29 جون، 2015

دو انتہائیں, TWO EXTREMES

ہمارے ہاں عمومی طور پر دو قسم کی انتہائیں ہیں۔ ایک انتہا کا تعلق مذہب سے ہے، یہ چھوٹی چھوٹی باتوں میں اپنی من پسند مذہبی یا فرقہ وارانہ توجیحات کو لے آتے ہیں۔ ان کے ہاں عدم برداشت عام ہے، یہ ہر قیمت پر اپنی بات نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے ہاں مذہب کے حوالے بہت ہوتے ہیں مگر اکثر کا دارومدار روایات اور زیادہ سے زیادہ احادیث پر ہی ہوتا ہے، قرآن سے حوالہ شاذو نادر ہی ہوتا ہے اور اگر ہوتا بھی ہے تو سیاق و سباق سے الگ تھلگ اور اپنے اپنے فرقے کی پسندیدہ روایات کے ساتھ۔ یہ لوگ اس دنیا سے زیادہ اگلی دنیا کی باتوں میں مگن رہتے ہیں، ایسی باتوں سے ملا کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں۔ ان کی باتوں سے بعض اوقات ایسے لگتا ہے کہ جیسے اللہ تعالی نے انسان کو دنیا میں محض غصل اور ہاتھ، منہ اور پاؤں وغیرہ دھونے کے طریقے سیکھنے اور کچھ ورد وظیفے یاد کرنے کے لیں بھیجا ہوا ہے، یہ لوگ علّت و معلول (Cause and Effect) کو شاذ و نادر ہی مانتے ہیں۔ عورت پر اعتماد نہیں کرتے، اسے انسان اگر مانتے بھی ہیں تو صرف آدھا، انہیں پردوں، برقعوں، چادروں اور سکارفوں میں چھپا چھپا کر رکھتے ہیں، عورتوں کا واحد کام روایات پر مبنی مذہبی رسومات ادا کرنا رہ جاتا ہے۔ یہ لوگ عمومی طور پر شدت پسند ہوتے ہیں، اپنے آپ کو مکمل طور پر درست اور دوسروں کو مکمل طور پر غلط سمجھتے ہیں، اپنے نام نہاد نظریات دوسروں پر ٹھونسنا چاہتے ہیں۔ ان کے ہاں برداشت کا فقدان ہوتا ہے۔ بحث و مباحثہ سے دور بھاگتے ہیں اور صرف اپنی بات منوانا چاہتے ہیں۔
دوسری انتہا ان لوگوں کی ہے جو مذہب سے عاری، مادر پدر آزاد اور ماڈرن کہلوانے کو باعث فخر سمجھتے ہیں۔ یہ اپنے آپ کو سائنسی سوچ کے حامل اور اعلی دانشور گردانتے ہیں۔ انہوں نے کبھی نہ قرآن پڑھا ہوتا ہے اور نہ سمجھا ہوتا ہے۔ یہ مذہب کو محض ملا کا فراڈ اور قرآن کو ملا کی کتاب سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ ان کے ہاں ماڈرن کہلوانے کیلے  ہر انتہا جائز ہے۔ بکھرے بال، پھٹے اور گندے کپڑے، ننگ دھڑنگ لباس، نشے میں بدمست ہونا سب کچھ جائز ہے۔ یہ بھی اپنے علاوہ سب کو جاہل مطلق سمجھتے ہیں۔ ان میں ایک اور طبقہ ہے جو خود کو صوفیا کے پیچھے چھپاتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام انسان مل جل کر رہیں، تحمل و برداشت سے کام لیں۔ ماڈرن اور ترقی پسند لوگ قرآن کو ملا کی کتاب نہ سمجھیں، خود سے پڑھیں اور سمجھیں اور اس سب سے بڑے انقلاب کی کتاب کو ملا اور فرقہ پرستوں کے قبضہ سے آزاد کروائیں۔ یہ وہ کتاب ہے جس نے تہذیب و تمدن سے عاری صحرا نوردوں کو دنیا کی عظیم ترین قوم بنا دیا۔ افسوس کہ شہنشاہوں کے دسترخوان پر پلنے والے ملاؤں نے اسے انقلاب کی کتاب کی بجاُے محض رسومات اور مردے بخشوانے والی کتاب بنا کر رکھ دیا ہے۔ اہل دانش آگے بڑھیں اور اس کے اصل اور حقیقی اسباق کو سامنے لائیں۔
اس کتاب کے مطابق مسلمان امت وسطی ہیں یعنی دونوں انتہاؤں کے بیچ میں Balanced between the two extremes.

مکمل تحریر >>

"احتساب"؛ کوئی معیار بھی ہے؟؟.

 لیجنڈ بهٹو کے خلاف پی این اے کی صورت میں کهل کر سامنے آنے والے "ملا، ملٹری الائنس" کی طرف سے سیاسی عمل کی بحالی کو نام نہاد "احتساب" کے ساتھ مشروط کرنے کے نتیجے میں ہمارے "خود قابل احتساب" خاکیوں کے ہاتھ ملک و قوم پر اپنا "تسلط" مضبوط سے مضبوط تر کرنے کا جو مقبول عام نسخہ لگا، اس نے اس وقت اتنی فعالیت حاصل کر لی ہے کہ کوئی ان اہم ترین نکات بلکہ سوالات کی طرف ذرا بهر توجہ دینے کو تیار نہیں ...
1. سیاست دانوں اور بیوروکریسی کا "احتساب" عدلیہ اور عوام کا اختیار ہے یا ملکی دفاع اور امن و امان کے ذمہ دار اداروں کا.؟
2. احتسابی صفائی کا عمل اپنے گهر سے شروع ہوتا ہے یا گهر کا "گند" وہیں چهوڑ کر پڑوسی کے "دالان" سے.؟
3. "ٹارگٹڈ احتساب" کی کرڈیبلیٹی کیا رہ جائے گی؛ بالخصوص جب "محتسبین" کا اپنا حال "دامن نچوڑ دیں تو شیطان غسل کریں" جیسا ہی ہو.؟
4. "ون ملین ڈالرز" کا سوال یہ کہ؛ ہم نے اب تک احتساب کے نام پر سیاسی مخالفین کو دیوار سے لگانے کے سابقہ تمام تجربات کے تلخ ترین نتائج سے کوئی سبق حاصل کیوں نہیں کیا.؟
آخر میں ہم اپنے قارئین سے درخواست کریں گے کہ مذکورہ بالا نکات و سوالات پر غور فرماتے وقت سابق صدر آصف علی زرداری کے "نعرہء مستانہ" کے ان نکات کو بھی ضرور ذہن میں رکهیں ..
1. ہم جانتے ہیں کہ کالعدم تنظیموں کو دعوت کون دیتا ہے اور اب بھی ان کی پشت پر کس کا ہاتھ ہے ..
2. ہم نے لسٹ بنائی تو اس میں 1947 سے لے کر اب تک کے بڑے بڑے "متقین" کا نام آ جائے گا ..
مزید برآں؛ ملکی میڈیا میں "کل" کی گئی لیکن انٹرنیشنل میڈیا کی زینت بننے والی یہ "اطلاع" بهی قابل توجہ ہے کہ "پاکستان کے خفیہ اداروں نے بی بی سی کی منت سماجت کر کے ایم کیو ایم اور "را" کے تعلقات کی خبر خود چلوائی ....
مکمل تحریر >>

کائناتی ارتقاء اور تسخیر و تعمیر

کائنات ارتقاء کے عمل کے ساتھ اپنی اعلی منازل کی طرف رواں دواں رہتی ہے اور جہاں ایسی رکاوٹ آتی ہے اسے مختلف قدرتی طریقوں سے دور کرکے آگے بڑھ جاتی ہے۔ ان رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیی وقتی طور پر تعمیر کی بجائے قدرت کو تسخیر بھی کرنا پڑ جاتی ہے۔ البتہ تسخیر کے بعد ارتقاء کا عمل بہتر درجے پر فائز ہو جاتا ہے۔ رکاوٹیں فرعونی، ہامانی اور قارونی قوتیں پیدا کرتی رہتی ہیں اور ایک مایوسی و بے بسی کی صورت پیدا کر دیتی ہیں۔ عوام الناس سمجھنے لگتے ہیں کہ وہ جکڑے جا چکے ہیں، امید کی کوئی کرن بظاہر نظر نہیں آتی۔ قربانیاں رائیگاں جا رہی ہوتی ہیں، لوگ ہمت ہار جاتے ہیں، کوئی امید کی کرن نظر نہیں آتی۔ ایسے حالات میں قدرت اعلان کرتی ہے کہ کائنات کے ارتقائی عمل کو کوئی نہ روک سکتا ہے اور نہ جکڑ سکتا ہے، مایوسی گناہ ہے۔ ایسی صورت میں ارتقاء کی دائمی معاون ملکوتی قوتوں میں سے کوئی ایک تسخیر کے عمل کے ذریعے رکاوٹوں کو تہس نہس کرکے دوبارہ سے تعمیر کی راہ ہموار کر دیتی ہیں۔ اس طرح ارتقاء  جاری و ساری رہتا ہے۔ عام طور پر کم از کم چار ایسے طریقے ہیں جو حالات کے مطابق اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ مندرجہ ذیل ہیں۔
DEATHموت 
DISEASE بیماری
DISASTER قدرتی آفت
DESTRUCTION by invaders تباہی بذریعہ بیرونی حملہ آور
چاروں طریقے انگریزی کے حرف "D" سے شروع ہوتے ہیں۔ یہ سب طریقے تباہی و تسخیر کے ذریعے رکاوٹوں کو دور کر دیتے ہیں اور انسانوں کو دعوت دیتے ہیں کہ آؤ اپنا کردار ادا کرو، ارتقاء کے عمل کو تیز تر کر دو۔
یوں یہ بظاہر تسخیری قوتیں ایک نعمت بن جاتی ہیں۔ یوں موت ایک نعمت ہے، یہ بڑے بڑے جابروں اور فرعونوں کو چاروں شانے چت کر دیتی ہے، نشان عبرت بنا دیتی ہے۔ غور کیجئے کہ اگر موت نہ ہوتی تو شائد اب تک فرعون ہوتے، Ramses موجود ہوتا، تمام وسائل پر قابض ہوتے ہوتے نسل انسانی کے ہی خاتمے کا سبب بن جاتا۔ 
بعض اوقات ایسی بیماریاں پھیل جاتی ہیں جو بڑے بڑے حکمرانوں اور ان کے خاندانوں کو ختم کرکے ترقی و ارتقاء کی نیم نیت راہیں ہموار کر دیتی ہیں۔
اسی طرح قدرتی آفات مثلاً زلزلے، سیلاب، سونامی، سمندری و صحرائی طوفان جکڑ بندیاں توڑ دیتے ہیں۔
بعض اوقات ایک ظالم و جابر کے مقابلے میں کہیں باہر سے دوسرا اس سے بھی بڑا ظالم حملہ آور کی صورت میں آ جاتا ہے اور تمام جابرانہ نظم و نسق تباہ کرکے تعمیر نو اور ارتقاء کی راہ ہموار کرکے چلا جاتا ہے۔ بعض اوقات یہ عرصہ کچھ طویل بھی ہو جاتا ہے لیکن دوبارہ سے بننے والا نظم و نسق پہلے سے بہت بہتر ہوتا ہے۔
ان چاروں طریقوں کی بے شمار مثالیں تاریخ عالم میں موجود ہیں۔
اس طرح یہ کائنات کامیابی کے ساتھ اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہے۔ اور جو اس کی تباہی و خاتمے کے فتوے جاری کرتے رہے ہیں وہی مایوس ہوئے ہیں۔ 
انسان کا کام ارتقاء کے عمل میں حصہ لینا ہے، اسے تیز تر کرنا ہے۔ اس طرح انسان ارتقاء کائنات کے لئے ہے، تسخیر کائنات کے لئے نہیں ہے۔ البتہ شیطانی قوتوں کی تسخیر ضروری ہے، یہ انسان کرے یا اس کی مددگارملکوتی و کائناتی قوتیں کریں جو ہمیشہ حق کا ساتھ دیتی ہیں۔ انسان تو ارتقاء کے لئے ہے۔ کیونکہ تسخیر تو شیطانی قوتیں کرتی ہیں، سکندر یونانی کرتا ہے اور تعمیری کام ذوالقرنین کرتا ہے جو غرباء کو یاجوج و ماجوج کی لوٹ مار سے محفوظ کرنے کے لئے  سیسہ پلائی ہوئی دیوار تعمیر کرتا ہے۔ 
خلاصہ یہ کہ مایوسی گناہ ہے، یہ کائنات شیطانی قوتوں کے ہاتھوں تباہ ہونے کے لے  نہیں بنی۔ یہ کامیابی کے ساتھ آگے کی منزلوں کی جانب رواں دواں رہی ہے اور رہے گی۔
مکمل تحریر >>

28 جون، 2015

اعوان قاری، اور آپ بیتی؛

ہماری داستان حیات
اجڑنا، بسنا، پھر اجڑنا، پھر بسنا ہماری حیات کی داستان ہے۔ گھومنا پھرنا، ہجرت کرنا ہمارے کنبے کی داستان ہے۔ 
چین و عرب ہمارا، ہندوستاں ہمارا
مسلم ہیں ہم، سارا جہاں ہمارا
ہم عرب سے چلے، ہرات، افغانستان میں بس گئے۔ غزنوی کے لشکروں کے ساتھ ہندوستان آ گئے۔ ہمیں دو ہی تو کام آتے تھے۔ جنگ اور قرآن کی تلاوت۔ اسی لئے ہمیں اعوان قاری کہا جاتا ہے۔ سینے میں قرآن اور ہاتھ میں تلوار ہماری شناخت بن گئی۔ ہم حیدر کرارؓ اور امّ النبین کے بیٹے دنیا بھر میں پھیل گئے۔
پلٹنا جھپٹنا، جھپٹ کر پلٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
ہمارے کنبے کیافراد کو بسنے کے لئے ھندوستان کے شمالی اور شمال مغربی علاقے زیادہ پسند آئے۔
ہمارے آباؤ اجداد چلتے چلتے دریائے بیاس اور دریائے ستلج کے دوآبہ میں جا بسے۔ یوں ہم عرب کے باسی ہوشیارپوری بن گئے۔ لیکن گھومنا پھرنا جن کی سرشت میں ہو، انہیں چین کہاں۔ ہمارے جدّ امجد، کریم بخش ہوشیار کی تحصیل دسوعہ کے گاؤں مہدی پور کو چھوڑ کر سیالکوٹ اور جموں کے درمیان میں واقع گاؤں راجہ ہرپال میں آ کر بس گئے۔ یہ 1947 سے بہت پہلے کا واقعہ ہے۔ یہ گاؤں پاکستان اور ہندوستانی مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر کی سرحد پر واقع ہے۔ اس سرحد کو آجکل ورکنگ باؤنڈری کہا جاتا ہے۔
تقسیم ہندوستان کی تباہ کاریاں ہماری چشم دید ہیں۔ اس آمریت کے مارے ہوئے پاکستان کے لئے مسلمانوں نے بے مثال قربانیاں دی ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ بارڈر پر ایک پاگل عورت چلا رہی ہوتی تھی اور پوچھتی پھرتی تھی؟
مارے گئے میرے ست جوان
اجے نئیں بنیا پاکستان؟
میرے پاس اس کے سوال کا کل کوئی جواب تھا نہ ہی آج ہے۔
پھر 1965 کی جنگ چھڑ گئی۔ ہم راجہ ہرپال میں یہ خواب دیکھنے لگے کہ جمّوں فتح ہو گا تو ہم گاؤں نیکووال میں اپنی والدہ کے ساتھ اپنے نانا اللہ بخش اور نانی بیگم بی بی کی قبروں کی زیارت کریں گے۔واضع رہے کہ ہماری والدہ کا تعلق ضلع جمّوں کے گاؤں نیکووال سے تھا۔ مگر ہماری قسمت میں یہ نہ لکھا گیا تھا۔
پھر 7 اور 8 ستمبر 1965 کی گولہ باری سے لرزتی ہوئی رات گزری، فجر کے وقت پتہ چلا کہ ہم زیر نگیں ہو گئے ہیں اور بھارتی فوجیں چونڈہ تک پہنچ چکی ہیں جو کہ بارڈر سے دس بارہ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ تمام ٹرانسپورٹ بھارتی فوج کے قبضہ میں جا چکی تھی۔ ایک دم بھگدڑ مچ گئی۔ کچھ سمجھ نہ آتا تھا کہ کیا کیا جائے، کدھر کا رخ کیا جائے۔ میرے پاس اپنی سکول والی بائیسائکل تھی۔ والدہ نے حکم دیا کہ میں اپنے سب سے زیادہ قیمتی اثاثے یعنی اپنے چھوٹے بھائی محمد یونس اعوان کو ساتھ لیکر سیالکوٹ شہر سے مغرب میں واقع گاؤں بسنت پور کی طرف روانہ ہو جاؤں۔ انہوں نے ایک دیگچے میں کچے چاول ڈال کر بائیسائکل کے کیریر پر باندھ دئے۔
یوں ہم اپنے چھوٹے بھائی کو سائیکل پر بٹھا کر بھارتی فوج کے مقبوضہ علاقے میں سے گزرتے ہوئے بسنت پور پہنچ گئے اور باقی افراد خانہ کا انتظار کرنے لگے، جنہوں نے مویشیوں سمیت پیدل آنا تھا۔ 
جنگ کے بعد معاہدہ تاشقند طے پایا۔ چھ ماہ بعد ہم اجڑے ہوئے گھروں کوواپس لوٹے اور پھر سے بسنے کی تیاری کرنے لگے۔ یوں بسنا اور اجڑنا اور پھر بسنا گویا ہماری ریت ٹھہری۔ یوں ہم 1971 میں پھر جزوی طور پر اجڑے اور بسے۔ اب بھی آئے دن گولہ باری ہمارا مقدر بن چکی ہے۔ اس طرح ہم بے سروسامانی اور بے گھری کے تجربات کے عادی بن چکے ہیں۔ ہم با ہمت لوگ ہیں اور مشکلات سے گبھراتے نہیں بلکہ لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اعوان قاری ہے اور جنگجو ہے۔
مکمل تحریر >>

آدم: ایک شخص یا نوعِ انسانی کا نام؟


ADAM: Name of one Person OR Name of Human Specie
ایک سوال، ایک بحث!
سوال یہ ہے کہ اگر آدم محض ایک شخص کا نام ہے اور حوا اسی کی پسلی سے پیدا کی گئیں اور سب انسان ایک اسی آدم کی اولاد ہیں تو یہ الگ الگ رنگ اور نسلیں کیوں ہیں؟ ان میں کالے، گورے، گندمی کیوں ہیں؟ کالوں کے کئی کالے رنگ (شیڈ) کیوں ہیں؟ گوروں کے فرق فرق گورے رنگ کیوں ہیں؟ گندمی رنگ کی اتنی زیادہ قسمیں کیوں ہیں؟
بعض لوگ کہتے ہیں کہ آب و ہوا کی وجہ سے ہے۔ گویا گرم علاقوں کے لوگوں کا رنگ کالا ہو گیا ہے اور سرد علاقوں کے لوگوں کا گورا۔
مگر ہم دیکھتے ہیں کہ جن لوگوں کا رنگ ابتدائی طور پر کالا تھا اور وہ گرم علاقوں مثلاً افریقہ کے تپتے صحراؤں سے یورپ اور امریکہ کے انتہائی سرد علاقوں میں آ گئے، برفباری والے علاقوں میں آگئے، گئی صدیاں بیت گئیں، گئی نسلیں بدل گئیں، کئی تو پیدا ہی سرد علاقوں میں ہوئے مگر ان کے رنگ کالے کے کالے ہی رہے، کوئی فرق نہ پڑا۔
اسی طرح جو گورے یورپ سے آ کر جنوبی افریقہ اور آسٹریلیا میں آباد ہو گئے، ان کی کئی نسلیں ان گرم علاقوں میں پیدا ہو ہو کر پروان چڑھتی رہیں مگر وہ گورے ہی رہے، گرمی سے ان کا کچھ نہیں بدلا۔ اور اگر کچھ بدلا تو باہم شادیوں کی وجہ سے۔
ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ مختلف رنگوں اور نسلوں کے انسان کرۂ ارض پر ہر جگہ موجود تھے۔ ابتدا میں جب انسان کو کرۂ ارض کے تمام بر اعظموں اور جزیروں کا علم نہ تھا اور بتدریج نسبتاً زیادہ ترقی یافتہ انسان جہاں جہاں بھی پہنچا، اس نے نئی دنیائیں دریافت کیں لیکن جہاں بھی پہنچا وہاں انسان کو موجود پایا۔ یورپ کے سفید فام انسانوں نے امریکہ اور جزائر غرب الہند دریافت کئے تو وہاں انسان موجود تھے چھ سو سے زیادہ زبانیں بولی جاتی تھیں گویا چھ سو قسم کا تہذیب و تمدن موجود تھا کو کہ وہ سفید فاموں کی نسبت ایجادات میں ابھی پسماندہ تھے۔ اسی طرح سفید فام آسٹریلیا پہنچے تو وہاں بھی انسان موجود تھے۔
تو پھر کیا ہم سمجھ سکتےہیں کہ آدم ایک شخص کا نام نہیں بلکہ ایک نسل Specie کا نام ہے۔ یہ نسل ایک ہی وقت میں پورے کرۂ ارض پر پیدا ہوئی، قسم قسم کی مٹی Soil سے پیدا ہوئی اور جس جس مٹی سے پیدا ہوئی اس کے کیمیائی اجزا کے لحاظ سے اس کے رنگ و نسل بنے۔ افریقہ کی مٹی میں لوہے کی بہتات تھی اس لیے رنگ کالے بن گئے اور جہاں کی مٹی میں سلفر اور فاسفورس زیادہ تھی ان کے رنگ گورے اور گندمی ہو گئے؟؟؟
واضع رہے کہ آدم ایک نسل کا نام ہے، یہ صرف مرد نہیں ہے بلکہ عورت بھی آدم ہے۔ یہ بھی واضع رہے کہ حوا کا ذکر اور اس کے آدم کی پسلی سے پیدا کئے جانے کا ذکر موجودہ بائیبل میں تو ہے لیکن قرآن میں سرے سے ہی موجود نہیں ہے۔
مزید یہ کہ قرآن مجید کی سورۂ نوح کی آیت نمبر 17 میں ہے "انسان کو زمین میں سے نباتات کی طرح اگایا گیا"
خردمند غور کریں اور مزید روشنی ڈالیں؟؟
مکمل تحریر >>

سرائیکی صوبہ کی مخالفت؛ کوئی جواز تو ہو..!

کہتے ہیں قدرت بعض اوقات کسی گرتی ہوئی "قوم" سے کوئی ایسی "غلطی" کروا دیتی ہے، جو اسے سنبهلنے کا موقع فراہم کر دے ..
غیر فطری طور پر بڑے صوبہ پنجاب پر قابض شرفائے جاتی امرا اور ان کی سرپرست "اسٹیبلشمنٹ" کو پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی جانب سے آٹھویں جماعت کی جغرافیہ کی کتاب میں ملک کی صوبائی تقسیم کے نقشہ میں سرائیکی وسیب پر مشتمل صوبہ "سرائیکستان" کی اشاعت کو "نوشتہ دیوار" جان کر سابق زرداری دور میں ایوان بالا "سینیٹ آف پاکستان" سے منظور شدہ قرارداد کو قومی اور پنجاب اسمبلی دونوں سے بهی منظور کروا کر سرائیکی وسیب میں نئے صوبے کے قیام کا "سیاسی ثواب" حاصل کرنے کا سنہری موقع ہاتھ سے نہیں گنوانا چاہئیے ..
یاد رکهئے؛ ملک و قوم کیلئے سودمند یہ نیک کام اب ہوگیا تو بخیر و خوبی انجام پائے گا، ورنہ ایسا ایک دن تو ہونا ہی ہے، بهلے "پعد از خرابئی بسیار" ہی سہی ...
جنوبی پنجاب میں لسانی، ثقافتی یا چلئے انتظامی بنیاد پر ہی سہی، نئے صوبے کا قیام وقت کا ناگزیر تقاضا ہے؛
دریافت دنیا کی سماجی تاریخ گواہ ہے کہ پنجاب جیسے بڑے یونٹ انتظامی نااہلی کی وجہ سے وفاق کی کمزوری اور ارتکاز معیشت کے نتیجے میں انحطاط اقتصادیات کا سبب بنتے ہیں؛ 
جبکہ چھوٹے چھوٹے یونٹ ہی اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کے بعد انتظامی خوبیوں سے معمور "گڈ گوورننس" کی بنیاد فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ مقامی وسائل کو مقامی سطح پر بروئے کار لا کر اجتماعی اقتصادیات کو بهی علی النتیجہ مستحکم کردیا کرتے ہیں ...
ہمارے سرائیکی بهائیوں کو بهی پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی اس "غلطی" کے ردعمل میں نواز لیگی رانا ثنائاللہ اور تحریک انصافی محمودالرشید دونوں کی طرف سے "سرائیکستان" کے خلاف منافقانہ بیان بازی سے سبق سیکھتے ہوئے ان دونوں پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے اپنے نام نہاد "نمائندگان" کے سماجی بائیکاٹ کا فیصلہ اور اعلان کر دینا چاہیے ...
یاد رہے کہ پنجاب اسمبلی میں "سرائیکستان" کے خلاف پیش کردہ "قابل مذمت قرارداد" کے دوران اسمبلی میں موجود تمام سیاسی پارٹیوں کے پارلیمانی گروپس میں سے صرف پاکستان پیپلزپارٹی کے پارلیمانی لیڈر کو ہی منتخب ایوان کے فلور پر اپنی پارٹی کے دیرینہ موقف کا اعادہ کرتے ہوئے، اس غیر ضروری قرارداد کی مخالفت اور وسیب میں علیحدہ صوبہ کی حمایت کی سعادت نصیب ہوئی؛ جبکہ وسیب سے تعلق رکھنے والے باقی سب منتخب نمائندے "تخت لہور" کی دائمی غلامی کا طوق گلے میں ڈال کر "حق نمک" ادا کرتے دکھائی دئیے ...
اندریں حالات؛ سرائیکی وسیب پر مشتمل الگ صوبے کی مخالفت میں پیش پیش ہمارے پنجابی بهائیوں کو بهی اپنے طرز عمل پر نظر ثانی کرتے ہوئے، ملک و قوم کے وسیع تر مفاد کو اپنی "انا" کی بھینٹ چڑهانے کی روش فوری طور پر ترک کر دینی چاہئے ...
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں۔
مکمل تحریر >>

27 جون، 2015

بے کس و مظلوم، قیادت سے محروم؛

پاکستان بالخصوص پنجاب میں تبدیلی آ نہیں رہی بلکہ تبدیلی آ چکی ہے۔ وہ طبقہ جس کے ووٹوں سے پاکستان بنا تھا، مسلم لیگ جیتی تھی، قائداعظم محمد علی جناح ایک نیا ملک تخلیق کرنے میں کامیاب ہوئے تھے، اس طبقے کا عمل دخل ختم ہو گیا۔ اس طبقے کو پہلے اس کے ہر دلعزیز عزیز راہنما قائد اعظم سے محروم کیا گیا پھر مارشل لاء کی حکومتوں نے اس کی پارٹی مسلم لیگ پر قبضہ کر لیا۔ اب اس طبقے کی نہ کوئی پارٹی رہی اور نہ کوئی لیڈر۔ پھر 20 سال بعد 1967 میں ایک پارٹی بنی، ایک لیڈر میدان میں آیا، لیڈر نیا تھا، پارٹی کا نام نیا تھا لیکن پروگرام ان کی قبضہ شدہ پارٹی والا تھا۔ نئے لیڈر کا جذبہ و جنون اور خلوص قائداعظم والا تھا۔ واضع رہے کہ یہ طبقہ بہت مردم شناس اور جان نثار ہوتاہے۔ تمام انقلابوں کی پشت پر اسی طبقے کی جاں فشانیاں ہوتی ہیں۔ اب انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کو اپنی پارٹی اور ذوالفقار علی بھٹو کو اپنا لیڈر دل وجان سے تسلیم کر لیا۔ بھٹو نے مارشل لاء کو ویسے ہی للکارا جیسے قائداعظم برطانوی سامراج اور ہندو کی منافقتوں کوللکارا کرتے تھے۔ اب اس طبقے اور اس کے لیڈر پر وہی پرانے حملے شروع ہو گئے۔ اس طبقے کو جاہل، ان پڑھ اور بے وقوف کہا جانے لگا۔ ان کے لیڈر پر طرح طرح کے فتوے لگنے لگے مگر اب قافلہ رواں دواں ہو گیا، بھٹو جیت گیا۔ پھر بھٹو کے خلاف سازشیں شروع ہو گئیں۔ بھٹو نے مارشل لاء زدہ پاکستان کو پٹڑی پر چڑھا دیا، غریبوں کو عزّت نفس کا احساس دلایا۔ لیکن کب تک برداشت کیا جاتا۔ ایک اور ماشل لاء لگا دیا گیا اور ایک نئے انداز سے بھٹو کو شہید کر دیاگیا، غریبوں کی امید کی کرنوں کو بجھا دیا گیا، اب جان نثاران بھٹو نے اپنی امیدوں کامحور بھٹو کی ہونہار بیٹی بینظیر کو مان لیا۔ اس جان نثار طبقے نے بھٹو کی بیٹی کا بھرپور ساتھ دیا۔ پھانسیاں قبول کیں، زندانوں کی سختیاں برداشت کیں، 65000 کوڑے کھائے اور آخر کار طویل جدوجہد کے بعد اپنی ہر دالعزیز لیڈر بینظیر کو وزیراعظم بنا دیا۔ مگر ظالموں نے بینظیر کو بھی شہید کر دیا۔ 
آجکل پھر ایک نئی پارٹی انقلاب کے نعرے لگا رہی ہے، اس پارٹی کو ہر طرح کی مدد حاصل ہے۔ نہ جیل کا ڈر، نہ کسی پھانسی، کوڑے کا ڈر۔ بلکہ دندناتی ہوئی ہر کس و نا کس کو ڈرا رہی ہے۔ یہ سب باتیں تو اپنی جگہ مگر اب وہ طبقہ کہاں غائب ہو گیا جو قائداعظم، بھٹو اور بینظیر کے ساتھ ہوتا تھا۔ وہ ننگے پاؤں والے، پھٹے پرانے کپڑوں والے، بکھرے بالوں والے، ٹوٹے پھوٹے گھروندوں، ٹپکتی چھتوں اورجھونپڑیوں کے مکین، وہ قافلہءِ عشق کے راہی، جانوں پر سے گزر جانے والے، گندی گلیوں کے رہنے والے، وہ مٹی کے مکین، کہاں ہیں؟ کہاں ہیں؟ وہ جو بینظیر کی گاڑی کے ساتھ ساتھ میلوں تک والہانہ طور پر بھاگتے رہتے تھے اور جس راستے سے بینظیر کا قافلہ گزرا ہوتا تھا، میلوں تک دیوانوں اور جنونیوں کے ٹوٹے پھوٹے جوتے بکھرے پڑے ہوتے تھے۔اور اب وہ غریب و بے کس کہاں ہیں؟ ان کی پارٹی کون سی ہے؟ ان کا لیڈر کون ہے؟ 
چلیں مبارک ہو ان سب کو جو ایسی پارٹی کو ختم کرنا چاہتے تھے۔
لیکن یہ واضع ہے کہ جب کبھی یہ طبقہ جاگ پڑا اور کوئی ان کی امیدوں کا مرکز قرار پا گیا تو پھر ضمیر ارض پہ ذروں کو مشتعل پا کر بلندیوں پہ سیاہ وسفید مل جائیں گے گویا پھر نو 9 نہیں شاید اٹھارہ پارٹیاں گٹھ جوڑ قائم کر لیں۔اور اس گٹھ جوڑ میں عمران و نواز بھی شامل ہوں گے۔
مکمل تحریر >>

26 جون، 2015

سیکولر ازم کسی معنی میں بهی لادینیت نہیں ہے ..!

"سیکولر ازم کسی معنی میں بهی لادینیت نہیں ہے ..!
ہمارے ہاں "سیکولرازم" کو غلط طور پر "دہریت" کے مفہوم میں لیا جاتا ہے جبکہ نص صریح کی رُو سے "سیکولرازم" سے مراد ریاستی امور میں مذہب کے عمل دخل کی ممانعت اور افراد کیلئے اپنے عقیدہ پر قائم رہتے ہوئے دوسروں کے عقائد سے چھیڑ چھاڑ پر پابندی کے سوا کچھ بهی نہیں۔۔
یاد رکھئے؛ صدیوں کی سماجی تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ کوئی بھی قوم سیکولرازم اختیار کئے بغیر شاہراہ ترقی پر پہلا قدم بهی نہیں رکھ سکتی؛ جبکہ وطن عزیز میں اس رویے کی جتنی ضرورت آج ہے پہلے کبھی نہ تھی۔
پاکستان کی 68 سالہ تاریخ بالخصوص "امریکی جہاد افغانستان" سے شروع ہونے والے گذشتہ 35 سالہ تلخ ترین تجربات و حوادث اور ان کے نتیجے میں مذہبی انارکی اور معاشرتی لاقانونیت کے بعد بهی کوئی اگر کسی بھی قسم کی "شریعت کے نفاذ" سے کوئی توقعات وابستہ کئے بیٹھا ہے تو اسے اس حقیقت پر غور ضرور کرنا چاہئے کہ "اب جبکہ ہم وزیراعظم کے انتخاب سے لے کر آرمی چیف اور چیف جسٹس آف پاکستان جیسے حساس عہدوں پر تعیناتی جیسے امور پر بهی طالبان کی کامل رضامندی اور پیشگی منظوری کے بغیر فیصلہ کرنے میں آزاد نہیں رہ گئے تو مزید کس "نفاذ شریعت" کی تلاش باقی ہے ..؟؟
یقین کیجئے قارئین گرامی؛ پاکستان جیسے کثیر العقائد معاشرے میں کسی بھی 'بہترین فقہ" کی دیگر تمام پر بالادستی کا منطقی نتیجہ موجودہ "طالبانی جمہوریت" سے کسی بهی صورت میں بہتر برآمد ہو نہیں سکتا ..
اندریں حالات؛ اگر ہم موجودہ بدترین صورتحال میں کوئی مثبت تبدیلی کی فکر میں ہیں تو ہمیں صرف اور صرف اس سوچ اور نظریہ کی ترویج کی طرف توجہ دینا ہوگی کہ "مذہب کو کسی بھی طرح ریاستی امور سے کلی طور پر بے دخل کرکے سیاسی طلاق دے دی جائے ..!
مکمل تحریر >>

اسلام اور سیاسی نظام

اسلام نے سیاسی یا حکومتی نظام وضع کرنے کے اصولوں کا تعین کیا ہے اور کوئی مخصوص سیاسی نظام نہیں دیا۔ البتہ سیاسی یا حکومتی نظام ان سنہری اصولوں کے تحت وضع کیا جا سکتا ہے، نام سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ قرآن حکیم نے حضرت داؤدؑ ، حضرت سلیمانؑ، ذوالقرنین کی حکومتوں کا اچھے الفاظ میں ذکر کیا ہے۔ یہ قبائلی زمانے کی بادشاہتیں تھیں اور اچھے اصولوں پر قائم تھیں اور جب بعد میں آنے والے ان اصولوں کو قائم نہ رکھ سکے تو یہ حکومتیں ختم ہو گئیں۔ اس طرح اصولوں کو اہمیت حاصل ہے۔
اصول مندرجہ ذیل ہیں:
1.  صداقت
2.  امانت یا ایمانداری
3. ایسا معاشی نظام جو ہر بشر کو آبرومندانہ طریقے سے پال سکے۔ 
4.  ایسا نظام جس میں حکمران ہر ایک کو جوابدہ ہو۔ اور اس سے کسی کو خوف و خطر نہ ہو۔
5.  ایسا نظام جو پُرامن انتقالِ اقتدار کی ضمانت دے۔
(بد قسمتی سے مسلمانوں کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ جہاں حکمرانوں کی تبدیلی جنگ و جدل اور قتل و غارت کے ذریعے ہی ہوتی رہی یعنی جس کی لاٹھی، اس کی بھینس۔ حتیٰ کہ  چار میں سے تین خلفائے راشدین کو بھی شہید کیا گیا)۔
6. مساویانہ نظام عدل ییند سب کے  لئے یکساں قوانین اور یکساں عدل۔
ان اصولوں اور مقاصد کو قرآن کی زبان میں اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے۔
A. برّب الناس 
ایسا نظام میشت  جو تمام انسانوں کو پال سکے یعنی صحیح معنوں میں "عوامی معیشت"
B. مالک النّاس
ایسا نظام حکومت جس کے مالک تمام انسان ہوں یعنی خدائی قوانین کے تحت تمام انسانوں کی شرکت۔ دوسرے لفظوں میں صحیح معنو ں میں "عوامی حکومت"
C. الٰہ النّاس
ایسا نظام عدل جس میں بلا تفریق قوانین ہوں۔ "یکساں عوامی عدل"
مندرجہ بالا اصولوں کی بنیاد پر سیاسی نظام وضع ہونا چاہیے۔ بد قسمتی سے مسلمان اب تک کوئی پائیدار نظام وضع نہیں کر سکے۔ ہر طرف خوف مسلط ہے۔ ایک اہم ملک میں بادشاہت ہے تو دوسرے اہم ملک میں اسلام کی من پسند توجیحات کے ساتھ مذہبی آمریت مسلط ہے۔ 
قرآن کریم بتاتا ہے کہ تین شعبے ایسے ہیں جو انسانیت کے دشمن ہیں اور ان کا آپس میں گٹھ جوڑ رہتا ہے۔ ان کے گٹھ جوڑ کو تین مختلف ترتیبوں کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ ان میں سے ایک لیڈر ہو جاتا ہے اور دوسرے دونوں اس کے ساتھ ساتھ۔ مثلاً 
1.  فرعون، ہامان، قارون
2.  ہامان، فرعون، قارون
3. قارون، فرعون، ہامان
یہ تینوں افراد کے نام نہیں، شعبے  ہیں۔ مختلف زمانوں اور سماجوں میں ان شعبووں کے نام مختلف ہو سکتے ہیں مثلاً سامراجیت، شہنشاہیت، آمریت اور ملائیت، پنڈت، پادری وغیرہ اور ملٹی نیشنل کمپنیاں، سرمایہ داریت وغیرہ۔
یورپ اور امریکہ وغیرہ میں جمہوریت ہے۔ ان میں بھی مندرجہ بالا اسلامی اصول تو نافذ نہیں ہیں اور بہت سی خامیاں موجود ہیں مگر دوسرے نظاموں کی نسبت کچھ بہتری ہے، پُرامن انتقال اقتدار، امن وعدل اور سماجی بہبود کی حد تک باقی دنیا بشمول اسلامی دنیا سے صورتحال بہت بہتر ہے۔ اگرچہ یہاں جمہوریت مکمل آزاد نہیں ہے اور اس میں موجود خامیاں دور کرنے کی ضرورت ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے یہ مسلمانوں کے سابقہ معاشروں سے سیکھ کر نسبتاً بہتر نظام مرتب کر لے  ہیں۔
اقبالؒ کہتے ہیں:
مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آباء کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارہ
اس لئے اہل اسلام کو چاہیے کہ اپنے معاشروں کو مثالی بنا کر یورپ کو جواب دیں۔ محض طعنوں اور بڑھکوں سے کچھ نہیں ہونے والا۔علم مومن کی میراث ہے۔ اپنی کھوئی ہوئی میراث حاصل کریں کیونکہ علم ہی اصل طاقت ہے۔ 
Knowledge is power and physical courage to stand for it.
فی العلم والجسم (2:246) Al-Quran
مکمل تحریر >>

25 جون، 2015

بادشاہت، خلافت یا جمہوریت

کوئی نظام، کوئی دستور، کوئی قاعدہ، کوئی قانون تو ہو جس پر خلوص اور غیر جانبداری کے ساتھ عمل ہو، جس میں جینے کا حق ملے، جو خوف و حزن سے پاک ہو۔ ایسا نظام جس میں امن ہو، عدل ہو، مساوات ہو، فوری احتساب ہو۔ انسانیت کا بول بالا ہو۔ کائنا ت کے خالق کا پیدا کیا ہوا لا محدود رزق ہر ایک تک پہنچے، ہر کوئی نظام حکومت کی ملکیت میں مساوی حصہ دار ہو، سب کے لیے ایک ہی قانون ہو۔ 
ایسے نظام کا نام کوئی بھی رکھ لیں، بادشاہت، خلافت یا جمہوریت لیکن اس میں حکمرانوں کو پر امن طریقے سے بنانے اور ہٹانے کے اصول طے ہوں اور ان پر عمل ہو۔ 
ایسا نظام جو ایک دوسرے کے قتل کے بغیر کبھی تبدیل نہ ہوا ہو، جسے انسانوں نے صدیوں کے تجربوں کے بعد نا قابل عمل قرار دے دیا ہو، جس میں انسانی تاریخ نے قتل و غارت کے بغیر کبھی تبدیل ہوتے نہ دیکھا ہو۔ ایسا نظام ہر گز نہیں چاہیے۔ محدود قبائلی معاشروں میں بادشاہتوں کا نظام مناسب ہوتا ہو گا۔ لیکن اب طویل تجربات کے بعد صنعتی دور کے انسان نے بادشاہتوں اور مذہبی و شخصی آمریتوں کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔ 
ہمارے ہاں مذہبی، عسکری اور اداراتی آمریت کا دور دورہ ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں اور اپنے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے نام نہاد جمہوریت کا ڈھونگ رچایا جاتا ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام کی خواہشات کا احترام کیا جائے۔ تمام قسم کی عسکری تنظیمیں ختم کی جائیں، خواہ وہ مذہبی ہوں یا سیاسی۔ عوام کا نظام عوام کے حوالے کیا جائیے۔ یہ کام صرف طاقتور عسکری ادارہ کر سکتا ہے۔ اسے چاہیے کہ اپنے اور اس معصوم قوم کے بچّوں کے لیے یہ فریضہ انجام دے کر اپنا نام تاریخ میں لکھوا لیں، ورنہ یہ کام تو ہو کر رہنا ہے، کچھ عرصے بعد سہی کیونکہ اس انسانی قافلے نے آگے کی طرف ہی جانا ہے۔ یہ کائینا ت تو بنی ہی حرکت اور وسعت کے قانون کے تحت ہے، اسے کوئی فرعون، کوئی نمرود، کوئی شداد، کوئی بلعم باعور ھزاروں بند باندھنے کے باوجود آگے بڑھنے سے نہیں روک سکا، اس کا راستہ کوئی آمرانہ اور منافقانہ نظام نہیں روک سکتا۔ قتل گاہوں سے علم اٹھا کر عشاق کے قافلے نکلتے رہیں گے اور اپنے موجیں مارتے ہوے خون کی بے پناہ طاقت سے اسلحے کے انباروں، وحشت و جبر کے نظام کو اور مذہب کے نام نہاد ٹھیکیداروں کو شکست فاش دے کر رہیں گے۔ کہ یہ کائنات ترقی و تکمیل کے سفر پر گامزن ہے۔
اقبالؒ کہتے ہیں۔
جو تھا، نہ ہے، جو ہے، نہ ہو گا، یہی ہے ایک حرف محرمانہ 
قریب تر ہے نمود جس کی، اسی کا مشتاق ہے زمانہ
میری صراحی سے قطرہ قطرہ نئے حوادث ٹپک رہے ہیں
میں اپنی تسبیح روز و شب کا شمار کرتا ہوں دانہ دانہ
یعنی قدرت تو ارتقائی عمل کے ساتھ آگے کی طرف رواں دواں ہے۔ ہمیں بھی چاہیے کہ قدرت کا ساتھ دیں اور عوام الناس جس زمانے کے مشتاق ہیں، اسے قریب تر لائیں۔

مکمل تحریر >>

ہڈ بیتی اور جگ بیتی

ہڈ بیتی اپنے آپ پر، اپنی ذات پر،اپنے جسم و جان پر گزرنے والے واقعات کا نام ہے۔ اپنے مشاہدات و تجربات کا نام ہے۔ اپنے حواص خمسہ کے ذریعے معلومات حاصل کرنے کا نام ہے۔ اپنی آنکھوں سے دیکھی ہوئی، اپنے کانوں سے سنی ہوئی، اپنے ہاتھوں سے چھوئی ہوئی، اپنی ناک سے سونگھی ہوئی اور اپنی زبان سے چکھی ہوئی معلومات کا نام ہے۔ خود کیے ہوئے، خود سے برداشت کیے ہوئے حوادث کا نام ہے۔ ہڈ بیتی سے حاصل ہونے والا علم شک و شبہ سے بالاتر اور بہت زیادہ قابل اعتماد ہوتا ہے، ہڈ بیتیاں گہرا علم عطا کرتی ہیں، شعور کی بلندیاں عطا کرتی ہیں۔ ہڈ بیتی کے ذریعے حاصل ہونے والے علم میں پڑھا لکھا ہونا ضروری نہیں ہوتا، کسی یونیورسٹی یا کسی اعلی درسگاہ کی سند یا ڈگری ضروری نہیں ہوتی۔ 
جگ بیتی وہ معلومات ہیں جو دوسروں کے مشاہدات اور واقعات پرمبنی ہوتی ہیں۔ دوسروں سے سنی ہوئی یا دوسروں کی قلم بند کی ہوئی ہوتی ہیں۔ اس طرح جگ بیتی سے حاصل ہونے والا علم تب تک گہرا نہیں ہوتا جب تک اسے اپنے حواص خمصہ کی مدد سے پرکھ نہ لیا جائے۔ محض جگ بیتی سے شعور کی پختگی حاصل نہیں ہوتی۔ اسی لیے ہڈ بیتی والے زیادہ باشعور ہوتے ہیں اور محض جگ بیتی والے دانشوروں اور پڑھے لکھے ہونے کے دعویداروں کے شعور کی سطح ہڈ بیتی والے ان پڑھوں سے عمومی طور پر پست ہی نہیں بلکہ پست ترین ہوتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے اپنے جگ بیتی کے علم کو ہڈ بیتی سے پرکھو، ہڈ بیتی والوں سے سیکھو، ان کی قدر کرو اور اپنے شعور کی سطحوں کو بلند کرو۔
حصول علم کا آغاز اپنے مشاہدات کے اظہار سے ہوتا ہے۔ 
Learning starts with expression of observations.
آجکل Copying اور Pasting عام ہے، اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا، نہ اعتماد Confidence کی بنیاد پڑتی ہے اور نہ پختگی Maturity آتی ہے۔ حصول تعلیم کا مقصد شعور کی بلندی ہونا چاہیے۔ ہمارا ابتدائی نظام تعلیم رٹہ و حفظ Memory اور Dictation پر مبنی ہے جو کے تخلیق و تحقیق Creativity and Research کے عمل کو تہس نہس کرکے رکھ دیتا ہے۔ انسان پڑھے لکھے ہونے کے زعم میں مبتلا تو ہو جاتا ہے لیکن حقیقت میں جاہل مطلق بن جاتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ حصول علم کی بنیاد اپنے مشاہدات اور ہڈ بیتیوں پر رکھی جائے اور بحث و مباحثہ Discussion and Debate کے ذریعے شعور کی بلندیوں کی جانب گامزن کیا جائے۔

مکمل تحریر >>

خانہ جنگی یا اجتماعی خودکشی؟. ہم کس طرف جا رہے ہیں؟؟.

جی ہاں؛ جب بڑے صوبے سے تعلق رکھنے والی اور سرتاپا تعصب میں لتهڑی "اشرافیہ" دھونس، دھاندلی سے تمام ریاستی اداروں پر مکمل قبضہ مستحکم کر چکی ہو ..
جب ریاست کے "تذویراتی اثاثہ جات" دہشت گردوں کی بدمعاشی کے ذور پر مسلط ہونے والی، انہی کی "ضامن" حکومت تمام ریاستی اکائیوں کے حقوق پامال کرنے کے بعد ان کا باقاعدہ مذاق اڑانے پر بھی اتر آئے ..
جب ایک مخصوص صوبے کے تمام تر طبقات کی نمائندہ سب سیاسی جماعتوں کے خلاف ایک ساتھ باقاعدہ "محاذ" کھولا جا رہا ہو ... 
اور جب ملکی آئین و دستور کے منکر دہشت گردوں کی سرکوبی کے نام پر، عالمی برادری سے اربوں ڈالرز اینٹهنے کے بعد بهی ان "اثاثہ جات" کی سودابازی اور وفاقی دارالحکومت کے عین قلب میں واقع "لال مسجد" میں دہشت گردوں کی بھرتی کا سلسلہ بهی ساتھ ساتھ جاری ہو ..
اور سب سے بڑه کر یہ کہ جب خود "احتساب" کے دائرے میں آنے والے، اپنے فرائض منصبی بهول کر دوسروں کے اور وہ بهی چند مخصوص "ٹارگٹس" کے احتساب کی ذمہ داری "ازخود" سنبهالنے پر تل جائیں ...
اور یہ سب کچھ کهلی آنکھوں دیکھنے والے قوم کے نام نہاد "ترجمان" بهی رائے عامہ کی ترجمانی کا حق ادا کرنے کی بجائے، پرنٹ اور الیکٹرانک ہر فرنٹ پر استحصالی "اداروں" کے متعین کردہ "ٹارگٹس" کو نشانے پر رکهنے کو ہی قومی فریضہ جان کر پورا کئے چلے جا رہے ہوں .... 
تو یاد رکهئے قارئین کرام؛ اس قوم میں بڑے پیمانے کی "خانہ جنگی" پهر دور کی بات نہیں رہ جاتی .. 
یا پهر وہ قوم انتہائی تیز رفتاری سے "اجتماعی خود کشی" کی جانب ہی بڑھتی چلی جا رہی ہوتی ہے ...
مکمل تحریر >>

24 جون، 2015

اب آیا اونٹ پہاڑ کے نیچے.!

"غزوۂ ہندیہ" کا لال ٹوپی والا "کمانڈر" زائد حامد اپنے برانڈ کے اسلامی مرکز "السعودیہ" میں گرفتار؛ غزوہ کے ٹوٹ بٹوٹ "مبلغ اعظم" اوریا مقبول جان عباسی کو متوقع انجام نے دست لگا دیئے، عمرہ کا ارادہ ملتوی کر دیا ..
جی ہاں؛ کمانڈو جیکٹ پہنے ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر غزوۂ ہندیہ کے "لشکر خراسانی" کی صفیں "ازخود" سیدهی کرنے والا زائد حامد تو الباکستان اور السعودیہ کے مابین فرق کو سمجھ نہ سکا اور ابن سعود کے شاہی خاندان کو برا بھلا کہنے کے باوجود الباکستانی خاکیوں کی بخشی "خود اعتمادی" کے بل بوتے پر سعودی حکمرانوں کے چنگل میں جا پھنسا، جس کی آخری امید "فاتح کابل" حمید گل اب اپنے پیٹرو ڈالرز حلال کرنے کی کوشش میں اس کیلئے سخت ترین سزا کی "نوید" قوم کو سنائے جا رہا ہے جبکہ ٹی وی چینلز سمیت اپنے اخباری مضامین میں غزوۂ ہندیہ کی تبلیغ کیلئے اپنا تمام تر زور تحریر و تقریر آزمانے والا ٹوٹ بٹوٹ عباسی بهی، لگتا ہے کہ اپنے "کمانڈر" کا یہ عبرتناک انجام دیکھ کر اس کے حق میں دو بول کہنے اور لکهنے سے توبہ تائب ہو چکا ہوگا ..
فیلڈ مارشل آنجناب زائد حامد سے اندازے کی اصل غلطی شاید یہ ہو گئی کہ اپنے "روحانی گرو" بن لادن کی السعودیہ سے "تاعمر جلاوطنی" کے باوجود آپ اس حقیقت کا ادراک نہ کرسکے کہ دنیا بھر کے "وہابی مارکہ" دہشت گردوں اور ان کے موصوف جیسے حامیوں و معاونین کی مالی سرپرستی میں فیاضی برتنے والا سعودی عرب اس قسم کی "مخلوق" کو اپنی سرزمین پر لمحہ بھر کیلئے برداشت کرنے پر کبهی آمادہ نہیں رہا؛ بالخصوص ایسے میں کہ اسے الباکستان سے وہاں پہنچنے والے "جہادیوں" کے ہاتھوں خاصی "خفت" بهی حال ہی میں اٹھانا پڑی ہو۔
زائد حامد کو السعودیہ میں احادیث اور آیات قرآنی میں تحریف پر "توہین مذہبی شعار" کے اس قانون کے تحت سزا سنائی گئی ہے، الباکستان میں جس کے ناجائز استعمال کے ممتاز قاری جیسے مجرمین کی حوصلہ افزائی ان جیسوں کی "شان" رہا کرتی ہے ...
مکمل تحریر >>

اہم ترین جدید بین الاقوامی تجارتی راہداری اور اس پر واقع ملکوں پر اثرات

بحرالکاہل سے بحرۂ عرب تک براستہ بحرۂ روم اور بحرۂ احمر
From The Atlantic Ocean to The Arabian Sea VIA The Mediterranean Sea and The Red Sea.
صنعتی انقلاب کے بعد ایک لحاظ سے دنیا ہی بدل گئی۔ اب بین الاقوامی تجارت کے لئے بحری راہداریاں انتہائی اہمیت کی حامل ہو گئی ہیں۔ اب تجارت کے لئے اونٹوں اور گھوڑوں، گدھوں کی جگہ بڑے بڑے بحری جہازوں نے لے لی۔ بہت سی بحری راہداریاں قائم ہو گئیں۔ ان میں سے ایک اہم ترین بحری راہداری بحرالکاہل سے بحرۂ عرب تک واقع ہے۔ تمام صنعتی ممالک کے مال بردار بحری جہاز اس راہداری سے گزرتے ہیں۔ یہ راہداری دو اہم سمندروں، بحرۂ روم اور بحرۂ احمر میں سے گزرتی ہے۔ صنعتی ممالک نے مل کر اس کی حفاظت اور اس پر کنٹرول کا مکمل بندوبست کیا ہے۔ 
بحرۂ روم تین براعظموں کے سنگم پر واقع ہے۔ اس کے شمال میں یورپ، جنوب میں افریقہ اور مشرق میں ایشیا واقع ہے جبکہ مغرب میں بحرالکاہل ہے۔
آئیے اس راہداری کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے اس کی حفاظت کی انتظامات اور اس پر واقع ملکوں پر اثرات کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس انتظام میں تمام صنعتی ممالک شامل ہیں۔ ان میں یورپی ممالک اور بالخصوص امریکہ اور برطانیہ شامل ہیں۔
یہ راہداری یورپ کے مغرب میں برطانیہ، فرانس، پرتگال اور سپین کے ساحلوں سے ہوتی ہوئی بحرالکاہل میں سے آبنائے جبرالٹر سے گزرتی ہوئی بحرۂ روم میں داخل ہوتی ہے۔ یہاں تک تو یہ صنعتی ممالک کے بیچ میں سے گزرتی ہے اور مکمل طور پر محفوظ ہے۔ اب بحرۂ روم کے شمال میں تو صنعتی ممالک ہی ہیں مگر جنوب میں شمالی افریقہ کے مسلمان ممالک واقع ہیں۔ ان ممالک میں مغرب سے مشرق کی طرف مراکش، الجیریا، تیونس، لیبیا اور مصر شامل ہیں۔ شمال میں ان کے بالمقابل یورپی ممالک میں پرتگال، سپین، فرانس، اٹلی اور یونان شامل ہیں۔ بحرۂ روم صنعتی تاجروں نے دو پہریداروں Watchdogs کا بندوبست کیا ہوا ہے۔ مغرب میں آبنائے جبرالٹر کے دھانے پر یعنی جہاں تجارتی بحری بیڑے بحر الکاہل سے بحرۂ روم میں داخل ہوتے ہیں، وہاں جبرالٹر کے مقام پر برطانیہ کی بندرگاہ ہے۔ یہ ویسے تو سپین کا حصہ ہونا چاہئے مگر نہایت اہم مقام پر دو مربع میل کا علاقہ برطانیہ کے انتظام میں ہے۔ یہاں برطانیہ کی شاہی نیوی تمام قسم کے جدید اسلحہ اور جنگی لڑاکا طیاروں اور مسلح بحری جہازوں سے لیس موجود ہے۔ یہ بندوبست مراکش اور الجیریا کے لئے ہے۔ جبرالٹر کے مقام ایک مشہور چٹان بھی موجود ہے جو سیاحوں کے لئے پر کشش ہے۔ آگے چلتے ہوئے تیونس اور لیبیا کے بالمقابل اٹلی اور فرانس ہیں۔ مصر کے بالمقابل یونان ہے اور پھر بحرۂ روم کے مشرق میں ایک اہم پہریدار Watchdog اسرائیل کی صورت موجود ہے۔ اسرائیل کو خاص طور پر بحری تجارت کی حفاظت کے لئے قائم کیا گیا اور اسے تمام صنعتی ممالک کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ اسرائیل کو قائم کرنے کے لئے مذہب کا بہانہ بھی ڈھونڈا گیا۔ اسرائیل کی قیام سے بیشتر مصر اور شام دو طاقتور ممالک موجود تھے۔ اسرائیل کو جدید اسلحہ سے لیس کیا گیا۔ اس طرح اسے متعدد مسلمان ملکوں کے بیچ میں ایک طاقتور پہریدار کی طور پر قائم کر دیا گیا۔ مسلسل جنگوں کے ذریعے مسلمان ملکوں کی جنگی اور دفاعی صلاحیت کو اسرائیل نے جدید اسلحہ کے استعمال سے تباہ کر دیا اور انہیں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا گیا۔ طرح طرح کے معاہدوں پر مجبور کر دیا گیا۔ اب حالت یہ ہے کہ ان ملکوں بالخصوص اردن اور مصر کی معیشت کا انحصار ہی امریکی امداد پر ہے۔ لیبیا کی معیشت وافر تیل کی موجودگی کی وجہ سے مضبوط بھی تھی اور کرنل قذافی کی قیادت میں ہتھیار ڈالنے پر تیار بھی نہیں ہوتا تھا۔ اسے مختلف حیلوں بہانوں سے فرانس اور اٹلی کے جنگی طیاروں کے ذریعے تباہ کر دیا گیا۔ کرنل قذافی کو قتل کر دیا گیا اور لیبیا کی جانب سے مزاحمت ختم کرہو گئی۔ 
بحری تجارتی راہداری اب بحرۂ روم سے بذریعہ نہر سویز بحرۂ احمرمیں داخل ہوتی ہے۔ نہر سویز مصر میں واقع ہے۔ یہ نہر دو سمندروں، بحرۂ روم اور بحرۂ احمر، کو آپس میں ملانے کے لئے کھودی گئی۔ ان سمندروں کو آپس میں ملانے کی وجہ سے یورپ سے ایشیا تک کا سمندری سفر بہت حد تک کم ہو گیا۔ نہر سویز سے پہلے یورپ سے ایشیا آنے کے لئے پورے بر اعظم افریقہ کے گرد چکر کاٹنا پڑتا تھا یعنی افریقہ کے مغربی اور جنوبی ساحلوں سے ہوتے ہوئے ایشیا پہنچا جاتا تھا۔ اس طرح ایک تو وقت بہت ضائع ہوتا تھا اور دوسرا ایندھن کی کھپت بہت زیادہ تھی۔ نہر سویز کی وجہ سے وقت اور ایندھن کی بے پناہ بچت ہو گئی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ اسرائیل بحرۂ روم اور بحرۂ احمر دونوں پر پہریدار ہے۔ بحرۂ احمر کی خلیج عقبہ کے اوپر اسرائیل کی نہایت اہم بندرگاہ موجود ہے۔
واضع رہے کہ یہ وہی بندرگاہ ہے جو حضرت سلیمانؑ نے قائم کی تھی اور جہاں سے یمن و ایتھوپیا کی ملکہ سبا کے ساتھ بحری تجارت ہوتی تھی۔
اس بندرگاہ کی وجہ سے اردن، مصر اور سعودی عرب اسرائیل کی نظر میں رہتے ہیں۔ سعودی عرب ویسے بھی امریکہ کا اتحادی ہے۔ اس طرح بحرۂ احمر کی راہداری مشرق میں یمن تک کنٹرول میں ہے اور محفوظ ہے۔ 
اب ہم بحرۂ احمر کے مغرب میں واقع افریقی ملکوں کا جائزہ لیتے ہیں۔ اس جانب مصر، سوڈان اور ایتھوپیا اہم ممالک شامل تھے۔ مصر کا ذکر ہو چکا۔ سوڈان اور ایتھوپیا کے ٹکڑے کرنے کے لئے سیاسی تحریکیں چلوائی گئیں۔ لوگوں کو قبیلوں اور مذہبوں کی بنیاد پر لڑوایا گیا۔ ملا اور پادری استعمال ہوئے۔ سب سے پہلے ایتھوپیا کو لیتے ہیں۔ یہ بہت بڑا ملک تھا، اس کی تہذیب بہت پرانی تھی، معیشت مضبوط تھی۔ سب سے پہلے ایتھوپیا سے صومالیہ کو الگ کر دیا گیا۔ پھر بحرۂ احمر کے ساحلی علاقے الگ کرکے اریٹیریا اور جبوتی کو ممالک کا درجہ دے دیا گیا۔ اب ایتھوپیا کی سرحد کسی بھی سمندر سے محروم ہے گویا ایک Land Locked ملک بن کے رہ گیا۔ اریٹیریا ایک طویل پٹی کی صورت میں بحرۂ احمر پر واقع ہے۔ یہ اب عیسائی اکثریت کا ملک ہے۔ اس کے جنوب میں چھوٹا سا ملک جبوتی ہے۔ جبوتی مسلم اکثریت کا ملک ہے۔ یہاں 94 فیصد آبادی مسلمان ہے۔ یہ چھوٹا سا کمزور ملک ہے لیکن آبنائے باب المندب پر یمن کے بالمقابل واقع ہے۔ جبوتی اریٹیریا میں شامل ہوسکتا تھا مگر شاید اس لئے الگ ملک بنایا گیا کہ اریٹیریا کی آبادی میں مسلمان اکثریت میں نہ ہو جائیں۔
سوڈان کے دو ملک بنائے جا چکے ہیں۔ جنوبی سوڈان عیسائی اکثریت والا ملک بن چکا ہے۔ باقی ماندہ سوڈان میں مسلم اکثریت ہے مگر اس میں مزید دو علاقوں میں علیحدگی پسند تحریکیں چل رہی ہیں۔ شائد مزید تقسیم درکار ہو۔ 
اب صومالیہ اور یمن کا ذکر کرتے ہیں۔ صومالیہ کا ساحل بہت طویل ہے۔ یہ جنوب میں بحرۂ عرب کے ساتھ اور مشرق میں بحرۂ احمر کے ساتھ واقع ہے۔ صومالیہ بحرۂ احمر کے مغرب میں واقع ہے۔ اس کے بالمقابل مشرق میں یمن ہے۔ یمن آبنائے باب المندب سے خلیج عدن اور بحرۂ عرب تک موجود ہے۔ یہ دونوں غریب ملک ہیں مگر ان کا محل وقوع بہت اہم ہے۔ ان دونوں ملکوں کے بیچ میں بین الاقوامی تجارتی راہداری غیر محفوظ ہے۔ امکان ہے کہ ان کے دو دو یا تین تین ملک بنا دیئے جائیں تا کہ راہداری محفوظ ہو جائے۔ شائد اسی مقصد کے لئے داعش اور القاعدہ وہاں پہنچ چکی ہیں۔
اس دنیا میں کمزوروں کی کوئی زندگی نہیں ہے۔ اور پھر اگر کمزور ہیں تو طاقتوروں کے راستے میں واقع کیوں ہیں؟ پرکشش وسائل کے مالک کیوں ہیں؟ ان سب علاقوں میں مسلمان ملک ہیں، آپس میں اتحاد کیوں نہیں کرتے؟ مسلمانوں کی آبادی اتنی زیادہ ہے کہ اگر متحد ہو کراسرائیل کی سرحد پر جا کر صرف تُھوک دیں تو اسرائیل اس سیلاب میں بہہ کر بحرۂ روم میں گر کر غرق ہو جائے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ آپس میں اتحاد کریں اور علم و ٹیکنالوجی میں ترقی کر کے طاقت حاصل کریں۔
تجارتی راہداری ہر زمانے بہت اہم ہوتی ہے۔ طاقتوروں اور سامراجیوں کے سینے میں نہ تو دل ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی اخلاقیات۔ انہیں صرف اپنا مفاد عزیز ہوتا ہے۔ اگر اپنے مفاد کے راستے میں پوری کی پوری آبادی کا قتل عام کرنا پڑے تو ذرا بھر دریغ نہیں کرتے۔ لہذا اگر عزت و احترام کے ساتھ زندہ رہنا ہے تو طاقت حاصل کرو۔
مکمل تحریر >>

23 جون، 2015

شیطانی چکر

منیر اس "ملک" پہ آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
المیہ ہمارا دوستو؛ اصل میں یہ ہے کہ ہم ایک راہ گُم کردہ قوم کے افراد ہیں۔۔ ہمیں نہ تو اپنی منزل کا پتہ ہے، لہٰذا ہم نہ کوئی راہ عمل متعین کر پاتے ہیں۔۔ نہ ہی ہمیں کھوٹے کھرے کی پہچان ہے اور نہ اندھیرے اُجالے کو کوئی تمیز۔
ہماری آنکھیں بند ہیں، کولہو کے اُس بیل کی طرح، جس کی آنکھوں پر کھوپے چڑھے ہوتے ہیں اور وہ ایک ہی دائرے میں مُسلسل سفر کرتے اپنے تئیں یہ سمجھے رکھتا ہے کہ وہ منزلوں پر منزلیں طے کئے جارہا ہے۔۔ اور ہانکنے والا اس کی لاعلمی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنا کام نکالے چلا جاتا ہے"۔!! ....
وہی چال بے ڈھنگی جو پہلے تهی سو اب بھی ہے۔
مکمل تحریر >>

تجارتی راہداری کی اہمیت و افادیت

ماضی کی اہم تاریخی بین الاقوامی تجارتی راہداری اور اس کی تبدیلی کے دور رس اثرات
Important historic international trade route of the past and the most lasting effects of its change.
بین الاقوامی تجارتی راہداری ہر زمانے میں بہت اہم ہوا کرتی ہے۔ اقوام عالم میں وہی قوم بڑی قوت بنتی تھی جس کا اس راہداری پر کنٹرول ہوتا۔ ماضی میں دو بڑی سلطنتیں ہو گزری ہیں یعنی سلطنت فارس اور سلطنت روم۔ سلطنت فارس دریائے فرات کے مشرقی علاقوں پر مشتمل تھی اور اس میں عراق، ایران، خلیج کی ریاستیں، عمان، یمن، افغانستان اور بر صغیر کے دریائے جہلم تک کے علاقے شامل تھے۔ سلطنت روم دریائے فرات کے مغربی علاقوں پر مشتمل تھی اور اس میں شام، ترکی کے کچھ علاقے، لیوانت، مصر، شمالی افریقہ اور یورپ کے اکثر علاقے شامل تھے۔ ان سلطنتوں کے بیچ میں صحرائے عرب واقع تھا جو کسی بھی سلطنت کا حصہ نہ تھا۔ یہ علاقہ وسیع و عریض ریگستان ہونے کی وجہ سے کوئی اقتصادی کشش نہ رکھتا تھا لہاذہ نہ تو سلطنت فارس اور نہ ہی سلطنت روم کو ریت میں بلا وجہ گھوڑے دوڑانے کا شوق تھا۔ اس طرح یہ آزاد قبائلی خطہ تھا۔
قدیم تجارتی راہداری
ان دو عظیم سلطنتوں کے قیام سے پہلے مشرق اور مغرب کے درمیان ایک تجارتی راہداری قائم تھی جسے عام طور پر شاہراہ ریشم کہا جاتا ہے۔ یہ راہداری چین سے شروع ہو کر یورپ تک جاتی تھی۔ یہ افغانستان اور عراق سے ہوتی ہوئی شام و لیوانت میں داخل ہوتی تھی اور پھر ترکی میں سے ہوتی ہوئی آبنائے باسفورس کو عبور کرتے ہوئے یورپ میں داخل ہو جاتی تھی۔ پھر سکندر اعظم کی اچانک موت نے صورتحال تبدیل کر دی اور بتدریج سکندر اعظم کے مفتوحہ علاقوں پر دو سلطنتیں قائم ہو گئیں یعنی سلطنت فارس اور سلطنت روم۔ ان دو سلطنتوں کی سرحد دریائے فرات تھا۔ ان کی شام پر قبضہ کرنے یا قائم رکھنے کے لئے جنگیں ہوتی تھیں۔ یوں صحرائے شام جو کہ عراق اور شام کے درمیان واقع ہے، میدان جنگ بنا رہتا تھا۔ یہ جنگیں سالہا سال جاری رہتی تھیں۔ کبھی ایک فریق کی محدود فتح اور کبھی دوسرے کی۔ اس طرح تاجروں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ اب صحرائے شام ایک میدان جنگ بنا رہتا تھا اور یہاں سے گزرنا انتہائی غیر محفوظ ہو گیا۔ کبھی وہ ایرانی اور کبھی رومی سپاہیوں کے ہاتھوں لوٹے جاتے تھے۔ اس طرح انہوں نے نئی راہداری اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔
نئی تجارتی راہداری
اب تاجروں نے مشرق سے آتے ہوئی عراق میں داخل ہونے کے بعد دریائے فرات کو عبور کرنے کے بجائے خلیج فارس کے ساتھ ساتھ ہوتے ہوئے اور بحرۂ عرب کے ساتھ چلتے ہوئے اور پھر بحرۂ احمر کے مشرقی ساحل کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے شام میں داخل ہونے کی راہ اپنائی۔ یہ راہداری طویل ضرور تھی، دشوار گزار بھی تھی مگر محفوظ تھی۔
نئی راہداری کے صحرا نشینوں پر اثرات
نئی راہداری صحرائے عرب میں سے گزرتی تھی۔ اب تاجروں کو صحرا عبور کرتے ہوئے مال برداری کے لئے گھوڑوں، گدھوں کی بجائے اونٹوں کی ضرورت تھی۔ مزید یہ کہ صحرائی طوفانوں سے آشنا صحرائی زندگی کے تجربہ کار لوگوں کی بھی ضرورت تھی۔ اس طرح تاجروں کا انحصار اونٹ والوں اور اونٹوں پر ہو گیا۔ ادھر اونٹ والے صحرا نشینوں کی قسمت جاگ اٹھی اور ان کی آمدنی کئی گنا بڑھ گئی۔ اب یہاں کئی چھوٹی بڑی راہداریاں Routes بن گئیں۔ مثلا" مسقط سے یمن، یمن سے مکّہ اور مکّہ سے شام۔ سالہا سال یہ تجارتی راہداری چلتی رہی۔ البتہ صحرا نشینوں کو یہ فکر لاحق رہتی تھی کہ کہیں راہداری نہ بدل جائے۔ راہداری بدل جانے کا خطرہ شام کا ایرانیوں کے قبضہ میں جانے کا ہوتا تھا یعنی رومیوں کی شکست۔ کیونکہ اس صورت میں مشرق و مغرب کے بیچ میں پرانا مختصر روٹ بحال ہو سکتا تھا۔ اس طرح عربوں کی ہمدردیاں رومیوں کے ساتھ ہوتی تھیں۔ واضع رہے کہ صحرائے عرب کے لوگ تاجر نہ تھے بلکہ مال بردار Transporters تھے۔ 
یاد رکھیے اسلامی تاریخ اور اسلامیات کی کتابوں میں لکھا ہوتا ہے کہ مکّہ کے فلاں سردار کی اتنے اونٹوں کی تجارت تھی اور فلاں کی اتنے اونٹوں کی کہیں تجارتی اشیاء کا ذکر نہیں ہوتا، اس طرح اونٹوں کی زیادہ تعداد امارت و رتبے کا معیار ہوتا تھا۔ 
نئی تجارتی راہداری نے عربوں کی آمدنی میں بے پناہ اضافہ کر دیا۔
قرآن کریم کی سورہ روم کا اہم نکتہ
جب اسلام کا آغاز ہوا، اس وقت بھی ایرانیوں اور رومیوں کے درمیان جنگیں جاری تھیں۔ یہ اسلامی تحریک کا ابتدائی زمانہ تھا اور ابھی چند لوگوں نے ہی اسلام قبول کیا تھا جن میں زیادہ تر غلام تھے۔ اس اثناء میں سورہ روم نازل ہوئی۔ رومیوں اور ایرانیوں کے درمیان جنگ جاری تھی کہ رومی مغلوب ہو گئے۔ مکّہ کے لوگوں کو فکر لاحق ہوئی مبادا تجارتی راہداری تبدیل نہ ہو جائے۔ سورہ روم میں بتایا گیا کہ اب سے تین آور نو سالوں کے درمیان ایک اور جنگ میں رومی فتح یاب ہو جائیں گے۔ یہاں تک تو کفار مکّہ کے لئے اچھی خبر تھی۔ مگر اسی سورہ میں مزید بتایا گیا کہ اس کے بعد مسلمانوں کے لئے خوشخبری ہے کہ وہ فتح یاب ہوں گے۔ گویا مسلمانوں کو اس سے کیا غرض ایرانی جیتیں یا رومی۔ ان کے لئے خوشخبری تو ان کی اپنی فتح ہو گی۔ اس پر مکّہ کے کفار مسلمانوں کا مذاق اڑانے لگے کہ محمد ﷺ کن کو فتح کی خوشخبری سنا رہے ہیں، بلالؓ کو، زیدؓ کو، عمارؓ کو۔ان لوگوں کے تن پر تو کپڑے تک پورے نہیں، پاؤں سے ننگے ہیں۔ ان میں سے نہ کسی نے اصفہان دیکھا ہے، نہ روم۔ بھلا یہ سلطنت فارس و روم فتح کریں گے۔ تاریخ نے دیکھا کہ اس کے چھ سال بعد رومی فتح یاب ہو گئے۔ آیت کی صداقت کو دیکھتے ہوئے مسلمانوں کے اعتماد میں اضافہ ہوا کہ وہ بھی یقیناً فتح یاب ہوں گے۔ اور چشم فلک نے دیکھا کہ وہی مذاق اڑانے والے دائرہ اسلام میں داخل ہوئے اور سورہ روم کے نزول کے بیس سال بعد انہی مسلمانوں کے ہاتھوں سلطنت فارس فتح ہوئی اور سلطنت روم کی فتح کا بھی آغاز ہو گیا اور اس کے بھی بہت سے علاقے فتح ہو گئے جن میں شام اورمصر شامل ہیں، یوں تجارتی راہداری کی تبدیلی کے دور رس نتائج سامنے آئے۔
مکمل تحریر >>

بنی اسرائیل کی تاریخی داستان (سلطنت اسرائیل کا عروج و زوال)

اسرائیل کی سلطنت کا قیام
طالوت، داؤدؑ اور سلیمانؑ کی مثالی حکومتیں 
سلیمانؑ اور ملکہ سبا کے درمیان سمندری تجارت
سلطنت اسرائیل کی تقسیم
زوال اور بخت نصر کی چڑھائی
بابل میں قید، ایرانی بادشاہ ذوالقرنین کا بابل پر قبضہ اور بنی اسرائیل کی رہائی اور فلسطین کو واپسی
بنی اسرائیل طویل جدوجہد کے بعد اپنے آبائی وطن میں اپنی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوئے، یہ راتوں رات قائم نہیں ہوئیں، تین راہنماؤں نے سالہا سال صحرا میں تربیت کی، یہ مایہ ناز راہنما شعیبؑ، موسیٰؑ اور ہارونؑ تھے انہوں نے بنی اسرائیل کو علم و دانش، حکمت و شجاعت کے ہتھیاروں سے مسلح کیا، گویا یہ اصول متعین کر دئیے کہ کسی بھی قوم یا گروہ مردم نے آگے بڑھنا ہے، آزادی کی زندگی بسر کرنا ہے تو علم و شجاعت سے مسلح ہوں، کامیابی کا اس کے علاوہ کوئی طریقہ نہیں ہے، اور جب آپ حق کی راہ پر چل پڑتے ہیں تو تمام کائناتی اور ملکوتی قوتیں قدم قدم پر آپ کا ساتھ دیتی ہیں اور آپ کی ہمت و شجاعت میں کئی گنا اضافہ کر دیتی ہیں،علم و آگہی کی نئی نئی راہیں کھل جاتی ہیں، اس طرح تین راہنماؤں کی تیار کردہ قوم کامیابیوں کی راہ پر گامزن ہوئی۔ وہ تینوں اس عظیم کامیابی کو تو دیکھنے سے پہلے رحلت فرما گئے، مگر ایک مضبوط قوم تیار کر گئے سلطنت اسرائیل کے پہلے حکمران طالوت Saul مقرر ہوئے، طالوت کے بعد داؤدؑ King David اور ان کے جانشین سلیمانؑ King Solomon ٹھہرے۔ 
سلطنت اسرائیل کا علاقہ لیوانت Levant بھی کہلاتا ہے یہ بحرۂ روم کے مشرقی ساحل پر واقع ہے۔ اس میں آج کے ممالک، فلسطین، لبنان، اسرائیل، اردن اور شام کے علاقے شامل ہیں، شمال میں ترکی کے کچھ علاقے بھی شامل تھے۔ مشرق میں یہ سلطنت دریائے فرات کی مغربی کناروں تک پھیلی ہوئی تھی اور جنوب میں بحرۂ احمر کی خلیج عقبہ تک۔ اسے شمال کی بادشاہت بھی کہتے ہیں یعنی Kingdom of the North. طالوت کے بعد جالوت کے ساتھ لڑائی کے ہیرو داؤدؑ حکمران بنے انہوں نے معاشرتی اور معاشی ناہمواریوں کو دور کرنے کی کوشش کی ان کے زمانے کا واقعہ ہے کہ دو بھائیوں کا مقدمہ پیش ہوا ایک نے شکایت کی کہ یہ میرا بھائی ہے، اس کے پاس ۹۹ دمبیاں (بھیڑیں) ہیں اور میرے پاس صرف ایک ہے میرا بھائی اپنی تعداد ۱۰۰ پوری کرنے کی لئے میری ایک دنبی بھی چھیننا چاہتا ہے۔ داؤدؑ سخت پریشان ہوئے کہ ان کی حکومت میں اس قدر نا ہمواری ہے۔انہوں نے اس واقعے کا سخت نوٹس لیا۔
داؤدؑ کے بعد ان کے فرزند ارجمند سلیمانؑ نے حکومت سنبھالی۔انہوں نے ترقی کی نئی نئی راہیں کھولیں معدنی دولت دریافت کی اپنی سلطنت کے ہر کس و ناکس کا خیال رکھا جن کمزوروں اور غریبوں کو محض چیونٹیاں سمجھا جاتا تھا، انہیں تحفظ دیا، عزت دی، سربلند کیا، سلیمانؑ کے اہم کارناموں میں بادبانی کشتیاں اور سمندری تجارت کا فروغ بھی تھا سلطنت اسرائیل کے انتہائی جنوب میں یمن اور ایتھوپیا کے علاقوں ہر ملکہ سبا Queen Sheba کی حکومت تھی جسے Queendom of the South بھی کہا جاتا ہے، دونوں سلطنتوں کے درمیان بحرۂ احمر Red Sea تھا بحرۂ احمر کے دونوں جانب بڑے بڑے صحرا تھے یعنی صحرائے عرب اور صحرائے سوڈان و مصرلہذا دونوں حکومتوں کے درمیان تجارت کا بہتر ذریعہ بحرِ احمر ہی ہو سکتا تھا سلیمانؑ نے خلیج عقبہ پر ایک تاریخی بندرگاہ قائم کی یہ بندر گاہ آجکل اسرائیل کے قبضہ میں ہے۔ بادبانی کشتیوں کا کمال یہ ہے کہ یہ ہوا کی سمت میں اور مخالف سمت میں آسانی سے چلائی جا سکتی ہیں۔ چنانچہ سلیمانؑ نے بحرِ احمر کو تجارتی گزرگاہ بنایا جو آج بھی اہم ترین بین الاقوامی تجارتی گزرگاہ ہے شمال سے بادبانی کشتیاں ہوا کے رخ پر چلتی تھیں اور جنوب سے شمال کی طرف جاتے ہوئے ہوا کے مخالف رخ میں زاویے بدل بدل کر یعنی Zig Zag طریقے سے یوں سلیمانؑ کے زمانے میں سلطنت اسرائیل عروج پر تھی۔
سلیمانؑ کے بعد کچھ عرصہ تو حکومت کامیابی سے چلتی رہی مگر بعد میں حکمرانوں کی نا لائقی کی وجہ سے کمزور ہونا شروع ہو گئی، معاشی و معاشرتی ناہمواریاں پیدا ہونا شروع ہو گئیں گویا اس کو دیمک لگ گئی، پھر دھڑام سے نیچے آ گری سلطنت تقسیم ہو گئ، جنوب کے اہم علاقوں پر یہودہ یا جوڈا Juda نام کی سلطنت قائم ہو گئی اور سلطنت اسرائیل شمال میں سکڑ کر رہ گئی۔ اس طرح یہ عظیم سلطنت کمزور ہوتی گئی۔
بخت نصر کا حملہ
بابل کے حکمران بخت نصر نے فتوحات کا آغاز کیا وہ جوڈا اور اسرائیل کی سلطنتوں کو تاراج کرتا ہوا دونوں پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوا، بنی اسرائیل دفاع کرنے میں ناکام ہوئے بخت نصر بنی اسرائیلیوں کو قید کر کے بابل لے آیا، بنی اسرائیل ایک دفعہ پھر بد ترین غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے، یہ قید و غلامی سو سال تک مسلط رہی۔
سلطنت فارس کا بانی سائرس Cyrus the Great یعنی ذوالقرنین یا کوروش کبیر 
ذوالقرنین ایک عظیم سلطنت کا بانی ہے اور اس کے بہت کارنامے ہیں، ذوالقرنین کی سلطنت وسیع و عریض تھی، یہ دریائے جہلم کے مغرب سے لے کر یورپ تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس میں ایران، عراق، افغانستان، ترکی، شام، مصر وغیرہ کے تمام علاقے شامل تھے یہ سلطنت فارس Persian Empire کہلاتی تھی ذوالقرنین ایک انسان دوست بادشاہ تھا، اس نے بنی اسرائیل کو بابل سے رہا کر کے واپس فلسطین پہنچا دیا بنی اسرائیلی آج تک ذوالقرنین کے مشکور ہیں۔ 
بعد میں لیوانت کے علاقوں پر عیسائیوں کا قبضہ ہو گیا اور اس کے بعد مسلمان پورے لیوانت پر حکمران بنے آج بھی لیوانت میں مسلمانوں کی اکثریت ہے لیکن اسرائیل کا غلبہ ہے، اسے تمام بین الاقوامی تاجر سپورٹ کرتے ہیں اور اسرائیل بین الاقوامی تجارتی راہداری کے تحفظ کا ضامن ہے۔ 
بنی اسرائیل کی تاریخی داستان میں قوموں کے عروج و زوال کے اصول وضع کئے گئے۔ یہ اصول صرف بنی اسرائیل تک محدود نہیں ہیں بلکہ تمام انسانوں، قوموں، تمدنوں اور تہذیبوں کے لئے مشعل راہ ہیں۔
مکمل تحریر >>

بنی اسرائیل کی تاریخی داستان(آزادی پانے کے بعد تربیت کا عمل)

صحرا نوردی اور تین راہنماؤں کی راہنمائی اور تربیت۔ 
پانی کا مسئلہ اور عصا کا استعمال۔ 
من و سلوی سے اکتاہٹ اور مصر کی سبزیوں کی یاد۔
سامری کی جادوگری کا شکار ہو جانا۔
بنی اسرائیل کو موسیٰؑ مصر کے غلامانہ ماحول سے کامیابی کے ساتھ نکال کر ایک کھلی اور آزادانہ فضا میں لے آئے یہ مدائین کا علاقہ ہے موسیٰؑ نے یہاں دس سال گزارے ہیں، یہ نیم پہاڑی اور نیم صحرائی بیابان ہے یہاں کسی کی حکمرانی نہیں ہے،حالات دشوار ہیں مگر آزادی میسر ہے یہاں موسیٰؑ و ہارونؑ کے ساتھ ساتھ جہان دیدہ دانشور شعیبؑ بھی راہنمائی کے لئے موجود ہیں، موسیٰؑ یہاں کے چپے چپے سے واقف ہیں۔ 
اب یہاں پر سب سے بڑا مسئلہ بنی اسرائیل کی نظریاتی تربیت کا ہے اور ان کے اندر سے صدیوں کی غلامی کے خوف کا قلع قمع کرکے مردانگی کو بحال کرنے کا ہے صدیوں کی غلامی کے اثرات بہت گہرے ہوتے ہیں ایسے غلاموں کو آزادی تو عزیز ہوتی ہے مگر بغیر جدوجہد کے اور مفت میں۔ اندازہ کیجئے کہ ہمارے ہاں جنوبی پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے بڑے بڑے مخدوموں، جاگیرداروں، وڈیروں اور سرداروں نے جو غلامانہ نظام نافذ کیا ہوا ہے، وہاں غلامی کے اثرات اس قدر گہرے ہیں کہ اگر دنیا بھر کے تمام انقلابی اور سارے پیغمبر بھی جمع ہو جائیں تو وہ کسی ہاری اور مزارع کو کسی وڈیرے کے ساتھ برابر میں چارپائی پر نہیں بٹھا سکتے کہ وہ اپنے آپ کو وڈیروں سے کمتر سمجھتے ہیں اور غلامی پر رضامند ہوتے ہیں، ہاں البتہ کسی آزاد فضا میں طویل تربیت کے بعد ہی ان کے اندر کا ڈر دور ہو سکتا ہے۔
یہاں صحرا نوردی میں تین مایہ ناز راہنما، شعیبؑ، موسیؑ اور ہارونؑ نے بنی اسرائیل کی تربیت شروع کر دی۔
پانی کی قلت 
صحرا میں پانی کی قلت تھی اور محدود تعداد میں پانی کے چشمے موجود تھےجو بنی اسرائیل کے بارہ قبائل کی چھ لاکھ سے زائد آبادی کے لئے ناکافی تھے، پانی کے حصول پر جھگڑے ہو سکتے تھے،  لہذا پانی کی منصوبہ بندی ضروری تھی۔ اس مسئلہ کو موسیٰؑ نے دانش و حکمت کے عصا کا کمال استعمال کرتے ہوئے احسن طریقے سے حل کر دیا۔ وہ اس طرح کہ ہر قبیلے کے لئے الگ الگ چشمے اور گھاٹ مقرر کر دئیے تا کہ تمام قبیلوں کا جھمگھٹا ایک ہی چشمے پر نہ ہو اور تمام قبیلوں اور افراد کو مناسب وقت میں پانی دستیاب ہو جائے۔
من و سلویٰ 
صحرا میں مصر کے دریائی علاقے کی طرح زرعی اجناس اور سبزیاں دستیاب نہ تھیں، محدود غذائیں البتہ موجود تھیں، قسم قسم کی انواع نہ تھیں، صحرا میں تو زیادہ تر من و سلوی ہی کی غذا پائی جاتی تھی "من" ایک قسم کا خود رو صحرائی پودہ تھا، جس کو دانے لگتے تھے، جنہیں جمع کر کے اور پیس کر روٹی بنائی جا سکتی تھی اور"سلویٰ" ایک پرندہ تھا جو کہ جوق در جوق اسی "من" کو چگنے کے لئے آتے تھے اور آسانی سے شکار ہو جاتے تھے۔ یوں من و سلویٰ، روٹی اور گوشت پر مبنی غذا ہوا کرتی تھی۔ مگر مذہب کے ٹھیکیداروں نے اسے کوئی انہونی چیز بنا کر رکھ دیا ہے لوگوں نے مٹھائی کی دوکانوں کے نام من و سلوی رکھ لئے ہیں۔ 
بنی اسرائیل سالہا سال من و سلویٰ کھا کھا کر اکتا گئے اور مصر کی سبزیوں کو شدت سے یاد کرنے لگے۔
قران کریم میں سورہ بقرہ کی آیت نمبر 61 میں بنی اسرائیل پیاز، لہسن، ادرک اور کھیرے وغیرہ کو یاد کر رہے ہیں کہ مصر میں یہ چیزیں موجود تھیں اور کہہ رہے ہیں کہ اس آزادی سے تو مصر کی غلامی بہتر تھی، وہ یہ بھی گلہ کرنے لگے کہ ان کے ساتھ تو قسم قسم کے کھانوں کا وعدہ کیا گیا تھا مگر یہ کیا؟ کہ ہر روز من و سلویٰ۔ انہیں سمجھایا گیا کہ زرعی علاقے موجود ہیں اور وہاں جابر حکمرانوں نے قبضہ جما رکھا ہے، آپ میدان میں نکلیں، جدوجہد کریں، قبضہ چھڑوائیں اور کھیتی باڑی کریں، آپ دریائے اردن کے کناروں پر واقع اپنے آبائی وطن کنعان یعنی فلسطین کو آزاد کروائیں اور مزے اڑائیں، یہی آپ کے ساتھ وعدہ ہے، اسے Promised Land بھی کہا گیا ہے۔ مگر وہ موسیٰؑ کو کہتے ہیں کہ وہ خود ہی یہ جنگ کریں، کامیابی حاصل کریں اور وہ بعد میں آکر کھیتی باڑی کر لیں گے، گویا ابھی ان کے اندر کا ڈر ختم نہیں ہوا اور نہ ہی تلوار پکڑنے کی ہمت پیدا ہوئی۔
سامری کی جادوگری
موسیٰؑ تیس دنوں کے لئے کوہ طور پر گئے، جن میں دس دنوں کا مزید اضافہ کر لیا۔ وہ بنی اسرائیل کی راہنمائی کے لئے اپنے بھائی ہارونؑ کو اپنا جانشین مقرر کر گئے، مگر ان کے جانے کے بعد سامری نام کے ایک شخص نے بنی اسرائیل کو ایسا ورغلایا کہ گویا موسیٰؑ کی ساری محنت پر پانی پھیر دیا۔ سامری نے بنی اسرائیل سے کہا کہ ہمارا دیوتا ہمارے سامنے ہونا چاہئے، جس سے ہم اپنی منتیں مرادیں مانگ سکیں اور وہ انہیں پورا کرے اس مقصد کے لئے سامری نے بنی اسرائیل سے زیورات اور کچھ دھاتی سامان جمع کیا، اسے پگھلایا اور ایک دھاتی بچھڑا بنادیا اس میں سے ہوا کے داخل ہونے سے ایک قسم کی آواز بھی پیدا ہوتی تھی۔ سامری نے کہا کہ یہ تمہارا دیوتا ہے اور بولتا بھی ہے، لہذا چڑھاوے چڑھاؤ اور اپنے من کی مرادیں پاؤ، ہارونؑ نے منع کیا مگر بنی اسرائیل نے ان کی ایک نہ سنی، یوں بنی اسرائیل سامری کے پیچھے چل پڑے دراصل غلامی کی ذلت ایسی خوفناک ہوتی ہے کہ انسان تنکوں کا سہارا ڈھونڈنے لگ جاتا ہے اور سامریوں، مندروں، آستانوں اور درگاہوں کے شکنجے میں آسانی سے پھنس جاتا ہے۔ یہ کہانی صرف بنی اسرائیل کی نہیں ہے بلکہ آج بھی سامری سادہ لوح انسانوں کو بیوقوف بنا کر لوٹ رہے ہیں۔
موسیٰؑ چالیس دن بعد واپس لوٹے تو بہت مایوس ہوئے، انہوں نے ہارونؑ سے پوچھا کہ انہوں نے بنی اسرائیل کو سامری کی شعبدہ بازی کے پیچھے چل پڑنے سے کیوں نہ روکا۔ ہارونؑ نے جواب دیا کہ انہوں نے ضرور روکا مگر اگر مزید روکتے تو دو فرقے بن جاتے، ایک فرقہ سامری کا بن جاتا اور ایک ہارونؑ کا اور جب آپ واپس آتے اور میرا ساتھ دیتے تو سامری کہتا کہ بھائی کا ساتھ دے رہے ہیں۔ لہذا فرقہ بندی سے بچنے کے لئے ہارونؑ نے خاموشی اختیار کر لی۔ اب دونوں راہنماؤں نے مل کر حالات کو سنبھالا، سامری کا اثر زائل کرنا شروع کیا اور بنی اسرائیل کی از سر نو تربیت شروع کر دی۔
طویل صحرا نوردی اور نئی نسل کی آزادانہ تربیت 
طالوت Saul کی سربراہی اور اعتراضات
طاقت کا سر چشمہ، علم و شجاعت
جالوت Goliath کے ساتھ جنگ
داؤدؑ David کا فتح میں نمایاں کردار
سلطنت اسرائیل کا قیام
بنی اسرائیل کو طویل عرصہ تک صحرا و کوہستان کے ماحول میں دشوار گزار زندگی گزارنا پڑی، چالیس سال سے زائد کا عرصہ گزر گیا۔ نئی نسل پیدا ہو کر جوان ہو گئی،اس طویل عرصے میں تین راہنماؤں کی تربیت میسر رہی ان تین راہنماؤں، شعیبؑ، موسیٰؑ اور ہارونؑ کی اسی صحرا میں رحلت ہو گئی وہ مکمل کامیابی تو نہ دیکھ سکے مگر بنی اسرائیل کی مکمل تربیت کا کام کامیابی کے ساتھ سر انجام دے گئے۔
اب بنی اسرائیل کی قیادت جوانوں نے سنبھال لی جواں نسل میں فرعونوں کا ڈر نہیں تھا، سوچ تبدیل ہو چکی تھی، غلامی سے آزاد ہو چکی تھی، بہادر بننے کے لئے عقل و خرد کا غلامی سے آزاد ہونا ضروری ہوتا ہے۔
اقبالؒ کہتے ہیں:
خرد کو غلامی سے آزاد کر
جوانوں کو پیروں کا استاد کر
آزاد فضا میں طویل زندگی گزارنے کے باوجود فرعون کی غلامی میں صدیاں گزارنے کی وجہ سے بوڑھوں کے اندر سے ڈر ختم نہ ہو سکا مگر جوانوں میں یہ ڈر نہ تھا۔ جواں نسل مکمل طور پر صحرائی بھی تھی اور کوہستانی بھی۔
اقبالؒ کہتے ہیں:
فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
یا بندۂ صحرائی، یا مرد کوہستانی
اب بنی اسرائیل میں یہ خواہش سر اٹھانے لگی کہ ان کا بھی کوئی ملک ہو، ان کی بھی اپنی حکومت ہو اور اپنا حکمران ہو، اپنا بادشاہ ہو۔
طالوت کی قیادت اور اعتراضات
قدرت کی طرف سے اشارہ دیا گیا کہ بنی اسرائیل کی حکمرانی قائم ہو گی اور طالوت ان کا رہبر و حکمران ہو گا لہذا طالوت کی قیادت میں متحد ہو جائیں اور کنعان و فلسطین کو آزاد کروائیں اور اسرائیل کی سلطنت قائم کریں۔ واضع رہے کہ جالوت نے اس علاقے پر قبضہ کر کے ظالمانہ نظام حکومت قائم کیا ہوا تھا۔ بنی اسرائیل اب اس قدر آزاد اور بے خوف ہو چکے تھے کہ ہر بات کا تنقیدی جائزہ لیتے تھے۔ پہلا اعتراض تو یہ کیا کہ کیا طالوت بادشاہ بننے کا اہل بھی ہے؟ طالوت تو چند مویشیوں کے ساتھ ایک تالاب کے کنارے پر رہتا ہے جبکہ بادشاہوں کے تو بڑے بڑے محل ہوتے ہیں، اصطبل ہوتے ہیں۔ 
طاقت کا سر چشمہ اورعلم و شجاعت
قدرت نے جواب دیا کہ محلوں اور اصطبلوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی، وہ تو ہوا کے ایک معمولی جھونکے سے نیست و نابود ہو جاتے ہیں۔ بتایا گیا کہ اصل پائیدار طاقت علم و جسمانی شجاعت میں ہوتی ہے اور یہ دونوں چیزیں طالوت میں بدرجہ اُتم موجود ہیں۔قصۂ طالوت و جالوت کا ذکر قرآن کریم کی سورۂ بقرہ کی آیات 246 سے 252 میں موجود ہے۔
طالوت پر یہ بھی اعتراض کیا گیا کہ ان کا تعلق تو بنیامین کے قبیلے سے ہے جو سب سے چھوٹا اور بنی اسرائیل کا بارھواں قبیلہ ہے۔ اگر بنی اسرائیل کا کوئی بادشاہ بننے جا ہی رہا ہے تو بڑے قبیلوں میں سے ہوتا، سموئیل سے ہوتا، یہودا سے ہوتا۔ یہ کیا کہ بنیامین کے قبیلے سے ہمارا بادشاہ بنے گا؟ انہیں بتایا گیا کہ قبیلوں کے بڑے چھوٹے ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، اہلیت ہونی چاہئیے اور اہلیت طالوت میں موجود ہے،یوں بالآخر بنی اسرائیل نے طالوت کی قیادت قبول کر لی۔
جالوت کے خلاف جنگ
جالوت ایک ظالم حکمران تھا، وہ کنعان و فلسطین پر ناجائز قابض تھا بنی اسرائیل نے طالوت کے لشکر میں شامل ہو کر جالوت کے ساتھ جنگ کا آغاز کیا جالوت کی دہشت اس قدر زیادہ تھی کہ اس کے مد مقابل آنے سے ہر کوئی خوفزدہ تھا طالوت نے اعلان کیا کہ جو بھی جالوت کا خاتمہ کرے گا وہ ان کا جانشین ہو گا، بہت سوں کی رال ٹپکی مگر کسی کی ہمت نہ پڑی بالآخر طالوت کے لشکر میں سے ایک شخص داؤد میدان میں آیا، دیوہیکل جالوت کو للکارا۔ اب بنی اسرائیل کی فتح کا دارومدار داؤد اور جالوت کی جنگ کے نتیجے پر تھا۔ داؤد نے نہایت جواں مردی سے مقابلہ کیا اور جالوت کو شکست فاش سے دو چار کر کے بنی اسرائیل کی فتح کے ڈنکے بجا دئے، طالوت کی بادشاہت قائم ہو گئی، اسرائیل کی سلطنت قائم ہو گئی۔ بنی اسرائیل سالہا سال سے مصر سے روانہ ہوتے ہوئے یوسفؑ کی ہڈیاں اور باقیات ساتھ ساتھ لئے پھر رہے تھے، اب وہ یعقوبؑ کے دیس میں پہنچ گئے تھے اور یوسفؑ کی باقیات کو اپنے آبائی وطن میں مستقل دفن کرنے اور ان کا مقبرہ بنانے کا وقت آگیا تھا، اس طرح انہوں نے یوسفؑ کی وصیت کے مطابق فلسطین میں ان کا مقبرہ بنا دیا، طالوت کے بعد داؤدؑ اسرائیل کی سلطنت کے حکمران بنے۔
<<<گزشتہ::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::مزید>>>
مکمل تحریر >>

22 جون، 2015

بنی اسرائیل کی تاریخی داستان(غلامی سے آزادی)حصہ دوم

موسیٰؑ   کا مدائین میں قیام  دوران قیام بکریاں چرانا
 کائنات کی وسعتوں سے روشناس ہونا
سمندر یعنی خلیج عقبہ کے مد و جذر کا گہرا مطالعہ
 شعیبؑ سے تعلیم و تربیت کا حصول
قدرت بنی اسرائیل کی فرعون سے آزادی کے لئے ان کے لیڈر کی ہر طرح سے تربیت کر رہی ہے، اسباب پیدا کر رہی ہے، فرعون کے محل میں پہنچا کر اس کی حکمت عملی کا وافر تجربہ کروا دیا، جس دشوار گزار راستے سے کل کو بنی اسرائیل کو مصر سے نکالنا ہے اس پر سفر کروا دیا اور اب تربیت کا اگلا مرحلہ مدائین میں مکمل ہونے جا رہا ہے۔ واضع رہے کہ قدرت اسباب پیدا کر رہی ہے اور ہر چیز علت و معلول Cause and Effect کے قوانین کے تحت ہو رہی ہے اور یہ قوانین تمام انسانوں کے لئے یکساں ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ مذہب کو رسومات میں بدلنے والے قسم قسم کی کہانیاں گھڑ کر طرح طرح کے مغالطے پیدا کر دیتے ہیں۔حالانکہ حق کا راستہ تو سیدھا اور سادہ ہے۔
سلطان باہوؒ کہتے ہیں:
مذہباں دے دروازے اچے، حق دے راہ نوں موری ہُو
ملا پنڈت لنگن نہ دیندے، جو لنگیا سو چوری ہُو
اب موسیؑ نے معاہدے کے تحت شعیبؑ کی بکریاں چرانا شروع کیں گویا فرعون کے محل سے نکل کر چرواہا بن گئے، دس سال تک خلیج عقبہ کے مشرقی بیابانوں میں بکریاں چرائیں، یہاں کھلے ماحول میں کائنات کی بیکراں وسعت کا اندازہ ہوا، صحرائی اور کوہستانی زندگی کی دشواریوں اور سختیوں سے روشناس ہوئے، اور جس سمندر کو بنی اسرائیل کے قافلے کے ساتھ کل کو عبور کرنا ہے، اس کا گہرا مطالعہ کرنے کا موقع ملا، یعنی چوبیس گھنٹوں میں کس وقت سمندر کی لہریں پیچھے ہٹتی ہیں اور سمندر خشک ہو جاتا ہے، کتنے فاصلے تک پانی پیچھے ہٹتا ہے اور کتنی دیر کے لئے ہٹا رہتا ہے۔ اور جب سمندر کی لہریں واپس آتی ہیں تو کتنا وقت لیتی ہیں اور ان کی رفتار کیا ہوتی ہے۔ یہ مشاہدہ اور مطالعہ موسیؑ دس سال تک متواتر کرتے رہے، اس طرح انہیں خلیج عقبہ کے پانیوں کے ہر موسم میں ہونے والے مد و جذر کے بارے تمام باریکیاں ازبر ہو گئیں۔
بکریاں چرانا بھی ایک زبردست تجربہ ہے، یہ ادھر ادھر بھاگتی رہتی ہیں، انہیں چرواہا اپنے آپ سے مانوس کرتا ہے، منظم کرتا ہے، ان کے لئے درختوں سے پتے وغیرہ جھاڑتا ہے، مناسب وقت پر پانی کے چشمے یا کنویں پر لے کر جاتا ہے۔ گویا چرواہا ایک اچھا منتظم بن جاتا ہے۔ موسیؑ نے کل جو ایک بہت بڑی قوم کو منظم کرنا تھا، اس لئے یہ تربیت ضروری تھی۔ ویسے تو تمام پیغمبروں نے بکریاں چرائیں اور تمام چرواہے رہے، جد پیغمبراں ابراہیمؑ بھی چرواہا رہے، جنہوں نے نمرود کے جبر و استبداد اور نفرت و آتش فشانی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے حق کا علم بلند کیا۔
ہمارے ہاں  اکثر مویشی چرانے والے گوجر قوم سے تعلق رکھتے ہیں۔
 وہ فخر سے کہتے ہیں:
گوجر ذات پیغمبراں دی
موسو وی بکر وال ہویو
ان سب تجربوں سے بڑھ کر موسیٰؑ  کی شعیبؑ کے ہاتھوں تعلیم و تربیت تھی چرواہے تو کئی ہوتے ہیں مگر یہ شعیبؑ تھے جنہوں نے موسیٰؑ  کوچرواہے سے کلیم اللہ بنا دیا، قدرت کے اسرار و رموز سمجھا دئے، ایک عظیم دانشور بنا دیا، ایک محکوم و غلام قوم کی راہنمائی کی مکمل تربیت  دی۔ 
اقبالؒ کہتے ہیں: 
اگر شعیب آئے میسر
شبانی سے کلیمی دو قدم ہے
اس طرح دس سال گزر گئے،شعیبؑ نے موسیٰؑ  کو مصر واپس جانے کی اجازت دے دی، تب تک مصر میں فرعون بدل گیا تھا، موسیٰؑ  کا واقعہ پرانا ہو چکا تھا اور موسیٰؑ   کو بظاہر کوئی خطرہ نہ تھا، موسیٰؑ  بھی اپنے قبیلے اور بالخصوص اپنے بڑے بھائی ہارونؑ کو ملنے کے لئے بیتاب تھے، اپنی بیوی صفورہ کو لے کر مصر کی جانب چل پڑے۔
موسیٰؑ کی مدائین سے مصر واپسی، فرعون کو حق کا پیغام، فرعون کے ساحروں کے ساتھ مناظرہ
موسیٰؑ مدائین سے انہی مانوس راستوں سے مصر کی جانب چل پڑے جن پر چل کر مصر سے مدائین پہنچے تھے راستے میں قدرت نے موسیٰؑ کو فرعون کو دعوت حق دینے کا مشن سونپا واضع رہے کہ اب موسیٰؑ کی عمر چالیس سال ہو چکی تھی، ان کا صداقت اور امانت کا کردار قوم کے سامنے تھا، ان پر اعتماد نہ کرنے کی کوئی وجہ نہ تھی قدرت نے فرعون کا مقابلہ کرنے اور بنی اسرائیل کو منظم کرنے کی اہلیت مختلف اسباب پیدا کرکے مکمل کر دی تھی اب انہیں کہا گیا کہ اب تک وہ عصا کے ساتھ بکریاں ہانکتے تھے، درختوں سے پتے جھاڑتے تھے اور اب عصا کو استعمال کرتے ہوئے بنی اسرائیل کو منظم کرو اور فرعون کی غلامی سے آزاد کروائیں، موسیٰؑ نے دعا کی کہ اس کام میں ان کے بڑے بھائی ہارون کو بھی شامل کر دیں، موسی نے واضع کیا کہ ہارون کو مصر کی زبان پر عبور حاصل ہے اور مؤثر گفتگو کر سکتے ہیں جبکہ اپنے بارے میں بیان کیا کہ دس سال مصر کی آبادیوں سے دور، جنگلوں بیابانوں میں رہتے ہوئے ان کی مصری زبان کی فصاحت و بلاغت میں کمی آ گئی ہے، قدرت نے موسیٰؑ کی دعا قبول کر لی یوں موسیٰؑ اور ہارونؑ نے یہ کام نبھانے کی ٹھان لی انہیں بتایا گیا کہ فرعون سخت طبیعت والا ہے اور اس کے ساتھ نرمی سے بات کرنا کہ کہیں وہ فوری نقصان نہ پہنچائے،
یہ بھی واضع رہے کہ ہارونؑ موسیٰؑ سے تین سال بڑے تھے،اکثر علماء نے مشہور کر رکھا ہے کہ فرعون بنی اسرائیل کے مرد بچوں کو پیدا ہوتے ہی قتل کر دیتا تھا اور موسیٰؑ بس زندہ بچ گئے اور نہ صرف بچ گئے بلکہ ان کی پرورش و تربیت بھی فرعون کے محل میں ہوئی، تو کئی سوال پیدا ہوتے ہیں کہ ہارونؑ کیسے زندہ بچ گئے؟ اور موسیٰؑ کی قوم میں مرد ہونے ہی نہ چاہئے تھے، فقط عورتیں ہی ہونا چاہئے تھیں؟ 
بات یہ ہے کہ فرعون اگر مرد بچوں کو مروا دیتا تھا تو غلام کم ہو جاتے اور فرعونی نظام کا سارا دارومدار ہی غلاموں پر تھا، اس طرح کے بے شمار مغالطے پیدا کئے گئے ہیں، جن کی تصحیح ضروری ہے۔
فرعون بنی اسرائیلیوں کے مردوں کو نہیں ان کی مردانگی کو قتل کر دیتا تھا، کچل دیتا تھا، عزت نفس کو تہس نہس کر دیتا تھا اور فقط نسوانیت کو زندہ رہنے دیتا تھا اور نسوانیت ہمیشہ  کمزوری اور غلامی کی علامت رہی ہے۔
اب موسیٰؑ  و ہارونؑ دعوت حق دینے کے لئے فرعون کے پاس گئے، توحید کا پیغام دیا اور نئے نظام کا نقشہ پیش کیا، فرعون نے ہامان (اپنے نظام کے مفتئ اعظم) کو بلایا اور اسے کہا کہ ساحروں (مذہبی چیلوں) کو بلاؤ کہ وہ موسیٰؑ سے مناظرہ کرکے انہیں خاطر خواہ جواب دے کر غلط ثابت کریں تا کہ کہیں یہ لوگوں کو گمراہ نہ کر دیں ،ساحر کا لفظ اپنے مذہبی چیلوں کے لئے فرعون نے ہی استعمال کیا کیونکہ وہ انہی ساحروں کے ذریعے عوام الناس کو غلامی کے سحر میں مبتلا رکھتا تھا، یہ فرعونی قوتیں ہی تھیں جو پیغمبروں کو بھی ساحر کہتی رہیں، اللہ تعالی اور حق کی قوتوں نے کہیں بھی ساحر کا لفظ استعمال نہیں کیا، وہ تو طبعی قوانین کی بات کرتے رہے جو پوری کائنات میں واحد ہیں اور یہ قوانین کی وحدانیت ہی توحید ہے۔
فرعونی و ہامانی ساحروں سے مناظرہ
ایک مجمع عام میں ساحروں نے مدّلل طریقے سے لوگوں کے سامنے اپنے نظریات پیش کئے اور فرعونی نظام کو درست ثابت کرنے کی بھر پور کوشش کی، لوگ متاثر ہونے لگے، موسیٰؑ تھوڑے سے متذبذب ہوئے کہ شائد ان کی بات مجمع پر اثر نہ کرے، قدرت نے تسلی دی کہ ان ساحروں کی دلیلیں تو کچھ بھی نہیں ہیں، تمہارے پاس زبردست پروگرام ہے اور فتح  حق  کی  ہی ہو گی۔ ساحروں کے بعد موسیٰؑ نے آواز حق بلند کی، اپنا پروگرام پیش کیا، فرعونی نظام کو غیر انسانی ثابت کیا۔ ساحروں کی باتیں ہوا میں اڑ گئیں، اور سب سے پہلے ان ساحروں نے ہی موسیٰؑ کی صداقت پر مبنی باتوں کی تصدیق کی بلکہ ببانگ دہل موسیٰؑ کا ساتھ دینے کا اعلان کر دیا، فرعون غصے سے بولا کہ اس کے ساحر تو موسیٰؑ کے چیلے ثابت ہوئے اور کہا موسیٰؑ سب سے بڑا ساحر ہے اور یہ سب آپس میں ملے ہوئے ہیں، فرعون نے اپنے ساحروں کو سخت ترین سزائیں دینے کا حکم صادر کیا،فرعون نے گھوڑے منگوائے، اپنے ہر ساحر کی ٹانگوں کو  رسے باندھ کر گھوڑوں کی ساتھ باندھ دئیے، ساحر جو کہ اس قوم کے سب سے بڑے دانشور تھے، اہل علم تھے، نے کہا کہ ان پر حق واضع ہو گیا ہے، وہ گمراہی سے نکل آئے ہیں اور وہ کوئی بھی قربانی دینے کو تیار ہیں، فرعون نے گھوڑے مخالف سمت میں دوڑا کر اپنے ساحروں کے جسموں کو چیر کر بد ترین سزا دی اور لوگوں کو موسیٰؑ سے دور رہنے کا سخت ترین پیغام دیا۔
اس طرح نظریاتی محاذ پر موسیٰؑ و ہارونؑ کو زبردست فتح نصیب ہوئی مگر وہ فرعون کے راہ حق پر آنے کی امید سے مکمل مایوس ہو گئے، اب ایک ہی طریقہ رہ گیا کہ بنی اسرائیل کی تربیت کی جائے، منظم کیا جائے اور فرعون کی غلامی سے کہیں دور لے جایا جائے۔
موسیٰؑ اور ہارونؑ کا بنی اسرائیل کی تعلیم و تربیت اور تنظیم نو کرنا
کسی بھی تحریک میں اور جدوجہد میں راہنما کی ضرورت ہوتی ہے، قوم کا راہنما پر مکمل اعتماد ہونا نہائت ہی اہم ہے۔ لہاذہ راہنما نے قوم کے سامنے جو زندگی گزاری ہو، وہ بے داغ اورصاف و شفاف ہو، راہنما کی صداقت و امانت کی شہادت ہر خاص و عام دے رہا ہو، وہ مجمع میں کھڑا ہو کر چیلنج کر سکتا ہو کہ اس کے کردار کی حقانیت پر کسی کو ذرا سا شبہ بھی ہے تو بتایا جائے، عوام الناس کا جب تک اپنے راہنما کی جامع راہنمائی پر یقین کامل نہ ہو، اتحاد و تنظیم کی راہیں ہموار نہیں ہوتیں۔ اسی طرح دشوار گزار راستوں پر رواں دواں ہونے کے لئے عقل و شعور کے ہتھیاروں سے مسلح ہونا بھی ضروری ہے یعنی راہنما بہادر ہو، مشکلات سے لڑ سکتا ہو، محض پند و نصیحت ہی کرنا نہ جانتا ہو کہ جہاد زندگانی میں خواہشات کی تکمیل محض باتوں سے نہیں ہوتی، موسیٰؑ کی ذات میں یہ صفات موجود تھیں، قدرت نے ان کی ہر پہلو سے تربیت کر رکھی تھی اور اب وہ تاریخ عالم کے بہت بڑے انقلاب کی بنیاد رکھنے جا رہے تھے۔
ید بیضا اور عصا  .WHITE HAND and ROD of Moses
ید بیضا علامت ہے موسیٰؑ کے بلند و بالا اور بے داغ کردار کی، یعنی ان کا ہاتھ صاف ہے، اس پر کسی قتل ناحق کا داغ و دھبہ نہیں، ان کے ہاتھوں نے کسی کی جائیداد غصب نہیں کی، کوئی ناجائز و ممنوع کام نہیں کیا۔ وہ مجمع میں کھڑے ہو کر اور اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر ببانگ دہل اعلان کرتے تھے کہ اے گروہ مردم! تم گواہ ہو کہ میرے ہاتھ صاف و سفید ہیں، کسی غلط کام میں ملوث نہیں رہے۔ اس لئے جو باتیں میں کر رہا ہوں، ان کو سچ مانو، ایمان لاؤ، انہی میں فرعون کی خدائی سے تمہاری نجات کی راہ ہے۔ 
اس طرح یہ واضع ہے کہ ہر سچے راہنما کا ہاتھ ید بیضا ہونا چاہئے، اس کی صداقت و امانت کے ڈنکے بج رہے ہوں، گویا ہر نبی، ہر رسول، ہر پیغمبر اور ہر ہادی و راہنما کا ہاتھ ید بیضا ہے جیسا ہونا چاہئے۔ اس کے بغیر قوم اعتماد نہیں کر سکتی اور ابلیسی قوتیں دائیں بائیں، آگے پیچھے، اوپر نیچے اور اندر و باہر سے حملہ آور ہوتی رہتی ہیں، لہذا کردار مستند و مسّلمہ ہونا ضروری ہے۔ لیڈر کا ماضی ایسا ہو کہ اس نے ہمیشہ بے خوف و خطر حق کا ساتھ دیا ہو، اسے اپنے کردار پر فخر ہو۔ محمد رسول اللہﷺ نے ایک موقع پر فرمایا تھا  " میں وہ ہوں جو حلف الفضول میں شامل تھا" یعنی انہوں نے ہمیشہ حق کا ساتھ دیا ہے۔ (حلف الفضول ایک معاہدہ تھا جو مکہ کے چار فضل نام کے اشخاص نے کیا تھا کہ وہ باہر سے آئے ہوئے تاجروں کا تحفظ کریں گے جنہیں مکہ کے اوباش نوجوان تجارتی میلہ کے موقع پر لوٹ لیا کرتے تھے۔ یہ اعلان نبوت سے بہت پہلے کی بات ہے)
عصا کیا ہے؟ 
عصا عقل و شعور کی منصوبہ بندی کے ساتھ تمام وسائل بروئے کار لاتے ہوئے عملی جدوجہد کا نام ہے،عصا ایک علامت ہے، ہتھیار ہے، میدان کارزار میں ہمت و شجاعت کا نام بھی ہے۔ محض باتوں سے، محض کلیمی سے انقلاب برپا نہیں ہوتے، عصا ضروری ہے، عملی جدوجہد ضروری ہے۔
 اقبالؒ کہتے ہیں:
رشی کے فاقوں سے نہ ٹوٹا برہمن کا طلسم
عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کار بے بنیاد
یعنی محض چلہ کشیوں، فاقہ کشیوں کی منتوں مرادوں سے برہمن کی لوٹ مار کا طلسم نہیں ٹوٹا کرتا، اس کے لئے عصا لے کر میدان میں کودنا پڑتا ہے گویا یہ اصول بھی طے ہو گیا کہ ہر راہنما کو محض تقریروں، باتوں پر بھروسہ نہیں کرنا بلکہ عصا لے کر عملی جدوجہد لازم ہے۔ اس طرح تمام نبی، تمام رسول، تمام پیغمبر اور ہادی و راہنما اپنا اپنا عصا لے کر عملی جدوجہد کے لئے میدان کار زار میں نکلے اور کامیابیوں کے جھنڈے گاڑے۔ 
افسوس کہ حقیقت کو خرافات میں بدلنے والے پادریوں اور انہی کے نقش قدم پر چلنے والے ملاؤں نے ید بیضا اور عصا کے مفہوم بدل دئیے، ید بیضا کو جادوگری جیسی کوئی چیز بنا دیا اور عصا کو ایک طرح کی جادو کی چھڑی۔ موسیٰؑ اور ہارونؑ نے اپنی ید بیضا اور عصا کی بے پناہ قوتوں کے ساتھ بنی اسرائیل کی غلام قوم میں آزادی کی شمعیں روشن کر دیں، لیکن صدیوں کی غلامی نے ان کی مردانگی کو کچل کے رکھ دیا تھا اس لئے ضروری ہو گیا کہ بنی اسرائیل کی مزید تربیت کسی آزاد فضا میں کی جائے اور مصر کے غلامانہ ماحول سے کوچ کر جانے کی منصوبہ بندی کی جائے۔
موسیٰؑ کی قیادت میں بنی اسرائیل کا مصر سے خروج   The Exodus
بنی اسرائیل اپنے جد امجد یعقوبؑ کیساتھ 1875 ق -م میں خوش و خرم اور عزت و احترام کے ساتھ مصر میں داخل ہوئے تھے۔ یہ شان و شوکت یوسف ؑ کی وجہ سے تھی, چار سے زائد صدیاں گزر گئیں، یوسفؑ رحلت فرما گئے، حکمران بدل گئے  نئے فرعونوں نے بنی اسرائیل کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دیا قدرت نے اپنے منصوبے کے تحت بنی اسرائیل میں سے موسیؑ کو پیدا کیا اور بنی اسرائیل کی راہنمائی کے تیار کر دیا، موسیٰؑ و ہارونؑ نے فرعون عصر کو راہ حق کی دعوت دی مگر سخت مایوس ہوئے ادھر بنی اسرائیل کی قوم میں صدیوں کی ذلت آمیز غلامی نے سارا دم خم نکال دیا تھا، وہ فرعون کے سامنے کھڑا ہونا تو دور کی بات، فرعون کا نام سن کر ہی کانپنے لگتے تھے لہذا ضروری تھا کہ بنی اسرائیل کو فرعون کے غلامانہ ماحول سے کہیں آزاد فضا میں لے جا کر ان کے اندر کا ڈر ختم کیا جائے،  ایسا نہیں تھا کہ بنی اسرائیلی آزادی نہیں چاہتے تھے۔ وہ آزادی چاہتے تو تھے مگر بغیر کسی قربانی کے، بغیر کوئی جدوجہد کئے، ان کے اندر کا اعتماد اور ہمت و مردانگی کچلی جا چکی تھی۔ 
اب موسیٰؑ نے بنی اسرائیل کو مصر سے نکال کر مدائین کے بیابانوں میں لے جانے کا فیصلہ کیا۔ نہایت منظم انداز میں منصوبہ بندی کی گئی کہ فرعون کو کانوں کان خبر نہ ہو بنی اسرائیل مصر میں گھوشن کے مقام پر رہائش پذیر تھے، یہ علاقہ فرعون کے محلوں سے الگ تھا یہ دریائے نیل کے مشرق میں واقع تھا جبکہ فرعون کا دارالخلافہ میمفِس دریائے نیل کے کنارے پر گھوشن سے شمال مغرب کی جانب تھا بنی اسرائیل کا مدائین کی جانب کا سفر بھی مشرق کی سمت میں تھا  اس کے راستے میں دریائے نیل تو آتا ہی نہ تھا، خلیج سویز کو بھی عبور کرنے کی ضرورت نہ تھی کیونکہ گھوشن سے خلیج سویز کے مشرقی ساحل کی طرف آسانی سے پہنچ جانے کا راستہ موجود تھا، یہ سارے بیابانوں، صحراؤں، کوہستانوں اور سمندروں کا راستہ موسیٰؑ  کا دیکھا بھالا تھا وہ مصر سے مدائین اور دس سال بعد مدائین سے مصر کی واپسی کا سفر اسی راستے سے کر چکے تھے، یوں وہ اس راستے کی تمام تر پیچیدگیوں سے بخوبی واقف تھے جبکہ فرعونی اس بیابانی علاقے کی پیچیدگیوں سے پوری طرح واقف نہ تھے، 
بنی اسرائیل نے اپنا سارا سازوسامان اور ہر قسم کی جمع پونجی اکٹھی کر لی، مال مویشی بھی ساتھ لے جانے کی تیاری کر لی، سب سے قیمتی اثاثہ یوسفؑ کی باقیات بھی ان کے مصری مقبرے سے نکال کر ساتھ لے جانے کا اہتمام کر لیا، یہ یوسفؑ کی وصیت بھی تھی کہ جب مصر سے کوچ کرو تو ان کی باقیات ساتھ لے جا کر اپنے نئے مسکن کے پاس دفن کر لینا،
بنی اسرائیل کی قوم بارہ قبیلوں پرمشتمل تھی اور ان کی آبادی اندازاً  چھ لاکھ نفوس پرمشتمل تھی۔ بارہ قبیلے 430 سال تک مصر میں قیام پذیر رہے اور اگر اتنے عرصے میں ہر قبیلے کی اوسط آبادی پچاس ہزار تک بھی پہنچ چکی ہو تو بارہ قبیلوں کی آبادی کا چھ لاکھ تک پہنچ جانا، کسی طور بھی بعید از قیاس نہیں۔ البتہ کچھ مؤرخین نے تعداد چھ لاکھ سے بھی زیادہ ہو جانے کا عندیہ دیا ہے۔
ذرا تصور کیجئے کہ چھ لاکھ کے قافلے کو بیابانوں سے خامشی و حفاظت سے گزار کر مدائین پہنچانا  جس میں بچے، بوڑھے، جوان اور ہر عمر کی خواتین شامل تھیں ہر گز ایک آسان معرکہ نہ تھا ۔ موسیٰؑ نے انتہائی منظم طریقے سے قافلے کی تمام ضرورتوں کا خیال رکھتے ہوئے عظیم سفر کا آغاز کیا،انجیل مقدس اور ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق مصر سے مدائین تک کے سفر میں  پچاس قیام کئے اورسات ویرانے Wildernesses عبور کئے۔(ان سب کی تفصیل انٹرنیٹ پر موجود ہے۔ آپ The Exodus Route لکھ کر تلاش کریں، ساری تفصیلات نقشوں سمیت سامنے آ جائیں گی۔ البتہ مذہبی مفسرین نے شدید غلطیاں کر کے اپنی لا علمی، ہٹ دھرمی اور جہالت کے متعدد ثبوت فراہم کئے ہیں۔)
موسیٰؑ بنی اسرائیل کو مانوس راستوں سے گزارتے ہوئے، خلیج سویز کے شمالی ساحل کے ساتھ ساتھ مجمع البحرین کے پاس سے گزرتے ہوئے بحرۂ ا حمر اور خلیج عقبہ کے بیچ میں واقع آبنائے تائیران(Straits of Tiran)  تک لے آئے۔
اب بنی اسرائیل کو خلیج عقبہ کے سمندر کو عبور کرنا تھا، اب یہاں پر تین امکانات ظاہر کئے گئے ہیں۔ پہلا آبنائے تائیران سے خلیج عقبہ کو عبور کرنا، دوسرا شمال میں خلیج عقبہ کو عبور کرنا اور تیسرا انتہائی شمال سے عبور کرنا۔ موسیٰؑ نے خلیج عقبہ کے کناروں پر دس سال بکریاں چرائیں تھیں، انہیں اس سمندر کے مد و جذر کا بخوبی علم تھا کہ کس وقت سمندر کا پانی اترتا ہے، کس وقت چڑھتا ہے اور کتنی عرصے بعد واپس آتا ہے، زیادہ امکان آبنائے تائیران سے عبور(The Crossing) کرنے  کا ہے، موسیٰؑ نے عقل و دانش، علم و حکمت اور طویل تجربے سے لیس عصا کا بر وقت استعمال کیا اور سمندر کو عبور کرنے کی خوفناک رکاوٹ کو پاش پاش کر دیا۔ 
ادھر فرعون کو تین ہفتے بعد پتہ جلا کہ بنی اسرائیل بھاگ گئے ہیں، منادی کروائی گئی، لشکر اور گھوڑا گاڑیاں اکٹھی کی گئیں۔ جب فرعونی لشکر بنی اسرائیل کی قریب پہنچے تو بنی اسرائیل سمندر کو پار کر ہی چکنے والے تھے۔ انہوں نے فرعونی لشکروں کو دیکھا تو گھبرائے مگر موسیٰؑ نے تسلی دی کہ سمندر کے پانی کے تیزی کے ساتھ واپس آنے کا وقت ہوا ہی جاتا ہے، لہذا  وہ جلدی سے عبور کرلیں اور فرعونی تو تیزی سے واپس آتے ہوئے سمندری پانی میں غرق ہو جائیں گے، اس طرح بنی اسرائیل نے خلیج عقبہ عبور کر لیا اور اگلی منزلوں کی جانب رواں دواں ہو گئے،پیچھے سے آنے والے فرعونی لشکر سمندر میں اتر چکے تھے اور سمندر کے واپس آتے ہوئے پانی کی تیز رفتار بلند و بالا لہروں کی نذر ہو کر غرق ہو گئے۔
<<<گزشتہ::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::مزید>>>
مکمل تحریر >>

تلاش کیجئے