15 اپریل، 2015

ایم کیو ایم ہماری اسٹیبلش منٹ کا تذویراتی اثاثہ- Strategic Asset

بھلا اتنی محنت سے بنائے ہوئے اثاثے کوئی ختم کرتا ہے۔ ہاں البتہ نئی ضرورتوں کے تحت اثاثے مزید مضبوط کرنے کے لیے update کیے جاتے ہیں۔ اگر ختم ہی کرنا ہوتا تو جنرل نصیراللہ بابر والے آپریشن سے نہ بچایا جاتا۔ اب تو یہ ایک لسانی گروپ کی مستند تنظیم بن چکی ہے۔ بس ذرا اپنے مکمل کنٹرول میں لانے کی ضرورت ہو گی۔
نون لیگ بھی تذویراتی اثاثہ تھی لیکن ذرا کنٹرول سے باہر جا رہی تھی، اسے عمران کے دھرنے کے ذریعے راہ راست پر لایا جا چکا ہے۔ آب اپنے دونوں اثاثوں نون لیگ اور پی ٹی آئی کی صلح کروائی جا رہی ہے۔ کیونکہ اب نون لیگ کو اپنی مطلوبہ ضرورت کے تحت بچہ جمہورا بنایا جا چکا ہے۔
یوں بھی ہوتا ہے کہ اصل کام کوئی اور کرنا ہوتا ہے اور اس سے توجہ ہٹانے کے لیے نئی نئی پر کشش خبریں بنائی جاتی ہیں اور اپنے گوناگوں تذویراتی اثاثوں کو آپس میں لڑوا کر خبروں کا رخ موڑ دیا جاتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ دو تذویراتی اثاثے، ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی آپس میں "ڈانگو ڈانگ" ہو رہے ہوتے ہیں اور اچانک تازہ خبر آ جاتی ہے کہ 
"عمران الطاف دا بھائی اے"
تحفے دئیے جا رہے ہوتے ہیں، دعوتوں کے پر تکلف اہتمام کیے جا رہے ہوتے ہیں۔ اور ایسے لگتا ہے کہ جیسی کبھی کوئی مخالفت موجود ہی نہ تھی۔ ہم خواہ مخواہ انصاف کی امید لگا لیتے ہیں۔
ہاں البتہ اگر انصاف کرنا ہی ہے تو ماڈل ٹاؤن لاہور کے دن دہاڑے قتل عام کے مجرموں کو بھی کٹہرے میں لائیں اور تین سو کنال کی کرپشن فری جھگی میں مقیم بین الاقوامی طور پر ثابت شدہ مجرم کو استعمال کرنے کی بجائے نا اہل قرار دلوائیں۔ مگر ایسا نہیں ہو گا۔ اب تو تمام مجرموں کو بشمول صولت مرزا اور عزیر بلوچ کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی روش چل پڑی ہے۔ لگتا تو یوں ہے کہ تمام بڑے بڑے مجرم بھی تذویراتی اثاثے ہی ہیں۔ شاید ان تذویراتی اثاثوں کا تحفظ کیا جا رہا ہے ورنہ پھانسی گھاٹ سے اتار کر وعدہ معاف گواہ بنانے کا کونسا قانون کہیں موجود ہے؟
چلیں ہم بھی امید باندھ لیتے ہیں کہ تمام مجرم ختم ہو جائیں گے۔ دل کے خوش رکھنے کو یہ خیال اچھا ہے۔ ویسے ہم وہ قوم ہیں جو تنکوں کا سہارا ڈھونڈتے ہیں۔ ہم تو ہارے ہوئے سابقہ کرکٹ میچ کی ریکارڈنگ دیکھتے ہوئے جیت کی دعائیں مانگنے لگ جاتے ہیں۔
لگتا ہے کہ آجکل یمن و عرب کے اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے نئی نئی خبریں پھیلائی جا رہی ہیں اور ہم اپنی خواہشات کے غلام سرابوں کے پیچھے بھاگنے لگ جاتے ہیں اور ہزاروں دفعہ دھوکے کھانے کے باوجود امیدیں باندھ لیتے ہیں۔ گویا ہوئے جس کے سبب بیمار ہم۔ اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں۔ چلیں ایک دفعہ اور سہی۔

تلاش کیجئے