صبح وشام ہم، بہت سے ایسے تصورات اور بہت سی ایسی اصطلاحات کی جگالی عادتاََ کرتے چلے جاتے ہیں، جن کے معانی و مفہوم بارے کسی سوال کا جواب دینا پڑ جائے تو ہم سوائے آئیں، بائیں، شائیں کرنے کے شاید ہی کچھ کہہ پائیں۔ ایسی ہی ایک ٹرم ”انقلاب“ ہے، جس نے حبیب جالب مرحوم کی رُوح کو بے سکون کرتے ہوئے اپنا جدید جنم ہمارے خادم اعلیٰ کے ہاں لیا، بیچ میں ”تبدیلی“ کے نام سے کچھ مدت خان خاناں کی ولدیت میں رہی اورپھر ویزہ لگوا کرکینیڈا جاپہنچی، جہاں پیارے شیخ الاسلام نے ازراہ شفقت اسے گود لے لیا۔ جون آف آرک کی رُوح احتجاج کررہی ہے کہ بھائی لوگو، یہ کیسا”انقلاب“ ہے جوجاتی عُمرا کے شاہی محلات سے پھوٹ کر اپنے ماتحت سرکاری افسران کی بیگمات کو ورغلا کر اپنی زوجیت میں لیتا ہواماڈل ٹاؤن پہنچ کرکم از کم چودہ معصوم انسانوں کے خون سے ولیمہ جا رچاتا ہے؟ یا پھرکئی ماہ تک ڈی چوک میں رنگ و مستی پر مشتمل موج میلہ کھیلتے رہنے کے بعد کسی مدرسے میں منعقدہ دعوت ولیمہ پرجا کرٹھس ہوجاتا ہے؟؟
جی ہاں قارئین گرامی،باراک اوبامہ کی تبدیلی تو امریکی تاریخ میں پہلے باقاعدہ نیگرو کو بنا گئی سُپر پاور کا صدر اور وہ بھی ایک افریقی تارک الوطن کو، لیکن ہماری ”تبدیلی“نے جیمز گولڈ سمتھ جیسے ارب پتی کی دامادی میں پرورش پائی اورایک مدت تک افتخار چودھری نامی شاہکار کی حمایت کا اشتہار بنی پھرتی ہے۔ اسی لئے تو لینن گراڈ اور سٹالن گراڈدونوں صدقے واری جارہے ہیں بیک وقت، اسلام آباد ڈی چوک والے وی آئی پی”انقلابی کنٹینر“ کے ساتھ ساتھ امارات ائیر لائنزمیں سواردرجنوں انقلابیوں کی جانب سے ڈیڑھ دوسو مسافروں کو یرغمال بنانے جیسی ’انقلابی‘ حکمت عملی دونوں پر؟ ذکر ہوتا ہے جب قیامت کا، تیری زُلفوں کی بات ہوتی ہے! دوستو،ڈی چوک اسلام آباد کا ذکر آئے اوردھیان نہ جائے، گذشتہ برس یوم آزادی پر وہاں پہنچنے والے”لانگ مارچ“کی طرف، جس نے پہلے نام پایاآبائی نسبت سے پہلے ”سونامی مارچ“ کا لیکن بعد ازاں مولوی جمیل طارق کے ہاتھوں مشرف بہ سرکار ہونے کے بعد تبدیلی نام کا اشتہار شائع کرا دیاکہ ”آئندہ مجھے آزادی مارچ کے نام نامی سے لکھا اور پُکارا جائے“۔بہرحال بقول کسے،نام میں کیا رکھا ہے، ”لانگ مارچ“ کو جس نام سے پُکارو، لانگ مارچ ہی رہتا ہے، بھلے اسلام آبادی سرکاراسے ناکام بنانے کی لاجواب لیکن دیرینہ ”حکمت عملی“ کے تحت، المشہور ڈی چوک پراُس وقت یکم تا14 اگست،دو ہفتوں پر مشتمل ”ضیاء الحقی جشن آزادی“کااعلان کرتی پھرے یا پھرتبدیلی کواب کسی جوڈیشل کمیشن کے رنگ برنگے لالی پاپ سے بہلاتی رہے۔ چیئرمین ماؤزے تنگ بے شک، مہینوں تک سخت ترین ریاستی اور موسمی سختیوں کا مقابلہ کرنے والے لاکھوں انقلابی سپاہیوں کے ہزاروں میل کی مسافت پیدل طے کرنے کو لانگ مارچ کہتا پھرے، اوران کٹھن مراحل میں کام آجانے والے ”قائد انقلاب“ کے دو جوان بیٹوں کی قربانی کو ہی کامیابی کا راز جتلاتا رہے۔ لیکن ہم تو بس اتنا جانتے ہیں کہ لانگ مارچ، لانگ مارچ ہی ہوتا ہے، بھلے وہ 2009 میں جسٹس چودھری نامی امریکیوں اورخاکیوں کے مُشترکہ کارندے کی ’بحالی‘ کیلئے، ان کی مشترکہ ڈارلنگ کی جانب سے، فوج کی سرپرستی میں پجیروز اور پراڈوز پرلاہور تا گوجرانوالہ پہنچایا گیا ہویا پھر دوبرس قبل پنجاب کی صوبائی حکومت کی طرف سے بچھائے گئے ریڈ کارپٹس کے ذریعے فائیو سٹار کنٹینر پرسوار لاہور سے اسلام آباد بھیجا گیا ہو۔ تازہ ترین مشاہدہ بہرحال یہ ہے صاحبو کہ ”سونامی“ کی لہروں پر سوار ہمارے خان اعظم کا تبدیلی مارچ، یقینی طور پرطاہرالقادری کے”میجک شوز“ جیسے عبرت ناک انجام سے بھی بدترصورتحال سے دوچار ہوچکا۔
دوستو اور صاحبو! سچ پوچھئے تو ارادہ آج یہ سمجھنے،سمجھانے کی کوشش کا تھاکہ یہ ”انقلاب“، یہ ”تبدیلی“ اور یہ ”لانگ مارچ“ نامی بلائیں ہوتی کیا ہیں، کہاں سے پھوٹتے ہیں ان کے سرچشمے؟ تیاری اور تربیت کے کن مراحل سے گذرا کرتے ہیں ان کے کارکن اور قیادت دونوں؟ اور یہ بھی کہ آیا شہبازشریف اورعمران خان جیسے مراعات یافتہ شاہزادے یابیرونی امداد پر چلنے والے مذہبی مدرسوں کے کسی نیٹ ورک کے کینیڈامیں مقیم طاہرالقادری جیسے ”مختار کُل“یعنی سب سرتا پا”بورژوا ئی“ اس انقلاب، اس تبدیلی کے لازمی اور براہ راست”ٹارگٹ“ ہوا کرتے ہیں یا اس کے محرکین؟؟ ہاں،سمجھنے کی ضروری بات یہ بھی ہے کہ اس مراعات یافتہ طبقہ کی طرف سے لگائے جارہے یہ مصنوعی نعرے دراصل انقلاب کے محتاج اور ضرورت مند”پرولتاری“ یعنی محروم طبقات کو خواب غفلت سُلائے رکھنے کی لاجواب کوشش کے سوا کچھ نہیں کہ ”ہم ہیں نا تمہارے غم میں"پھول پھول کردُنبے" ہوتے چلے جانے کو، تم بس سب کچھ ہم پر چھوڑ ے رکھو“۔
لیکن قارئین، طوالت آپ کیلئے اور خود لکھاری کیلئے بھی کبھی خوشگوار تجربہ نہیں رہا کرتا، اسلئے باقی کو کسی آئندہ نشست پر اُٹھا رکھتے ہیں۔
جی ہاں قارئین گرامی،باراک اوبامہ کی تبدیلی تو امریکی تاریخ میں پہلے باقاعدہ نیگرو کو بنا گئی سُپر پاور کا صدر اور وہ بھی ایک افریقی تارک الوطن کو، لیکن ہماری ”تبدیلی“نے جیمز گولڈ سمتھ جیسے ارب پتی کی دامادی میں پرورش پائی اورایک مدت تک افتخار چودھری نامی شاہکار کی حمایت کا اشتہار بنی پھرتی ہے۔ اسی لئے تو لینن گراڈ اور سٹالن گراڈدونوں صدقے واری جارہے ہیں بیک وقت، اسلام آباد ڈی چوک والے وی آئی پی”انقلابی کنٹینر“ کے ساتھ ساتھ امارات ائیر لائنزمیں سواردرجنوں انقلابیوں کی جانب سے ڈیڑھ دوسو مسافروں کو یرغمال بنانے جیسی ’انقلابی‘ حکمت عملی دونوں پر؟ ذکر ہوتا ہے جب قیامت کا، تیری زُلفوں کی بات ہوتی ہے! دوستو،ڈی چوک اسلام آباد کا ذکر آئے اوردھیان نہ جائے، گذشتہ برس یوم آزادی پر وہاں پہنچنے والے”لانگ مارچ“کی طرف، جس نے پہلے نام پایاآبائی نسبت سے پہلے ”سونامی مارچ“ کا لیکن بعد ازاں مولوی جمیل طارق کے ہاتھوں مشرف بہ سرکار ہونے کے بعد تبدیلی نام کا اشتہار شائع کرا دیاکہ ”آئندہ مجھے آزادی مارچ کے نام نامی سے لکھا اور پُکارا جائے“۔بہرحال بقول کسے،نام میں کیا رکھا ہے، ”لانگ مارچ“ کو جس نام سے پُکارو، لانگ مارچ ہی رہتا ہے، بھلے اسلام آبادی سرکاراسے ناکام بنانے کی لاجواب لیکن دیرینہ ”حکمت عملی“ کے تحت، المشہور ڈی چوک پراُس وقت یکم تا14 اگست،دو ہفتوں پر مشتمل ”ضیاء الحقی جشن آزادی“کااعلان کرتی پھرے یا پھرتبدیلی کواب کسی جوڈیشل کمیشن کے رنگ برنگے لالی پاپ سے بہلاتی رہے۔ چیئرمین ماؤزے تنگ بے شک، مہینوں تک سخت ترین ریاستی اور موسمی سختیوں کا مقابلہ کرنے والے لاکھوں انقلابی سپاہیوں کے ہزاروں میل کی مسافت پیدل طے کرنے کو لانگ مارچ کہتا پھرے، اوران کٹھن مراحل میں کام آجانے والے ”قائد انقلاب“ کے دو جوان بیٹوں کی قربانی کو ہی کامیابی کا راز جتلاتا رہے۔ لیکن ہم تو بس اتنا جانتے ہیں کہ لانگ مارچ، لانگ مارچ ہی ہوتا ہے، بھلے وہ 2009 میں جسٹس چودھری نامی امریکیوں اورخاکیوں کے مُشترکہ کارندے کی ’بحالی‘ کیلئے، ان کی مشترکہ ڈارلنگ کی جانب سے، فوج کی سرپرستی میں پجیروز اور پراڈوز پرلاہور تا گوجرانوالہ پہنچایا گیا ہویا پھر دوبرس قبل پنجاب کی صوبائی حکومت کی طرف سے بچھائے گئے ریڈ کارپٹس کے ذریعے فائیو سٹار کنٹینر پرسوار لاہور سے اسلام آباد بھیجا گیا ہو۔ تازہ ترین مشاہدہ بہرحال یہ ہے صاحبو کہ ”سونامی“ کی لہروں پر سوار ہمارے خان اعظم کا تبدیلی مارچ، یقینی طور پرطاہرالقادری کے”میجک شوز“ جیسے عبرت ناک انجام سے بھی بدترصورتحال سے دوچار ہوچکا۔
دوستو اور صاحبو! سچ پوچھئے تو ارادہ آج یہ سمجھنے،سمجھانے کی کوشش کا تھاکہ یہ ”انقلاب“، یہ ”تبدیلی“ اور یہ ”لانگ مارچ“ نامی بلائیں ہوتی کیا ہیں، کہاں سے پھوٹتے ہیں ان کے سرچشمے؟ تیاری اور تربیت کے کن مراحل سے گذرا کرتے ہیں ان کے کارکن اور قیادت دونوں؟ اور یہ بھی کہ آیا شہبازشریف اورعمران خان جیسے مراعات یافتہ شاہزادے یابیرونی امداد پر چلنے والے مذہبی مدرسوں کے کسی نیٹ ورک کے کینیڈامیں مقیم طاہرالقادری جیسے ”مختار کُل“یعنی سب سرتا پا”بورژوا ئی“ اس انقلاب، اس تبدیلی کے لازمی اور براہ راست”ٹارگٹ“ ہوا کرتے ہیں یا اس کے محرکین؟؟ ہاں،سمجھنے کی ضروری بات یہ بھی ہے کہ اس مراعات یافتہ طبقہ کی طرف سے لگائے جارہے یہ مصنوعی نعرے دراصل انقلاب کے محتاج اور ضرورت مند”پرولتاری“ یعنی محروم طبقات کو خواب غفلت سُلائے رکھنے کی لاجواب کوشش کے سوا کچھ نہیں کہ ”ہم ہیں نا تمہارے غم میں"پھول پھول کردُنبے" ہوتے چلے جانے کو، تم بس سب کچھ ہم پر چھوڑ ے رکھو“۔
لیکن قارئین، طوالت آپ کیلئے اور خود لکھاری کیلئے بھی کبھی خوشگوار تجربہ نہیں رہا کرتا، اسلئے باقی کو کسی آئندہ نشست پر اُٹھا رکھتے ہیں۔
یار زندہ صحبت باقی!