القرآن الکریم سورۃ آل عمران(آیات33-34) ان آیات میں عالمین میں سے چار ادوار کا ذکر کیا گیا ہے اور چار راہنماؤں کا یکے بعد دیگرے انتخاب کیا گیا ہے، پھر یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ یہ ایک تسلسل پہ یعنی ان میں سے بعض ایک ہی ذرّیت میں سے ہیں،اس طرح انسانی ارتقاء کے چار ادوار بنتے ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں۔
۱۔ دور آدم ؑ
Era of Primitive Man
آدم کی تخلیق کائنات کی مرحلہ وار تخلیق کے چھٹے مرحلے میں کرۂ ارض پر انجام پائی،قرآن کے الفاظ میں ستہ الایام میں۔آدم سے پہلے ارض و سماوات میں تمام چیزیں تخلیق ہو چکی تھیں یعنی نظام ہائے شمسی، سیارے، ستارے، چاند، سورج اور کرۂ ارض،اور کرۂ ارض پر بھی بحر و بر، قسم قسم کے جمادات، قسم قسم کے نباتات اور قسم قسم کے حیوانات، ان تمام تخلیقات میں صرف انسان میں یہ اہلیت تھی کہ جو اپنے ماحول کو بدل سکتا تھا اور کائنات میں موجود چیزوں کو استعمال کرتے ہوئے ارتقاء کے عمل کو آگے لے جا سکتا تھا۔ کائنات کو آگے لے جانے کے حوالے ذمہ داری کا بوجھ ارض و سماوات کی ہر چیز نے اٹھانے سے معذرت کر لی کہ وہ یہ ذمہ داری پوری کرنے سے قاصر ہیں۔ چنانچہ نسل آدم نے یہ ذمہ داری قبول کی۔ اس طرح آدم کو کائنات کے ارتقاء کو آگے بڑھانے کے چن لیا گیا۔ اب ابتدائی زمانہ تھا، بقاء کے انتظامات تو بہت تھے مگر مشکلات بھی بے شمار تھیں۔ رابطے صرف مقامی اور محدود تھے۔ پورے کرۂ ارض پر بسنے والے اپنے جیسے انسانوں اور دیگر چیزوں کا علم بھی نہ تھا۔ چنانچہ مقامی سماج بننے لگے اور آہستہ آہستہ ارد گرد کے ماحول سے شناسائی ہونے لگی، انسان نے اپنی صلاحیتوں کو برؤے کار لاتے ہوئے اپنا ماحول اور رہن سہن بدلنا شروع کر دیا۔
۲۔ دور نوح ؑ
Era of Nuh (Noaha)
Beginning of Cultures and Civilisations
اس دور میں انسانی سماج بہتر شکل میں بننے لگ گیا، الگ الگ علاقوں میں الگ الگ تمدن اور تہذیب کی شکلیں معرض وجود میں آنے لگیں، ان کی دنیا اپنے اپنے علاقوں تک محدود تھی اور اپنے جیسے دوسرے علاقوں کی تہذیب و تمدن کا نہ توعلم تھا اور نہ ہی کوئی شناسائی۔ عراق کے لوگوں کو مصر کا اور کرۂ ارض پر دوسری تہذیبوں کا علم نہ تھا، ان کے رابطے فقط اپنی وادی یعنی بین النہرین تک محدود تھے۔ وہ وادیءِ دجلہ و فرات کو ہی پوری دنیا سمجھتے تھے۔ اس وادی میں سیلاب بہت آتے تھے۔ المعروف طوفان نوح بھی دجلہ و فرات کا ہی ایک تباہ کن سیلاب تھا، اب چھوٹی چھوٹی ریاستیں اور حکمرانیاں قائم ہونا شروع ہوئیں۔ اصلاح کاروں اور پیغمبروں کو ابھی زیادہ مشکلات اور رکاوٹوں کا سامنا نہ تھا۔
۳۔ دور آل ابراہیم ؑ
Rigid Slave Age Civilizations and Local Empires
اب دور آتا ہے جد پیغمبراں یعنی ابراہیم ؑاور آل ابراہیم ؑکا،اس دور میں فرعون و نمرودکی حکومتیں بن گئیں، ان حکومتوں قارونوں اور خاص طور پر ہامانوں یعنی مذہبی گماشتوں کی مکمل گٹھ جوڑ تھا، گویا فرعونوں، ہامانوں اور قارونوں کے گٹھ جوڑ نے انسانیت کا گلا گھونٹ دیا۔ جبر و استبداد پر مبنی ظالمانہ نظام نافذ کردئیے گئے۔ اب دعوت حق گویا ان کے غیض و غضب کو دعوت دینے والی بات تھی، اب اگر کوئی نمرود کے مسلط کردہ نظام کو بدلنے کی بات کرے گا تو اسے آتش نمرود یعنی نمرود کے غم و غصہ کا سامنا کرنا ہو گا، جان و مال سے ہاتھ دھونا ہوں گے، نمرود کے سامنے کھڑے ھونے کی جسارت ایک چرواہے ابراہیم ؑ نے کر ڈالی، چنانچہ ابراہیم ؑ کو اس جرم کی پاداش میں ملک بدر کر دیا گیا، ابراہیم نے ہمت نہ ہاری اور اپنے پیغام کو دور و نزدیک پھیلا دیا، وہ وعراق سے ترکی، فلسطین، کنعان، مصر اور حجاز تک جا پہنچے، اب بڑے بڑے ظالم بادشاہوں سے ٹکرائے بغیر اور جان و مال اور اولاد کی قربانیاں دئیے بغیر انسان کے سماجی ارتقاء کا آگے بڑھنا ممکن نہ رہا، اور اگر قربانیاں نہ دی جاتیں تو انسانیت دم توڑ چکی ہوتی،اور فرعونوں اور نمرودوں کی رعایت میں دو پائی مخلوق انسانیت نامی نظریے سے بالکل بے خبر ہوتی، اس طرح آل ابراہیم ؑنے قربانیاں دے کر انسانی سماج کو ارتقاء کی اعلیٰ منازل کی طرف گامزن کیا، آل ابراہیم ؑسے مراد ابراہیم ؑ کے سچے پیروکار ہیں، آل ابراہیم ؑکے بہت سے سچے راہنما آواز حق بلند کرنے کے جرم میں مارے گئے، شہر و ملک بدر کئے گئے، آروں سے چیرے گئے مگر انسانی قافلہ ان قربانیوں کی وجہ اپنی منزل کی جانب محوسفر رہا، اگر مٹے ہیں تو نمروداور مٹے ہیں توفرعون۔ ابراہیم کل بھی زندہ تھا اور آج بھی زندہ ہے۔ موسیٰ ؑکل بھی زندہ تھا اور آج بھی زندہ ہے۔
۴۔ دور آل عمران ؑ
Era of large Empires and Super Powers
اب بڑی بڑی سلطنتیں قائم ہو گئیں، سلطنت فارس و روم، بڑے بڑے شہنشاہ اور ان کے ظالمانہ نظام، مگر آل عمران ؑ جو کہ آل ابراہیم ؑکی ذرّیت میں سے ہی تھی، ان بڑی بڑی سلطنتوں کی جکڑ بندی کو توڑنے کے لئے میدان عمل میں موجود تھیں۔ عمران،موسی وہارون ؑ کے والد اور دوسرے زیادہ معروف حضرت مریم ؑ کے والد تھے، گویا حضرت عیسیٰ ؑ کے نانا تھے، قران مجید کی سورہ آل عمران میں زیادہ تر ذکر حضرت عیسیٰ ؑ کا ہی ہے۔
حضرت مریم و عیسیٰ ؑ نے رومی شہنشاہوں اور یہودیوں کے انتہا پسند فرقے کے گٹھ جوڑ کا خوب مقابلہ کیا اور حق کا پیغام عام کر دیا، ظالمانہ نظام کی جکڑ بندی اس قدر مضبوط تھی کہ حضرت عیسیٰ ؑ بمشکل تین سال تک ہی اپنا پیغام لوگوں تک پہنچا سکے، انہوں نے اپنے تیز رفتار دوروں اور دھواں دھار تقریروں سے عوام الناس کو خوب جھنجوڑا، جس کی باز گشت آج تک موجود ہے، زندہ ہے عیسیٰ ؑ زندہ ہے، کل بھی عیسیٰ ؑ زندہ تھا، آج بھی عیسیٰ ؑ زندہ ہے۔
اب مضبوط سلطنتیں قائم ہو چکیں، ایک سلطنت فارس ہے جس کا مرکز اصفہان ہے اور دوسری طرف سلطنت روم ہے۔
بڑی بڑی سلطنتوں اور ان کے قائم کئے ہوئے ظالمانہ نظاموں میں اب کسی نئی تحریک کا قائم ہونا اگر نا ممکن نہیں توبے حد مشکل ضرور ہے، اب نہ تو اصفہان اور نہ ہی روم میں یہ کام ممکن رہا، اس طرح چھ صدیاں گزرگئیں لیکن حضرت عیسیٰ ؑ کے بعدکوئی قابل ذکر تحریک شروع نہ ہو سکی، لیکن قدرت نے ایک انتظام کیا ہوا ہے، صحرائے عرب میں ابراہیم ؑ اور حاجرہ نے ایک پودہ سر زمین حجاز میں لگایا ہوا ہے، یہ خطہ اپنی بیسروسامانی کی وجہ سے کوئی معاشی کشش نہیں رکھتا۔ یہ نہ تو سلطنت فارس کے لئے کوئی اہمیت رکھتا ہے اور نہ ہی سلطنت روم کے لئے، یہ ایک لحاظ سے پسماندہ مگر آزاد ہے، یہاں قبائلی نظام ہے، یہاں کسی اہم قبیلے کا فرد ہونا یا کسی قبیلے کے ساتھ منسلک ہونا ہی سب سے بڑا تحفظ ہے،یہاں ابراہیم ؑکی اسماعیلی شاخ موجود ہے اسی شاخ میں یہاں محمدﷺ پیدا ہو چکے ہیں اس صحرا سے محمدﷺ کی سربراہی میں ایک نئی انقلابی تحریک اٹھتی ہے، سابقہ الہامی کتابوں میں درج جس پیغام کو مسخ کر دیا گیا ہے اسے درست شکل میں قرآن کی صورت میں نازل کر دیا گیا ہے دیکھتے ہی دیکھتے یہ صحرا نشین سید الانبیاء کی قیادت میں ایک عظیم قوم بن کر ابھرتے ہیں اور سلطنت فارس کو فتح کر لیتے ہیں اور سلطنت روم کی جڑیں ہلا دیتے ہیں۔ ایک نیا پیغام، ایک نیا منشورملتا ہے اور ایک نیا نظام قائم ہو جاتا ہے، اب جب جب اس منشور پر عمل ہو گا انسانی قافلہ آگے بڑھے گا۔ یہ منشور ِقرآنی کرۂ ارض پر تمام انسانوں، تمام جگہوں اور تمام زمانوں کے لئے ہے،قرآن وہ کتاب ہے، جو درس انقلاب ہے۔
ذبحِ عظیم
القران: 37:107:سورہ صآفات
حضرت ابراہیم ؑ کے زمانے تک بڑے بڑے ظالمانہ نظام قائم ہو چکے تھے، اب محض زبانی تبلیغ سے انسانی سماج کی روانی ممکن نہیں، اب جانی و مالی اور اولاد کی قربانیاں درکار ہیں، قرآن مجید میں ابراہیم ؑ کو بیٹے کی قربانی کا حکم دیا گیا، انہوں نے بیٹے کو بتایا، بیٹے نے سر تسلیم خم کیا، گویا بیٹے نے عہد کیا کہ وہ قربان ہو گا، اب یہاں نہ تو، قرآن میں اور نہ ہی بائیبل میں بیٹے کا نام بتایا گیا ہے، مسلمان بیٹے سے مراد حضرت اسماعیل ؑ لیتے ہیں جبکہ یہودی اور عیسائی بیٹے سے مراد حضرت اسحاق ؑ لیتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ یہ قربانی ایک تمثیل ہے اور ابراہیم ؑ اور ان کے تمام سچے پیروکاروں پر واجب ہے کہ جب جب ضرورت پڑے وہ باطل کے خلاف اپنے بیٹوں کی قربانی سے گریز نہ کریں، تاریخ گواہ ہے کہ حضرت اسحاق ؑ کی اولاد یعنی بنی اسرائیل کے پیغمبروں نے قربانیاں دیں اور حضرت اسماعیل ؑ کی اولاد نے بھی نسل در نسل قربانیاں دیں اور مسلسل دے رہے ہیں اور مسلسل دیتے رہنا ہو گا۔ انہی قربانیوں میں سے ایک عظیم قربانی کربلا کے شہدا کی قربانی ہے جو بہت سی انقلابی تحریکوں کو جلا بخشتی ہے۔ یہ کائنات انہی قربانیوں کی وجہ سے اپنی منزل کی جانب کامیابی سے رواں دواں ہے۔