آدم کی تخلیق کائنات کی تخلیق کا حصہ ہے۔ کائنات چھ ایام (ستہ ایام) یعنی چھ ادوار میں تخلیق ہوئی۔ تخلیق ایک قاعدے، قانون یعنی ایک فارمولے کے تحت ہوئی۔ تخلیق کے بعد ہر چیز ارتقاء پذیر ہے۔ پوری کائنات پھیل رہی ہے۔ تخلیق فضل ربّی ہے اور فضل ربّی جاری و ساری ہے۔
اقبالؒ کہتے ہیں:
شاید کہ یہ کائنات ہے ناتمام ابھی
آرہی ہے دمادم صدائے کن فیکون
سائنس دان بھی تصدیق کرتے ہیں کہ افق پر مسلسل ہائیڈروجن کے ایٹم پیدا ہو رہے ہیں اور کائنات وسعت اختیار کر رہی ہے۔
کائنات میں ضرورت پہلے پیدا کی گئی ہے اور ضرورت مند بعد میں۔
ابتدا میں ایک گیسی گولہ یعنی دخان تھا جس میں حرکت اور توسیع کا قانون گامزن تھا یعنی Movement and Expansion تھی۔ دوسری اسٹیج یا دور میں Galaxies اور Solar Systems تخلیق ہوئے۔ انہی میں سے ایک نظام شمسی (Solar System) کا حصہ ہمارا Planet زمین تھی۔ زمین اپنے سورج کے گردانتہائی تیز رفتاری کے ساتھ گھوم رہی تھی اور انتہائی گرم تھی۔ زمین گویا آگ کا ایک گولہ تھا۔ اس پر کوئی چیز نہ ٹھہر سکتی تھی اور نہ اُگ سکتی تھی۔ تخلیق کے باقی کے چار ادوار یعنی اربعتہ الایام کا تعلق زمین کے اوپر ہی بیان کیا گیا ہے۔ ان میں سے پہلے دور اور مجموعی طور پر تیسرے دور میں پانی اور پہاڑ پیدا کئے گئے۔ یہ عمل لاکھوں سال جاری رہا۔ پانی پر ہی زندگی کا دارومدار ہے۔ پانی سے زمین کا گرم کولہ ٹھنڈا ہوا، نرم ہوا، کیچڑ بنا، اس طرح یہ کوئی چیز اگانے کے قابل ہوا اور یہاں کا درجہ حرارت برداشت کے قابل ہوا پھر اس کی تیز رفتاری کو کم کرنے کے لئے پہاڑ پیدا کئے گئے یعنی پہاڑوں کی میخیں گاڑی گئیں۔
اس طرح زمین میں Fertility یعنی ذرخیزی پیدا ہوئی اور پہاڑوں کی وجہ سے Stability یعنی حرکت میں یعنی رفتار میں کمی آئی۔
اب چوتھا دور شروع ہوا یعنی تمام قسم کی نباتات پیدا کی گئیں، واضع رہے کہ ہر قسم کی نباتات کی ضرورت پانی، زمین کی ذرخیزی اور مناسب درجہ حرارت ہے جس کا بندوبست اس سے پہلے مرحلے میں کر دیا گیا ہے۔ ہر تخلیق کی بنیاد جوڑوں پر رکھی گئی۔
اور ان میں بے پناہ ذوق و کشش پیدا کر دی گئی، گویا خود بخود ایک دوسرے کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں۔
اقبالؒ کہتے ہیں:
مذاق دوئی سے بنی زوج زوج
اٹھی دشت و کہسار سے فوج فوج
پانچویں دور میں حیوانات، پرندے اور درندے پیدا ہوئے۔
اب چھٹے دور میں کرۂ ارض کے شہنشاہ کو پیدا کیا گیا۔ یعنی پورے کرہ ارض پر آدم تخلیق ہوا۔ قسم قسم کی مٹی Soil سے،واضع رہے کہ آدم ایک specie یعنی ایک نوع یا نسل کا نام ہے۔ آدم مذکر بھی ہے اور مؤنث بھی ہے۔ قرآن میں حوا Eve کا لفظ سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ لفظ زوج Spouse کے معنوں میں ہے۔
آدم کے لئے جنت ارضی سجا دی گئی۔ قسم قسم کے پھل، سبزیاں، نباتات، حیوانات، جمادات، دریا غرضیکہ ضرورت کی ہر چیز مہیا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس میں یہ صلاحیت رکھ دی گئی کہ کائنات کی ہر چیز کو سمجھ سکے، اپنی تابع فرمان بنا سکے، اور ارتقاء کی اگلی منزلوں کی جانب استفادہ حاصل کر سکے۔
اب یہ انسان پر منحصر ہے کہ اپنی صلاحیتوں کو کب اور کتنا بروئے کار لاتا ہے اورمسجود ملائکہ بنتا ہے کہ تمام ملکوتی قوتیں اس کے قدموں میں سجدہ ریز ہو جائیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ابھی آدم کی تکمیل نہیں ہوئی۔
عقل ہے بے زمام ابھی، عشق ہے بے مقام ابھی
نقش گر ازل! تیرا نقش ہے ناتمام ابھی
علامہ اقبالؒ
افسوس کہ یہ ملا جو ابن الکتاب بن بیٹھا ہے، تکمیل آدم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
تکمیل آدم جسمانی طور پر بھی تبھی ممکن ہے کہ تمام انسان آپس میں ملیں، باہم ملاپ ہو اور قسم قسم کی مٹی سے بنے ہوئے جینز میں جو الگ الگ نقائص ہیں، وہ دور ہوں۔ ایک ضابطہ اخلاق ہو، باہمی احترام ہو۔ اور بالخصوص عورت کا احترام ہو کیونکہ وہی تو نسل انسانی کی امین ہے اور اس نے یہ فرض منصبی تمام تر نا ہمواریوں کے باوجود احسن طریقے سے نبھایا ہے۔