انسان کی منزل انسانیت کے اعلی معیار کا حصول ہے۔ مذہبی معاشرے دعوی کرتے ہیں کہ وہ اخلاقیات کا مثالی نظام رکھتے ہیں اور دنیا و آخرت کی کامیابیوں کے لیے ان کے پاس جامع نظام حیات موجود ہے۔ یوں وہ فخر و مباحات میں مگن رہتے ہیں۔ مگر عجب اتفاق ہے کہ غیر مذہبی معاشرے جہاں لوگ آخرت کے انعام و اکرام کی کوئی امید نہیں رکھتے، وہ جزا و سزا پر بھی یقین نہیں رکھتے۔ وہاں انسانیت کا معیار بہتر ہی نہیں بلکہ بہت بہترہے۔ وہاں سچائی کا معیار بہتر ہے، ایمانداری کا درجہ بلند ہے۔ ایک انسان دوسرے انسان کواپنے جیسا سمجھتا ہے، انسان انسان کے کام آتا ہے۔ سماجی بہبود کا نظام ہے، قانون کی حکمرانی ہے۔ یہ درست ہے کہ وہاں بھی بہت سے مسائل حل طلب ہیں۔
دوسری طرف مذہبی معاشروں میں بہت ساری بنیادی اخلاقیات کا فقدان ہے۔ بہت سے مذہبی راہنما اور تنظیمیں خلق خدا کو لوٹنے میں مصروف ہیں۔ مذہبی لوگوں کے لیے ضروری کہ ایک اعلی معاشرہ تشکیل دے کر مثال قائم کریں۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں خوف نہ ہو، حزن نہ ہو، اعتماد ہو۔ انسانیت کے اعلی ترین معیار کا عملی نمونہ ہو اور بہترین مثال ہو ورنہ محض دعووں سے کوء فرق نہیں پڑنے والا۔ پھر تو اگر غیر مذہبی معاشرے انسانیت کے زیادہ قریب ہیں تو انہیں مذہب کی کیا ضرورت ہو گی۔
حقیقت تو یہ بھی ہے کہ خلق خدا کی کمائی ہر ہر حربے سے لوٹی جا رہی ہے۔ اور زیادہ تر یہ لوٹ مذہب ہی کے نام پر کی جا رہی ہے۔
امیر شہر فقیروں کو لوٹ لیتا ہے
کبھی بحیلئہ مذہب، کبھی بنام وطن
احمد فراز
اور اقبالؒ فرماتے ہیں:
خلق خدا کی گھات میں، رند و فقیہہ و میر و پیر
تیرے جہاں میں ہے وہی گردش صبح و شام ابھی