یو اے ای
خارجہ پالیسی میں عرب ملکوں کا ذکر کرتے ہوئے میں نے جان بوجھ کر یو اے ای کا ذکر نہیں کیا تھا البتہ وہ جو لکھا تھا کہ "ان میں سے بعض تو برادران یوسف ثابت ہوتے رہے ہیں " اس سے یو اے ای ہی مراد تھا۔ میرا اسے حساسیت کے سبب ذکر نہ کرنا غلط ثابت ہوچکا سو چلئیاب ہلکا سا بیان کر دینا بہتر ہوگا۔یو اے ای اور پاکستان کے تعلقات درحقیقت پیپلز پارٹی اور یو اے ای کے تعلقات ہیں۔ یہ ہمیشہ پیپلز پارٹی کے دور میں خوشگوار رہتے ہیں جبکہ دیگر ادوار میں ٹھنڈے پڑے رہتے ہیں۔ پاکستان نے گوادر پورٹ کی تعمیر شروع کی تو بلوچستان میں وہ بغاوت شروع کرائی گئی جو اس وقت بھی جاری ہے۔ اس بغاوت کے پیچھے چار ممالک موجود تھے جن میں یو اے ای ٹاپ پر تھا۔ یو اے ای کے ذمے اس بغاوت کے اخراجات اور دبئی کو بطور ہیڈ کوارٹر پیش کرنا شامل تھا جو جنرل کیانی کے دور تک وہ کرتا رہا۔ امریکہ کو گوادر پورٹ سے یہ تکلیف ہے کہ یہ چائنا کا ایکسپورٹ اینڈ امپورٹ سینٹر بننے جا رہی ہیجبکہ ساتھ ہی پاکستان نیوی کو آبنائے ہرمز پر مکمل بالادستی فراہم کرتی ہے جو دنیا کو جانے والے ساٹھ فیصد آئل کی واحد گزرگاہ ہے۔ ایران کو یہ تکلیف ہے کہ اس کی چاہ بہار پورٹ کی حیثیت اس سے دوٹکے کی ہوجاتی ہے اور یہ کہ ایرانی نیوی کے عین دروازے پر پاکستان نیوی آ کر بیٹھ سکتی ہے جو کڑے وقت میں ایرانی نیوی کو مکمل بے اثر کرسکتی ہے۔ بھارت کو یہ تکلیف ہے کہ اس سے پاکستان نیوی اس کی رینج سے نکل گئی ہے۔ جبکہ شیخ زید بن سلطان لہولہان کی اولاد کا صدمہ یہ ہے کہ اگر پاکستان گوادر کو فری پورٹ بنا دیتا ہے تو دبئی اس خطے میں واحد آپشن نہیں رہے گی جس سے اس کی مارکیٹ گرنی شروع ہو جائیگی۔ جنرل کیانی اور پاشا نے مل کر یو اے ای کو ڈنڈا کیا تھا اور اسے اس سازش سے باہر نکالنے میں اس حد تک کامیابی حاصل کی کہ ریٹائرڈ ہوتے ہی جنرل پاشا یو اے ای میں جا کر انہیں کی تنخواہ پر پاکستان کے مفادات کے مستقل محافظ بن گئے ہیں۔ جب سے یو ای کے درہم بند ہوئے ہیں بلوچستان کے باغی کمزور ہونا شروع ہوگئے ہیں اور اب وہ ایک دوسرے سے لڑنے لگے ہیں۔ یمن کے پس منظر میں یو اے ای کی "ٹویٹر دھمکی" کا یمن سے کوئی تعلق نہیں بلکہ درحقیقت یہ موقع کا فائدہ اٹھا کر اپنا وہ بازو چھڑانے کی ناکام کوشش ہے جو جنرل پاشا مستقل مروڑے بیٹھے ہیں۔