14 اپریل، 2015

دیوارِ خوف سے دیوار امن تک

انسانی تاریخ میں دو دیواروں کو عالمگیر شہرت ملی ہے۔ ایک دیوار چین اور دوسری دیوارِ برلن۔ یہ تعبیر اس سے قبل استعمال تو نہیں ہوئی لیکن یوں کہنا بے جا نہ ہوگا کہ دیوارِ چین "دیوار امن" ہے جبکہ دیوار برلن "دیوارِ خوف" تھی ان دو دیواروں کے بعد اگر ہمارے ہاں کسی دیوار کو شہرت ملی ہے تو وہ کراچی کی دو دیواریں ہیں۔ ایک وہ جو ایم کیو ایم نے تعمیر کی اور دوسری وہ جس سے ایم کیو ایم کو لگایا جا رہا ہے۔ ایم کیو ایم کی یہی خوبصورتی جان لیوا ہے کہ اس میں قائد اور ورکر ایک ہی "صف" میں کھڑے ملتے ہیں۔ اب یہی دیکھ لیجئے جس وقت ڈاکٹر عمران فاروق قتل کے ماسٹر مائنڈ معظم علی کو کراچی سٹی کورٹ کی دیوار سے لگایا جا رہا تھا عین اسی وقت الطاف حسین نے بھی خود کو لندن کے ایک پولیس سٹیشن کی دیوار سے لگنے کے لئے پیش کردیا۔ یاد رہے کہ کل ایک بڑے بلڈر یعنی دیواریں بنانے والے بابر چغتائی کو بھی دیوار سے لگایا جا چکا جبکہ جاوید لنگڑا کی بھی دیوار سے لگائے جانے کی اطلاعات گردش کر رہی ہیں جو پاک بھارت دیوار کے اُس پار سے آیا تھا۔ ایم کیو ایم کے کو دیوار سے لگائے جانے کا عمل اس وقت سے نازک مرحلے میں ہے جب مچھ جیل کی دیوار سے لگے صولت مرزا نے پھانسی کے لئے دیوار چھوڑنے سے انکار کرتے ہوئے کچھ اہم ترین لوگوں کو دیوار سے لگوانے کے لئے سب کچھ بتانے کا اعلان کیا۔ تب سے صولت مرزا سکون سے دیوار سے لگا بیٹھا ہے اور اس کے انکشافات کی روشنی میں کراچی سے یہ اہم گرفتاریاں شروع ہوگئی ہیں۔ روز کسی نہ کسی کی گرفتاری ہوتی ہے اور روز رینجرز کسی کو 14 دن تو کسی کو 90 روز کے لئے دیوار سے لگانے لے جاتی ہے۔ ایم کیو ایم پر الزام ہے کہ اس نے سیاست کی آڑ میں جرائم کے اڈوں کی دیواریں تعمیر کیں جن سے کراچی میں دیوارِ خوف تعمیر ہوتی چلی گئی۔ کراچی کی یہ دیوار خوف ہمیشہ نواز شریف کے نشانے پر رہی ہے، گزشتہ ادوار کی طرح اس بار بھی وہ اپنے دور حکومت میں اس دیوار کو گرا رہے ہیں اور ایسی دیوارِ امن تعمیر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو کراچی کے شہریوں کو تحفظ فراہم کر سکے۔ ان کی پچھلی دو کوششیں تو ناکام رہی تھیں لیکن لندن کے ایک پولیس سٹیشن کی دیوار بتاتی ہے کہ دیوارِ خوف سے دیوار امن کا یہ سفر اس بار مکمل ہو کر رہے گا۔ دیوار برلن جیسی دیوارِ خوف کو گرنا ہی ہوتا ہے، پائیداری صرف دیوارِ چین جیسی دیوارِ امن کے حصے میں آتی ہے۔

تلاش کیجئے