آئیے، بھٹو شہید کی چھتیسویں برسی پر آج یہ جاننے کی کوشش کریں کہ "زُلفی" کا "جُرم" اصل میں تھا کیا، جس کی سزا مغربی سامراج نے تو اپنی پروردہ فوج اور اس کی گماشتہ عدلیہ کی مدد سے اسے بالآخر جسمانی طور پر ختم کرکے دے ہی دی، لیکن پاکستان کو آج اپنی من پسند تشریح کے عین مطابق "الباکستان" بنا ڈالنے میں مکمل کامیاب دائیں بازو کے مذہبی بدمعاش ہوں یا پھر انہدام سوویت یونین کا دائمی زخم سہلاتے ہمارے نام نہاد "ترقی پسند دانشور" کوئی بھی اسی جرم پر، اسے اب بھی معاف کرنے کو تیار نہیں؟
جی ہاں، "فخر ایشیا" کا یہ جُرم کیا کسی بدترین سزا کیلئے کافی جواز فراہم نہیں کرتا کہ جس ریاست کا قیام ہی امریکہ بہادر کے بغل بچے کی حیثیت سے "الحاد کے خلاف جہاد" میں فرنٹ لائن اسٹیٹ کے طور عمل میں لایا گیا تھا، وہ اسے "توحید پرستوں کے نام نہاد اتحاد" سے نکال کر اسی مملکت کی قیادت میں اُس "اسلامی بلاک" کو عملی شکل دینے کی "سازش عظیم" کا مرتکب ہوا، استعمار کے دیرینہ ایجنٹ مولوی، اپنے مغربی مالکوں کے ایجنڈے کے تحت جس کا بہلاوہ اس نام نہاد "مُسلم اُمہ" کو دے کر اسے مُسلسل گہری نیند سُلائے رکھنے کا فریضہ گذشتہ دو صدی سے انجام دئے چلے آ رہے ہیں۔
بھٹو کا اتنا بڑا "جُرم" توحید پرستوں کے علاوہ ہمارے ان "ترقی پسند" بہن بھائیوں سے بھی بھلا کیسے ہضم ہو پاتا، جن کے نزدیک "ترقی پسندی" کا واحد مفہوم صرف اور صرف مذہب کی جا بجا اور بسا اوقات بلا وجہ مخالفت کے سوا کچھ بھی نہیں؟؟۔
لہٰذا پیارے خواتین و حضرات، مُملکت کی اکثریتی مُسلم آبادی کے جذبات و احساسات کی بجا طور پر ضروری ترجمانی کے حوالے سے "بُنیاد پرست" لیکن ریاست کی شہ رگ کو سامراج کے دائمی اور مضبوط شکنجے سے چُھٹکارہ دلا کر اقتصادی و سیاسی خود مُختاری کی شاہراہ پر گامزن کرنے کے اپنے "ایجنڈہ" کے حوالے سے یقینی طور پر "ترقی پسند" قائد عوام، سوویت یونین اور امریکہ بہادر نامی دونوں نسلوں کے "عالمی سامراج" سمیت اُن کی مذہب پرست و مذہب بیزار ہر رنگ کی ذُریات کیلئے قابل قبول بلکہ قابل برداشت کیوںکر قرار پاتا؟؟۔
اپنی شخصی وجاہت، اپنی غیر معمولی فطانت اوراپنے دبنگ سیاسی قدوقامت کو بروئے کار لاکر ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور سوویت یونین آف رشیا کی قیادت میں اُس وقت دُنیا کو دو بلاکس میں تقسیم کرکے اپنے اپنے استعماری مقاصد کی تکمیل پر شاداں و فرحاں دونوں استعماری قوتیں، بھٹو اور پاکستان کی قیادت میں تیزی سے تشکیل پاتے مسلمان ممالک پر مشتمل "مُسلم بلاک" اور روس و امریکہ کی سیاسی اجارہ داری سے باہر نکل کران کی باہم محاذ آرائی میں غیر جانبدار رہنے کے خواہش مند علاقائی ممالک پر مبنی "تھرڈ ورلڈ" کو، اپنے مذموم استعماری مقاصد کی راہ میں حائل اصل خطرہ جان کر اس کے خلاف کچھ اس طرح متحد ہوگئے کہ امریکہ بہادر کی دیرینہ ایجنٹ "پاک فوج" کے اشارہ ابرو پر تشکیل پانے والے بھٹو مخالف نام نہاد "قومی اتحاد" میں ہمیں ایک طرف اگر امریکی ڈالروں پر پلنے والے مودودی و مُفتی بیٹھے دکھائی دئیے تو دوسری طرف صوبہ سرحد، اب خیبر پختونخواہ، کے روس نواز جغادری قوم پرست اور بلوچستان کے علیحدگی پسند نیشلسٹ بھی اسی پی این اے کا جزو لاینفک قرار پاتے ہیں ۔۔
اور اس ناپاک گٹھ جوڑ نے ناصرف بھٹو سے سیاسی چھٹکارہ حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کرلی بلکہ ان کی سرپرست فوجی جنتا نے اپنی گماشتہ، "دائمی مادر پدر آزاد عدلیہ" کو استعمال کرتے ہوئے اس بطل ضعیم کے جسمانی خاتمے کے فیصلے کی صورت میں اپنے غیر ملکی آقاؤں کے دل میں بھی اپنا "مقام" پہلے سے کہیں زیادہ بُلند کرلیا ۔۔
یہ سارا پس منظر قارئین گرامی، ہمیں اس "حُسن اتفاق" کے پیچھے کارفرما اصل "راز" سمجھنے میں رہنمائی فراہم کرتا ہے کہ اپنے سخت گیر اقتدار کے پُرہیبت ماحول میں بھی عوامی ردعمل سے خوفزدہ "جنتا" کی جانب سے رات کی مہیب تاریکی میں پھانسی کے پھندے پر جُھلانے کے بعد اس کے جسد خاکی کو نصف شب میں ہی گڑھی خدا بخش پہنچا کر انتہائی پُر اسرار انداز میں خاموشی سے تدفین کے بعد ہی مطمئن ہونے والے مذہبی شدت پسند ہوں یا پھر نام نہاد ترقی پسند، ایک دوسرے کے خون کے پیاسے سب، آج بھی "بھٹو دُشمنی" میں "اتحاد و ہم آہنگی" کے مثالی مظاہرہ پر مجبور ہیں ۔۔
جی ہاں، عظیم بھٹو کا نام سُنتے بلکہ اُس کی تصویر دیکھتے ہی "درد زیہہ" میں مبتلا ہوجانے والے ان "نابالغان سیاست" کی اسی کیفیت نے ہی اس معنی خیز نعرے کو جنم دیا کہ "بُھٹو کل بھی زندہ تھا، بُھٹو آج بھی زندہ ہے"۔۔
بھٹو کا اتنا بڑا "جُرم" توحید پرستوں کے علاوہ ہمارے ان "ترقی پسند" بہن بھائیوں سے بھی بھلا کیسے ہضم ہو پاتا، جن کے نزدیک "ترقی پسندی" کا واحد مفہوم صرف اور صرف مذہب کی جا بجا اور بسا اوقات بلا وجہ مخالفت کے سوا کچھ بھی نہیں؟؟۔
لہٰذا پیارے خواتین و حضرات، مُملکت کی اکثریتی مُسلم آبادی کے جذبات و احساسات کی بجا طور پر ضروری ترجمانی کے حوالے سے "بُنیاد پرست" لیکن ریاست کی شہ رگ کو سامراج کے دائمی اور مضبوط شکنجے سے چُھٹکارہ دلا کر اقتصادی و سیاسی خود مُختاری کی شاہراہ پر گامزن کرنے کے اپنے "ایجنڈہ" کے حوالے سے یقینی طور پر "ترقی پسند" قائد عوام، سوویت یونین اور امریکہ بہادر نامی دونوں نسلوں کے "عالمی سامراج" سمیت اُن کی مذہب پرست و مذہب بیزار ہر رنگ کی ذُریات کیلئے قابل قبول بلکہ قابل برداشت کیوںکر قرار پاتا؟؟۔
اپنی شخصی وجاہت، اپنی غیر معمولی فطانت اوراپنے دبنگ سیاسی قدوقامت کو بروئے کار لاکر ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور سوویت یونین آف رشیا کی قیادت میں اُس وقت دُنیا کو دو بلاکس میں تقسیم کرکے اپنے اپنے استعماری مقاصد کی تکمیل پر شاداں و فرحاں دونوں استعماری قوتیں، بھٹو اور پاکستان کی قیادت میں تیزی سے تشکیل پاتے مسلمان ممالک پر مشتمل "مُسلم بلاک" اور روس و امریکہ کی سیاسی اجارہ داری سے باہر نکل کران کی باہم محاذ آرائی میں غیر جانبدار رہنے کے خواہش مند علاقائی ممالک پر مبنی "تھرڈ ورلڈ" کو، اپنے مذموم استعماری مقاصد کی راہ میں حائل اصل خطرہ جان کر اس کے خلاف کچھ اس طرح متحد ہوگئے کہ امریکہ بہادر کی دیرینہ ایجنٹ "پاک فوج" کے اشارہ ابرو پر تشکیل پانے والے بھٹو مخالف نام نہاد "قومی اتحاد" میں ہمیں ایک طرف اگر امریکی ڈالروں پر پلنے والے مودودی و مُفتی بیٹھے دکھائی دئیے تو دوسری طرف صوبہ سرحد، اب خیبر پختونخواہ، کے روس نواز جغادری قوم پرست اور بلوچستان کے علیحدگی پسند نیشلسٹ بھی اسی پی این اے کا جزو لاینفک قرار پاتے ہیں ۔۔
اور اس ناپاک گٹھ جوڑ نے ناصرف بھٹو سے سیاسی چھٹکارہ حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کرلی بلکہ ان کی سرپرست فوجی جنتا نے اپنی گماشتہ، "دائمی مادر پدر آزاد عدلیہ" کو استعمال کرتے ہوئے اس بطل ضعیم کے جسمانی خاتمے کے فیصلے کی صورت میں اپنے غیر ملکی آقاؤں کے دل میں بھی اپنا "مقام" پہلے سے کہیں زیادہ بُلند کرلیا ۔۔
یہ سارا پس منظر قارئین گرامی، ہمیں اس "حُسن اتفاق" کے پیچھے کارفرما اصل "راز" سمجھنے میں رہنمائی فراہم کرتا ہے کہ اپنے سخت گیر اقتدار کے پُرہیبت ماحول میں بھی عوامی ردعمل سے خوفزدہ "جنتا" کی جانب سے رات کی مہیب تاریکی میں پھانسی کے پھندے پر جُھلانے کے بعد اس کے جسد خاکی کو نصف شب میں ہی گڑھی خدا بخش پہنچا کر انتہائی پُر اسرار انداز میں خاموشی سے تدفین کے بعد ہی مطمئن ہونے والے مذہبی شدت پسند ہوں یا پھر نام نہاد ترقی پسند، ایک دوسرے کے خون کے پیاسے سب، آج بھی "بھٹو دُشمنی" میں "اتحاد و ہم آہنگی" کے مثالی مظاہرہ پر مجبور ہیں ۔۔
جی ہاں، عظیم بھٹو کا نام سُنتے بلکہ اُس کی تصویر دیکھتے ہی "درد زیہہ" میں مبتلا ہوجانے والے ان "نابالغان سیاست" کی اسی کیفیت نے ہی اس معنی خیز نعرے کو جنم دیا کہ "بُھٹو کل بھی زندہ تھا، بُھٹو آج بھی زندہ ہے"۔۔