے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں اور دوسرے وہ جو ہر ترقی کی راہ میں بند باندھتے ہیں۔
ایک وہ جو مشکلات کی راہ کا انتخاب کرتے ہیں اور انقلابی تحریک کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ دوسرے وہ جو روایات و رسومات کی قید میں رہتے ہوئے انسانی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں ڈالتے ہوئے شہنشاہوں کے دسترخوان پر پلتے ہیں۔
یہ دو قسم کے مکتبہء فکر ہیں۔
ایک سکول کی نمائندگی مولانا روم کرتے ہیں اور دوسرے سکول کی نمائندگی امام فخرالدین رازی کرتے ہیں۔ ان دونوں سکولوں کی کشمکش پوری عالمی تاریخ میں جاری و ساری رہتی ہے۔ 
رومی سکول کے لوگ جنون اور عشق و مستی کے جذبوں سے سرشار، جھومتے، مسکراتے، اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے نامعلوم اور عظیم منزلوں کی جانب گامزن رہتے ہیں۔ جبکہ رازی سکول کے لوگ عشق و مستی کی نفی کرتے ہوْے عوام الناس کو گہری نیند سلانے کا کام انجام دیتے ہیں۔
گویا: 
رومی بمقابلہ رازی
یا
انقلابی تحریک بمقابلہ روایاتی جکڑ بندی
اس مقابلے میں بار بار رازی کو شکست فاش ہوتی رہتی ہے اور رومی فتح کے ڈنکے بجاتا ہوا آگے بڑھتا رہتا ہے۔ 
اقبال فرماتے ہیں:
نے مہرہ باقی، نے مہرہ بازی
جیتا ہے رومی، ہارا ہے رازی
مزید فرماتے ہیں:
جمال عشق و مستی، نے نوازی
جلال عشق و مستی، بے نیازی
کمال عشق و مستی، ظرف حیدر
زوال عشق و مستی، حرف رازی
فتح حق کی ہوتی ہے، سچ کی ہوتی ہے۔
سچ کے لمحے جھوٹ کی صدیوں پر بھاری ہوتے ہیں۔ سچ زندہ و پائندہ ہے جبکہ جھوٹ تاریخ کے قبرستان میں بے نام و نشان ہمیشہ کے لئے دفن ہو کر مٹ جاتا ہے۔ 
خودی کی بے پناہ طاقت جنون، سرور، عشق و مستی کے جذبوں سے سرشار ہوتے ہوئے باطل کو روندتی ہوئی آگے بڑھ جاتی ہے 
جبکہ ہامانیت اور ملائیت کف افسوس ملتی رہ جاتی ہے۔ اس کا کوئی نام لیوا نہیں ہوتا۔رازی شکست فاش سے دو چار ہوتا ہے۔
رومی کی قتل گاہوں سے شہیدوں کے علم چن کر عشاق کے قافلے رواں دواں رہتے ہیں۔ رازی کے سینکڑوں روپ ہیں جبکہ رومی کا ایک ہی دائمی روپ ہے اور قابل فخر اور سر بلند ہے۔
حقیقت ابدی ہے مقام شبیری
بدلتے رہتے ہیں انداز کوفی و شامی
علامہ اقبالؒ
مکمل تحریر >>

انسانیت انسانیت کے نعرے

یہودی آغاز سے ہی شخصیات کی ذات پر حملہ آور ہونے میں ید طولا رکھتے ہیں جو فریڈم آف اسپیچ کی آڑ میں جذبات کو آلہ کار بنا کردیگر مذاہب کے خلاف اور بالخصوص اسلام کے خلاف کھلم کھلا مذہبی دہشت گردی کے طور پر استعمال کر تے آرہے ہیں۔ اور کچھ سادہ لوح مسلمانوں کو ہیومن،و یمن، چلڈرن اور اولڈ ایج رائیٹس جیسی خود ساختہ بے معنی اصطلاحات کا سہارا لے کر سبز باغ دکھاتے ہوئے ان سے ایمان اور انتہا پسندی کے درمیان فرق کو مٹانے کے لئے ایک اریزر کے طور پر استعمال کرتے ہیں اورہمارے دانشور بلکہ مغرب زدہ دانشورمغرب کے بعد ٹی وی پراسی مغرب کی طرف منہ کر کے بیٹھ جاتے ہیں اور اس فرق کو واضح کرنے کی بجائے چاٹ چاٹ کر نشان کو بھی مٹانے پر دل و جان سے کاربند ہوتے ہیں۔۔۔
اور یہ بھی جان رکھیے کہ کارپوریٹ میڈیا کے ذریعے جو آپ کے علم میں آتا ہے وہ صدفیصد درست نہیں ہوتا،آپ نے کئی واقعات سنے اور دیکھے ہوں گے کہ بیس سال کینیڈا میں رہ کر فیملی مستقل طور پر پاکستان آ گئی،یا پاکستانی نژاد برطانوی یا امریکی فیملی نے بچوں کی شادی کے لئے پاکستان میں اپنے خاندان کو ترجیح دی،آپ کو یہ خبرکوئی اخبار یا ٹی وی چینل نہیں دکھائے گاکیونکہ کارپوریٹ میڈیا کے لئے یہ خبر نہیں،یہ میڈیا کی تشریف پر "پٹاکرارا" ہے۔
میں حافظ شاہد سعید کی والدہ کو بھی سلام پیش کرتا ہوں کہ یقینا آپ کی آنکھیں خوشی سے نم ہو جاتی ہوں گی جب حافظ شاہد بتاتے ہوں گے کہ میں نے امریکہ میں رہتے ہوئے حفظ کیا تھا، اور ایک حافظ شاہد نہیں لاکھوں حافظ شاہد سالانہ یورپ وامریکہ میں انسانیت کے نام پر رچائے گئے ڈھونگ کی وردیاں اتروارہے ہیں۔
میں بلکہ ہر ایک اس عزت دار فیملی کو سلام پیش کرتا ہوں جو آج جیسے حالات میں بھی اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کے لیے پاکستان کے بیٹے اور بیٹیوں کو ترجیح دے کر ان کے پورے سسٹم پر ایک طمانچہ مارتے ہیں کہ لو ہم تمہارے نظام کو ناکام کرتے ہیں، اور اس میں ایک لفظ تو درکنار ایک نقطہ بھی مبالغے سے نہیں ٹپکا اس کا ثبوت آپ کو ہر دوسری گلی میں کسی گھر میں مل جائے گا۔
مکمل تحریر >>

10 اپریل، 2015

"حرمین کے تحفظ کا مطلب یمن میں سعودی نواز حکومت کی بحالی" .!

سعودی پیٹرو ڈالرز کے جادو اور طالبان کی بدمعاشی کے ذور پر، پاک فوج کی زیر نگرانی رچائی گئی "آزاد عدلیہ" کی دھاندلی کے ذریعے زبردستی مسلط کردہ "جمہوری حکومت" کے بهونپو پرویز رشید نے، لمحہ بھر تاخیر کے بغیر واضح کر دیا کہ اس کے "مالکان" کے نزدیک، فوجی جنتا کے پیدا کردہ "اتفاق رائے" سے منظور ہونے والی پارلیمانی قرارداد کی "تشریح" اس کے سوا کچھ نہیں کہ "یمن کی منتخب حکومت کی بحالی کیلئے تمام ممکنہ اقدامات بروئے کار لائے جائیں گے"! ..
جس کا سیدھا مطلب یہ ٹهہرا کہ "اگر ضرورت پڑی تو یمن کے سعودی نواز صدر ہادی کے باغیوں کو کچلنے کیلئے حرمین کو لاحق نادیدہ خطرہ کے بہانے، پہلے سے مصروف جہاد اثاثہ جات کی کمک کیلئے فوجی دستوں کو بهی ثواب دارین حاصل کرنے کا موقع فراہم کیا جائے گا" ..
یہ سوال البتہ کوئی اٹھانے کی جرات نہ کرے کہ جس "منتخب صدر" کی "بحالی" کیلئے ہم مرے جا رہے ہیں، تهوڑا عرصہ قبل وہ خود اس وقت کے منتخب صدر کے خلاف، السعودیہ کی مدد سے حوثی بغاوت جیس کارروائی کے نتیجے میں ہی برسراقتدار آیا تھا"؟؟
سچ پوچهئے تو قارئین گرامی، مجھے اصل حیرت صرف اس امر پر ہے کہ پارلیمنٹ میں موجود ذہین و فطین "دانشوروں" میں سے کسی نے یہ سوال اٹھانے کی زحمت نہیں کی کہ ڈیڑھ دو ہفتے قبل شروع ہونے والے "یمن ایپی سوڈ" کے پہلے روز سے قوم کا بچہ بچہ پوچهے چلا جا رہا ہے کہ "جب حوثی جنگجووں سمیت کسی نے بھی مقدس مقامات تو دور کی بات، سعودی عرب پر ہی حملے کا اشارہ تک نہیں دیا تو ایک بالکل الگ تھلگ اور واضح طور پر غیر متعلقہ "خود مختار ریاست" کی پہلے "شریف حکومت اور شریف افواج" اور اب "منتخب پارلیمان" کے پیٹ میں "حرمین الشریفین کی حفاظت" کے مروڑ کیوں اٹھنے لگے؟".
خواتین و حضرات، امریکی ڈالرز کی افراط کے ہاتھوں پیدا ہونے والی "بد ہضمی" کے علاج کیلئے، جنہیں اب پیٹرو ڈالرز کی طلب شدت سے محسوس ہو رہی ہے، ان کی بے تابی کا اندازہ کچھ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ پارلیمنٹ سے مشترکہ قرارداد منظور "کروانے" کے بعد، پرویز رشید کی طرح ان سے بهی اپنی "پوزیشن" کی وضاحت کیلئے ذرا سا انتظار ممکن نہ رہا اور بے چاروں کو "قرارداد کی تائید" کیلئے ہنگامی کانفرنس بلانا پڑی ..
"قوم" کو اب اس لمحے کے انتظار میں دن گننے شروع کر دینے چاہئیں، جب السعودیہ و الامریکہ کے "مشترکہ بندوبست" کے تحت کوئی زر خرید "حوثی کمانڈر" خانہ کعبہ پر چڑھائی کیلئے اسی قسم کے عزم کا اظہار کرتا دکھائی دے گا، جیسا یمن میں ان باغیوں کے خلاف جاری "جہاد" میں السعودیہ کی اتحادی "القاعدہ" چند ماہ قبل کر چکی ہے .. جس کے بعد انشاء اللہ "جہاد یمن" میں ہمارے بہادر ادارے کے جوانوں اور ان کے اثاثوں میں "نہ تو من شدی، نہ من تو شدی" والا منظر دیکھنے کو ملے گا ...
مکمل تحریر >>

انسان کا سماجی ارتقاء اورذبح عظیم اُمّ الکتاب کی روشنی میں ایک تشریح

القرآن الکریم سورۃ آل عمران(آیات33-34) ان آیات میں عالمین میں سے چار ادوار کا ذکر کیا گیا ہے اور چار راہنماؤں کا یکے بعد دیگرے انتخاب کیا گیا ہے، پھر یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ یہ ایک تسلسل پہ یعنی ان میں سے بعض ایک ہی ذرّیت میں سے ہیں،اس طرح انسانی ارتقاء کے چار ادوار بنتے ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں۔
۱۔ دور آدم ؑ
Era of Primitive Man
آدم کی تخلیق کائنات کی مرحلہ وار تخلیق کے چھٹے مرحلے میں کرۂ ارض پر انجام پائی،قرآن کے الفاظ میں ستہ الایام میں۔آدم سے پہلے ارض و سماوات میں تمام چیزیں تخلیق ہو چکی تھیں یعنی نظام ہائے شمسی، سیارے، ستارے، چاند، سورج اور کرۂ ارض،اور کرۂ ارض پر بھی بحر و بر، قسم قسم کے جمادات، قسم قسم کے نباتات اور قسم قسم کے حیوانات،  ان تمام تخلیقات میں صرف انسان میں یہ اہلیت تھی کہ جو اپنے ماحول کو بدل سکتا تھا اور کائنات میں موجود چیزوں کو استعمال کرتے ہوئے ارتقاء کے عمل کو آگے لے جا سکتا تھا۔ کائنات کو آگے لے جانے کے حوالے ذمہ داری کا بوجھ ارض و سماوات کی ہر چیز نے اٹھانے سے معذرت کر لی کہ وہ یہ ذمہ داری پوری کرنے سے قاصر ہیں۔ چنانچہ نسل آدم نے یہ ذمہ داری قبول کی۔ اس طرح آدم کو کائنات کے ارتقاء کو آگے بڑھانے کے چن لیا گیا۔ اب ابتدائی زمانہ تھا، بقاء کے انتظامات تو بہت تھے مگر مشکلات بھی بے شمار تھیں۔ رابطے صرف مقامی اور محدود تھے۔ پورے کرۂ ارض پر بسنے والے اپنے جیسے انسانوں اور دیگر چیزوں کا علم بھی نہ تھا۔ چنانچہ مقامی سماج بننے لگے اور آہستہ آہستہ ارد گرد کے ماحول سے شناسائی ہونے لگی، انسان نے اپنی صلاحیتوں کو برؤے کار لاتے ہوئے اپنا ماحول اور رہن سہن بدلنا شروع کر دیا۔
۲۔ دور نوح ؑ
Era of Nuh (Noaha)
Beginning of Cultures and Civilisations
اس دور میں انسانی سماج بہتر شکل میں بننے لگ گیا، الگ الگ علاقوں میں الگ الگ تمدن اور تہذیب کی شکلیں معرض وجود میں آنے لگیں، ان کی دنیا اپنے اپنے علاقوں تک محدود تھی اور اپنے جیسے دوسرے علاقوں کی تہذیب و تمدن کا نہ توعلم تھا اور نہ ہی کوئی شناسائی۔ عراق کے لوگوں کو مصر کا اور کرۂ ارض پر دوسری تہذیبوں کا علم نہ تھا، ان کے رابطے فقط اپنی وادی یعنی بین النہرین تک محدود تھے۔ وہ وادیءِ دجلہ و فرات کو ہی پوری دنیا سمجھتے تھے۔ اس وادی میں سیلاب بہت آتے تھے۔ المعروف طوفان نوح بھی دجلہ و فرات کا ہی ایک تباہ کن سیلاب تھا، اب چھوٹی چھوٹی ریاستیں اور حکمرانیاں قائم ہونا شروع ہوئیں۔ اصلاح کاروں اور پیغمبروں کو ابھی زیادہ مشکلات اور رکاوٹوں کا سامنا نہ تھا۔
۳۔ دور آل ابراہیم ؑ
Rigid Slave Age Civilizations and Local Empires
اب دور آتا ہے جد پیغمبراں یعنی ابراہیم ؑاور آل ابراہیم ؑکا،اس دور میں فرعون و نمرودکی حکومتیں بن گئیں، ان حکومتوں قارونوں اور خاص طور پر ہامانوں یعنی مذہبی گماشتوں کی مکمل گٹھ جوڑ تھا، گویا فرعونوں، ہامانوں اور قارونوں کے گٹھ جوڑ نے انسانیت کا گلا گھونٹ دیا۔ جبر و استبداد پر مبنی ظالمانہ نظام نافذ کردئیے گئے۔ اب دعوت حق گویا ان کے غیض و غضب کو دعوت دینے والی بات تھی، اب اگر کوئی نمرود کے مسلط کردہ نظام کو بدلنے کی بات کرے گا تو اسے آتش نمرود یعنی نمرود کے غم و غصہ کا سامنا کرنا ہو گا، جان و مال سے ہاتھ دھونا ہوں گے، نمرود کے سامنے کھڑے ھونے کی جسارت ایک چرواہے ابراہیم ؑ نے کر ڈالی، چنانچہ ابراہیم ؑ کو اس جرم کی پاداش میں ملک بدر کر دیا گیا، ابراہیم نے ہمت نہ ہاری اور اپنے پیغام کو دور و نزدیک پھیلا دیا، وہ وعراق سے ترکی، فلسطین، کنعان، مصر اور حجاز تک جا پہنچے، اب بڑے بڑے ظالم بادشاہوں سے ٹکرائے بغیر اور جان و مال اور اولاد کی قربانیاں دئیے بغیر انسان کے سماجی ارتقاء کا آگے بڑھنا ممکن نہ رہا، اور اگر قربانیاں نہ دی جاتیں تو انسانیت دم توڑ چکی ہوتی،اور فرعونوں اور نمرودوں کی رعایت میں دو پائی مخلوق انسانیت نامی نظریے سے بالکل بے خبر ہوتی، اس طرح آل ابراہیم ؑنے قربانیاں دے کر انسانی سماج کو ارتقاء کی اعلیٰ منازل کی طرف گامزن کیا، آل ابراہیم ؑسے مراد ابراہیم ؑ کے سچے پیروکار ہیں، آل ابراہیم ؑکے بہت سے سچے راہنما آواز حق بلند کرنے کے جرم میں مارے گئے، شہر و ملک بدر کئے گئے، آروں سے چیرے گئے مگر انسانی قافلہ ان قربانیوں کی وجہ اپنی منزل کی جانب محوسفر رہا، اگر مٹے ہیں تو نمروداور مٹے ہیں توفرعون۔ ابراہیم کل بھی زندہ تھا اور آج بھی زندہ ہے۔ موسیٰ  ؑکل بھی زندہ تھا اور آج بھی زندہ ہے۔
۴۔ دور آل عمران ؑ
Era of large Empires and Super Powers
اب بڑی بڑی سلطنتیں قائم ہو گئیں، سلطنت فارس و روم، بڑے بڑے شہنشاہ اور ان کے ظالمانہ نظام، مگر آل عمران ؑ جو کہ آل ابراہیم ؑکی ذرّیت میں سے ہی تھی، ان بڑی بڑی سلطنتوں کی جکڑ بندی کو توڑنے کے لئے میدان عمل میں موجود تھیں۔ عمران،موسی وہارون ؑ کے والد اور دوسرے زیادہ معروف حضرت مریم  ؑ کے والد تھے، گویا حضرت عیسیٰ ؑ کے نانا تھے، قران مجید کی سورہ آل عمران میں زیادہ تر ذکر حضرت عیسیٰ ؑ کا ہی ہے۔
حضرت مریم و عیسیٰ ؑ نے رومی شہنشاہوں اور یہودیوں کے انتہا پسند فرقے کے گٹھ جوڑ کا خوب مقابلہ کیا اور حق کا پیغام عام کر دیا، ظالمانہ نظام کی جکڑ بندی اس قدر مضبوط تھی کہ حضرت عیسیٰ ؑ بمشکل تین سال تک ہی اپنا پیغام لوگوں تک پہنچا سکے، انہوں نے اپنے تیز رفتار دوروں اور دھواں دھار تقریروں سے عوام الناس کو خوب جھنجوڑا، جس کی باز گشت آج تک موجود ہے، زندہ ہے عیسیٰ ؑ زندہ ہے، کل بھی عیسیٰ ؑ زندہ تھا، آج بھی عیسیٰ ؑ زندہ ہے۔
اب مضبوط سلطنتیں قائم ہو چکیں، ایک سلطنت فارس ہے جس کا مرکز اصفہان ہے اور دوسری طرف سلطنت روم ہے۔
بڑی بڑی سلطنتوں اور ان کے قائم کئے ہوئے ظالمانہ نظاموں میں اب کسی نئی تحریک کا قائم ہونا اگر نا ممکن نہیں توبے حد مشکل ضرور ہے، اب نہ تو اصفہان اور نہ ہی روم میں یہ کام ممکن رہا، اس طرح چھ صدیاں گزرگئیں لیکن حضرت عیسیٰ ؑ کے بعدکوئی قابل ذکر تحریک شروع نہ ہو سکی، لیکن قدرت نے ایک انتظام کیا ہوا ہے، صحرائے عرب میں ابراہیم ؑ اور حاجرہ نے ایک پودہ سر زمین حجاز میں لگایا ہوا ہے، یہ خطہ اپنی بیسروسامانی کی وجہ سے کوئی معاشی کشش نہیں رکھتا۔ یہ نہ تو سلطنت فارس کے لئے کوئی اہمیت رکھتا ہے اور نہ ہی سلطنت روم کے لئے، یہ ایک لحاظ سے پسماندہ مگر آزاد ہے، یہاں قبائلی نظام ہے، یہاں کسی اہم قبیلے کا فرد ہونا یا کسی قبیلے کے ساتھ منسلک ہونا ہی سب سے بڑا تحفظ ہے،یہاں ابراہیم ؑکی اسماعیلی شاخ موجود ہے اسی شاخ میں یہاں محمدﷺ پیدا ہو چکے ہیں اس صحرا سے محمدﷺ کی سربراہی میں ایک نئی انقلابی تحریک اٹھتی ہے، سابقہ الہامی کتابوں میں درج جس پیغام کو مسخ کر دیا گیا ہے اسے درست شکل میں قرآن کی صورت میں نازل کر دیا گیا ہے دیکھتے ہی دیکھتے یہ صحرا نشین سید الانبیاء کی قیادت میں ایک عظیم قوم بن کر ابھرتے ہیں اور سلطنت فارس کو فتح کر لیتے ہیں اور سلطنت روم کی جڑیں ہلا دیتے ہیں۔ ایک نیا پیغام، ایک نیا منشورملتا ہے اور ایک نیا نظام قائم ہو جاتا ہے، اب جب جب اس منشور پر عمل ہو گا انسانی قافلہ آگے بڑھے گا۔ یہ منشور ِقرآنی کرۂ ارض پر تمام انسانوں، تمام جگہوں اور تمام زمانوں کے لئے ہے،قرآن وہ کتاب ہے، جو درس انقلاب ہے۔
ذبحِ عظیم
القران: 37:107:سورہ صآفات
حضرت ابراہیم ؑ کے زمانے تک بڑے بڑے ظالمانہ نظام قائم ہو چکے تھے، اب محض زبانی تبلیغ سے انسانی سماج کی روانی ممکن نہیں، اب جانی و مالی اور اولاد کی قربانیاں درکار ہیں، قرآن مجید میں ابراہیم ؑ کو بیٹے کی قربانی کا حکم دیا گیا، انہوں نے بیٹے کو بتایا، بیٹے نے سر تسلیم خم کیا، گویا بیٹے نے عہد کیا کہ وہ قربان ہو گا، اب یہاں نہ تو، قرآن میں اور نہ ہی بائیبل میں بیٹے کا نام بتایا گیا ہے، مسلمان بیٹے سے مراد حضرت اسماعیل ؑ لیتے ہیں جبکہ یہودی اور عیسائی بیٹے سے مراد حضرت اسحاق  ؑ لیتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ یہ قربانی ایک تمثیل ہے اور ابراہیم ؑ اور ان کے تمام سچے پیروکاروں پر واجب ہے کہ جب جب ضرورت پڑے وہ باطل کے خلاف اپنے بیٹوں کی قربانی سے گریز نہ کریں، تاریخ گواہ ہے کہ حضرت اسحاق ؑ کی اولاد یعنی بنی اسرائیل کے پیغمبروں نے قربانیاں دیں اور حضرت اسماعیل ؑ کی اولاد نے بھی نسل در نسل قربانیاں دیں اور مسلسل دے رہے ہیں اور مسلسل دیتے رہنا ہو گا۔ انہی قربانیوں میں سے ایک عظیم قربانی کربلا کے شہدا کی قربانی ہے جو بہت سی انقلابی تحریکوں کو جلا بخشتی ہے۔ یہ کائنات انہی قربانیوں کی وجہ سے اپنی منزل کی جانب کامیابی سے رواں دواں ہے۔

مکمل تحریر >>

انسان کا شعوری سفر اور درپیش رکاوٹیں

انسان نے اپنی تخلیق کے بعد جب کرہ ارض پر اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا تو وہ اپنی صلاحیتوں سے مالامال تھا اور انہیں بروئے کار لاتے ہوئے ارتقائے کائنات کے سفر پر اپنا کردار ادا کرنے پر رواں دواں ہوا۔ اس کی بقاء کے لئے قسم قسم کی خوراک موجود تھی اور وافر مقدار میں۔ اس میں مزید خوراک پیدا کرنے اور مشکلات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیتیں بھی موجود تھیں۔ سب سے بڑی خوبی اپنے ماحول کو بدلنے کی صلاحیت تھی۔ 
ابتدا میں دو قسم کے خوف لاحق تھے یعنی:
۱۔ قدرتی آفات کا خوف۔ سیلاب، زلزلے، موسمی طوفان وغیرہ
۲۔ درندے، زہریلے اور جنگلی جانور
انسان نے ان دو قسم کے خوف کا مقابلہ تو خوب کیا اور ان سے بتدریج کافی حد تک محفوظ ہوتا گیا مگر ایک تیسرا خوف پیدا ہو گیا۔ 
تیسرا خوف انسان کو انسان سے لاحق ہوا۔ یہ لالچ اور حرص و ہوا کی آندھیوں کی وجہ سے پیدا ہوا۔ اس نئے خوف نے انسان کے جاری و ساری شعوری سفر کی راہ میں قسم قسم کی رکاوٹیں پیدا کیں۔ اس طرح یہ شیطانی اور ابلیسی قوتیں انسان کی ترقی اور شعوری بلندی کی راہ میں حائل ہوتی رہیں۔ ان ابلیسی قوتوں میں سب سے بڑی قوت ھامانیت ہے یعنی قسم قسم کے ساحرانہ مذہبی اعتقادات۔ پوری انسانی تاریخ میں ہامانیت کا فرعونیت و قارونیت کے ساتھ گہرا گٹھ جوڑ رہا ہے اور موجود ہے۔ یہ تینوں قوتیں انسانی خون پر پلتی ہیں۔ یہ درندوں اور زہریلے جانوروں سے زیادہ خطرناک ہیں۔ 
حق کا راستہ اپنانے والوں نے قسم قسم کی قربانیاں دے کر شعوری سفر کو جاری رکھا اور ہامانوں کے من گھڑت خداؤں کو بے نقاب کیا اور تاریخ کے قبرستان میں ھمیشہ کے لئے دفن کر دیا۔ مگر یہ ابلیسی قوتیں نئے ہتھکنڈوں کے ساتھ انسانی شعور کی راہ میں مسلسل حائل ہوتی رہیں اور ہو رہی ہیں۔ جب ان کے آزمودہ حربے ناکام ہونے لگتے ہیں تو لوگوں کے شعور کا راستہ روکنے کے لئے کسی آئیڈیل کا انتظار کرنے کا فلسفہ تھما دیتے ہیں۔ اس طرح خوش نما عقیدے پھیلا کر انسانی شعور کی فتوحات کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کر دی جاتی ہیں اور شیطانی قوتوں کی لوٹ مار کی راہ ہموار کر لی جاتی ہے۔ 
تمام رکاوٹوں کے باوجود انسانی شعور کی فتوحات کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور شیطانی قوتوں کو شکست در شکست کا سامنا رہتا ہے۔ 
انسانی شعور کو پختگی درکار ہے۔ شعور کا تعلق حواس خمسہ اورہڈ بیتیاں سے ہے۔ شعور جہالت کو شکست دیتا ہے اور اگر شعور کا فقدان ہو تو تعلیم جہالت کو ہی مضبوط کرتی ہے۔ اگر تعلیم فرعونیت، ہامانیت اور قارونیت جیسی شیطانی قوتوں کی غلامی کرے تو ایسی تعلیم سب سے بڑی جہالت ہے۔
شعور کا تعلق طبیعاتی قوانین سے ہے، ما بعد الطبیعات سے نہیں ہے۔ انسان کا شعوری سفر کامیابی سے جاری ہے اور تمام رکاوٹوں کو دور کرتے ہوئے جاری رہے گا۔ تمام ملکوتی اور کائناتی قوتیں انسانی شعور کے سفر میں ساتھ ساتھ ہیں اور ممّد و معاون ہیں۔ جہاں جہاں حق کے لئے جدوجہد ہوگی ملائکہ پوری قوت کے ساتھ موجود ہوں گے اور انسان کی صلاحیتوں میں کئی گنا اضافہ کر دیں گے۔ واضع رہے کہ بات انسانی شعور کی ہو رہی ہے کسی خاص مذہب یا فرقے کی نہیں ہو رہی۔
مکمل تحریر >>

تلاش کیجئے