میرا پرائمری سکول اور یاد داشتیں
نام: گورنمنٹ پرائمری سکول راجہ ہرپال، ضلع سیالکوٹ
محل وقوع: سیالکوٹ شہر سے مشرق کی جانب تقریباً چھ میل کے فاصلے پر اور بذریعہ سڑک آٹھ میل کے فاصلے پر، ریاست جموں و کشمیر کی سرحد سے ایک کلو میٹر مغرب کی جانب، یعنی سیالکوٹ شہر اور جموں شہر کے درمیان میں، نالہ آیک کے کنارے پر۔
اساتذہ اکرام: ہیڈ ماسٹر محمد سخی ہاشمی آف رسول پور بھلیاں، ماسٹر ملک شیر محمد اعوان آف کھرانے، ماسٹر مہر محمد صدیق آف لالوکے۔
(تینوں وفات پا چکے ہیں، اللہ تعالی انہیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا کرے آمین)
عرصہ تعلیم: 1957ء سے 1962ء تک۔
عمارت: سکھوں کا جنج گھر۔ ایک وسیع و عریض ہال اور کشادہ صحن۔ واضع رہے کہ 1947ء سے پہلے گاؤں راجہ ہرپال کی آبادی مسلمانوں اور سکھوں پر مشتمل تھی، دونوں کی تعداد پچاس پچاس فی صد تھی۔ آپس میں مثالی اتحاد تھا۔ سکھوں کی ایک مشہور شخصیت، سردار سنگھ صاحب، سیالکوٹ میں ایک اعلی عہدے پر فائز تھے۔ سردار سنگھ کو راجہ ہرپال سے عشق تھا، انہوں نے ایک خوبصورت باغ، ایک محل، ایک چوبارہ بنوایا اور باغ کی آبپاشی کا زبردست نظام بنایا تھا۔ انہوں نے ایک عمارت جنج گھر کے نام سے بنوائی تھی، جس سے سکھ اور مسلمان برابر مستفید ہوتے تھے۔
تقسیم ہند کے بعد سکھ تو بھارت منتقل ہو گئے اور ان کی جگہ جموں کے علاقے سے آنے والے مسلمان پناہ گیروں نے لے لی۔
پاکستان قائم ہونے کے بعد جنج گھر کی عمارت پرائمری سکول کے طور پر استعمال ہونے لگی۔ یہ عمارت 1965ء کی پاک بھارت جنگ تک قائم رہی اور بھارتی فوج کے قبضے کے دوران تباہ ہوئی۔ آج بھی اس کی دیواروں کے کچھ آثار موجود ہیں۔ سکول کی عمارت نئی جگہ بنا دی گئی ہے۔
فرنیچر: اس کا مکمل فقدان تھا حتی کہ ٹاٹ بھی نہ تھے۔ ہم لوگ اپنے گھروں سے بوری لے کر آتے تھے اور اساتذہ ساتھ والے گھروں سے چارپائی منگوا لیتے تھے۔ اساتذہ انتہاء محنتی، فرض شناس، قابل ترین اور ہونہار تھے، ان کی خوش خطی بہت خوبصورت اور قابل دید تھی۔ اس لیے میں کہتا ہوں۔
Proud to be Borian
ماسٹر محمد سخی ہاشمی کی خدمات: ماسٹر صاحب طویل عرصہ تک راجہ ہرپال میں تعینات رہے، وہ گاؤں کی تین نسلوں کے استاد تھے، وہ اپنے شاگردوں خصوصاً ذہین طالب علموں سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ راجہ ہرپال کے تو گویا عاشق تھے۔ ان کی کوشش ہوتی تھی کہ راجہ ہرپال میں ہر قسم کی سہولتیں دستیاب ہوں، وہ گویا راجہ ہرپال کے دوسرے سردار سنگھ تھے۔ گاؤں میں بجلی نہ تھی، ان کی کوشش تھی کہ راجہ ہرپال میں بجلی آئے اور تمام دیہات سے پہلے آئے۔ وہ بھٹو کے دیوانے اور پیپلز پارٹی کے زبردست جیالے تھے۔ وہ اپنی ذاتی کوششوں اور پیپلز پارٹی سے اپنے مضبوط رابطوں کو استعمال کرتے ہوئے1973ء میں بجلی لے آئے جبکہ بجلی کے کھمبوں کی طویل لائن کے راستے میں آنے والے کئی دیہات میں کئی سال بعد بجلی فراہم ہو سکی۔
میں اپنی والدہ کی خواہشات اور دعاؤں کی بدولت تعلیم میں اچھا تھا۔ اس لیے ماسٹر صاحبان نے مجھے خصوصی مقام عطا کیا ہوا تھا۔ وہ مجھ سے بے پناہ شفقت کرتے تھے۔ مہابھارت کی کہانی کے مطابق ماسٹر سخی گویا میرے درون تھے اور میں ان کا ارجن۔ مہابھارت کا ہیرو ارجن کا اتالیق درون تھا اور اس پر کرشن مہاراج کی نظر کرم تھی۔ یوں ارجن مہابھارت کی جنگ میں ہزاروں پر بھاری پڑا تھا۔
پرائمری سکول کاسب سے اہم واقعہ ضلع سیالکوٹ کا وظیفے کا امتحان تھا۔ اس وقت کے ضلع سیالکوٹ میں ضلع نارووال بھی شامل تھا۔ یہ مقابلے کا امتحان پورے ضلع کے شہری اور دیہاتی پرائمری سکولوں کے نہایت ہونہار طلباء میں سے صرف پانچ طالب علموں کو منتخب کرنے کے لیے ہوتا تھا۔
ضلع بھر کے قابل ترین اساتذہ اپنے قابل ترین شاگردوں کو اس امتحان میں شرکت کے لیے سال بھر کی تیاری کے بعد یہ اعزاز حاصل کرنے کیلئے لاتے تھے۔ راجا ہرپال کیاساتذہ نے بھی پہلی بار مجھے اس امتحان میں شرکت کے لیے تیاری کروائی۔ اس امتحان میں شرکت کے لیے ہزاروں امیدوار لائے جاتے تھے اور انتخاب صرف پانچ کا ہونا ہوتا تھا۔
مجھے اس امتحان کی بھر پور تیاری کروائی گئی۔ ماسٹر شیر محمد نے پانچویں جماعت کے علاوہ چھٹی، ساتویں اور آٹھویں جماعت کے "حساب" کے سوالات بھی حل کروا دئیے۔ سب سے بڑھ کر میری والدہ یعنی میری کرشن مہاراج کی دعائیں شامل تھیں۔
یہ امتحان سیالکوٹ کے جناح پارک کی وسیع و عریض گراؤنڈ میں ہوا تھا جہاں بعد میں کرکٹ اسٹیڈیم اور جامعہ سکول بنادیا گیا۔ ضلع بھر سے ہزاروں طالب علموں نے حصہ لیا۔ ماسٹر سخی صاحب مجھے وہاں چھوڑ کر اپنے دیگر کاموں کے لئے کہیں شہر میں چلے گئے۔ ایک جامع قسم کے تحریری اور زبانی امتحان کے بعد نتیجے کے اعلان کے لمحات بھی آ گئے۔ اعلان کیا جانے لگا۔ ماسٹر سخی موجود نہ تھے۔ پانچ کامیاب امیدواروں میں محمد یوسف گورنمنٹ پرائمری سکول راجہ ہرپال کا نام پکارا گیا تو میری خوشیوں کی انتہا نہ رہی مگر بہت سوں کے ہوش گم ہو گئے۔ وہاں پر ضلع بھر کے اساتذہ جمع تھے جن میں سیالکوٹ شہر، ڑسکہ، سمبڑیال، پسرور، نارووال، شکر گڑھ اور تمام چھوٹے بڑے قصبے اور دیہات شامل تھے۔ سب حیران تھے کہ راجہ ہرپال بھی کوئی سکولوں میں سے سکول ہے، کوئی کہہ رہا تھا کہ وہ ماسٹر سخی کا سکول، جو سکھوں کے جنج گھر میں ہے، کوئی کہہ رہا تھا کہ وہ تو ٹاٹ سکول بھی نہیں ہے۔
ماسٹر سخی صاحب آئے اور بہت خوش ہوئے کہ آج ان کا ارجن جیت گیا۔ گھر پہنچے تو یہ خبر سن کر والدین کی خوشیوں کی کوئی انتہا نہ تھی۔ والدہ نے پورے گاؤں راجہ ہرپال اور ملکے شرف الدین میں گھر گھر جا کر خود مٹھاء ی اور خطائیاں بانٹیں اور ہر ایک کو بتایا کہ میرے محمد یوسف نے وظیفے کا امتحان جیت لیا ہے۔ میرے راجہ ہرپال کا نام روشن ہو گیا۔
یہ ثابت ہو گیا کہ سکول کی عمارت اور فرنیچر اہم نہیں ہوتا، اساتذہ اہم ہوتے ہیں، ان کی قابلیت اور جذبہ اہم ہوتا ہے۔ فیکلٹی اہم ہوتی ہے، جنون اہم ہوتا ہے۔
Proud to be Borian of Raja Harpal
Proud to have Excellent Parents and Brilliant Teachers.