خواجہ سیالکوٹی، وزیر ریاست الباکستان کے اس اعترافی بیان کے بعد کہ "سعودی عرب (دراصل محاذ یمن) میں ہمارے 1000 سے زائد فوجی جوان پہلے سے ہی موجود (یعنی مصروف جہاد) ہیں"، یہ واضح ہو جانا چاہیے کہ وزیراعظم جس "فیصلے" کو پارلیمنٹ کی منظوری سے مشروط قرار دینے کا اعلان فرما رہے ہیں، اس "بزنس ڈیل" پر عمل در آمد کا آغاز پہلے سے ہی ہو چکا ہے اور یہ مشترکہ اجلاس دراصل پارلیمانی پارٹیوں سے سرخ و سفید اور خاکی ہر رنگ کے "شرفاء" کے اس کاروباری معاہدے پر مہر تصدیق ثبت کرانے کی "حکمت عملی" کے سوا کوئی حیثیت نہیں رکهتا ..
لیکن جہاں تک یمن میں ایرانی حمایت یافتہ حوثی جنگجووں کے خلاف "سعودی جہاد" میں "شرکت مزید" کا سوال ہے، اس ناچیز کے خیال میں سعودی حمایت یافتہ یمنی صدر ہادی کے خلاف جاری اس "بغاوت" کے غیر متوقع طور پر طول پکڑ جانے کے بعد پاکستان، ترکی اور مصر جیسے غیر متعلقہ ممالک کے پاس چند روز قبل تک موجود "حرمین الشریفین کی حفاظت" کا بہانہ "ایکسپائر" ہوجانے کے کارن، اب ان کیلئے اس "محاذ" میں براہ راست شمولیت کے امکانات مخدوش ہو چکے ہیں ..
شاید اسی لئے ہی "السعودیہ" سے پیشگی حاصل کردہ اور مزید متوقع "نمک" کا حق ادا کرنے کی ترکیب پر غور و خوص کی خاطر منعقدہ پاکستانی وزیراعظم اور ترکی صدر کے درمیان ملاقات کے علاوہ پاکستانی سپہ سالار اور مصری کمانڈر انچیف کے مابین "سٹریٹجک ڈائیلاگ" بهی اس حد تک بے نتیجہ ثابت ہوئے کہ کل تک "حرمین کی حرمت" میں مری جاری ساری "بزنس کمیونٹی" کی ترجیحات یکدم تبدیل ہو گئیں اور اب ہر جانب سے بس یہی صدا سنائی دے رہی ہے کہ "مسئلہ کا حل پیس ٹاک کے سوا کچھ نہیں" ..
جی ہاں خواتین و حضرات، مسئلہ کے سیاسی حل کی اس "اچانک علم برداری" کے پیچھے پیٹرو ڈالرز کا "حق نمک" ادا کرنے کی بے تابی کے سوا کوئی اور وجہ بظاہر دکھائی تو نہیں دے رہی، ورنہ سعودی حکومت اور یمنی باغیوں کے درمیان یا چلئے السعودیہ و ایران کے درمیان جاری اس چپقلش میں ان "عبداللہ دیوانوں" کی دیوانگی کا جواز آخر کہاں سے ڈھونڈ نکالا جائے؟؟ ..
اندریں حالات الباکستانی جہادیوں کیلئے "امکانات" کچھ اس طرح روشن ہو گئے ہیں کہ "پاک فوج" کیلئے چونکہ مذکورہ بالا صورتحال کے ساتھ ساتھ ایران کی جانب سے موصولہ واضح تنبیہ کے تناظر میں بهی اس "جہاد" کی براہ راست سعادت سے بہرہ ور ہونا اب شاید ممکن نہیں رہا، لہٰذا "آجر" کی خدمت میں پیش کرنے کیلئے یہی "تذویراتی اثاثہ جات" ہی رہ جاتے ہیں، جنہیں ایسے مواقع کیلئے ہی پال پوس کر پروان چڑھایا گیا تھا ..
حافظ سعید اور سراج الحق کی پھرتیاں قارئین کرام، کچھ اسی جانب اشارہ نہیں کئے جارہے؟؟