13 اپریل، 2015

تعلیم و تدریس

تعلیم علم حاصل کرنے کا نام ہے اور تدریس علم تقسیم کرنے کا نام ہے، اکثر چیزیں تقسیم کرنے سے کم ہوتی ہوتی ختم ہو جاتی ہیں لیکن علم وہ واحد چیز ہے کہ جو تقسیم کرنے سے بڑھتی ہے بلکہ جتنا زیادہ تقسیم کیا جائے، اتنا اور زیادہ بڑھتا ہے۔ اگر اسے چھپا کر رکھا جائے تو بالآخر ختم ہو جاتا ہے۔ علم میں "تقسیم" کا مطلب "ضرب" ہوتا ہے۔ حصول علم کی ابتدا معلومات سے ہوتی ہے اور معلومات حواس خمسہ کے ذریعے اکٹھی کی جاتی ہیں یعنی سنتے کانوں اور دیکھتی آنکھوں کے ذریعے اور دیگر حواس کی مدد سے تصدیق بھی ضروری ہے۔ دیگر حواس میں سونگھنا، چھونا اور چکھنا شامل ہیں۔ اہم اور قابل اعتماد معلومات ہڈ بیتیاں ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ جگ بیتیاں بھی معلومات فراہم کرتی ہیں۔ جگ بیتیاں دوسروں کی ہڈ بیتیاں، مشاہدات اور تجربات ہوتے ہیں۔ ان کی تصدیق اپنے حواس خمسہ سے بھی کی جاتی ہے۔ آجکل جگ بیتیوں کے انبار لگے ہوئے ہیں، ایک ہی موضوع پر بے شمار Websites ہیں۔ معلومات کے ذخیرے ہیں اور اکثر معلومات کے لیے Website کا انتخاب مشکل ہو جاتا ہے کہ "علم تو معلومات میں گم ہو گیا ہے" Knowledge is lost in information"
اس طرح جمع شدہ معلومات میں سے غور وفکر اور تجزیے کے ذریعے علم اخذ کیا جاتا ہے۔ علم ایک بہت بڑی قوت ہے لیکن اس کا استعمال دو قسم کا ہوتا ہے۔ ایک تو منفی ہوتا ہے اور دوسرا مثبت۔
منفی استعمال سے فوری فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے، دوسروں کو دھوکا دیا جا سکتا ہے، خلق خدا کا شکار کیا جا سکتا ہے۔ ایسے لوگوں کو Evil Genius کہا جاتا ہے۔ اس میں ساحرانہ رویوں اور عمل سے دوسروں کی جیب پر ہاتھ صاف کیا جاتا ہے۔ ان میں قسم قسم کے ہامان، فرعون اور قارون شامل ہیں۔
اقبالؒ کہتے ہیں:
خلق خدا کی گھات میں، رند و فقیہہ و میر و پیر
تیرے جہاں میں ہے وہی گردش صبح و شام ابھی
دانش و دین و علم و فن، بندگی ہوس تمام
عشق گرہ کشائے کا فیض نہیں ہے عام ابھی
یوں علم کا منفی استعمال بہت نقصان دہ ہوتا ہے، ترقی و خوشحالی کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے، استحصالی نظام کو تحفظ فراہم کرتا رہتا ہے۔ 
علم کا مثبت استعمال نئی نئی راہیں کھولتا ہے، یہ علم کے تقاضوں کے مطابق ہوتا ہے، اس میں میدان عمل میں بے خوف و خطر کودنا ہوتا ہے، قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔ ایسے لوگوں کی زندگیاں مشکلات میں گزرتی ہیں لیکن انہی کی بدولت انسانی قافلہ اعلی و ارفع منازل کی طرف رواں دواں ہے۔
آجکل تدریسی عمل حرص و ہوا کے گرد طواف کر رہا ہوتا ہے۔ علم سے عشق نہیں بلکہ صرف مفاد وابستہ ہوتا ہے۔ اسی لیے تو ساون بھادوں کی گھاس طرح اگنے والے گونا گوں تعلیمی ادارے، سکول، کالج اور یونیورسٹیاں محض روبوٹ پیدا کر رہے ہیں۔ شاعروں،ادیبوں اور فلاسفروں کا فقدان ہے، شعور ناپید ہے۔ کلاس روموں میں پاور پوائنٹ اور ملٹی میڈیا کا استعمال عام ہے۔ بحث و مباحثہ کا فقدان ہے، سوال پوچھنے کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے کیونکہ معلم کو اپنے اوپر اعتماد نہیں ہوتا، علم کی پختگی نہیں ہوتی۔ اسی لیے سادگی نہیں ہوتی، اس لیے اپنے اوپر نام نہاد علمیت کا خول چڑھا کر طالبعلموں سے فاصلہ رکھا جاتا ہے۔ خود اپنے موضوع پر عبور نہیں ہوتا اور دوسروں کو بھی گنجھلدار بجھارتوں میں الجھا دیتے ہیں:
"Confused people spread confusion."
"Simplicity follows clarity."
معلم کا اصل کام طالب علم میں تجسس اور علم سے عشق پیدا کرنا ہوتا ہے، اسے علم کا جنونی بنانا ہوتا ہے، آگے کی منزلیں تو پھر اس کے قدموں میں ہوں گی۔
تدریس ایک معزز شعبہ ہے، یہ پیغمبرانہ عمل ہے۔ علم کے ساتھ جنون کی حد تک وابستگی مانگتا ہے۔ یہ کمائی کا ذریعہ یا پیشہ نہیں ہے۔ یہ تو عشق سے بھی آگے کی منزل ہے۔ یہ تو بے پناہ طاقت کا حامل بن جاتا ہے۔ اور جب علم اور شجاعت مل جاتے ہیں تو کس کی مجال ہے کہ سامنے کھڑا ہو سکے۔ وہ عمرو ابن عبدود ہو یا مرحب، علم و شجاعت کی ضرب حیدری سے پاش پاش ہو جاتا ہے۔ اس طاقت کا امیری و غریبی سے کوئی واسطہ ہی نہیں ہے۔
تیری خاک میں ہے اگر شرر تو خیال فقر و غنا نہ کر
کہ جہاں میں نان شعیر پر ہے مدار قوت حیدری
علامہ اقبالؒ 

تلاش کیجئے