ہر چیز کا کوئی نہ کوئی محل وقوع ہے، اس وسیع و عریض کائنات میں، کسی نہ کسی سیارے پر، زمین پر۔ زمین کے اوپر، زمین کے اندر، سمندر کے اندر، کسی دریا کے کنارے پر، کسی پہاڑ کی وادی پر یا چوٹی پر۔
کوئی نہ کوئی تو مقام ہو گا جہاں اگلا جہان ہو گا، جہاں جنت اور دوزخ موجود ہو گی۔
علامہ اقبالؒ کہتے ہیں:
خرد مندوں سے کیا پوچھوں کہ میری ابتدا کیا ہے
میں تو اس فکر میں ہوں کہ میری انتہا کیا ہے
ہر ذی شعور انسان سوچتا ہے کہ اس زندگی کا تسلسل کیا ہے، کس شکل و صورت میں ہے، کہاں جانا ہے، کس شکل میں جانا ہے۔ جنت کہاں ہے؟ جہنم کہاں ہے؟
مذہبی راہنما ان چیزوں کو جاننے کے حتمی دعوے کرتے ہیں۔ وہ الہامی کتابوں کی تفسیریں بیان کرتے ہیں۔ ان میں علماء بھی ہیں، علامہ بھی ہیں، مولانا بھی ہیں، شیخ الاسلام بھی ہیں، آیت اللہ بھی ہیں، حجت اللہ بھی ہیں۔ اور کئی نام ہیں۔ انہوں نے بڑی محنت اور کاوش سے تفسیریں لکھی ہیں۔ ابراہیم ؑ، موسیٰ ؑ اور دوسروں کے حالات پر روشنی ڈالی ہے، ذوالقرنین کے کارناموں کی وضاحت کی ہے۔ یہ سب واقعات اسی زمین پر رونما ہو چکے ہیں، ان کا کوئی نہ کوئی جغرافیہ ہے، محل وقوع ہے۔ یہ کسی نہ کسی دریا، سمندر، پہاڑ، صحرا، براعظم، جزیرے وغیرہ پر واقع ہوئے ہیں۔
افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مفسرین نے ان واقعات کے جو محل وقوع بتائے ہیں ان میں سے اکثر غلط ہیں۔ جب جغرافیہ ہی غلط ہے تو باقی کی تفسیر درست کیسے ہو سکتی ہے۔
افسوس تو اس بات کا بھی ہے کہ جنہیں زمین کے اہم واقعات کے محل وقوع کا علم نہیں وہ ہمیں جنت اور جہنم کا نقشہ کیا سمجھائیں گے؟
افسوس تو یہ بھی ہے کہ اپنے آپ کو حرف آخر ہونے کا دعوی کرنے والوں نے اور جنت کی سندیں تقسیم کرنے والوں نے اس دنیا کو جہنم بنایا ہوا ہے۔
ہمیں جہالت کے جہنم سے نجات چاہیے، امن چاہیے، سکون چاہیے، ہمارے لیے یہی جنت ہے۔
غور کیجیے، فکر کیجیے، اس زندگی کو جنت بنائیے، اگلی دنیا والی جنت جہاں کہیں بھی ہو گی، خود بخود مل جائےگی۔