سُر ہووے تے اوتھے سپ
مہک ہووے تے اوتھے سپ
دھرتی ھیٹھ ھنیریاں اندر
زر ہووے تے اوتھے سپ
جہاں جہاں بھی کوئی پر کشش و نایاب جنس، قدرتی خزائن، معدنیات،اہم محلاتِ وقوع ہوں، اور وہ کمزوروں کی ملکیت ہو ں تووہاں طاقتور قبضہ کرنے پہنچ جاتے ہیں۔ طاقتور کسی منطق کو نہیں مانتے، کسی قاعدے، کسی قانون،کے پیروکارنہیں ہوتے نہ ہی کسی قسم کی اخلاقیات سے آشنا ہوتے ہیں۔ ان کے ہاں غیرت نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی، صرف مفاد ہوتا ہے، اس دنیا میں کمزور ہونا سب سے بڑا جرم ہے۔
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جُرم ِضعیفی کی سزا، مرگ مفاجات
وارث شاہ نے بھی کہا ہے:
زورا ور نوں کرے نہ کوئی جھوٹا تے کنگال جھوٹا کر ٹول دے نی
ساک ماڑیاں دی کھو لین ڈاہڈے، ماڑے ماڑیاں دے دکھ پھؤل دے نی
یمن اور صومالیہ کا جرم یہ ہے کہ وہ کمزور ہیں تو اتنے اہم محل وقوع یعنی بحرۂ احمر، آبنائے باب المندب اور خلیج عدن پر واقع کیوں ہیں! اگر ہیں اور کمزور ہیں تو پھر سر جھکا کر رہیں، غلام بن کر رہیں، سر اٹھانے کی جرات کیوں کرتے ہیں! انہیں بحرۂ روم اور بحرۂ احمر کی بین الاقوامی تجارتی راہداری پر واقعہ کمزور ملکوں کے حشر سے سبق سیکھنا چاہئے۔
اگر سر اٹھا کر جینا ہے جو ہر ایک کا فطری حق ہے تو کمزوری دور کرو، طاقتور بنو، کمزوروں کا اتحاد قائم کرو۔