پاکستان کی خارجہ پالیسی میں یہ بہت ہی نازک اور پیچیدہ ایشو ہے۔ یہ اسقدر تفصیلی ہے کہ کم سے کم بھی چار سے پانچ قسطیں چاہتا ہے لیکن میں پوری کوشش کرونگا کہ اس ایشو کو پانچ نکات کی مدد سے سمجھایا جا سکے۔
(01) افغانستان صدیوں ایک ایسے آزاد ملک کی حیثیت سے چلا آرہا تھا جس پر انیسویں صدی میں برطانیہ نے قبضے کی سرتوڑ کوششیں کیں لیکن عبرتناک مار کھا کر وہاں سے نکلا۔ البتہ اس کے کچھ علاقے (تقریبا پورا موجودہ خیبر پختون خواہ) برطانیہ کے قبضے میں رہ گیا۔ جسے افغانستان سے ڈیورنڈ لائن کے ذریعے الگ کیا گیا۔
(02) افغانستان کے رشیا کے ساتھ سفارتی تعلقات 1919ء میں قائم ہوئے۔
(03) تقسیم ہند کا مرحلہ آیا تو صوبہ سرحد کے لئے یہ طے کیا گیا کہ وہاں ریفرینڈم کرا لیا جائے عوام پاکستان اور بھارت میں سے جس کے حق میں ووٹ دیدیں یہ اس کا ہو جائے گا۔ 6 جولائی 1947ء کو ریفرینڈم ہوا جس کے نتائج کا 20 جولائی کو اعلان کیا گیا۔ نتیجے کے مطابق 572798 رجسٹرڈ ووٹوں میں سے پاکستان کے حق میں 289244 جبکہ انڈیا کے حق میں صرف 2874 ووٹ آئے یوں 14 اگست 1947ء کو آزادی کے ساتھ ہی صوبہ سرحد پاکستان کے حصے کے طور پر آزاد ہوا۔
(04) 30 ستمبر 1947ء کو پاکستان اقوام متحدہ کا ممبر بنا۔ جب ممبر شپ کے لئے قرار داد پیش ہوئی تو پوری دنیا سے افغانستان واحد ملک تھا جس نے پاکستان کی ممبر شپ کے خلاف ووٹ دیا۔
(05) پہلے ہی دن سے افغانستان نے پاکستان سے ساتھ یہ تنازعہ کھڑا کردیا کہ چونکہ ڈیورنڈ لائن معاہدہ برطانیہ کے ساتھ ہوا تھا جس کے تحت صوبہ سرحد کا علاقہ ایک متعین مدت تک برطانیہ کے قبضے میں تسلیم کر لیا گیا تھا لھذا برطانوی انخلاء کے بعد ایک نیا ملک (پاکستان) اس کی سرزمین پر قبضہ نہیں رکھ سکتا۔ پاکستان کا موقف یہ تھا کہ صوبہ سرحد کی اسی نازک پوزیشن کے سبب ریفرینڈم ہوا جس میں عوام کی اکثریت نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا لھذا یہ علاقے ڈیورنڈ لائن معاہدے کے تحت پاکستان کا حصہ ہیں ہی نہیں بلکہ عوام کی خواہش اور ان کی رائے کے مطابق پاکستان کا حصہ ہیں۔ افغانستان کو چین نہ آیا اور اس نے پاکستان کی پوری پختون بیلٹ میں "آزاد پختونستان" کی تحریک کو ہوا دینی شروع کی جس کے لیڈر پاکستانی پختونوں کی غیرت یہ کہہ کر جگانے کی کوشش کرتے رہے کہ پنجابی تم پر حکومت کرینگے اور تم ان کی غلامی کروگے۔ لیکن جب ایک پختون یعنی جنرل ایوب خان اقتدار میں آگیا تو صوبہ سرحد کے عوام نے ان لیڈروں سے کہنا شروع کردیا کہ بھائی اب تو دو باتیں ہو گئیں ایک یہ کہ ایک پختون پاکستان پر حکومت کر رہا ہے اور دوسری یہ کہ پنجابیوں کو قومیت کی بنیاد پر اس سے کوئی تکلیف نہیں لھذا جب پنجابی کو پختون کے اقتدار سے کوئی تکلیف نہیں تو کل کو جب کوئی پنجابی اقتدار میں آجاتا ہے تو کیا ہمیں اس پر اعتراض ہونا چاہئے؟ اس "جوابی بیانیے" نے آزاد پختونستان کے غبارے سے ہوا نکال کر رکھدی۔
ستر کی دہائی میں بالآخر نام نہاد پختون نشنلسٹ بھی پاکستان سے باقاعدہ وابستہ ہونے لگے اور انتخابات میں شریک ہونا شروع ہوئے لیکن "پنجابی" لفظ ان کی زبان پر ایسا چڑھ گیا تھا کہ بہت دیر تک اپنے اثرات دکھاتا رہا اور آج کل بھی کبھی کبھار یہ ان کی زبانوں سے لڑکھ ہی آتا ہے۔ اُدھر افغانستان میں سوویت اثر رسوخ تیزی سے بڑھ رہا تھا۔ بھاری سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ تعلیم کے شعبے میں تعاون کے نام پر طلباء کو رشین اساتذہ کی مدد سے کمیونسٹ بنایا جا رہا تھا اور اِدھر پاکستان ٹوٹ چکا تھا۔ بھٹو ایک جینئس تھے وہ جانتے تھے توسیع پسندانہ پالیسی والا سوویت یونین ہر ملک پر قبضہ کرنے سے قبل وہی کرتا ہے جو افغانستان میں کر رہا ہے چنانچہ جب کابل اور جلال آباد یونیورسٹیوں میں کمیونزم کے خلاف طلباء اور اساتذہ نے مزاحمت شروع کی تو بھٹو نے ان کے سر پر دست شفقت رکھدیا اور انہیں سمجھایا کہ بہت جلد سوویت یونین اپنی فوج افغانستان میں اتارے گا اور تم سب کو کچل دیگا لھذا واحد آپشن یہ ہے کہ "جہاد" کی تیاری ابھی سے شروع کردو۔ جی ہاں کمیونسٹ روس کے خلاف "جہاد" کا راستہ اسی بھٹو نے دکھایا اور پشاور میں 1975ء میں ٹریننگ بھی اسی بھٹو نے شروع کروائی جس کا ظاہری چہرہ "سوشلسٹ" کا تھا۔ خلاصہ یہ کہ بھٹو پھانسی پر لٹک گئے۔ افغانستان میں سوویت فوجیں داخل ہو گئیں اور جنرل ضیاء کے خلاف بھٹو کے صاحبزادے میر مرتضیٰ بھٹو نے عسکری جدوجہد شروع کردی جس کا ہیڈ کوارٹر وہی کمیونسٹ کابل بن گیا جس کے خلاف خود بھٹو نے جہاد کی بنیاد رکھی تھی۔ سٹریٹیجک فیصلے حکومتیں بدلنے کے ساتھ تبدیل نہیں ہوتے چنانچہ جس طرح جنرل ضیاء نے بھٹو کی نیوکلیئر پالیسی کو جاری رکھا اسی طرح افغان جہاد والی پالیسی کو بھی نہ صرف برقرار رکھا بلکہ اسے لامحدود وسعت بھی دیدی۔
پاکستان کے پختون نیشنلسٹ جو 1970ء کے بعد ٹھنڈے پڑ چکے تھے وہ روسی افواج کے افغانستان میں آتے ہی سرخ ٹوپیاں پہن کر پھر سے سرگرم ہو گئے۔ اجمل خٹک اور افراسیاب خٹک جیسے تو کابل میں مستقل ڈیرے ڈال کر بیٹھ گئے کہ اب تو سرخ ٹینکوں پر ہی بیٹھ کر پاکستان جائینگے۔ کے جی بی اور افغان انٹیلی جنس ایجنسی خاد نے نہ صرف صوبہ سرحد اور بلوچستان کے نیشنلسٹ پختونوں اور پشتونوں کو منظم کیا بلکہ بلوچوں کو بھی قابو کر لیا، کابل میں ڈیرے جمانے والوں میں نواب خیر بخش مری بھی شامل تھے اور پھر مزید آگے بڑھتے ہوئے سندھ میں بھی جام ساقی جیسوں کے ذریعے ایک خفیہ کمیونسٹ تحریک کی بنیادیں ڈالیں جسے آئی ایس آئی نے بری طرح کچل ڈالا۔ گویا اب یہ طے ہوگیا کہ اگر اگر اٖفغانستان میں رشیا قدم جما گیا تو جلد یہ اجمل خٹک اور نواب خیر بخش مری کی قیادت میں پاکستان آئے گا۔ اگر اس کا قبضہ وہاں مستحکم نہ ہوا لیکن یہ وہاں سے نکلا بھی نہیں تو پاکستان کے صوبہ سرحد اور بلوچستان کو یہ نیشنلسٹوں کی مدد سے مسلسل گرم رکھتے ہوئے انہیں علیحدگی تک لے کر جائے گا۔ صورتحال اسقدر نازک ہو چکی تھی کہ نہ صرف سرخ رشین انقلاب پاکستان کے دروازے پر دستک دے رہا تھا بلکہ پورے بلوچستان باڈر پر کھڑا ایرانی انقلاب بھی تیزی سے پاکستان میں سرایت حاصل کرنے کی کوششوں میں تھا جبکہ ہمارے مشرقی باڈر پر وہ بھارت اسرائیل کو اشارے کر رہا تھا جو صرف آٹھ سال قبل پاکستان کو دو لخت کر چکا تھا گویا لے دے کر ہمارا صرف چائنا باڈر مکمل محفوظ تھا باقی ہم ہر جانب سے تباہ کن صورتحال سے دوچار تھے۔ تن پر پھٹی جینز، جیب میں امریکہ، برطانیہ، کینڈا یا دبئی کا ویزہ اور ایک ہاتھ میں برگر دوسرے میں پیپسی لے کرپاکستان کی افغان پالیسی کو گالی دینا بہت آسان کام ہے لیکن اگر دل میں انصاف کی معمولی سی بھی رمق باقی ہے تو 1979ء والے پاکستان میں کھڑے ہو کر ایک نظر اپنے چاروں طرف کے مناظر پر ڈال کر دیکھئے آپ کے ہوش ٹھکانے نہ آگئے تو لاشوں کو گالی دینے کی ضرورت نہیں گلزار قائد آ کر میرا ہی گریبان پھاڑ دیجئے کہ دفاع وطن کی اس جنگ کا ایک ادنیٰ سا مجرم میں بھی ہوں۔
جب بھٹو نے افغانستان میں جہاد منظم کرنا چاہا تو کابل یونیورسٹی کے تین طلباء اور ان کے استاذ کو پاکستان لایا گیا۔ یہ تینوں طالب علم بہت ہی گہرے دوست تھے اور یونیورسٹی میں کمیونزم کے خلاف سب سے زیادہ متحرک بھی۔ ان میں ایک جان محمد دوسرے احمد شاہ مسعود اور تیسرے گلبدین حکمتیار تھے جبکہ استاذ پروفیسر برھان الدین ربانی تھے۔ ان میں استاذ ربانی اور احمد شاہ مسعود تاجک جبکہ باقی دونوں افغان تھے (افغانستان میں پختون کو "افغان" کہتے ہیں) ان تین دوستوں کی پہلی سخت ایکٹوٹی یہ تھی کہ انہوں نے کابل یونیورسٹی کا ڈانسنگ فلور جلا دیا تھا جو لکڑی تھا اور سبب اس کا توہین اسلام کا ایک واقعہ بنا تھا جو کمیونسٹوں کا وطیرہ تھا۔ بھٹو دور میں ابتدائی ٹریننگ 19 لڑکوں کو دی گئی تھی جنہیں یہ تینوں لائے تھے۔ جب جنرل ضیاء آئے اور اس تحریک کو مزید بہتر شکل دی جانے لگی تو انہی دنوں ان تینوں دوستوں میں ایک معمولی سا اختلاف آیا جس میں جان محمد اور احمد شاہ مسعود کی رائے ایک تھی جبکہ حکمتیار کی کچھ اور یہ تینوں پشاور میں تھے اور مسئلہ ابھی طے نہیں ہوا تھا کہ اچانک جان محمد لاپتہ ہوگیا۔ دونوں ہی اسے ڈھونڈنے میں لگ گئے مگر دو روز بعد جان محمد کی لاش ملی۔ احمد شاہ مسعود کا کہنا تھا صبح جس علاقے میں لاش ملی اسی علاقے سے میں نے رات کو حکمتیار کو گزرتے دیکھا تھا۔ حکمتیار کا کہنا تھا کہ میں واقعی اس ایریے میں گیا تھا لیکن جان محمد کی تلاش میں ہی گیا تھا۔ احمد شاہ مسعود نہ مانا اور یہاں سے اس مشہور زمانہ جھگڑے کی بنیاد پڑی جس میں آگے چل کر پورے جہاد کے دوران ان دونوں نے ایک دوسرے پر کئی خونریز حملے کئے۔ جنرل ضیاء نے دونوں کو ساتھ بٹھا کر صلح بھی کرادی لیکن مسعود اس صلح سے بھی آگے چل کر یہ کہہ کر پھر گیا کہ جان محمد کا قتل آئی ایس آئی اور حکمتیار دونوں نے کیا ہے اور پھر مسعود نے پاکستان آنا بھی چھوڑ دیا۔ اس کی تنظیم کا لین دین استاذ ربانی خود پشاور میں بیٹھ کر کرتے تھے۔ آگے چل کر یہ ثابت بھی ہو گیا کہ جان محمد کوخاد نے قتل کیا تھا مگر تب تک مسعود اور حکمتیار ایک دوسرے کا بھاری جانی نقصان کر چکے تھے جس سے دشمنی ناقابل واپسی مقام تک جا چکی تھی۔
اس پورے جہادی سین پر مولوی کہیں نہیں تھے، کابل اور جلال آباد یونیورسٹی کے اساتذہ اور طلباءہی سب کچھ کرتے رہے۔ مولوی سین پر تب نمودار ہوئے جب رشین آرمی افغانستان میں داخل ہوئی اور مولانا مفتی محمود نے جہاد کا فتویٰ جاری کردیا جن کا پاکستان اور افغانستان دونوں جگہ بیحد احترام تھا۔ اس فتوئے کے نتیجے میں مولانا یونس خالص اور مولانا محمد نبی محمدی کھڑے ہوئے جو دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے فضلاء تھے۔ مولانا یونس خالص ہی اپنے میدانی کمانڈر کے طور پر مولانا جلال الدین حقانی کو لے آئے جو جوان تھے اور حقانیہ کے تازہ فاضل بھی جبکہ محمدی صاحب مولانا ارسلان خان رحمانی کو لے آئے جو ان کے میدانی کمانڈر ہوئے۔ چنانچہ آگے چل کر جب سات جماعتیں بنیں تو ان میں پانچ یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والوں کی تھیں جبکہ دو علماء کی تھیں اور علماء کی ان دونوں جماعتوں کا کمال یہ ہے کہ پورے افغان جہاد کے دوران انکی کسی ایک بھی تنظیم سے کوئی لڑائی نہیں ہوئی جبکہ یونیورسٹی والوں نے تو جہاد کے دوران بھی اور آگے چل کر فتحِ کابل کے بعد بھی وہ فساد مچایا کہ خدا کی پناہ۔ سوویت افواج کے افغانستان میں داخلے کے بعد کے ابتدائی دو سالوں میں پاکستان تنہا اس خطرے سے اپنی بساط کے مطابق نمٹتا رہا لیکن جنرل ضیاء کو اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ اتنی بڑی طاقت سے تنہا نمٹناممکن نہیں چنانچہ امریکہ کو اس جنگ میں شامل کرنے کی کوششیں شروع کردی گئیں مگر وہ ویتنام میں سوویت یونین سے اتنا بڑا زخم کھا کر تازہ تازہ گھر لوٹا تھا جس کی ٹیسیں ابھی بھی اٹھ رہی تھیں جبکہ ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ ویتنام جنگ کے سبب امریکی رائے عامہ فضول جنگوں کے خلاف ہوگئی تھی اور حکومت کو ڈر تھا کہ اگر وہ ایک بار پھر اسقدر جلد بیرون ملک جنگ میں ملوث ہوئی تو رائے عامہ کا پہلے سے بھی شدید رد عمل نہ آجائے چنانچہ امریکہ نے ضیاء الحق کو چند ٹکے پکڑا کر جان چھڑانے کی کوشش کی جسے ضیاء الحق نے "پینٹس" کہہ کر ٹھکرادیا۔ امریکی سیاست لابنگ پر چلتی ہے، اس موقع پر جنرل ضیاءنے کانگریس مین چارلی ولسن کو قابو کرکے اس جنگ میں امریکی شرکت کے فوائد اور شریک نہ ہونے کے نقصانات سمجھائے۔ چنانچہ یہ چارلی ولسن تھے جو امریکی کانگریس کے توسط سے امریکہ کو افغان جہاد میں گھسیٹ لائے یوں سوویت افواج کی افغانستان میں آمد کے دو سال بعد 1981ءمیں امریکہ اس جنگ میں اترااور اس کے آتے ہی یورپ بھی آگیا جس سے افغان جہاد نے زور پکڑتے پکڑتے بالآخر رشیا کو افغانستان سے انخلاءپر مجبور کردیا۔ سوویت یونین کا پورا نظام جبر و استبداد پر کھڑا تھا اور اس کے قبضہ کئے ہوئے ممالک اور غلام بنائے گئے انسانوں میں یہ تصور راسخ تھا کہ سرخ فوج ایک ناقابل تسخیر قوت ہے یہ جہاں بھی جائے وہاں سے واپس نہیں ہوتی لھذا سوویت یونین سے آزادی کا تصور ہی بے معنیٰ ہے لیکن جب یہ ناقابل تسخیر قوت افغانستان میں ملبے کا ڈھیر بن گئی تو نہ صرف سوویت یونین بلکہ مشرقی یورپ میں بھی امید کی لہر دوڑ گئی جس سے اگلے دو برس میں نہ صرف یہ کہ سوویت یونین ٹوٹ گیا بلکہ مشہور زمانہ برلن وال بھی زمیں بوس ہوگئی اور مشرقی یورپ بھی آزاد ہو گیا۔
سوویت یونین نے انخلاء کے باوجود کابل میں بیٹھی نجیب اللہ حکومت کی مدد جاری رکھی اور دلچسپ بات یہ ہوئی امریکہ نے افغان مجاہدین کو چھوڑ کر نجیب اللہ کی مدد شروع کردی کیونکہ امریکہ افغان مجاہدین کی حکومت بنوانے کے لئے جہاد میں نہیں آیا تھا بلکہ اس کا مقصد صرف سوویت یونین کی شکست تھا جو پورا ہو چکا تھا۔ رہ گیا افغان مجاہدین کی حکومت کا قیام تو ظاہر ہے وہ امریکہ کیسے قبول کر سکتا تھا۔ جب بالآخر کابل بھی فتح ہو گیا تو اسے شمال سے احمد شاہ مسعود نے گھیر رکھا تھا اور مشرق سے حکمتیار نے اور یہ دونوں ہی ایک دوسرے کے بدترین دشمن تھے۔ یوں ان دونوں میں کابل کے صدارتی محل تک پہلے رسائی پانے کا ماحول پوری طرح تیار تھا۔ حملے کی پہل احمد شاہ مسعود نے کی جس پر فورا حکمتیار نے بھی پیش قدمی شروع کردی مگر کھیر کی پلیٹ مسعود کے ہاتھ لگی اور پھر وہ طوفان بدتمیزی اور خونریزی شروع ہوا کہ الامان و الحفیظ۔ اس موقع پر مولاناجلال الدین حقانی جو افغانستان کے سب سے غیر متنازع کمانڈر تھے اور جن کا احترام حکمتیار اور مسعود دونوں ہی کرتے تھے مصالحتی کوششوں کے لئے میدان میں اترے اور مسلسل کابل میں بیٹھ کر ان کی صلح کرانے کی کوشش کرتے رہے۔ سامنے تو یہ دونوں ان کی ہر بات مان جاتے لیکن جب وہ واپس خوست آجاتے تو یہ پھر باہم لڑنا شروع کردیتے۔ حقانی صاحب ان دونوں کی مسلسل لڑائیوں سے اتنے تنگ آ چکے تھے کہ چڑ چڑے ہوگئے جس کا اندازہ مجھے خود ذاتی طور پر اس طرح ہوا کہ 1992ءمیں ایک دن میں کسی ضروری کام سے ان سے ملنے کراچی سے خوست پہنچا۔ پتہ چلا کہ اٹھارہ دن سے کابل میں ہیں اور کچھ پتہ نہیں کہ کب آئینگے۔ میں نے وائرلیس پر رابطہ کیا، نارمل انداز میں گفتگو شروع ہوئی لیکن دو تین جملوں کے تبادلے کے بعد ہی انہوں نے مجھے کھری کھری سنادیں کہ یہ معاملہ ابراھیم یا خلیل (حقانی صاحب کے بھائی) کے ساتھ نمٹا لو میرے پاس لمبی باتوں کا وقت ہی نہیں ہے۔ حقانی صاحب ایک نہایت بردبار،متحمل اور منکسر المزاج انسان ہیں، میں نے اس روز پہلی دفعہ انہیں غصے میں پایا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ میں نے جاتے ہوئے میران شاہ سے ایک چھوٹا ٹیپ ریکارڈر خریدا تھا جس میں یہ گفتگو میں نے ٹیپ کرلی تھی۔ آج بھی جب کبھی ان کی ڈانٹ سننے کو جی کرتا ہے تو سن لیتا ہوں ?
اس پوری صورتحال میں پاکستان کو شدید مشکلات کا سامنا رہا جس نے اپنے دشمن ملک کی پوری پختون آبادی کے دل جیت کر افغانستان کے خطرے اور دیورنڈ لائن والی چخ چخ کا پکا توڑ حاصل کر لیا تھا لیکن اگر یہ اندرونی خانہ جنگی نہ رکتی تو آگے چل کر ان مجاہدین کے خلاف ہی ایسی تحریک اٹھ سکتی تھی جس کے نتیجے میں سب کچھ الٹ جاتا اور ایک بار پھر افغانستان پاکستان مخالف قوتوں کے ہاتھ میں چلا جاتا جس سے پاکستان کے لئے صورتحال جوں کی توں ہو جاتی۔ جب افغانستان کے علماء صلح کی کوششیں کر کر کے تھک گئے تو جنرل حمید گل اور نواز شریف اس کام کے لئے آگے آگئے یہ پھر بھی باز نہ آئے تو سعودی انہیں ساتھ لے گئے اور حرم کے ائمہ سے منت سماجت کروالی، انہوں نے حرم میں بیٹھ کر صلح کر لی مگر جیسے ہی افغانستان پہنچے پھر توپوں کے دھانے کھول لئے۔ پینتیس لاکھ مہاجرین پاکستان میں سر پکڑے بیٹھے تھے جبکہ اتنے ہی ایران میں بھی اسی حالت میں تھے۔ دنیا کی سب سے بے رحم طاقت کو شکست فاش دینے والے اب ایک دوسرے کو فتح کرنے میں لگ گئے۔ افغانستان کا ہر صوبہ چھوڑیے ہر ضلع میں ایک مستقل الگ حکومت قائم ہوتی چلی گئی۔ قدم قدم پر پھاٹک لگ گئے جو مقامی کمانڈر کی عملداری شروع ہونے کا اعلان ہوتے۔ ہر شخص مسلح تھا، ہر شخص مشکوک تھا اور ہر شخص خطرے میں تھا۔ ایسے میں 1994ء میں قندھار سے ملا عمر افغان منظر نامے پر نمودار ہوئے۔
طالبان کا ظہور یوں ہوا کہ جنوبی افغانستان میں ملا عبد السلام راکٹی نام کا ایک کمانڈر تھا جس نے افغانستان کی لاتعداد ڈیڑھ ڈیڑھ بالشتی شخصی حکومتوں کی طرح اپنی ایک ڈیڑھ بالشت کی حکومت قائم کر رکھی تھی جو لونڈے بازوں کے ایک گروہ پر مشتمل تھی۔ یہ لڑکے تو اغوا کرتے رہے تھے لیکن ایک دن کسی غریب کی لڑکی بھی اغوا کر لی۔ افغان سماج کی سب سے قابل احترام شخصیت عالم دین ہوتا ہے۔ نہ وہاں عالم کی تذلیل ہوتی ہے اور نہ ہی اس کی بات ٹالی جاتی ہے۔ مغوی لڑکی کا والد ملا عمر نامی ایک گمنام مقامی عالم دین کے پاس شکایت لے کر پہنچا تو اس نے اپنے طلباءکو لڑکی چھڑا کر لانے کا ٹاسک دیدیا۔ ان طلباء نے کچھ مقامی لوگوں کو ساتھ ملایا اور ملا راکٹی کے مرکز کی جانب بڑھنا شروع کردیا۔ یہ لوگ لڑائی کی نیت سے جا ہی نہیں رہے تھے لیکن راکٹی اور اس کا گروہ اس ہجوم کو بڑھتا دیکھ کر گھبرا گیا اور فرار ہو گیا جس سے یہ اڈہ ختم ہو گیا۔ کئی لڑکیاں اور لڑکے وہاں سے چھڑا کر لائے گئے۔ ملا راکٹی کے عذاب سے نجات پانے پر لوگ اتنے خوش ہوئے کہ انہوں نے ملا عمر سے کہنا شروع کردیا کہ فلاں کمانڈر نے ہماری ناک میں دم کر رکھا ہے اور فلاں کمانڈر بھی کسی آسمانی آفت سے کم نہیں آپ ان کا بھی کچھ کیجئے۔ ملا عمر نے آس پاس کے ان مقامی کمانڈروں کی شخصی حکومتیں لپیٹنی شروع کردیں جس میں صرف طلباء ہی شریک نہ تھے بلکہ مقامی آبادی بھی شامل تھی۔ چونکہ یہ علماء اور طلباء سیاہ پگڑیاں باندھتے تھے تو مقامی لوگوں نے بھی اپنی سفید اور پیلی دھاری دار پگڑیاں چھوڑ کر کالی پگڑیاں باندھ کر خود کو اس تحریک سے مکمل وابستہ کر لیا۔ خلاصہ یہ کہ جلد ہی قندھار اور ہلمند صوبے بغیر کسی جنگ کے طالبان کے کنٹرول میں آگئے۔ اور تب تاریخ نے ایک دلچسپ ترین موڑ لیا، ایک ایسا موڑ جو نہایت حیران کن ہے۔
جان محمد، احمد شاہ مسعود اور حکمتیار کو بھٹو کابل یونیورسٹی سے لائے تھے تو گویا وہ افغان جہاد کے گاڈ فادر ہوئے۔ اور انہیں چراٹ میں میجر جنرل نصیر اللہ بابر کے سپرد کیا گیا تھا جو اس خفیہ آپریشن کے انچارج مقرر ہوئے تھے تو گویا وہ تو گویا وہ فادر آف مجاہدین ہوئے۔ سلطان عامر تارڑ المعروف کرنل امام اس سینٹر میں افغان مجاہدین کے پہلے ٹرینر بنے تو گویا وہ مجاہدین کے استاذ اول ہوئے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پیپلز پارٹی کی سب سے سخت ترین حریف پارٹی جماعت اسلامی رہی ہے جس کے سابق امیر قاضی حسین احمد تاریخ کے اوراق پر اپنی یہ گواہی ڈال کر دنیا سے رخصت ہوئے ہیں کہ ان تینوں کو بھٹو لائے تھے اور پشاور میں خفیہ ملٹری ٹرینگ شروع کی گئی تھی جس سے بھٹو اور نصیر اللہ بابر کے سوا پیپلز پارٹی تک کا کوئی رہنمائی با خبر نہ تھا۔ آئی ایس آئی فتح کابل کے بعد احمد شاہ مسعود اور حکمیار کی جنگ ختم کرانے میں ناکام ہو چکی تھی اور کسی کو کچھ بھی سجھائی نہیں دے رہا تھا ایسے میں جب قندھار اور ہلمند طالبان کے قبضے میں چلے گئے تو پاکستان میں ذولفقار علی بھٹو کی بیٹی محترمہ بینظیر بھٹو اقتدار میں تھیں جو یہ جانتی تھیں کے انکے والد کو ایوب خان کے وزیر خارجہ کی حیثیت سے افغانستان سے پاکستان کی سلامتی کا چیلنج درپیش رہا تھا اور وزیر اعظم بننے کے بعد اس چیلنج کا پکا توڑ کرنے کے لئے انہوں نے ہی افغان جہاد کی بنیاد ڈالی تھی اور یہ کہ مسئلہ اب بھی حل نہیں ہو سکا بلکہ افغانستان خانہ جنگی میں چلا گیا ہے اور نواز شریف اسے حل کرنے میں ناکام رخصت ہوا ہے تو یہ وہ موقع تھا جب بینظیر نے اپنے والد کے نا مکمل مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا زبردست موقع بھانپ لیا۔ یوں گویا بھٹو کی جو افغان میراث ضیائالحق کے ہاتھ لگی تھی وہ ضیاءالحق کے لاڈلے نوازشریف سے ہوتی ہوئی بھٹو کی بیٹی کے سامنے آگری۔ افغان مجاہدین کے فادر میجر جنرل نصیر اللہ بابر ان کی حکومت میں وزیر داخلہ تھے چنانچہ فوری طور پر انہیں طلب کر کے محترمہ نے منصوبہ سمجھایا اور یہ ٹاسک ان کے سپرد کر دیا۔ نصیر اللہ بابر افغان مجاہدین کے استاذ اول کرنل امام کو لے آئے جو انہیں دنوں فوج سے ریٹائر ہوئے تھے۔ انہیں آئی ایس آئی کے افغان ڈیسک پر ہی فوری واپس لایا گیا اور یہاں سے سیدھا جنوبی افغانستان بھیجا گیا جہاں وہ بطور سفار تکار پاکستانی قونصل خانے میں تعینات ہوئے اور طالبان کے رابطے میں آگئے۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ اور شمالی کوریا سے میزائلوں کی بمع ٹیکنالوجی خریداری ایسے دو ایشو ہیں جس میں فوج اور بینظیر بھٹو دونوں ایک ہی پیج پر تھے۔ سلگتا ہوا کابل امریکہ کی ضرورت تھا جبکہ پر امن کابل پاکستان کے لئے ہر حال میں ضروری تھا۔
محترمہ بینظیر بھٹو یہ جانتی تھیں کہ ان کے والد کا اصل قاتل امریکہ ہی ہے۔ وہ اپنے جذباتی والد سے ذہانت میں بدرجہا فائق تھیں، پاکستانی سیاستدانوں میں سے اس خطے میں امریکی مفادات کو جتنا نقصان محترمہ نے پہنچایا وہ 67 سال میں کوئی نہیں پہنچا سکا۔ وہ بظاہر بہت بولڈ، اینٹی مذہب اور نہ جانے کیا کیا تھیں لیکن ان کے اندر کی بینظیر بھٹو اتنی مختلف تھی کہ آپ تصور بھی نہیں کر سکتے۔ میں خاص طور پر دیوبندی مولویوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ کچھ واقعات افشاں نہیں کئے جاسکتے ورنہ آپ پر تو ان کے اتنے احسانات ہیں کہ آپ دوسرا جنم لے کر بھی ان کا قرض نہیں چکا سکتے۔ مولانا فضل الرحمٰن کو انہوں نے محض اندرونی سیاسی ضرورتوں کے لئے ہمیشہ قریب نہیں رکھا تھا بلکہ وہ جانتی تھیں کہ پاکستان میں سب سے طاقتور اینٹی امریکہ فورس دیوبندی مکتبہ فکر ہے جس کے سب سے بڑے لیڈر کو ساتھ رکھ کر ہی امریکی مفادات کو نقصان پہنچایا جاسکتا ہے اور انہوں نے یہ کیا۔ میں جانتا ہوں کہ مولانا کا تعریفی ذکر موجودہ دور میں ناقابل ہضم خوراک ہے، خود میں بھی مولانا کا شدید ناقد ہی ہوں لیکن جب آپ تاریخ لکھ رہے ہوں اور ضمیر زندہ ہو تو سچ آپ کی سب سے بڑی مجبوری بن جاتا ہے۔ آپ ایک لمحے کے لئے غور تو کیجئے کہ محترمہ نے اس مولوی کو خارجہ امور کمیٹی کا ہی کیوں چیئر مین بنایا؟ وہ تو مولوی تھے، مذہبی امور یا اوقاف یا کوئی اور لولی پوپ ٹائپ چیئر مین شپ دیدیتیں، آخر "خارجہ امور" ہی کیوں؟جب آپ اس نکتے پر غور کرینگے تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ آپ کے دماغ میں زیرو واٹ کے ہی سہی مگر دوچار بلب ضرور روشن ہو جائینگے۔ ان دونوں نے مل کر امریکہ کو جتنا "ماموں" بنایا ہے اتنا تو منا بھائی اور سرکٹ نے مل کر ڈاکٹر استانہ کو بھی نہیں بنایا تھا۔ اگر میں مولانا فضل الرحمٰن کو پاکستان کی سیاسی فلم کا "سرکٹ" قرار دوں تو غلط نہ ہوگا۔ الحمدللہ مجھے اللہ نے یہ توفیق دی کہ محترمہ کی شھادت سے 19 روز قبل میں نے گڑھی خدا بخش میں ذوالفقار علی بھٹو شھید کی قبر پر فاتحہ خوانی کی اور اپنے رب سے دعا گو ہوں کہ مجھے محترمہ کی قبر پر بھی فاتحہ خوانی کی توفیق اور موقع عطا فرمائے۔ آمین
نصیر اللہ بابر یا کرنل امام نے ملاعمر کو اپنا کوئی ایجنڈہ نہیں پکڑایا بلکہ بہت سمپل بات کی اور وہ یہ کہ جو آپ کر رہے ہیں اسے منطقی انجام تک پہنچائے بغیر مت چھوڑنا۔ پورے افغانستان میں جھاڑو پھیرو اور یہ ڈیڑھ ڈیڑھ بالشت کی تمام شخصی حکومتیں بلا کسی استثناء کے لپیٹ کر رکھدو اور افغانستان کو ایک ہی حکومت کے تحت لے آؤ۔ اس ضمن میں اگر ہماری کسی مدد کی ضرورت پڑی تو بلا تکلف مانگ لینا۔ میں پہلے ہی عرض کرچکا ہوں کہ افغانستان میں عالم دین سب سے قابل احترام شخصیت ہوتا ہے اور پختون بیلٹ میں تو اس سے کوئی لڑتا بھی نہیں ہے۔ چناچہ جب طالبان آگے بڑھے تو پختون بیلٹ میں جتنے بھی کمانڈر تھے بشمول مولانا جلال الدین حقانی و مولانا ارسلان خان رحمانی کسی ایک نے بھی مزاحمت نہیں کی سب نے اپنے اپنے علاقے میں ان کا استقبال کیا اور اپنے لا محدود اسلحہ ڈپووئں کی کنجیاں ان کے حوالے کرتے چلے گئے کیونکہ طالبان نے صاف کہدیا تھا حکومتی اہلکار کے علاوہ کسی بھی شخص کو ہتھیار رکھنے کی اجازت نہیں ہوگی چاہے وہ کتنا ہی بڑا کمانڈر کیوں نہ ہو۔ ہرات میں افغان جہاد کے چوتھے بڑے کمانڈر اسماعیل خان توران نے تھوڑی سی مزاحمت کی لیکن پھر فرار ہوتے ہوئے پکڑا گیا مگر کچھ عرصے بعد طالبان کی قید سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔ کابل تک رسائی سے قبل سب سے مشکل اور خونریز مزاحمت سروبی میں کمانڈر عبد الحق نے کی جو حکمتیار کا اہم کمانڈر تھا اور بہت طاقتور ہو چکا تھا۔ سروبی جلال آباد سے کابل جاتے ہوئے آنے والا ایک پیچدار درہ ہے۔ اگر پہاڑوں پر فوج موجود ہو تو آپ سڑک سے نہیں گزر سکتے۔ اس درے میں طالبان کا اتنا بڑا جانی نقصان ہوا کہ لاشوں کے انبار لگ گئے۔ طالبان کے پہلے کمانڈر انچیف اور شہرہ آفاق کردار ملا برجان بھی یہیں شھید ہوگئے لیکن طالبان نے پروا نہیں کی وہ اپنی لاشوں کو روندتے ہوئے سروبی عبور کر گئے۔
اس درے کو عبور کرتے ہی "چھار آسیاب" ان کے سامنے تھا جہاں گلبدین حکمتیار کا ہیڈ کوراٹر تھا۔ جو فورس سروبی جیسے تنگ درے سے خون کا دریا عبور کر کے گزر آئے اس کے لئے نسبتا خاصا ہموار چھار آسیاب کیا چیز تھی؟ حکمتیار مقابلہ کئے بغیر نکل لئے اور ایسے نکلے کہ پھر کئی ماہ بعد ایران میں نمودار ہوئے کیونکہ آئی ایس آئی اور قاضی حسین احمد کے اس لاڈلے کے لئے اب پاکستان ہی نہیں قاضی حسین احمد کے دل کے دروازے بھی بند ہوچکے تھے۔ جن کا اعتماد اس شخص نے بری طرح توڑا تھا اور صلح کی تمام کوششیں ناکام کرنے میں احمد شاہ مسعود کے ساتھ برابر کا شریک تھا۔ کابل تو حلوہ ثابت ہوا۔ مسعود اور رشید دوستم دونوں اپنے گھر بچانے کے لئے پنجشیر اور مزار شریف فرار ہوگئے۔ طالبان کا پہلا دستہ کابل میں داخل ہوا تو بارہ لڑکوں کا ایک گروپ اقوام متحدہ کے دفتر سے نجیب اللہ کو کھینچ لایا اور چوک میں پھانسی پر لٹکا دیا جو پہلی بڑی غلطی ثابت ہوا۔ 28 ستمبر 1996 کو کابل فتح ہوا تو ملا عمر قندھار میں تھے اور وہیں رہے۔ کابل پر طالبان کی حکومت قائم ہو گئی جس کے سربراہ ملا محمد ربانی مقرر ہوئے۔ قائد اسے نہیں کہتے جو ہجوم زیادہ بڑا اکٹھا کر سکتا ہو یا جو تقریر زیادہ عمدہ کر سکتا ہو بلکہ اسے کہتے ہیں جو نازک وقت پر درست فیصلہ کرنے کی اہلیت رکھتا ہو۔ حزب اسلامی حکمتیار گروپ افغانستان کی جماعت اسلامی تھی لیکن جب طالبان کابل میں آئے تو قاضی حسین احمد نے یہ نہیں کہا کہ چونکہ ہم سے فکری قربت رکھنے والی جماعت حزب اسلامی ہے لھذا ہم طالبان کو نہیں مانتے بلکہ انہوں نے لڑاکو حکمتیار سے مکمل کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے اپنی مکمل حمایت طالبان کے پلڑے میں ڈالدی اور مرتے دم تک اس پر قائم رہے۔ اسی طرح مولانا شاہ احمد نورانی اور ڈاکٹر اسرار نے بھی مکتبہ فکر کے اختلاف کے باوجود طالبان کی بھرپور حمایت کا اعلان کردیا اور مرتے دم تک اس پر قائم رہے۔ چونکہ مولانا نورانی اور ڈاکٹر اسرار کا افغانستان میں کوئی سٹیک نہ تھا جبکہ قاضی صاحب کا تو بہت بڑا سٹیک تھا لیکن انہوں نے اس سٹیک کو ہمیشہ کے لئے افغانستان اور پاکستان کے مفاد میں قربان کردیا لھذا قاضی حسین احمد مرحوم کا یا اقدام تاریخ ہمیشہ ایک دلیرانہ اور مدبرانہ فیصلے کے طور پر یاد رکھے گی۔ چونکہ افغانستان بہر حال حکمتیار کا گھر تھا اس لئے قاضی صاحب نے یہ خاموش کوشش کی کہ حکمتیار کم از کم افغانستان واپس آ کر رہ سکے اور اس سلسلے میں ملا عمر سے ملاقاتیں ہوئیں جن کا موقف تھا کہ ہمیں حکمتیار سے کوئی دشمنی تو کیا شکوہ بھی نہیں، افغانستان ان کا گھر ہے وہ آئیں اور پوری بے فکری سے یہاں رہیں لیکن چونکہ افغان شہریوں میں ان کا ایک بہت بڑا حلقہ ہے جس کے وہ قائد رہے ہیں لھذا ان تک یہ کھلا پیغام جانا ضروری ہے کہ حکمتیار نے موجودہ سسٹم کی اطاعت قبول کرلی ہے اور اس پیغام کی شکل یہی ہوگی دیگر سابق اہم کمانڈروں کی طرح وہ بھی میرے ہاتھ پر بیعت کرینگے۔ حکمتیار یہ شرط قبول کرنے کو تیار نہ ہوا چنانچہ قاضی صاحب نے حکمتیار کو ہمیشہ کے لئے چھوڑ دیا۔ حکمتیار آج کل افغانستان میں ہیں اور طالبان کے شانہ بشانہ قابض فورسز سے لڑ رہے ہیں۔
اس پورے جہادی سین پر مولوی کہیں نہیں تھے، کابل اور جلال آباد یونیورسٹی کے اساتذہ اور طلباءہی سب کچھ کرتے رہے۔ مولوی سین پر تب نمودار ہوئے جب رشین آرمی افغانستان میں داخل ہوئی اور مولانا مفتی محمود نے جہاد کا فتویٰ جاری کردیا جن کا پاکستان اور افغانستان دونوں جگہ بیحد احترام تھا۔ اس فتوئے کے نتیجے میں مولانا یونس خالص اور مولانا محمد نبی محمدی کھڑے ہوئے جو دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے فضلاء تھے۔ مولانا یونس خالص ہی اپنے میدانی کمانڈر کے طور پر مولانا جلال الدین حقانی کو لے آئے جو جوان تھے اور حقانیہ کے تازہ فاضل بھی جبکہ محمدی صاحب مولانا ارسلان خان رحمانی کو لے آئے جو ان کے میدانی کمانڈر ہوئے۔ چنانچہ آگے چل کر جب سات جماعتیں بنیں تو ان میں پانچ یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والوں کی تھیں جبکہ دو علماء کی تھیں اور علماء کی ان دونوں جماعتوں کا کمال یہ ہے کہ پورے افغان جہاد کے دوران انکی کسی ایک بھی تنظیم سے کوئی لڑائی نہیں ہوئی جبکہ یونیورسٹی والوں نے تو جہاد کے دوران بھی اور آگے چل کر فتحِ کابل کے بعد بھی وہ فساد مچایا کہ خدا کی پناہ۔ سوویت افواج کے افغانستان میں داخلے کے بعد کے ابتدائی دو سالوں میں پاکستان تنہا اس خطرے سے اپنی بساط کے مطابق نمٹتا رہا لیکن جنرل ضیاء کو اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ اتنی بڑی طاقت سے تنہا نمٹناممکن نہیں چنانچہ امریکہ کو اس جنگ میں شامل کرنے کی کوششیں شروع کردی گئیں مگر وہ ویتنام میں سوویت یونین سے اتنا بڑا زخم کھا کر تازہ تازہ گھر لوٹا تھا جس کی ٹیسیں ابھی بھی اٹھ رہی تھیں جبکہ ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ ویتنام جنگ کے سبب امریکی رائے عامہ فضول جنگوں کے خلاف ہوگئی تھی اور حکومت کو ڈر تھا کہ اگر وہ ایک بار پھر اسقدر جلد بیرون ملک جنگ میں ملوث ہوئی تو رائے عامہ کا پہلے سے بھی شدید رد عمل نہ آجائے چنانچہ امریکہ نے ضیاء الحق کو چند ٹکے پکڑا کر جان چھڑانے کی کوشش کی جسے ضیاء الحق نے "پینٹس" کہہ کر ٹھکرادیا۔ امریکی سیاست لابنگ پر چلتی ہے، اس موقع پر جنرل ضیاءنے کانگریس مین چارلی ولسن کو قابو کرکے اس جنگ میں امریکی شرکت کے فوائد اور شریک نہ ہونے کے نقصانات سمجھائے۔ چنانچہ یہ چارلی ولسن تھے جو امریکی کانگریس کے توسط سے امریکہ کو افغان جہاد میں گھسیٹ لائے یوں سوویت افواج کی افغانستان میں آمد کے دو سال بعد 1981ءمیں امریکہ اس جنگ میں اترااور اس کے آتے ہی یورپ بھی آگیا جس سے افغان جہاد نے زور پکڑتے پکڑتے بالآخر رشیا کو افغانستان سے انخلاءپر مجبور کردیا۔ سوویت یونین کا پورا نظام جبر و استبداد پر کھڑا تھا اور اس کے قبضہ کئے ہوئے ممالک اور غلام بنائے گئے انسانوں میں یہ تصور راسخ تھا کہ سرخ فوج ایک ناقابل تسخیر قوت ہے یہ جہاں بھی جائے وہاں سے واپس نہیں ہوتی لھذا سوویت یونین سے آزادی کا تصور ہی بے معنیٰ ہے لیکن جب یہ ناقابل تسخیر قوت افغانستان میں ملبے کا ڈھیر بن گئی تو نہ صرف سوویت یونین بلکہ مشرقی یورپ میں بھی امید کی لہر دوڑ گئی جس سے اگلے دو برس میں نہ صرف یہ کہ سوویت یونین ٹوٹ گیا بلکہ مشہور زمانہ برلن وال بھی زمیں بوس ہوگئی اور مشرقی یورپ بھی آزاد ہو گیا۔
سوویت یونین نے انخلاء کے باوجود کابل میں بیٹھی نجیب اللہ حکومت کی مدد جاری رکھی اور دلچسپ بات یہ ہوئی امریکہ نے افغان مجاہدین کو چھوڑ کر نجیب اللہ کی مدد شروع کردی کیونکہ امریکہ افغان مجاہدین کی حکومت بنوانے کے لئے جہاد میں نہیں آیا تھا بلکہ اس کا مقصد صرف سوویت یونین کی شکست تھا جو پورا ہو چکا تھا۔ رہ گیا افغان مجاہدین کی حکومت کا قیام تو ظاہر ہے وہ امریکہ کیسے قبول کر سکتا تھا۔ جب بالآخر کابل بھی فتح ہو گیا تو اسے شمال سے احمد شاہ مسعود نے گھیر رکھا تھا اور مشرق سے حکمتیار نے اور یہ دونوں ہی ایک دوسرے کے بدترین دشمن تھے۔ یوں ان دونوں میں کابل کے صدارتی محل تک پہلے رسائی پانے کا ماحول پوری طرح تیار تھا۔ حملے کی پہل احمد شاہ مسعود نے کی جس پر فورا حکمتیار نے بھی پیش قدمی شروع کردی مگر کھیر کی پلیٹ مسعود کے ہاتھ لگی اور پھر وہ طوفان بدتمیزی اور خونریزی شروع ہوا کہ الامان و الحفیظ۔ اس موقع پر مولاناجلال الدین حقانی جو افغانستان کے سب سے غیر متنازع کمانڈر تھے اور جن کا احترام حکمتیار اور مسعود دونوں ہی کرتے تھے مصالحتی کوششوں کے لئے میدان میں اترے اور مسلسل کابل میں بیٹھ کر ان کی صلح کرانے کی کوشش کرتے رہے۔ سامنے تو یہ دونوں ان کی ہر بات مان جاتے لیکن جب وہ واپس خوست آجاتے تو یہ پھر باہم لڑنا شروع کردیتے۔ حقانی صاحب ان دونوں کی مسلسل لڑائیوں سے اتنے تنگ آ چکے تھے کہ چڑ چڑے ہوگئے جس کا اندازہ مجھے خود ذاتی طور پر اس طرح ہوا کہ 1992ءمیں ایک دن میں کسی ضروری کام سے ان سے ملنے کراچی سے خوست پہنچا۔ پتہ چلا کہ اٹھارہ دن سے کابل میں ہیں اور کچھ پتہ نہیں کہ کب آئینگے۔ میں نے وائرلیس پر رابطہ کیا، نارمل انداز میں گفتگو شروع ہوئی لیکن دو تین جملوں کے تبادلے کے بعد ہی انہوں نے مجھے کھری کھری سنادیں کہ یہ معاملہ ابراھیم یا خلیل (حقانی صاحب کے بھائی) کے ساتھ نمٹا لو میرے پاس لمبی باتوں کا وقت ہی نہیں ہے۔ حقانی صاحب ایک نہایت بردبار،متحمل اور منکسر المزاج انسان ہیں، میں نے اس روز پہلی دفعہ انہیں غصے میں پایا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ میں نے جاتے ہوئے میران شاہ سے ایک چھوٹا ٹیپ ریکارڈر خریدا تھا جس میں یہ گفتگو میں نے ٹیپ کرلی تھی۔ آج بھی جب کبھی ان کی ڈانٹ سننے کو جی کرتا ہے تو سن لیتا ہوں ?
اس پوری صورتحال میں پاکستان کو شدید مشکلات کا سامنا رہا جس نے اپنے دشمن ملک کی پوری پختون آبادی کے دل جیت کر افغانستان کے خطرے اور دیورنڈ لائن والی چخ چخ کا پکا توڑ حاصل کر لیا تھا لیکن اگر یہ اندرونی خانہ جنگی نہ رکتی تو آگے چل کر ان مجاہدین کے خلاف ہی ایسی تحریک اٹھ سکتی تھی جس کے نتیجے میں سب کچھ الٹ جاتا اور ایک بار پھر افغانستان پاکستان مخالف قوتوں کے ہاتھ میں چلا جاتا جس سے پاکستان کے لئے صورتحال جوں کی توں ہو جاتی۔ جب افغانستان کے علماء صلح کی کوششیں کر کر کے تھک گئے تو جنرل حمید گل اور نواز شریف اس کام کے لئے آگے آگئے یہ پھر بھی باز نہ آئے تو سعودی انہیں ساتھ لے گئے اور حرم کے ائمہ سے منت سماجت کروالی، انہوں نے حرم میں بیٹھ کر صلح کر لی مگر جیسے ہی افغانستان پہنچے پھر توپوں کے دھانے کھول لئے۔ پینتیس لاکھ مہاجرین پاکستان میں سر پکڑے بیٹھے تھے جبکہ اتنے ہی ایران میں بھی اسی حالت میں تھے۔ دنیا کی سب سے بے رحم طاقت کو شکست فاش دینے والے اب ایک دوسرے کو فتح کرنے میں لگ گئے۔ افغانستان کا ہر صوبہ چھوڑیے ہر ضلع میں ایک مستقل الگ حکومت قائم ہوتی چلی گئی۔ قدم قدم پر پھاٹک لگ گئے جو مقامی کمانڈر کی عملداری شروع ہونے کا اعلان ہوتے۔ ہر شخص مسلح تھا، ہر شخص مشکوک تھا اور ہر شخص خطرے میں تھا۔ ایسے میں 1994ء میں قندھار سے ملا عمر افغان منظر نامے پر نمودار ہوئے۔
طالبان کا ظہور یوں ہوا کہ جنوبی افغانستان میں ملا عبد السلام راکٹی نام کا ایک کمانڈر تھا جس نے افغانستان کی لاتعداد ڈیڑھ ڈیڑھ بالشتی شخصی حکومتوں کی طرح اپنی ایک ڈیڑھ بالشت کی حکومت قائم کر رکھی تھی جو لونڈے بازوں کے ایک گروہ پر مشتمل تھی۔ یہ لڑکے تو اغوا کرتے رہے تھے لیکن ایک دن کسی غریب کی لڑکی بھی اغوا کر لی۔ افغان سماج کی سب سے قابل احترام شخصیت عالم دین ہوتا ہے۔ نہ وہاں عالم کی تذلیل ہوتی ہے اور نہ ہی اس کی بات ٹالی جاتی ہے۔ مغوی لڑکی کا والد ملا عمر نامی ایک گمنام مقامی عالم دین کے پاس شکایت لے کر پہنچا تو اس نے اپنے طلباءکو لڑکی چھڑا کر لانے کا ٹاسک دیدیا۔ ان طلباء نے کچھ مقامی لوگوں کو ساتھ ملایا اور ملا راکٹی کے مرکز کی جانب بڑھنا شروع کردیا۔ یہ لوگ لڑائی کی نیت سے جا ہی نہیں رہے تھے لیکن راکٹی اور اس کا گروہ اس ہجوم کو بڑھتا دیکھ کر گھبرا گیا اور فرار ہو گیا جس سے یہ اڈہ ختم ہو گیا۔ کئی لڑکیاں اور لڑکے وہاں سے چھڑا کر لائے گئے۔ ملا راکٹی کے عذاب سے نجات پانے پر لوگ اتنے خوش ہوئے کہ انہوں نے ملا عمر سے کہنا شروع کردیا کہ فلاں کمانڈر نے ہماری ناک میں دم کر رکھا ہے اور فلاں کمانڈر بھی کسی آسمانی آفت سے کم نہیں آپ ان کا بھی کچھ کیجئے۔ ملا عمر نے آس پاس کے ان مقامی کمانڈروں کی شخصی حکومتیں لپیٹنی شروع کردیں جس میں صرف طلباء ہی شریک نہ تھے بلکہ مقامی آبادی بھی شامل تھی۔ چونکہ یہ علماء اور طلباء سیاہ پگڑیاں باندھتے تھے تو مقامی لوگوں نے بھی اپنی سفید اور پیلی دھاری دار پگڑیاں چھوڑ کر کالی پگڑیاں باندھ کر خود کو اس تحریک سے مکمل وابستہ کر لیا۔ خلاصہ یہ کہ جلد ہی قندھار اور ہلمند صوبے بغیر کسی جنگ کے طالبان کے کنٹرول میں آگئے۔ اور تب تاریخ نے ایک دلچسپ ترین موڑ لیا، ایک ایسا موڑ جو نہایت حیران کن ہے۔
جان محمد، احمد شاہ مسعود اور حکمتیار کو بھٹو کابل یونیورسٹی سے لائے تھے تو گویا وہ افغان جہاد کے گاڈ فادر ہوئے۔ اور انہیں چراٹ میں میجر جنرل نصیر اللہ بابر کے سپرد کیا گیا تھا جو اس خفیہ آپریشن کے انچارج مقرر ہوئے تھے تو گویا وہ تو گویا وہ فادر آف مجاہدین ہوئے۔ سلطان عامر تارڑ المعروف کرنل امام اس سینٹر میں افغان مجاہدین کے پہلے ٹرینر بنے تو گویا وہ مجاہدین کے استاذ اول ہوئے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پیپلز پارٹی کی سب سے سخت ترین حریف پارٹی جماعت اسلامی رہی ہے جس کے سابق امیر قاضی حسین احمد تاریخ کے اوراق پر اپنی یہ گواہی ڈال کر دنیا سے رخصت ہوئے ہیں کہ ان تینوں کو بھٹو لائے تھے اور پشاور میں خفیہ ملٹری ٹرینگ شروع کی گئی تھی جس سے بھٹو اور نصیر اللہ بابر کے سوا پیپلز پارٹی تک کا کوئی رہنمائی با خبر نہ تھا۔ آئی ایس آئی فتح کابل کے بعد احمد شاہ مسعود اور حکمیار کی جنگ ختم کرانے میں ناکام ہو چکی تھی اور کسی کو کچھ بھی سجھائی نہیں دے رہا تھا ایسے میں جب قندھار اور ہلمند طالبان کے قبضے میں چلے گئے تو پاکستان میں ذولفقار علی بھٹو کی بیٹی محترمہ بینظیر بھٹو اقتدار میں تھیں جو یہ جانتی تھیں کے انکے والد کو ایوب خان کے وزیر خارجہ کی حیثیت سے افغانستان سے پاکستان کی سلامتی کا چیلنج درپیش رہا تھا اور وزیر اعظم بننے کے بعد اس چیلنج کا پکا توڑ کرنے کے لئے انہوں نے ہی افغان جہاد کی بنیاد ڈالی تھی اور یہ کہ مسئلہ اب بھی حل نہیں ہو سکا بلکہ افغانستان خانہ جنگی میں چلا گیا ہے اور نواز شریف اسے حل کرنے میں ناکام رخصت ہوا ہے تو یہ وہ موقع تھا جب بینظیر نے اپنے والد کے نا مکمل مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا زبردست موقع بھانپ لیا۔ یوں گویا بھٹو کی جو افغان میراث ضیائالحق کے ہاتھ لگی تھی وہ ضیاءالحق کے لاڈلے نوازشریف سے ہوتی ہوئی بھٹو کی بیٹی کے سامنے آگری۔ افغان مجاہدین کے فادر میجر جنرل نصیر اللہ بابر ان کی حکومت میں وزیر داخلہ تھے چنانچہ فوری طور پر انہیں طلب کر کے محترمہ نے منصوبہ سمجھایا اور یہ ٹاسک ان کے سپرد کر دیا۔ نصیر اللہ بابر افغان مجاہدین کے استاذ اول کرنل امام کو لے آئے جو انہیں دنوں فوج سے ریٹائر ہوئے تھے۔ انہیں آئی ایس آئی کے افغان ڈیسک پر ہی فوری واپس لایا گیا اور یہاں سے سیدھا جنوبی افغانستان بھیجا گیا جہاں وہ بطور سفار تکار پاکستانی قونصل خانے میں تعینات ہوئے اور طالبان کے رابطے میں آگئے۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ اور شمالی کوریا سے میزائلوں کی بمع ٹیکنالوجی خریداری ایسے دو ایشو ہیں جس میں فوج اور بینظیر بھٹو دونوں ایک ہی پیج پر تھے۔ سلگتا ہوا کابل امریکہ کی ضرورت تھا جبکہ پر امن کابل پاکستان کے لئے ہر حال میں ضروری تھا۔
محترمہ بینظیر بھٹو یہ جانتی تھیں کہ ان کے والد کا اصل قاتل امریکہ ہی ہے۔ وہ اپنے جذباتی والد سے ذہانت میں بدرجہا فائق تھیں، پاکستانی سیاستدانوں میں سے اس خطے میں امریکی مفادات کو جتنا نقصان محترمہ نے پہنچایا وہ 67 سال میں کوئی نہیں پہنچا سکا۔ وہ بظاہر بہت بولڈ، اینٹی مذہب اور نہ جانے کیا کیا تھیں لیکن ان کے اندر کی بینظیر بھٹو اتنی مختلف تھی کہ آپ تصور بھی نہیں کر سکتے۔ میں خاص طور پر دیوبندی مولویوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ کچھ واقعات افشاں نہیں کئے جاسکتے ورنہ آپ پر تو ان کے اتنے احسانات ہیں کہ آپ دوسرا جنم لے کر بھی ان کا قرض نہیں چکا سکتے۔ مولانا فضل الرحمٰن کو انہوں نے محض اندرونی سیاسی ضرورتوں کے لئے ہمیشہ قریب نہیں رکھا تھا بلکہ وہ جانتی تھیں کہ پاکستان میں سب سے طاقتور اینٹی امریکہ فورس دیوبندی مکتبہ فکر ہے جس کے سب سے بڑے لیڈر کو ساتھ رکھ کر ہی امریکی مفادات کو نقصان پہنچایا جاسکتا ہے اور انہوں نے یہ کیا۔ میں جانتا ہوں کہ مولانا کا تعریفی ذکر موجودہ دور میں ناقابل ہضم خوراک ہے، خود میں بھی مولانا کا شدید ناقد ہی ہوں لیکن جب آپ تاریخ لکھ رہے ہوں اور ضمیر زندہ ہو تو سچ آپ کی سب سے بڑی مجبوری بن جاتا ہے۔ آپ ایک لمحے کے لئے غور تو کیجئے کہ محترمہ نے اس مولوی کو خارجہ امور کمیٹی کا ہی کیوں چیئر مین بنایا؟ وہ تو مولوی تھے، مذہبی امور یا اوقاف یا کوئی اور لولی پوپ ٹائپ چیئر مین شپ دیدیتیں، آخر "خارجہ امور" ہی کیوں؟جب آپ اس نکتے پر غور کرینگے تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ آپ کے دماغ میں زیرو واٹ کے ہی سہی مگر دوچار بلب ضرور روشن ہو جائینگے۔ ان دونوں نے مل کر امریکہ کو جتنا "ماموں" بنایا ہے اتنا تو منا بھائی اور سرکٹ نے مل کر ڈاکٹر استانہ کو بھی نہیں بنایا تھا۔ اگر میں مولانا فضل الرحمٰن کو پاکستان کی سیاسی فلم کا "سرکٹ" قرار دوں تو غلط نہ ہوگا۔ الحمدللہ مجھے اللہ نے یہ توفیق دی کہ محترمہ کی شھادت سے 19 روز قبل میں نے گڑھی خدا بخش میں ذوالفقار علی بھٹو شھید کی قبر پر فاتحہ خوانی کی اور اپنے رب سے دعا گو ہوں کہ مجھے محترمہ کی قبر پر بھی فاتحہ خوانی کی توفیق اور موقع عطا فرمائے۔ آمین
نصیر اللہ بابر یا کرنل امام نے ملاعمر کو اپنا کوئی ایجنڈہ نہیں پکڑایا بلکہ بہت سمپل بات کی اور وہ یہ کہ جو آپ کر رہے ہیں اسے منطقی انجام تک پہنچائے بغیر مت چھوڑنا۔ پورے افغانستان میں جھاڑو پھیرو اور یہ ڈیڑھ ڈیڑھ بالشت کی تمام شخصی حکومتیں بلا کسی استثناء کے لپیٹ کر رکھدو اور افغانستان کو ایک ہی حکومت کے تحت لے آؤ۔ اس ضمن میں اگر ہماری کسی مدد کی ضرورت پڑی تو بلا تکلف مانگ لینا۔ میں پہلے ہی عرض کرچکا ہوں کہ افغانستان میں عالم دین سب سے قابل احترام شخصیت ہوتا ہے اور پختون بیلٹ میں تو اس سے کوئی لڑتا بھی نہیں ہے۔ چناچہ جب طالبان آگے بڑھے تو پختون بیلٹ میں جتنے بھی کمانڈر تھے بشمول مولانا جلال الدین حقانی و مولانا ارسلان خان رحمانی کسی ایک نے بھی مزاحمت نہیں کی سب نے اپنے اپنے علاقے میں ان کا استقبال کیا اور اپنے لا محدود اسلحہ ڈپووئں کی کنجیاں ان کے حوالے کرتے چلے گئے کیونکہ طالبان نے صاف کہدیا تھا حکومتی اہلکار کے علاوہ کسی بھی شخص کو ہتھیار رکھنے کی اجازت نہیں ہوگی چاہے وہ کتنا ہی بڑا کمانڈر کیوں نہ ہو۔ ہرات میں افغان جہاد کے چوتھے بڑے کمانڈر اسماعیل خان توران نے تھوڑی سی مزاحمت کی لیکن پھر فرار ہوتے ہوئے پکڑا گیا مگر کچھ عرصے بعد طالبان کی قید سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔ کابل تک رسائی سے قبل سب سے مشکل اور خونریز مزاحمت سروبی میں کمانڈر عبد الحق نے کی جو حکمتیار کا اہم کمانڈر تھا اور بہت طاقتور ہو چکا تھا۔ سروبی جلال آباد سے کابل جاتے ہوئے آنے والا ایک پیچدار درہ ہے۔ اگر پہاڑوں پر فوج موجود ہو تو آپ سڑک سے نہیں گزر سکتے۔ اس درے میں طالبان کا اتنا بڑا جانی نقصان ہوا کہ لاشوں کے انبار لگ گئے۔ طالبان کے پہلے کمانڈر انچیف اور شہرہ آفاق کردار ملا برجان بھی یہیں شھید ہوگئے لیکن طالبان نے پروا نہیں کی وہ اپنی لاشوں کو روندتے ہوئے سروبی عبور کر گئے۔
اس درے کو عبور کرتے ہی "چھار آسیاب" ان کے سامنے تھا جہاں گلبدین حکمتیار کا ہیڈ کوراٹر تھا۔ جو فورس سروبی جیسے تنگ درے سے خون کا دریا عبور کر کے گزر آئے اس کے لئے نسبتا خاصا ہموار چھار آسیاب کیا چیز تھی؟ حکمتیار مقابلہ کئے بغیر نکل لئے اور ایسے نکلے کہ پھر کئی ماہ بعد ایران میں نمودار ہوئے کیونکہ آئی ایس آئی اور قاضی حسین احمد کے اس لاڈلے کے لئے اب پاکستان ہی نہیں قاضی حسین احمد کے دل کے دروازے بھی بند ہوچکے تھے۔ جن کا اعتماد اس شخص نے بری طرح توڑا تھا اور صلح کی تمام کوششیں ناکام کرنے میں احمد شاہ مسعود کے ساتھ برابر کا شریک تھا۔ کابل تو حلوہ ثابت ہوا۔ مسعود اور رشید دوستم دونوں اپنے گھر بچانے کے لئے پنجشیر اور مزار شریف فرار ہوگئے۔ طالبان کا پہلا دستہ کابل میں داخل ہوا تو بارہ لڑکوں کا ایک گروپ اقوام متحدہ کے دفتر سے نجیب اللہ کو کھینچ لایا اور چوک میں پھانسی پر لٹکا دیا جو پہلی بڑی غلطی ثابت ہوا۔ 28 ستمبر 1996 کو کابل فتح ہوا تو ملا عمر قندھار میں تھے اور وہیں رہے۔ کابل پر طالبان کی حکومت قائم ہو گئی جس کے سربراہ ملا محمد ربانی مقرر ہوئے۔ قائد اسے نہیں کہتے جو ہجوم زیادہ بڑا اکٹھا کر سکتا ہو یا جو تقریر زیادہ عمدہ کر سکتا ہو بلکہ اسے کہتے ہیں جو نازک وقت پر درست فیصلہ کرنے کی اہلیت رکھتا ہو۔ حزب اسلامی حکمتیار گروپ افغانستان کی جماعت اسلامی تھی لیکن جب طالبان کابل میں آئے تو قاضی حسین احمد نے یہ نہیں کہا کہ چونکہ ہم سے فکری قربت رکھنے والی جماعت حزب اسلامی ہے لھذا ہم طالبان کو نہیں مانتے بلکہ انہوں نے لڑاکو حکمتیار سے مکمل کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے اپنی مکمل حمایت طالبان کے پلڑے میں ڈالدی اور مرتے دم تک اس پر قائم رہے۔ اسی طرح مولانا شاہ احمد نورانی اور ڈاکٹر اسرار نے بھی مکتبہ فکر کے اختلاف کے باوجود طالبان کی بھرپور حمایت کا اعلان کردیا اور مرتے دم تک اس پر قائم رہے۔ چونکہ مولانا نورانی اور ڈاکٹر اسرار کا افغانستان میں کوئی سٹیک نہ تھا جبکہ قاضی صاحب کا تو بہت بڑا سٹیک تھا لیکن انہوں نے اس سٹیک کو ہمیشہ کے لئے افغانستان اور پاکستان کے مفاد میں قربان کردیا لھذا قاضی حسین احمد مرحوم کا یا اقدام تاریخ ہمیشہ ایک دلیرانہ اور مدبرانہ فیصلے کے طور پر یاد رکھے گی۔ چونکہ افغانستان بہر حال حکمتیار کا گھر تھا اس لئے قاضی صاحب نے یہ خاموش کوشش کی کہ حکمتیار کم از کم افغانستان واپس آ کر رہ سکے اور اس سلسلے میں ملا عمر سے ملاقاتیں ہوئیں جن کا موقف تھا کہ ہمیں حکمتیار سے کوئی دشمنی تو کیا شکوہ بھی نہیں، افغانستان ان کا گھر ہے وہ آئیں اور پوری بے فکری سے یہاں رہیں لیکن چونکہ افغان شہریوں میں ان کا ایک بہت بڑا حلقہ ہے جس کے وہ قائد رہے ہیں لھذا ان تک یہ کھلا پیغام جانا ضروری ہے کہ حکمتیار نے موجودہ سسٹم کی اطاعت قبول کرلی ہے اور اس پیغام کی شکل یہی ہوگی دیگر سابق اہم کمانڈروں کی طرح وہ بھی میرے ہاتھ پر بیعت کرینگے۔ حکمتیار یہ شرط قبول کرنے کو تیار نہ ہوا چنانچہ قاضی صاحب نے حکمتیار کو ہمیشہ کے لئے چھوڑ دیا۔ حکمتیار آج کل افغانستان میں ہیں اور طالبان کے شانہ بشانہ قابض فورسز سے لڑ رہے ہیں۔
افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہوئی تو پاکستان، سعودی عرب اور یو اے ای نے اسے تسلیم کر لیا جبکہ باقی دنیا نے کہا کہ ملا کی حکومت منظور نہیں۔ طالبان شمال کی طرف بڑھے تو شدید ترین جنگ شروع ہو گئی جس میں طالبان مختلف شہر اور صوبے فتح بھی کرتے رہے اور کھوتے بھی رہے اور کھونے کے بعد ایک بار پھر فتح بھی کرتے رہے یوں پورے طالبان دور میں شمال مسلسل حالت جنگ میں رہا۔ شمال میں طالبان کے لئے مزار شریف۔ قندوز اور تخار اہم تھے۔ یہ تینوں طالبان نے فتح کر لئے تھے لیکن ان میں مزار شریف اور قندوز تاریخ کے تین بڑے قتل عاموں کے حوالے سے یاد رکھے جائینگے۔ 1995ء میں طالبان نے شیعہ تنظیم حزب وحدت کے سربراہ عبدالعلی مزاری کو گرفتار کیا ۔ اسے ہیلی کاپٹر کی ذریعے قندھار منتقل کیا جا رہا تھا کہ اس نے دوران پرواز دھینگا مشتی شروع کردی جس سے یہ ہزروں فٹ کی بلندی سے زمین پر آگرا۔ یہ واقعہ ہوا اور گزرگیااور طالبان نے بھی اسے شائد بھلا دیاہو کہ مئی 1997ء میں رشید دوستم سے بغاوت کرکے مزارشریف کا کنٹرول حاصل کرنے والے ازبک لیڈر جنرل مالک نے طالبان کو پیغام بھجوایا کہ جس طرح آپ پختون بیلٹ میں دوستانہ ماحول میں صوبوں کا کنٹرول حاصل کرتے رہے ہیں، اسی طرح میں مزار شریف آپ کے سپرد کرنا چاہتا ہوں، آپ لوگ شہر میں داخل ہوجائیں۔ طالبان ہزاروں کی تعداد میں شہر میں داخل ہوئے اور جب شہر کے وسط تک پہنچے تو ہزاروں کلاشنکوفیں گرجنی شروع ہو گئیں۔ ہر گھر سے فائر آیا اور اس شدت کا آیا کہ نصف گھنٹے میں تین ہزار طالبان لاشوں سے شہر کی سڑکیں اٹی پڑی تھیں اور انسانی خون فی الحقیقت نالے کی شکل میں بہہ رہا تھا۔ یہ واقعہ 30 مئی 1997ء کو پیش آیا۔ اس واقعے کے بعد جنرل مالک نے دعویٰ کیا کہ اس نے یہ حرکت عبدالعلی مزاری کا انتقام لینے کے لئے کی ہے۔ جنرل مالک کو عبدالعلی مزاری سے کوئی غرض نہ تھی بلکہ اصل بات یہ تھی کہ اس نے مزار شریف اپنے باس کو دھوکہ دے کر اس سے قبضہ کیا تھا جس کے سبب وہ ردعمل سے خوفزدہ تھا چنانچہ اس دعوے کے ذریعے اس نے شہر کی دوسری بڑی آبادی شیعہ کی ہمدردیاں سمیٹنے کی کوشش کی۔
اگست 1998ء میں طالبان جب مزار شریف پر حتمی حملے کے لئے آئے تو سینکڑوں گاڑیوں میں تقریبا بیس ہزار کی لگ بھگ تعداد میں آئے۔ اور جب شہر میں داخل ہوئے تو انہیں پتہ تھا کہ سڑکوں کے اطراف کا ہر گھر ایک مورچہ ہے۔ پھر طالبان نے بھی وہ کیا جو ان گھروں سے ان کے ساتھ ہوا تھا۔ ازبک افغانستان کی سب سے خونخوار قوم ہے ان خونخواروں کو انہوں نے سکھا دیا کہ یہ زبان ہم بھی جانتے ہیں لیکن انسانیت کے کچھ اصول ہوتے ہیں جن کی پاسداری لازم ہوتی ہے۔ یوں یہ کمیونسٹ اور شیعہ آبادی والا شہر طالبان کے کنٹرول میں آگیا اور نومبر 2001ء تک ان کے کنٹرول میں رہا۔ اس کی سٹریٹیجک اہمیت یہ تھی کہ یہ ازبکستان کے قریب تھا اور رشید دوستم چونکہ ازبک حکومت کا سٹیک تھا جس کے لئے امداد یہیں آتی تھی۔ اس کے بعد قندوز کی باری آئی جو آسانی سے طالبان کے ہاتھ آیا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ شمالی افغانستان کا پختون اکثریت والا صوبہ ہے اور افغانستان کے پختون مولویوں سے نہیں لڑتے۔ اس صوبے کی سٹریٹیجک اہمیت یہ ہے کہ یہ تاجکستان کے ساتھ لگتا ہے جو احمد شاہ مسعود مددگار تھا۔ مسعود کو آنے والی امداد کے زمینی اور فضائی راستے قندوز اور تخار سے تاجکستان تک تھے۔ تخار بہت ہی مشکل ثابت ہوا۔ اسے بچانے کے لئے مسعود نے ایڑی چوٹی کا زور لگا رکھا تھا کیونکہ تخار ہاتھ سے جانے کا مطلب تھا تاجکستان سے مکمل طور پر کٹ جانا اور پنجشیر میں محصور ہوجانا۔ تخار کا دارالحکومت طالقان افغانستان کا آخری بڑا شہر تھا جو نائن الیون سے آٹھ ماہ قبل جنوری 2001ء میں طالبان نے فتح کیا لیکن تخار کے کچھ علاقے اب بھی ان کے کنٹرول سے باہر تھے۔
طالبان نے اپنے دور حکومت میں جو غلطیاں کیں ان میں کچھ واقعی غلطیاں تھیں جبکہ باقی محض گمراہ کن پروپیگنڈہ۔ حقیقی غلطیاں یہ تھیں۔
(01) اقوام متحدہ کے دفتر میں زبردستی گھسنا اور نجیب اللہ کو قتل کرنا۔ یہ حرکت جن بارہ لڑکوں نے کی تھی انہیں طالبان نے سزا دی لیکن اس سزا کو پبلک نہیں کیا کیونکہ اس سے اس نازک موقع پر نوجوان گھبرا کر پیچھے ہٹ سکتے تھے اور یہ بھی سوچ سکتے تھے کہ ملاعمر نے نجیب جیسے درندے کے قتل پر اتنا برا کیوں منایا ؟ کہیں یہ سب کوئی گیم تو نہیں ؟۔ دفتر میں گھسنا، نجیب کا قتل اور ذمہ داروں کو دی گئی سزا کو پبلک نہ کرنا تینوں ان کی غلطیاں ہیں۔
(02) بامیان کے مجسمے بارود سے اڑانا جس پر انہیں کراچی کے ایک پیر نے اکسایا تھا۔ طالبان اتنا بھی نہ سوچ سکے کہ اگر یہ بت توڑنا اتنا ہی ضروری ہوتا تو کیا سلطان محمود غزنوی انہیں چھوڑتا ؟ اور کیا مصر میں ابولہول کا مجسمہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ رہنے دیتے ؟
(03) ہر صوبے کے اہم عہدے قندھاریوں کو دینا اور جہاں قندھاری دستیاب نہ ہو وہاں مقامی شخص کو عہدہ ددینا لیکن ایک بیس پچیس سال کا قندھاری لونڈا اس پر بطور نگران مسلط کر دینا۔ حتیٰ کہ اپنے بیرون ملک سفیروں پر بھی یہ لونڈے مسلط کئے۔
(04) محض مالی مجبوریوں کے تحت لڑکیوں کی تعلیم بند کر دینا لیکن اس فیصلے پر عملدرآمد سے قبل پبلک کو اعتماد میں نہ لینا۔
(05) ارجنٹائن کے ساتھ ہونے والے پٹرول پائپ لائن معاہدے پر عملدرآمد میں غفلت برتنا جبکہ امریکہ اس معاہدے کے ہونے پر سیخ پا تھا اور یہ معلوم تھا کہ وہ اسے ناکام کرنے کو بیقرار ہے۔
(01) انہوں نے اپنے زیر حکومت 95 فیصدی افغانستان کو اسلحے سے پاک کر کے رکھدیا تھا۔ ہزاروں ٹن اسلحے کے مالک کمانڈر وں کے پاس ایک پستول تک نہیں چھوڑا۔
(02) ان کا وزیر اعظم، تمام گورنر اور تمام وزراء مسجدوں اور فٹ پاتھوں پر عام شہریوں کی طرح چلتے پھرتے ہر شخص کو دستیاب تھے۔ یہاں تک کہ جن کی اولاد نہیں تھی وہ اپنے گھروں کا سودا سلف بھی بازاروں سے خود لاتے۔ یوں عوام کو ان کے پیچھے خوار نہیں ہونا پڑتا تھا بلکہ وہ عوام کے بیچوں بیچ ان کی دسترس میں ہوتے۔
(03) ان کا نظام انصاف مفت اور فوری تھا۔ مظلوم کی آہ کو آسمان تک جانے کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔ زیادہ سے زیادہ دو ہفتے میں عدالت فیصلہ سنا دیتی اور ایسا ایک بھی کیس سامنے نہیں آیا جس سے یہ ظاہر ہوا ہو کہ ان کا فوری انصاف کا نظام کسی بے قصور کو سزا دے گیا ہو۔
(04) وزیر اعظم سے لے کر گونر اور وزرا تک کسی سے بھی شکایت ہوتی تو سڑک پر چلتے قاضی سے شکایت کرکے اسے برطرف کروایا جاسکتا تھا اور کئی اہم لوگ برطرف کئے بھی گئے۔
نائن الیون ہوا تو گویا تم قتل کرے ہو کہ کرامات کرے ہو والی بات ہو گئی۔ واقعے کے صرف 24 گھنٹے کے اندر اندر امریکہ نے تمام 19 ہائی جیکر سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے شناخت کر لئے مگر ان میں سے کسی ایک بھی ہائی جیکنگ کو روک نہ سکا۔ دوسری بات یہ کہ اسامہ بن لادن کو مانگا گیا اور ملا عمر نے انکار کر دیا کہ مہمان کو کسی کے حوالے کرنا ہماری روایت نہیں اور پھر خود اسامہ نے آفر کی کہ چائنا یا کسی بھی غیر جانبدار ملک کے حوالے ہونے کو تیار ہوں۔ عالمی عدالت بنا لی جائے لیکن اسی غیر جانبدار ملک میں کارروائی چلے، امریکہ اس عدالت میں اپنا مقدمہ پیش کرے۔اگر جرم ثابت ہو جائے تو مجھے سزا دیدی جائے، امریکہ نے یہ آفر قبول کرنے سے انکار کیوں کیا ؟وہ خود مدعی، خود پولیس، خود عدالت اور خود جلاد بننے پر ہی کیوں مصر رہا ؟۔ تیسری اور سب سے اہم بات یہ کہ ابھی صرف چند ہفتے قبل امریکی صدر باراک اوباما کی اکڑ پر روس نے دھمکی دی کہ نائن الیون کے حوالے سے ہمارے سٹلائٹس کی مدد سے ملنے والا کچھ نہایت حساس ڈیٹا ہمارے پاس ہے تو صدر باراک اوباما بھیگی بلی کیوں بن گئے؟ پتہ نہیں کیوں مگر مجھے تو یہی لگتا ہے کہ رشیا کے پاس جو حساس مواد ہے یہ اس کے اپنے سیٹلائٹس سے حاصل کردہ نہیں ہے بلکہ یہ امریکہ کی سب سے خطرناک ایجنسی نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کے منحرف ہو کر رشیا میں پناہ لینے والے ایجنٹ ایڈورڈ سنوڈن نے رشیا کو فراہم کیا ہے ورنہ رشیا اتنا عرصہ چپ نہ رہتا۔ چوتھی بات یہ کہ امریکہ افغانستان سے جہاز بھر بھر کر القاعدہ اور طالبان کے قیدی گوانتانامو بے لے کر گیا تھا۔ چودہ سال ہو گئے اب تک نائن الیون کا جرم عدالت میں ثابت کیوں نہیں کر سکا ؟۔ یہ وہ چار بنیادیں ہیں جو یہ بات ماننے کی اجازت ہی نہیں دیتیں کہ نائن الیون خود امریکہ کا اپنا منصوبہ نہیں تھا۔
نائن الیون کے بعد امریکہ نے پاکستان کو غاروں کے دور میں پہنچانے کی دھمکی دی اور وہ امریکہ کی مدد کے لئے تیار ہوگیا۔ بی 52 بمبار طیاروں نے افغانستان پر لاکھوں ٹن بارود برسانا شروع کردیاتاکہ طالبان کو کمزور کیا جاسکے اور جب وہ ہوگئے تو شمالی اتحاد کو ہتھیار فراہم کر کے زمینی کار روائی شروع کردی جس سے شمال میں تمام شہر ایک کے بعد ایک طالبان کے ہاتھ سے نکلتے چلے گئے۔ سب سے آخر میں تاجکستان کے باڈر پر واقع قندوز رہ گیا جو شمال میں طالبان کا ہیڈ کوارٹر اور مضبوط گڑھ تھا۔ امریکہ ابھی افغانستان کا زمینی کنٹرول حاصل نہیں کر سکا تھا لھذا کابل اور قندھار کے علاوہ کہیں کوئی ریڈار نہ تھے۔ امریکہ دن بھر بمباری کرتا اور رات میں سناٹا چھا جاتا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان کے طورخم باڈر سے کابل تک جتنا فاصلہ ہے اس سے تقریباً تین گنا زیادہ فاصلہ کابل سے قندوز تک ہے اور یہ کہ فضائی فاصلے میں قندوز کابل کی نسبت چترال کے زیادہ قریب ہے۔ طالبان کے تمام اہم ترین کمانڈر قندوز میں تھے اور دوسرے شہروں سے پسپا ہو کر آنے والے طالبان بھی قندوز میں جمع ہورہے تھے جبکہ امریکہ کا الزام ہے کہ آئی ایس آئی کے بھی کچھ اہم لوگ اس شہر میں تھے۔ دوستم نے اعلان کیا تھا کہ اس شہر سے ملنے والے ہر غیر ملکی کو میں عبرت کی مثال بناؤنگا۔ غیب کا علم اللہ کو ہے لیکن سنا ہے نومبر کی ایک ٹھنڈی رات میں چترال اور گلگت ایئر سٹرپس سے پاکستان ایئر فورس کے C130 طیاروں نے پرواز بھری اور سیدھا قندوز ایئر بیس پر اترے، وہاں سے مسافروں کو اٹھایا اور واپس چترال اور گلگت آ کر اترے، یہاں سے ایک بار پھر اڑے اور مزید مسافر لے کر چترال اور گلگت آ کر اترے۔ کہتے ہیں کہ ایک ہزار سے زائد لوگ لائے گئے تھے۔ اب دلچسپ بات یہ ہے کہ کھسیانی بلی کہتی ہے کہ یہ آپریشن ہماری اجازت سے ہوا تھا لیکن ساتھ ہی اسے "Operation Evil Airlift" بھی کہہ دیتی ہے، کیا یہ کھلا تضاد نہیں ؟ اور اگر اس کی اجازت سے ہوا تو دن کی روشنی میں پشاور یا پنڈی سے پروازیں کیوں نہیں ہویں ؟۔ یہ وہ پہلا واقعہ ہے جس نے امریکہ پر یہ واضح کردیا تھا کہ اس نے جسے غاروں کے دور میں پہنچانے کی دھمکی دی ہے وہ اسے افغانستان میں کھلی چھوٹ دینے اور ہر حکم ماننے پر تیار نہیں ہوگا۔
قندوز سب سے آخر میں طالبان کے ہاتھ سے نکلنے والا شہر تھا۔ سقوط کابل کے دس دن بعد تک طالبان نے اسے اپنے کنٹرول میں رکھا تھا اور یہی ان کی مہلک ترین غلطی ثابت ہوا۔ قندوز کے شمال میں تخار، جنوب میں مزار شریف، مشرق میں بغلان اور مغرب میں تاجکستان ہے۔ طالبان کی چودہ ہزار لڑاکا فورس اس شہر میں محصور ہو کر رہ گئی۔ 23 نومبر 2001ء کو طالبان نے ہتھیار ڈالنے کا اعلان کیا۔ شہر سے باہر آنے والی ایک سڑک کھولی گئی اور اس سڑک پر چار پوائنٹ بنائے گئے۔ پہلے پوائنٹ پر ہر شخص اپنے ہتھیار حوالے کرتا، دوسرے پر نام اور پتہ لکھواتا، تیسرے پر تمام کپڑے اتارے جاتے اور چوتھے پر کپڑے پہنا کر گرفتار کرکے کنٹینر میں چڑھا دیا جاتا۔ آخری دونوں پوائنٹس امریکیوں کے تھے۔ پچاس سے ساٹھ کنٹینروں میں یہ چودہ ہزار قیدی اس طرح ٹھونس کرسیل کر دئے گئے کہ ان کے لئے سانس لینا ہی ممکن نہ رہا۔ بظاہر کہا گیا کہ انہیں جنوب مغرب میں واقع شبر غان جیل لے جایا جا رہا ہے لیکن اگلے دن یہ یاقافلہ شبرغان پہنچ کر بائیں ہاتھ گھوم گیا اور شبرغان و ترکمانستان کے مابین واقع افغان صحراء "دشتِ لیلیٰ" میں داخل ہو گیا۔ انہیں یقین تھا کہ تمام قیدی دم گھٹنے سے مر چکے ہونگے لیکن پھر بھی انہوں کنٹینر بجا کر تصدیق شروع کردی۔ جس کنٹینر میں ہل جل کے آثار ملتے اس پر اینٹی ایئر کرافٹ گنوں سے فائر کھولدیا جاتا۔ بلڈوزر اس قافلے کی آمد سے قبل ہی اجتماعی قبریں تیار کر چکے تھے۔ چودہ ہزار لاشیں اس صحراء میں دفن کردی گئیں۔ خدا کا کرنا دیکھئے ان میں سے بیس زندہ بچ گئے تھے جو ریت میں سے نکل آئے اور اپنے ساتھیوں تک رسائی حاصل کرکے بھانڈہ پھوڑ دیا۔ یہ خبر سب سے پہلے مغربی میڈیا نے بریک کی اور آج تک وہ امریکی حکومت پر دباؤ جاری رکھے ہوئے ہے کہ اس قتل عام کی وسیع پیمانے پر تحقیقات کرائی جائیں۔ ہیومن رائٹس کمیشن نے اس پر کام شروع کیا مگر یہ شرمناک دعویٰ کیا کہ صرف پندرہ سو کے لگ بھگ قیدی مارے گئے تھے اور یہ کہ ہم ابھی تحقیقات کر رہے ہیں۔ 2009ء میں باراک اوباما نے اس کی باقاعدہ تحقیقات کا حکم دیا اور 2013ء میں امرکی حکومت نے اعلان کیا کہ تحقیقات مکمل ہو گئی ہیں، رپوٹ جاری نہیں کی جائیگی بس ہم اتنا بتا رہے ہیں کہ اس قتل عام میں کوئی امریکی ملوث نہیں تھا حالانکہ یہ قتل عام امریکہ اور رشید دوستم نے مل کر کیا تھا۔ امریکی صدر گاڑی سے اتر کر برگر خریدلے، برطانوی وزیر اعظم پھٹا موزہ پہن لے یا کسی یورپی ملک میں کوئی سلبرٹی بندر کا بوسہ لے لے تو پاکستان کی موم بتی مافیا اس کی تصویریں شیئر کر کر کے ہمیں ان کی "انسانیت" کا اعلیٰ معیار دکھانے کی کوشش کرتی ہے۔ جی کرتا ہے اپنی فرینڈ لسٹ پر موجود بعض ڈیڑھ بالشتیوں کے نام لے کر ان سے پوچھوں کہ انسانیت کی قوالی تو آپ خوب گاتے ہیں لیکن کیا تیرہ سال میں کبھی دشت لیلی کے قتل عام پر بات کرنے کی توفیق آپ کو ہوئی ؟
(01) پاکستانی ادارے بہت اچھی طرح جانتے تھے کہ نائن الیون کیوں اور کیسے ہوا اور امریکہ کی افغانستان آمد کے مقاصد کیا ہیں۔ لھذا اس بات کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کہ امریکہ کو افغانستان میں کامیاب ہونے دیا جائے اور اپنے باڈر پر کوریا، جاپان اور جرمنی کی طرح ستر یا اس سے زائد برسوں کے لئے امریکی اڈے بننے دیئے جائیں۔
(02) چار ہزار سال سے اپنی عقل و دانش کے حوالے سے شہرت رکھنے والوں کا بھی مشورہ تھا کہ آنے والے کو آنے دیا جائے اور اس کے گھٹنوں تک دھنسنے کا انتظار کیا جائے۔ جب دھنس جائے تو پھر اسے گدگدیاں بھی کی جائیں اور چٹکیاں بھی بھری جائیں اور اسے اتنا مجبور کردیا جائے کہ وہ واپسی کے لئے بھی آپ ہی کی مدد کا محتاج ہو کر رہ جائے۔
(03) افغان طالبان یا انکے امیر ملا عمر نے تیرہ برسوں میں ایک بار بھی پاکستان کے خلاف کوئی بیان نہیں دیا۔
(04) اگر ہم اپنے شہر میں کسی کو دوچار تھپڑ رسید کرنے جائیں اور اس کام کے لئے دوچار دوستوں کو ساتھ لے جانا چاہیں اور ایک گھنٹے میں دو چار تھپڑ مار کر لوٹ آئیں تو یہ "آپریشن" بھی کم از کم دو تین سو روپے کا خرچہ تو مانگتا ہی ہے۔
(05) طالبان دنیا کے چوالیس ممالک سے لڑے اور اس جنگ پر امریکہ کے اب تک سولہ سو ارب روپے خرچ ہوچکے اور اس وقت بھی دس ملین ڈالر فی گھنٹہ کے حساب سے خرچ ہو رہے ہیں۔
(06) 2004ء کے اختتام تک امریکہ گھٹنوں تک دھنس گیا تھا اور اور گدگدیوں اور چٹکیوں کا عمل شروع ہو گیا تھا چنانچہ اس کے بعد والے سالوں میں ہر امریکی یہ کہتا سنا جا رہا تھا "دیکھ باز آجا میں چھوٹ گیا نا تو چھوڑونگا نہیں !" لیکن وہ چھوٹتا کیسے ؟
(07) 2009ء تک امریکہ کی دماغی حالت اتنی خراب کردی گئی کہ باراک اوباما نے اس سال افغانستان میں ایساف اور نیٹو کی کمان کرنے والے اپنے دو فور سٹار جنرل برطرف کردئے۔ آنے والے سالوں میں دو مزید فور سٹار جنرلز جبکہ دو میجر جنرلز بھی برطرف کئے اور پھر ایک دن اعلان کردیا کہ امریکی فوج تطہیر کا عمل چاہتی ہے۔ تحقیقات شروع کی گئیں کہ عراق اور افغانستان میں ہماری ناک کیوں کٹی ؟ رپوٹ آئی کہ جرنیلوں کو تو لڑکیوں اور ڈرگز کی لت لگی ہوئی ہے۔ اوباما نے ایک بڑا جھاڑو اٹھایا اور پھیرنا شروع کردیا۔ اب تک فوج سے 197 ہائی رینکنگ افسران کو برطرف کیا جاچکا ہے۔
(08) 2009ء میں امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد میں خطاب کیا تو سوال جواب کے سیشن میں ایک کیپٹن نے اس سے سوال کیا "آپ ہمارے ساتھ ہیں یا ہمارے خلاف ؟" یہ وہی سوال تھا جو نائن الیون کے فوری بعد پاکستان کو دھمکی دیتے ہوئے پوچھا گیا تھا۔
(09) 2010ء میں امریکہ نے پاکستان سے مطالبہ شروع کیا کہ طالبان سے ہمارا رابطہ کروایا جائے ہم بات کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان نے حیلے بہانے شروع کئے تو برطانوی ایجنسی ایم آئی 6 نے از خود کوششیں شروع کردیں اور پھر 2011ء میں وہ شرمناک سکینڈل سامنے آیا جس میں کویٹہ کا ایک دکاندار اہم طالبان کمانڈر بن کر ان سے خفیہ مذاکرات کرتا رہا اور ایک دن چھ ملین پاؤنڈز لے کر غائب ہوگیا۔ یہ بندہ آج تک ملا نہیں۔
(10) بظاہر تو آئی ایس آئی نے ریمنڈ ڈیوس والے معاملے میں قوم کی ناک کٹوائی تھی پھر برطانوی اخبار گارجین نے اسے امرکی دفتر خارجہ کی 186 سالہ تاریخ کی سب سے بڑی ناکامی کیوں قرار دیا ؟ ایسا کیا ہوا تھا کہ پورا مغربی میڈیا پاکستان کے بجائے امریکی حکومت کو طعنے دے رہا تھا ؟ انہی دنوں جنرل پاشا کے دورہ جرمنی کے بعد جرمنی کے جاسوسی کے مسئلے پر امریکہ سے تعلقات کیوں بگڑنے شروع ہوئے ؟
(11) اگر پاکستان نے پچھلے تیرہ سال میں امریکہ سے مل کر افغان طالبان کو نقصان پہنچایا ہے تواخبارات اور ٹی وی چینلز پر یہ خبریں کیوں آتی ر ہیں کہ امریکہ نے پاکستان سے درخواست کی ہے کہ اس کے طالبان سے مذاکرات کروائے جائیں ؟ اگر پاکستان نے طالبان کو نقصان پہنچایا ہے تو ملا عمر پاکستان کی کیوں سنتے ہیں ؟ اور اگر پاکستان طالبان کو نقصان پہنچا رہا تھا تو سابق صدر حامد کرزئی کو تو خوش ہونا چاہئے تھا، وہ ہر وقت پاکستان کے خلاف زہر کیوں اگلتا رہتا تھا ؟ اور یہ کہ طالبان سے مذاکرات شروع کروانے پر موجودہ افغان صدر نے پاکستان کا شکریہ کیوں ادا کیا ؟
(12) آج کے افغانستان کی سیاسی صورتحال اس حد پاکستان کے کنٹرول میں ہے افغانستان کا صدر اپنے شہریوں سے بات چیت کے لئے پاکستان کے رحم و کرم پر ہے۔ چند ماہ قبل چائنا بھی اس سین پر اپنی باقاعدہ انٹری دے چکا حالانکہ درحقیقت وہ اکتوبر 2001ء سے ہی پوری طرح موجود تھا لیکن پس منظر میں۔ حتمی ہدف یہ ہے کہ ایک پر امن افغانستان ہوگا جہاں طالبان کی زیر قیادت قومی حکومت ہوگی اور چائنا اس کی تعمیر نو میں کلیدی کردار ادا کرے گا۔
طالبان کی غلطیاں
(01) اقوام متحدہ کے دفتر میں زبردستی گھسنا اور نجیب اللہ کو قتل کرنا۔ یہ حرکت جن بارہ لڑکوں نے کی تھی انہیں طالبان نے سزا دی لیکن اس سزا کو پبلک نہیں کیا کیونکہ اس سے اس نازک موقع پر نوجوان گھبرا کر پیچھے ہٹ سکتے تھے اور یہ بھی سوچ سکتے تھے کہ ملاعمر نے نجیب جیسے درندے کے قتل پر اتنا برا کیوں منایا ؟ کہیں یہ سب کوئی گیم تو نہیں ؟۔ دفتر میں گھسنا، نجیب کا قتل اور ذمہ داروں کو دی گئی سزا کو پبلک نہ کرنا تینوں ان کی غلطیاں ہیں۔
(02) بامیان کے مجسمے بارود سے اڑانا جس پر انہیں کراچی کے ایک پیر نے اکسایا تھا۔ طالبان اتنا بھی نہ سوچ سکے کہ اگر یہ بت توڑنا اتنا ہی ضروری ہوتا تو کیا سلطان محمود غزنوی انہیں چھوڑتا ؟ اور کیا مصر میں ابولہول کا مجسمہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ رہنے دیتے ؟
(03) ہر صوبے کے اہم عہدے قندھاریوں کو دینا اور جہاں قندھاری دستیاب نہ ہو وہاں مقامی شخص کو عہدہ ددینا لیکن ایک بیس پچیس سال کا قندھاری لونڈا اس پر بطور نگران مسلط کر دینا۔ حتیٰ کہ اپنے بیرون ملک سفیروں پر بھی یہ لونڈے مسلط کئے۔
(04) محض مالی مجبوریوں کے تحت لڑکیوں کی تعلیم بند کر دینا لیکن اس فیصلے پر عملدرآمد سے قبل پبلک کو اعتماد میں نہ لینا۔
(05) ارجنٹائن کے ساتھ ہونے والے پٹرول پائپ لائن معاہدے پر عملدرآمد میں غفلت برتنا جبکہ امریکہ اس معاہدے کے ہونے پر سیخ پا تھا اور یہ معلوم تھا کہ وہ اسے ناکام کرنے کو بیقرار ہے۔
طالبان کی خوبیاں
(02) ان کا وزیر اعظم، تمام گورنر اور تمام وزراء مسجدوں اور فٹ پاتھوں پر عام شہریوں کی طرح چلتے پھرتے ہر شخص کو دستیاب تھے۔ یہاں تک کہ جن کی اولاد نہیں تھی وہ اپنے گھروں کا سودا سلف بھی بازاروں سے خود لاتے۔ یوں عوام کو ان کے پیچھے خوار نہیں ہونا پڑتا تھا بلکہ وہ عوام کے بیچوں بیچ ان کی دسترس میں ہوتے۔
(03) ان کا نظام انصاف مفت اور فوری تھا۔ مظلوم کی آہ کو آسمان تک جانے کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔ زیادہ سے زیادہ دو ہفتے میں عدالت فیصلہ سنا دیتی اور ایسا ایک بھی کیس سامنے نہیں آیا جس سے یہ ظاہر ہوا ہو کہ ان کا فوری انصاف کا نظام کسی بے قصور کو سزا دے گیا ہو۔
(04) وزیر اعظم سے لے کر گونر اور وزرا تک کسی سے بھی شکایت ہوتی تو سڑک پر چلتے قاضی سے شکایت کرکے اسے برطرف کروایا جاسکتا تھا اور کئی اہم لوگ برطرف کئے بھی گئے۔
نائن الیون
قندوز ایئر لفٹ
دشت لیلیٰ قتل عام
پچھلے تیرہ سال
افغانستان میں کھیل ابھی ختم نہیں ہوا لھذا اب میں قدرے واضح اشاروں کنایوں میں چلونگا لیکن تفصیل نہیں بتاؤگا۔ جنہیں سمجھ آجائیں ان کی قسمت اور جو نہ سمجھ سکیں ان کی بھی اپنی قسمت۔(01) پاکستانی ادارے بہت اچھی طرح جانتے تھے کہ نائن الیون کیوں اور کیسے ہوا اور امریکہ کی افغانستان آمد کے مقاصد کیا ہیں۔ لھذا اس بات کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کہ امریکہ کو افغانستان میں کامیاب ہونے دیا جائے اور اپنے باڈر پر کوریا، جاپان اور جرمنی کی طرح ستر یا اس سے زائد برسوں کے لئے امریکی اڈے بننے دیئے جائیں۔
(02) چار ہزار سال سے اپنی عقل و دانش کے حوالے سے شہرت رکھنے والوں کا بھی مشورہ تھا کہ آنے والے کو آنے دیا جائے اور اس کے گھٹنوں تک دھنسنے کا انتظار کیا جائے۔ جب دھنس جائے تو پھر اسے گدگدیاں بھی کی جائیں اور چٹکیاں بھی بھری جائیں اور اسے اتنا مجبور کردیا جائے کہ وہ واپسی کے لئے بھی آپ ہی کی مدد کا محتاج ہو کر رہ جائے۔
(03) افغان طالبان یا انکے امیر ملا عمر نے تیرہ برسوں میں ایک بار بھی پاکستان کے خلاف کوئی بیان نہیں دیا۔
(04) اگر ہم اپنے شہر میں کسی کو دوچار تھپڑ رسید کرنے جائیں اور اس کام کے لئے دوچار دوستوں کو ساتھ لے جانا چاہیں اور ایک گھنٹے میں دو چار تھپڑ مار کر لوٹ آئیں تو یہ "آپریشن" بھی کم از کم دو تین سو روپے کا خرچہ تو مانگتا ہی ہے۔
(05) طالبان دنیا کے چوالیس ممالک سے لڑے اور اس جنگ پر امریکہ کے اب تک سولہ سو ارب روپے خرچ ہوچکے اور اس وقت بھی دس ملین ڈالر فی گھنٹہ کے حساب سے خرچ ہو رہے ہیں۔
(06) 2004ء کے اختتام تک امریکہ گھٹنوں تک دھنس گیا تھا اور اور گدگدیوں اور چٹکیوں کا عمل شروع ہو گیا تھا چنانچہ اس کے بعد والے سالوں میں ہر امریکی یہ کہتا سنا جا رہا تھا "دیکھ باز آجا میں چھوٹ گیا نا تو چھوڑونگا نہیں !" لیکن وہ چھوٹتا کیسے ؟
(07) 2009ء تک امریکہ کی دماغی حالت اتنی خراب کردی گئی کہ باراک اوباما نے اس سال افغانستان میں ایساف اور نیٹو کی کمان کرنے والے اپنے دو فور سٹار جنرل برطرف کردئے۔ آنے والے سالوں میں دو مزید فور سٹار جنرلز جبکہ دو میجر جنرلز بھی برطرف کئے اور پھر ایک دن اعلان کردیا کہ امریکی فوج تطہیر کا عمل چاہتی ہے۔ تحقیقات شروع کی گئیں کہ عراق اور افغانستان میں ہماری ناک کیوں کٹی ؟ رپوٹ آئی کہ جرنیلوں کو تو لڑکیوں اور ڈرگز کی لت لگی ہوئی ہے۔ اوباما نے ایک بڑا جھاڑو اٹھایا اور پھیرنا شروع کردیا۔ اب تک فوج سے 197 ہائی رینکنگ افسران کو برطرف کیا جاچکا ہے۔
(08) 2009ء میں امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد میں خطاب کیا تو سوال جواب کے سیشن میں ایک کیپٹن نے اس سے سوال کیا "آپ ہمارے ساتھ ہیں یا ہمارے خلاف ؟" یہ وہی سوال تھا جو نائن الیون کے فوری بعد پاکستان کو دھمکی دیتے ہوئے پوچھا گیا تھا۔
(09) 2010ء میں امریکہ نے پاکستان سے مطالبہ شروع کیا کہ طالبان سے ہمارا رابطہ کروایا جائے ہم بات کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان نے حیلے بہانے شروع کئے تو برطانوی ایجنسی ایم آئی 6 نے از خود کوششیں شروع کردیں اور پھر 2011ء میں وہ شرمناک سکینڈل سامنے آیا جس میں کویٹہ کا ایک دکاندار اہم طالبان کمانڈر بن کر ان سے خفیہ مذاکرات کرتا رہا اور ایک دن چھ ملین پاؤنڈز لے کر غائب ہوگیا۔ یہ بندہ آج تک ملا نہیں۔
(10) بظاہر تو آئی ایس آئی نے ریمنڈ ڈیوس والے معاملے میں قوم کی ناک کٹوائی تھی پھر برطانوی اخبار گارجین نے اسے امرکی دفتر خارجہ کی 186 سالہ تاریخ کی سب سے بڑی ناکامی کیوں قرار دیا ؟ ایسا کیا ہوا تھا کہ پورا مغربی میڈیا پاکستان کے بجائے امریکی حکومت کو طعنے دے رہا تھا ؟ انہی دنوں جنرل پاشا کے دورہ جرمنی کے بعد جرمنی کے جاسوسی کے مسئلے پر امریکہ سے تعلقات کیوں بگڑنے شروع ہوئے ؟
(11) اگر پاکستان نے پچھلے تیرہ سال میں امریکہ سے مل کر افغان طالبان کو نقصان پہنچایا ہے تواخبارات اور ٹی وی چینلز پر یہ خبریں کیوں آتی ر ہیں کہ امریکہ نے پاکستان سے درخواست کی ہے کہ اس کے طالبان سے مذاکرات کروائے جائیں ؟ اگر پاکستان نے طالبان کو نقصان پہنچایا ہے تو ملا عمر پاکستان کی کیوں سنتے ہیں ؟ اور اگر پاکستان طالبان کو نقصان پہنچا رہا تھا تو سابق صدر حامد کرزئی کو تو خوش ہونا چاہئے تھا، وہ ہر وقت پاکستان کے خلاف زہر کیوں اگلتا رہتا تھا ؟ اور یہ کہ طالبان سے مذاکرات شروع کروانے پر موجودہ افغان صدر نے پاکستان کا شکریہ کیوں ادا کیا ؟
(12) آج کے افغانستان کی سیاسی صورتحال اس حد پاکستان کے کنٹرول میں ہے افغانستان کا صدر اپنے شہریوں سے بات چیت کے لئے پاکستان کے رحم و کرم پر ہے۔ چند ماہ قبل چائنا بھی اس سین پر اپنی باقاعدہ انٹری دے چکا حالانکہ درحقیقت وہ اکتوبر 2001ء سے ہی پوری طرح موجود تھا لیکن پس منظر میں۔ حتمی ہدف یہ ہے کہ ایک پر امن افغانستان ہوگا جہاں طالبان کی زیر قیادت قومی حکومت ہوگی اور چائنا اس کی تعمیر نو میں کلیدی کردار ادا کرے گا۔
ذیل میں مغربی اخبارات میں شائع ہونے والے دو کارٹون پیش خدمت ہیں۔