13 اپریل، 2015

دڑھ وٹ، زمانہ کٹ!

دڑھ وٹ، زمانہ کٹ،بھلے دن آون گے،مایوسی گناہ ہے،آخری فتح سچ کی ہو گی،سچ کا سورج چمکے گا تو تمام اندھیری راتیں ختم ہو جائیں گی۔ مگریہ سب خودبخودتونہیں ہوگا،کچھ توکرناہوگا، جدوجہد، تنظیم،اتحاد،قربانیاں تولازم ہیں۔
فی الحال تو نہ کوئی تنظیم ہے اور نہ کوئی لیڈر۔ لیڈرشپ کا قحط الرجال ہے اور کوئی ایسا ویسا قحط الرجال۔ ابھی تو ہمارے اپنے ہاتھوں سے قبر کھدوائی جا رہی ہے اور دفن بھی ہمارے ہی ہاتھوں سے کروایا جا رہا ہے۔ عالمی سامراجی قوتوں کا وسیع تجربہ ہے۔ انہوں نے اپنی بین الاقوامی تجارتی راہداری کا مکمل تحفظ کرنا ہے۔ یہ اہم راہداری بحر الکاہل سے شروع ہوتی ہے اور جبرالٹر کے راستے سے بحیرۂ روم میں داخل ہوتی ہے۔ جبرالٹر کے اہم مقام پر برطانیہ کا مسلح بحری بیڑہ بحری تجارت کے تحفظ کے لیے موجود ہے تا کہ یورپ کی مخالف سمت میں واقع مسلمان افریقی ممالک تجارتی راہداری میں کوئی رکاوٹ نہ ڈال سکیں۔ ان ممالک میں مراکش، الجیریا، تیونس، لیبیا اور مصر شامل ہیں۔ مصر کو تو بہت پہلے سبق سکھا کر سر نگوں کر دیا گیا۔ تیونس، لیبیا اور دیگر ممالک کو کنٹرول کیا جا چکا ہے۔ اسرائیل کی صورت میں بحیرۂ روم کے مشرق میں تجارتی راہداری کے تحفظ کے لیے مضبوط کیا جا چکا ہے۔ بحیرۂ روم سے نہر سویز میں سے ہوتے ہوئے راہداری بحیرۂ احمر میں داخل ہوتی ہے۔  بحیرۂ احمر میں مشرق کی طرف قابل اعتماد سعودی عرب موجود ہے۔ مغرب میں واقعہ مصر، سوڈان، اریٹیریا، جبوتی، ایتھوپیا کنٹرول میں لائے جا چکے ہیں۔ اب مسئلہ صرف یمن اور صومالیہ کا ہے۔ یمن کی آبنائے باب المندب انتہائی اہم ہے۔ اس پر کنٹرول تجارتی راہداری کی ضرورت ہے۔ یہ کنٹرول سعودی عرب کی سربراہی میں حاصل کیا جا رہا ہے۔ یمن کے حوثیوں نے نہ تو سعودی عرب پر حملہ کرنے کی کوئی دھمکی دی ہے اور نہ کوئی ارادہ ظاہر کیا ہے۔ سارا معاملہ بحری راہداری پر مکمل کنٹرول کا ہے۔ یمن اور صومالیہ کو منصوبے کے مطابق کنٹرول کیا جانا ہے، خواہ انہیں تقسیم در تقسیم ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ ایران بھی رابطے میں ہے کیونکہ حوثی دہشت گرد نہیں ہیں اور ان کا دم خم نکالنے کے بعد مذاکرات ہی کرنا پڑیں گے اور اس وقت حوثیوں کے ساتھ ساتھ ایران کی بھی ضرورت ہو گی۔
دیکھتے جائیے، کس کس طریقے سے یہ سامراجی منصوبہ پایا تکمیل کو پہنچتا ہے۔

تلاش کیجئے