11 اپریل، 2015

ہماری بلی، ہمی کو میاؤں .!

یمن کے "سعودی جہاد" میں غیر جانبداری کے "ظاہری مفہوم" پر مبنی، ہماری پارلیمنٹ کی متفقہ قرارداد پر "ردعمل" دیتے ہوئے، الباکستان کی "پالنہار" ریاستوں میں شامل متحدہ عرب امارات کے وزیر داخلہ نے دھمکی آمیز لہجے میں "خبردار" کیا ہے کہ "پاکستان کو یہ رویہ مہنگا پڑے گا" .. دوسرے الفاظ میں "ہمارا کھانے والوں کی یہ ہمت کہ ہمارے حکم سے سرتابی کرتے ہوئے، ہمارے بندے کے باغیوں کا سر کچلنے کیلئے وہ ہتھیار ہمارے حوالے کرنے سے انکار کر دیں، جن پر ہم عرصہ دراز سے سرمایہ کاری کر رہے ہیں " ..
قارئین گرامی، "برادر اسلامی ملک" کے مقتدر وزیر کی اس دو ٹوک دھمکی کو اسی قرارداد بارے سعودی مسلح افواج کے اس "انکشاف" کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو معاملہ کافی حد تک واضح ہو جاتا ہے کہ "ہمیں اس ڈویلپمنٹ پر اعتماد میں نہیں لیا گیا اور ہمیں امید ہے کہ پاکستانی افواج یمن بحران میں ہمارا ساتھ دیں گی" .. 
ان دو تازہ ترین بیانات نے، اسی حوالے سے چند روز قبل کے دو اور بیانات بھی ہمیں یاد کرا دئیے ہیں ..
آپ کو یاد ہوگا کہ اس بحران کے آغاز میں جب السعودی فرمانروا نے اپنے باجگذار ہمارے وزیراعظم کو طلب کر کے پاکستان کے فوجی دستوں کو یمن بھیجنے کا حکم نامہ تھمایا تو وطن واپسی پر نواز شریف کے گول مول بیان پر شاہ سلطان کے ترجمان کی فوری وضاحت سامنے آگئی تھی کہ "پاکستان نے ہمیں فوجی تعاون کی یقین دہانی کرا دی ہے" ..
بعینہ اسی مفہوم کا بیان سعودی وزیر دفاع اور نائب ولی عہد پرنس مقرن کی جانب سے بھی اس وقت جاری کیا گیا جب، ابھی دو دن پہلے ہی، ہمارے وزیر دفاع نے اعلی سطحی وفد کے ہمراہ السعودیہ کے اپنے دورے سے واپسی پر اپنے وزیراعظم کی طرح اس قسم کا دوغلا بیان داغا تھا کہ "سعودی عرب نے ہم سے فوجی تعاون کی درخواست کی ہے، لیکن ہم نے ابھی تک کوئی جواب نہیں دیا"!

تلاش کیجئے