کوروش کبیرCyrus the Great
ذوالقرنین کی خصوصیات کا ذکر قرآن کریم کی سورہ نمبر ۱۸ الکہف کی آیات نمبر ۸۳ سے ۹۸ میں موجود ہے۔ مختلف مفسرین ان سولہ آیات کی تفسیر لکھتے رہے ہیں مگر جغرافیہ اور تاریخ کا علم نہ ہونے کی وجہ سے ان کی تفسیریں نامکمل اور غلط ہی ثابت ہوتی رہیں۔ قرآن کریم کی آیات میں دی گئی خصوصیات پر پورا نہ اترتی رہیں۔ مذہبی مفسرین، خصوصا" رازی مکتبۂ فکر کے رسوماتی و روایاتی مفسرین کی یہ کمزوری رہی ہے کہ وہ زمینی حقائق اور جغرافیائی محل وقوع سے کلی طور پر لاعلم ہوتے ہوئے بھی ایسے واقعات پر قلم اٹھاتے ہوئے ذرہ بھر بھی جھجک محسوس نہیں کرتے اور اپنی علمیت اور عقل کل ہونے کا رعب جھاڑتے ہیں۔ اس طرح یہ نام نہاد عالم فاضل تحقیق کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کا بھی موجب بنتے ہیں، حقائق منظر عام پر آنے کے باوجود، ان کے پیروکار ان کی جہالت کا دفاع کرتے رہتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ جتنا جانتے ہیں اتنا ہی لکھیں، باقی مستقبل کے محققین پر چھوڑ دیں۔ مگر ایسا کرتے ہوئے ان کے مصنوعی علمی قد کاٹھ میں کمی ہو جانے کا خدشہ لاحق ہو جاتا ہے۔
قرآن کریم کے مطابق ذوالقرنین ایسا حکمران تھا جس نے بہت زیادہ فتوحات کیں۔ اس کی فتوحات کا سلسلہ مشرق و مغرب تک پھیلا ہوا تھا، طلوع سورج سے کالے پانیوں تک اس کی سلطنت قائم تھی۔ اس نے اپنی سلطنت کے سرحدی علاقوں میں یاجوج ماجوج کی لوٹ مار روکنے کے لئے ایک سیسہ پلائی ہوئی عظیم دیوار بنوائی تاکہ سرحدی دیہات کے غریب و کمزور لوگ یاجوج ماجوج کی لوٹ مار سے محفوظ رہیں اور یہ بھی بتا دیا کہ یہ دیوار ہمیشہ نہیں رہے گی۔
تاریخ و جغرافیہ سے نابلد مفسرین نے کبھی اس کو یونان کے جنگجو سکندر اعظم کا نام دے دیا اور کبھی چین کے بادشاہ کا کہ جس کے دور میں دیوار چین بنائی گئی تھی۔ یہ دونوں ہی دی گئی خصوصیات پر پورا نہیں اترتے تھے۔ سکندر یونانی نے صرف تسخیر ہی تسخیر کی اور تعمیر کا کوئی کام سرے سے کیا ہی نہیں۔ وہ تو پنجاب کے راجہ پورس (پورو) کے ساتھ جنگ میں زخمی ہوا اور یونان واپس جاتے ہوئے زخموں کی وجہ سے قدیم شہر بابل پہنچ کر فوت ہو گیا۔ یوں سکندر یونانی کا قصہ تمام ہوا۔ اس نے اپنا کوئی جانشین مقرر نہ کیا۔ جانشینی کے متعدد دعویداروں نے وسیع تر مفتوحہ علاقے آپس میں تقسیم کر لئے۔ اس طرح سکندر کو تو کوئی دیوار بنانے کا موقعہ ہی نہ ملا۔ چین کے بادشاہ کی حکومت چین میں تھی، مشرق و مغرب تک پھیلی ہوئی نہ تھی۔
ذوالقرنین کی شناخت کا عقدہ تاریخ اور آثار قدیمہ کے ماہرین نے حل کر دیا۔ انہوں نے عظیم دیوار کے آثار بھی ڈھونڈ نکالے اور ذوالقرنین کا دو سینگوں والا تاج بھی۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ ذوالقرنین کون تھا اور اس کے کارنامے کیا تھے۔
ایران میں اس وقت دو ریاستیں تھیں جو فارس Persia اور میڈیا Media کے ناموں سے جانی جاتی تھیں۔ ذوالقرنین نے دونوں کو متحد کر کے سلطنت کی بنیاد رکھی۔ ذوالقرنین کا تاج دو سینگوں والا تھا۔ یہ دونوں سینگ فارس اور میڈیا کی نمائندگی کرتے تھے۔ ذوالقرنین کا مطلب بھی دو سینگوں والا ہے۔ اب ذوالقرنین نے فتوحات کا سلسلہ شروع کیا، مغرب میں بحرۂ اسود Black Sea تک جا پہنچا بلکہ اس سے مزید آگے یورپ میں بھی داخل ہو گیا۔ ذوالقرنین نے فلسطین و مصر وغیرہ کے تمام علاقے فتح کر لئے۔ مشرق کا رخ کیا تو دریائے سندھ کو عبور کر کے دریائے جہلم تک جا پہنچا۔ یوں یہ عظیم سلطنت فارس کا بانی مشرق و مغرب کا حکمران بن گیا۔ اس طرح دنیا کی پہلی عظیم سلطنت خانہ بدوشوں نے قائم کی۔ یہ سلطنت تین بر اعظموں پر محیط تھی۔ اس طرح ان خانہ بدوشوں نے اور ان کے عظیم راہنما ذوالقرنین نے ثابت کیا کہ وسائل کی فراوانی نہیں بلکہ علم و شجاعت سب سے بڑی قوت ہے۔ ذوالقرنین نے اپنی حکومت کی بنیاد عدل و انصاف پر رکھ کر اسے مزید مضبوط کیا۔ ذوالقرنین کا زمانہ چھٹی صدی قبل مسیح کاتھا۔
ذوالقرنین سے قبل بابل کے بادشاہ بخت نصر نے فلسطین فتح کیا تھا اور بنی اسرائیلیوں کو قید کر کے بابل لے آیا تھا۔ بنی اسرائیلی یہاں تقریبا" سو سال قید رہے اور ذلت و غلامی کی زندگی گزارتے رہے۔ یہودی آج بھی بخت نصر کے مظالم کو یاد کر کے کانپ اٹھتے ہیں۔ ذوالقرنین نے بنی اسرائیلیوں کو رہا کر دیا اور عزت و احترام کے ساتھ فلسطین پہنچا دیا۔ یہودی آج بھی ذوالقرنین (سائرس اعظم) کو اچھے الفاظ کے ساتھ یاد کرتے ہیں۔
آثار قدیمہ کے ماہرین نے اس دیوار کے آثار کو کھدائی کے ذریعے واضع کر دیا ہے، اس کے نقشے اور تصویریں انٹر نیٹ پر لگا دئیے ہیں۔ واضع رہے کہ ذوالقرنین کے بعد عدم حفاظت کی وجہ سے اور اس علاقہ میں زلزلوں کی وجہ سے یہ عظیم دیوار قائم نہ رہ سکی تھی۔ ذوالقرنین کا مقبرہ اس کے پایہ تخت پاسر گدائی Pasar Gadae کے مقام پر واقع ہے جو کہ موجودہ شہر تہران سے جنوب کی جانب تقریبا" سو میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس کے مزید جنوب میں تخت جمشید ہے جسے قصر دارا بھی کہتے ہیں یعنی Persepolis۔ ذوالقرنین کا مقبرہ ایک پتھروں سے بنے ہوئے پلیٹ فارم پر سادہ سی قبر ہے، جس پر کوئی گنبد یا چھت وغیرہ نہیں ہے۔ ایرانی ان آثار اور سلطنت فارس پر بہت فخر کرتے ہیں۔
محکمہ آثار قدیمہ کے ماہرین Archaeologists نے بحرۂ کیسپین کے ساتھ واقعہ اہم قصبہ گورگان کے نام سے اس کو دیوار گورگان کا نام دیا ہے اور ٹیڑھی میڑھی ہونے اور سرخ اینٹوں سے تعمیر کی وجہ سے سرخ سانپ The Red Snake کا نام بھی دیا ہے۔ یوں آپ Great Wall of Gorgon اور The Red Snake کے نام سے انٹرنیٹ پر مزید معلومات حاصل کر سکتے ہیں اور تصویریں بھی دیکھ سکتے ہیں۔
تاریخ اور آثار قدیمہ کے ماہرین کو سلام
قرآن کریم کے مطابق ذوالقرنین ایسا حکمران تھا جس نے بہت زیادہ فتوحات کیں۔ اس کی فتوحات کا سلسلہ مشرق و مغرب تک پھیلا ہوا تھا، طلوع سورج سے کالے پانیوں تک اس کی سلطنت قائم تھی۔ اس نے اپنی سلطنت کے سرحدی علاقوں میں یاجوج ماجوج کی لوٹ مار روکنے کے لئے ایک سیسہ پلائی ہوئی عظیم دیوار بنوائی تاکہ سرحدی دیہات کے غریب و کمزور لوگ یاجوج ماجوج کی لوٹ مار سے محفوظ رہیں اور یہ بھی بتا دیا کہ یہ دیوار ہمیشہ نہیں رہے گی۔
تاریخ و جغرافیہ سے نابلد مفسرین نے کبھی اس کو یونان کے جنگجو سکندر اعظم کا نام دے دیا اور کبھی چین کے بادشاہ کا کہ جس کے دور میں دیوار چین بنائی گئی تھی۔ یہ دونوں ہی دی گئی خصوصیات پر پورا نہیں اترتے تھے۔ سکندر یونانی نے صرف تسخیر ہی تسخیر کی اور تعمیر کا کوئی کام سرے سے کیا ہی نہیں۔ وہ تو پنجاب کے راجہ پورس (پورو) کے ساتھ جنگ میں زخمی ہوا اور یونان واپس جاتے ہوئے زخموں کی وجہ سے قدیم شہر بابل پہنچ کر فوت ہو گیا۔ یوں سکندر یونانی کا قصہ تمام ہوا۔ اس نے اپنا کوئی جانشین مقرر نہ کیا۔ جانشینی کے متعدد دعویداروں نے وسیع تر مفتوحہ علاقے آپس میں تقسیم کر لئے۔ اس طرح سکندر کو تو کوئی دیوار بنانے کا موقعہ ہی نہ ملا۔ چین کے بادشاہ کی حکومت چین میں تھی، مشرق و مغرب تک پھیلی ہوئی نہ تھی۔
ذوالقرنین کی شناخت کا عقدہ تاریخ اور آثار قدیمہ کے ماہرین نے حل کر دیا۔ انہوں نے عظیم دیوار کے آثار بھی ڈھونڈ نکالے اور ذوالقرنین کا دو سینگوں والا تاج بھی۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ ذوالقرنین کون تھا اور اس کے کارنامے کیا تھے۔
ذوالقرنین کون تھا؟
ذوالقرنین عظیم سلطنت فارس Persian Empire کا بانی تھا۔ اسے فارسی زبان میں کوروش کبیر اور انگریزی میں Cyrus the Great سائرس اعظم کہتے ہیں۔ ذوالقرنین سے پہلے ایران کے گرد و نواح میں دنیا کی تین ترقی یافتہ تہذیبیں موجود تھیں۔ مشرق میں وادئ سندھ کی تہذیب اور مغرب میں دجلہ و فرات کی تہذیب اور تیسری عظیم تہذیب وادئ نیل کی تہذیب یعنی
Indus Valley Civilisation
Mesopotamian Civilisation,
Egyptian Civilisation
اب کے علاوہ قابل ذکر بحرۂ روم کے شمال میں یونان اور اٹلی کی تہذیبیں سر اٹھا رہی تھیں۔ ان تین قدیم اور عظیم تین تہذیبوں کے بیچ میں ایران تھا۔ یہ علاقہ نیم صحرائی تھا، کوئی قابل ذکر دریا نہ تھا، کھیتی باڑی کا دار و مدار بارش پر ہی تھا۔ اکثر خشک سالی کا سامنا کرنا پڑ جاتا تھا۔ اکثر لوگ خانہ بدوشی پر مجبور ہو جاتے تھے۔ یہ خانہ بدوش دجلہ و فرات کی وادیوں کا رخ کرتے اور فلسطین و مصر تک بھی جا پہنچتے۔ مشرق کی طرف دریائے سندھ تک بھی پہنچ جاتے تھے۔ یوں انہیں قسم قسم کی تہذیبوں اور تمدنوں سے واسطہ پڑتا تھا۔ لہاذہ انہیں باقی لوگوں کی نسبت زیادہ علم حاصل ہوا۔ ایران میں اس وقت دو ریاستیں تھیں جو فارس Persia اور میڈیا Media کے ناموں سے جانی جاتی تھیں۔ ذوالقرنین نے دونوں کو متحد کر کے سلطنت کی بنیاد رکھی۔ ذوالقرنین کا تاج دو سینگوں والا تھا۔ یہ دونوں سینگ فارس اور میڈیا کی نمائندگی کرتے تھے۔ ذوالقرنین کا مطلب بھی دو سینگوں والا ہے۔ اب ذوالقرنین نے فتوحات کا سلسلہ شروع کیا، مغرب میں بحرۂ اسود Black Sea تک جا پہنچا بلکہ اس سے مزید آگے یورپ میں بھی داخل ہو گیا۔ ذوالقرنین نے فلسطین و مصر وغیرہ کے تمام علاقے فتح کر لئے۔ مشرق کا رخ کیا تو دریائے سندھ کو عبور کر کے دریائے جہلم تک جا پہنچا۔ یوں یہ عظیم سلطنت فارس کا بانی مشرق و مغرب کا حکمران بن گیا۔ اس طرح دنیا کی پہلی عظیم سلطنت خانہ بدوشوں نے قائم کی۔ یہ سلطنت تین بر اعظموں پر محیط تھی۔ اس طرح ان خانہ بدوشوں نے اور ان کے عظیم راہنما ذوالقرنین نے ثابت کیا کہ وسائل کی فراوانی نہیں بلکہ علم و شجاعت سب سے بڑی قوت ہے۔ ذوالقرنین نے اپنی حکومت کی بنیاد عدل و انصاف پر رکھ کر اسے مزید مضبوط کیا۔ ذوالقرنین کا زمانہ چھٹی صدی قبل مسیح کاتھا۔
ذوالقرنین سے قبل بابل کے بادشاہ بخت نصر نے فلسطین فتح کیا تھا اور بنی اسرائیلیوں کو قید کر کے بابل لے آیا تھا۔ بنی اسرائیلی یہاں تقریبا" سو سال قید رہے اور ذلت و غلامی کی زندگی گزارتے رہے۔ یہودی آج بھی بخت نصر کے مظالم کو یاد کر کے کانپ اٹھتے ہیں۔ ذوالقرنین نے بنی اسرائیلیوں کو رہا کر دیا اور عزت و احترام کے ساتھ فلسطین پہنچا دیا۔ یہودی آج بھی ذوالقرنین (سائرس اعظم) کو اچھے الفاظ کے ساتھ یاد کرتے ہیں۔
یاجوج ماجوج
سلطنت فارس کی شمالی سرحد پہاڑی دروں پر مشتمل تھی۔ ان دروں سے شمالی علاقوں کے پہاڑی لوگ گھس آتے تھے اور سرحدی علاقوں کے لوگوں کو لوٹ کر واپس چلے جاتیتھے۔ ان لٹیروں کو یاجوج ماجوج کہتے ہیں۔ یہ درے بحرۂ کیسپین Caspian Sea سے شروع ہو کر مشرق کی طرف ساٹھ میل تک پھیلے ہوئے ہیں۔ اس طرح ان غریب لوگوں نے غریبوں کی ہمدردی اور عدل و انصاف کی شہرت رکھنے والے بادشاہ ذوالقرنین سے درخواست کی کہ انہیں یاجوج ماجوج کی لوٹ مار سے نجات دلائی جائے۔
دیوار گورگان Great Wall of GorgonThe Red Snake
ذوالقرنین نے فیصلہ کیا کہ پہاڑی دروں کے درمیان ایک مضبوط دیوار بنا کر انہیں بند کر دیا جائے۔ ذوالقرنین نے سرحدی لوگوں سے کہا کہ وہ مزدور فراہم کریں جبکہ کاریگر، معمار اور عمارتی سامان ذوالقرنین فراہم کرے گا۔ یوں یہ ساٹھ میل لمبی دیوار بنا دی گئی۔ یہ دیوار سیدھی نہیں ہے بلکہ دروں کے مطابق ٹیڑھی میڑھی Zig Zag ہے۔ یہ دیوار سرخ اینٹوں سے بنائی گئی۔ اس مقصد کے لئے خاص طور پر اینٹیں تیار کی گئیں، اسے پتھروں اور مختلف دھاتوں سے مزید مضبوط کیا گیا۔ یہ دیوار بعض مقامات پر پانچ میٹر سے بھی زیادہ چوڑی ہے۔ اس کے اوپر جگہ جگہ حفاظتی مینار Gaurd Towers بنائے گئے۔ اس طرح ذوالقرنین نے سرحدی علاقوں کے لوگوں کو مکمل تحفظ فراہم کر دیا اور یاجوج ماجوج کی آمد کا سلسلہ بند کر دیا۔آثار قدیمہ کے ماہرین نے اس دیوار کے آثار کو کھدائی کے ذریعے واضع کر دیا ہے، اس کے نقشے اور تصویریں انٹر نیٹ پر لگا دئیے ہیں۔ واضع رہے کہ ذوالقرنین کے بعد عدم حفاظت کی وجہ سے اور اس علاقہ میں زلزلوں کی وجہ سے یہ عظیم دیوار قائم نہ رہ سکی تھی۔ ذوالقرنین کا مقبرہ اس کے پایہ تخت پاسر گدائی Pasar Gadae کے مقام پر واقع ہے جو کہ موجودہ شہر تہران سے جنوب کی جانب تقریبا" سو میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس کے مزید جنوب میں تخت جمشید ہے جسے قصر دارا بھی کہتے ہیں یعنی Persepolis۔ ذوالقرنین کا مقبرہ ایک پتھروں سے بنے ہوئے پلیٹ فارم پر سادہ سی قبر ہے، جس پر کوئی گنبد یا چھت وغیرہ نہیں ہے۔ ایرانی ان آثار اور سلطنت فارس پر بہت فخر کرتے ہیں۔
محکمہ آثار قدیمہ کے ماہرین Archaeologists نے بحرۂ کیسپین کے ساتھ واقعہ اہم قصبہ گورگان کے نام سے اس کو دیوار گورگان کا نام دیا ہے اور ٹیڑھی میڑھی ہونے اور سرخ اینٹوں سے تعمیر کی وجہ سے سرخ سانپ The Red Snake کا نام بھی دیا ہے۔ یوں آپ Great Wall of Gorgon اور The Red Snake کے نام سے انٹرنیٹ پر مزید معلومات حاصل کر سکتے ہیں اور تصویریں بھی دیکھ سکتے ہیں۔
تاریخ اور آثار قدیمہ کے ماہرین کو سلام