جو ہابیل اور قابیل کی ماں جائی تھی، نسل انسانی کی امین تھی۔ اپنی شناخت بلکہ نام تک کھو بیٹھی ہے۔ اس کے تمام حقوق پر ڈاکہ ڈالا جا چکا ہے۔ اس کا نام بھی اب اقلیمہ نہیں ہے۔ اس کی ہم نسلیں اب اپنا کوئی نام نہیں رکھتیں۔ اب ان کا نام کرمداد کی بیٹی، نتھے خان کی بہن، بانے خان کی بیوی، چراغدین کی والدہ اور محمد یوسف کی دادی رہ گیا۔ گویا اقلیمہ کی ہم نسل اپنا نام برکت بی بی بھی گم کر بیٹھی۔ اقلیمہ پر اس کے اپنوں نے قبضہ جما لیا۔ مگر اقلیمہ کی ہم نسلوں نے اپنے فرض سے کوتاہی نہیں برتی۔ وہ قربان ہو ہو کر نسل انسانی کے تسلسل کو قائم رکھتی آ رہی ہیں۔ عہد وفا نبھا رہی ہیں۔ اپنا نام تک چھن جانے کی پرواہ نہیں کی۔ انہیں زندہ در گور کیا جاتا رہا۔ اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر، اپنے بدن کی شکست و ریخت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے، اپنی راتوں کی نیند حرام کرتے ہوئے، قسم قسم کے طعن و تشنیع اور بد زبانی کو برداشت کرتے ہوئے اپنے فرض منصبی کو انجام دیتی رہیں۔ انھوں نے کسی سے گلہ نہیں کیا اور نہ ہی شکریے کی امید رکھی۔ انہوں نے وفا کا سلسلہ جاری رکھا۔ سارہ، حاجرہ، آسیہ، مریم، خدیجہ، فاطمہ، زینب وفا کا ہی تسلسل ہے۔
انسانیت اس وقت تک تکمیل کا مرتبہ حاصل نہیں کر سکتی جب تک اقلیمہ کے حقوق ادا نہیں کرتی، اقلیمہ کے احسان کو نہیں مانتی۔ اقلیمہ یقینی طور پر عظمتوں کی داستان ہے-