14 اپریل، 2015

انقلابی پکوڑے

ایک بات سمجھ نہیں آ رہی۔ عمران خان کے دورہ کراچی سے قبل ضمنی الیکشن والے حلقہ 246 میں پی ٹی آئی بھر پور سرگرمی دکھا رہی تھی جسے رینجرز کی جانب سے مکمل سیکیورٹی اور میڈیا کی جانب سے زبردست کوریج بھی حاصل تھی جبکہ جماعت اسلامی کچھ ڈھیلی بھی نظر آ رہی تھی اور اس کی ریلی کو سیکیورٹی اور جلسے کو پی ٹی آئی جیسی کوریج بھی نہیں ملی لیکن عمران کے دورے کے بعد سے پی ٹی آئی کی سرگرمیاں اس حلقے میں یکدم معدوم ہو گئی ہیں جبکہ جماعت اسلامی اب چھائی نظر آ رہی ہے۔ دوسری طرف پی ٹی آئی کی ویب سائٹ پر اس حلقے میں پولنگ ایجنٹوں کے لئے اپیل کی گئی ہے جو بجائے خود ایک حیران کن بات ہے کیونکہ پولنگ ایجنٹ سیاسی جماعتوں کے قابل اعتماد ورکرز ہوتے ہیں جنہیں امیدوار خود اپنے اعتماد اور شناخت کی بنیاد پر چنتا ہے۔ جس حلقے سے گزشتہ الیکشن میں پی ٹی آئی نے تیس ہزار سے زائد ووٹ لئے وہاں پولنگ ایجنٹوں کے لئے اپیل سمجھ نہ آنے والی بات ہے۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ عمران خان کے بیانات انتخابی سے زیادہ انقلابی تھے۔ غالبا وہ اس تصور کے ساتھ کراچی گئے تھے کہ پورا کراچی ان کے تاریخ ساز استقبال کے لئے نکل آئے گا جس سے کراچی میں انقلاب برپا ہو جائے گا لیکن انکے استقبال کے لئے تیس ہزار ووٹرز کا دسواں حصہ بھی باہر نہیں آیا، شائد اسی چیز نے پی ٹی آئی کو خان صاحب کے دورے کے بعد سے سناٹے سے دو چار کردیا ہے۔ دوسری جانب سراج الحق کوئی انقلاب برپا کرنے نہیں گئے بلکہ انہوں نے اپنی ٹون انتخابی مہم تک محدود رکھی جو انکے منجھے ہوئے سیاستدان ہونے کی دلیل تھی۔ خان صاحب کا المیہ ہی یہ ہے کہ وہ منہ ضرورت سے زیادہ کھول دیتے ہیں اور دعوے اتنے بڑے کر ڈالتے ہیں کہ ہمالیہ اور قراقرم کی چوٹیاں بھی حیرت سے ایک دوسرے کو تکنے لگتی ہیں اور ان کی یہ حیرت تب ہی ختم ہوتی ہے جب کنٹینروں کے نیچے سے مرے ہوئے چوہے برآمد ہو جاتے ہیں۔ وہ شخص پی ٹی آئی کا سب سے بڑا محسن ہوگا جو خان صاحب کو اس بات پر قائل کرلے کہ پاکستانی عوام کی غالب اکثریت کو واقعی ان کے انقلاب میں کوئی دلچسپی نہیں لھذا بہتر یہی ہے کہ دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح پی ٹی آئی بھی نارمل سیاست کرے "انقلابی پکوڑے" فی الحال نہیں چل سکتے۔

تلاش کیجئے