علامہ اقبال نے دو قسم کے لوگوں کا ذکر کیا ہے۔ ایک وہ جو سماج کو آگے لے کر جانا چاہتے ہیں اور دوسرے وہ جو سماج کو جکڑ کر رکھتے ہیں۔
ایک وہ جو سود و زیاں، نفع ونقصان کی پرواہ کئے بغیر، اپنی جان کو جوکھوں میں ڈال کر انسانی تمدن کو عظیم منزلوں کی جانب گامزن کرنے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں اور دوسرے وہ جو ہر ترقی کی راہ میں بند باندھتے ہیں۔
ایک وہ جو مشکلات کی راہ کا انتخاب کرتے ہیں اور انقلابی تحریک کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ دوسرے وہ جو روایات و رسومات کی قید میں رہتے ہوئے انسانی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں ڈالتے ہوئے شہنشاہوں کے دسترخوان پر پلتے ہیں۔
یہ دو قسم کے مکتبہء فکر ہیں۔
ایک سکول کی نمائندگی مولانا روم کرتے ہیں اور دوسرے سکول کی نمائندگی امام فخرالدین رازی کرتے ہیں۔ ان دونوں سکولوں کی کشمکش پوری عالمی تاریخ میں جاری و ساری رہتی ہے۔
رومی سکول کے لوگ جنون اور عشق و مستی کے جذبوں سے سرشار، جھومتے، مسکراتے، اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے نامعلوم اور عظیم منزلوں کی جانب گامزن رہتے ہیں۔ جبکہ رازی سکول کے لوگ عشق و مستی کی نفی کرتے ہوْے عوام الناس کو گہری نیند سلانے کا کام انجام دیتے ہیں۔
گویا:
رومی بمقابلہ رازی
یا
انقلابی تحریک بمقابلہ روایاتی جکڑ بندی
اس مقابلے میں بار بار رازی کو شکست فاش ہوتی رہتی ہے اور رومی فتح کے ڈنکے بجاتا ہوا آگے بڑھتا رہتا ہے۔
اقبال فرماتے ہیں:
نے مہرہ باقی، نے مہرہ بازی
جیتا ہے رومی، ہارا ہے رازی
مزید فرماتے ہیں:
جمال عشق و مستی، نے نوازی
جلال عشق و مستی، بے نیازی
کمال عشق و مستی، ظرف حیدر
زوال عشق و مستی، حرف رازی
فتح حق کی ہوتی ہے، سچ کی ہوتی ہے۔
سچ کے لمحے جھوٹ کی صدیوں پر بھاری ہوتے ہیں۔ سچ زندہ و پائندہ ہے جبکہ جھوٹ تاریخ کے قبرستان میں بے نام و نشان ہمیشہ کے لئے دفن ہو کر مٹ جاتا ہے۔
خودی کی بے پناہ طاقت جنون، سرور، عشق و مستی کے جذبوں سے سرشار ہوتے ہوئے باطل کو روندتی ہوئی آگے بڑھ جاتی ہے
جبکہ ہامانیت اور ملائیت کف افسوس ملتی رہ جاتی ہے۔ اس کا کوئی نام لیوا نہیں ہوتا۔رازی شکست فاش سے دو چار ہوتا ہے۔
رومی کی قتل گاہوں سے شہیدوں کے علم چن کر عشاق کے قافلے رواں دواں رہتے ہیں۔ رازی کے سینکڑوں روپ ہیں جبکہ رومی کا ایک ہی دائمی روپ ہے اور قابل فخر اور سر بلند ہے۔
حقیقت ابدی ہے مقام شبیری
بدلتے رہتے ہیں انداز کوفی و شامی
علامہ اقبالؒ