22 جون، 2015

بنی اسرائیل کی تاریخی داستان(غلامی سے آزادی)حصہ اوّل

قدرت کی منصوبہ بندی
بنی اسرائیل فرعونوں کی بد ترین غلامی کا شکار ہو چکے تھے وہ چاہتے تو تھے کہ آزاد ہو جائیں مگر ان میں سے کوئی جدوجہد کرنے اور قربانی دینے کے لئے ہر گز تیار نہ تھا، در اصل برس ہا برس کی غلامی اور رسوائی نے ان کے اندر کی مردانگی کُچل کے رکھ دی تھی اب ضرورت اس امر کی تھی کہ ان کے ہاں ایک ایسا لیڈر پیدا ہو جو فرعون کی سیاست اور حکمت عملی سے آگاہ ہو، بنی اسرائیل کو اس پر اعتماد ہو، وہ با کردار ہو یعنی وہ صادق اور امین ہو، وہ مصر اور گرد و نواح کے تہذیب و تمدن اور جغرافیائی حالات سے مکمل باخبر ہو، بنی اسرائیل کے اطوار سے بظاہر ایسی کوئی صورت دور دور تک نظر نہیں آتی تھی کہ ان میں ایسا کوئی لیڈر پیدا ہو سکتا ہے، ان کا فرعون کے محلوں کے قریب سے گزر بھی ممکن نہ تھا۔ 
قدرت نے بنی اسرائیل میں ایک بچہ پیدا کیا پیدائش سے پہلے بچے کی والدہ کو ذہنی طور پر تیار کر دیا کہ بچے کی بہتری اس بات میں ہے کہ اسے دریا میں ایک محفوظ صندوق میں ڈال کر بہا دیا جائے، یہ ضمانت بھی دے دی کہ بچہ محفوظ رہے گا اور والدہ کو لوٹا دیا جائے گا، بچے کی پیدائش کے بعد والدہ بے چین ہو گئی، اس کا دل بچے کو دریا میں بہانے کو نہیں چاہتا تھا مگر وہ خیال چین نہیں لینے دیتا تھا کہ بچے کی بہتری دریا میں بہا دینے میں ہی ہے، پیدائش کے بعد تین ماہ تک والدہ مسلسل تذبذب اور پریشانی کا شکار رہی، بالآخر والدہ نے ایک محفوظ صندوق میں بچے کو ڈال کر دریائے نیل کے سپرد کر دیا، دریا کے بہاؤ کا رخ بنی اسرائیل کے علاقے گھوشن سے فرعون کے محلوں یعنی میمفِس کی جانب تھا یعنی جنوب سے شمال کی طرف، صندوق دریا میں تیرتا جا رہاتھا اور دریا کے کنارے کے ساتھ ساتھ بچے کی بڑی بہن چلتی جا رہی تھی، صندوق فرعون علاقے میں پہنچ گیا وہاں فرعون کے خاندان و دربار کی خواتین موجود تھیں، انہوں نے صندوق پکڑ لیا، بچے کو دیکھا تو کہہ اٹھیں کہ یہ تو عبرانیوں یعنی بنی اسرائیل کا بچہ ہے اور بھوکا ہے، انہیں بچے کے دودھ کی فکر ہوئی، بچے کی بہن جو پاس کھڑی تھی، کہنے لگی کہ وہ کسی عبرانی عورت کو لاتی ہے جو بچے کو دودھ پلا سکے،ان خواتین نے کہا کہ ایسا جلدی کرو اور دودھ والی عبرانی عورت کو لے کر آؤ۔ وہ دوڑی دوڑی اپنے گھر آئی اور اپنی والدہ کو لے کر حاضر ہو گئی، یوں بچے کو دودھ پلانے کا بندوبست بھی ہو گیا، ماں کے دل کو چین بھی نصیب ہو گیا اور بچہ اپنی پرورش کے لئے فرعون کے محل میں پہنچ گیا۔ 
یہ حضرت موسیٰ ؑ تھے، ان کی والدہ بنی اسرائیل کے ایک اہم شخص عمران کی بیوی تھیں، اس وقت کے فرعون کی ایک بیٹی تھی اور بیٹا کوئی نہ تھا، یوں موسیٰؑ فرعون کے محل میں پلنے بڑھنے لگے وہ وہاں پر گھوڑے دوڑاتے اور گھوڑا گاڑی کی دوڑ میں حصہ لیتے، اس طرح وہاں رہتے ہوئے موسیٰؑ کو فرعون کی سیاست اور حکمت عملی سمجھنے کا خوب موقع مل گیا۔ 
موسیٰ ؑ جوان ہو گئے، ان کی تمام تر ہمدردیاں مظلوم عبرانیوں کے ساتھ تھیں، ایک دن ایک فرعونی اور ایک عبرانی میں جھگڑا ہو رہا تھا، فرعونی زیادتی کر رہا تھا، عبرانی نے موسیٰ ؑ کو مدد کے لئے پکارا موسیٰ ؑ نے عبرانی کو مظلوم جان کر فرعونی کو گھونسا مار دیا، جس سے اس کی موت واقع ہو گئی، کچھ دن بعد وہی عبرانی ایک اور شخص سے جھگڑ پڑا، اس نے پھر موسیٰؑ کو مدد کے لئے پکارا، موسیٰؑ نے کہا کہ تم تو ہو ہی جھگڑالو، تم نے پہلے ہی میرے ہاتھوں قتل کروا دیا تھا، یوں ثابت ہوا کہ ہر کوئی غریب شخص مظلوم نہیں ہوتا، ادھر فرعونی دیکھ رہے تھے کہ موسیٰؑ کی ہمدردیاں دن بدن عبرانیوں کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہیں اور یہ نوجوان بیباک بھی ہے، انہیں موسیٰؑ سے بغاوت کی بو آنے لگی، وہ آپس میں مشورے کرنے لگے کہ موسیٰؑ کو کیوں نہ اس قتل کے بدلے قتل کر کے بغاوت کے خطرے کا قلع قمع کر دیا جائے، موسیٰؑ کے ایک فرعونی دوست نے یہ خبر موسیٰؑ کو دے دی اور مشورہ دیا کہ وہ مصر سے بھاگ جائیں، یوں قدرت کو موسیٰؑ کی یعنی مستقبل کے ایک بہت بڑے لیڈر کی فرعونی سیاست کی سمجھ بوجھ کے ساتھ ساتھ ایک سخت تربیت بھی درکار تھی۔
موسیٰؑ  کا مصر سے مجمع البحرین اور مدائین کا سفراورتہذیب و تمدن، علم و آگہی اور جغرافیائی حالات سے آگاہی
جب موسیٰؑ  کو ان کے با خبر نوجوان ہمدرد اور ساتھی نے اطلاع دی کہ فرعونی ان کے ہاتھوں ہونے والے اتفاقیہ قتل کو بنیاد بنا کر انہیں قتل کرنے کے منصوبے بنا رہے ہیں اور مشورہ دیا کہ وہ اپنی جان بچائیں اور مصر سے بھاگ جائیں ،واضع رہے کہ فرعونی موسیٰؑ  کو عبرانیوں کی حمایت کی وجہ سے قتل کرنا چاہتے تھے موسیٰؑ  نے کہا کہ وہ اپنی جان تو لازماً بچانا چاہتے ہیں، لیکن کہاں جائیں؟ ان کے ہمدرد ساتھی نے مشورہ دیا کہ وہ انہیں "مجمع البحرین" تک پہنچا سکتا ہے اور وہاں سے ایک ایسا شخص مل جائے گا جو مدائین تک پہنچا دے گا اور مدائین ایک محفوظ جگہ ہو گی، وہاں پہنچ کر وہ فرعونوں کی گرفت سے آزاد ہو جائیں گے۔ موسیٰؑ اس منصوبے سے انتہائی مطمئن ہوئے اور کہنے لگے کہ میں تو مجمع البحرین تک چلتا ہی جاؤں گا اور آگے کا سفر بھی جاری رکھوں گا۔
"مجمع البحرین"
اس واقعے اور موسیٰؑ  کے مصر سے مدائین کے سفر کا ذکر قرآن کریم کی سورہ الکہف کی آیات نمبر 60 تا 82 میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے، ہم ان آیات سے بھر پور استفادہ حاصل کریں گے، بہت سے نامور مفسروں نے ان کی تفاسیر لکھی ہیں اور نقوش کے ساتھ واضع کرنے کی کوشش کی ہے، بنیادی طور پر تو سبھی متفق ہیں کہ یہ سفر مصر سے مدائین تک کا ہے مگر "مجمع البحرین" کے محل وقوع کے بارے میں متضاد و مختلف رائے پائی جاتی ہیں۔ 
مجمع البحرین دو سمندروں کے سنگم کو کہتے ہیں یعنی Junction of two seas یہ بحرۂ احمر کی دو خلیجیں ہیں یعنی خلیج سویز اور خلیج عقبہ، بنی اسرائیل مصر میں گھوشن کے علاقے میں رہتے تھے جو کہ دریائے نیل کے مشرق میں واقع تھا اور یہاں سے تمام تر سفر مشرق کی جانب تھا، اس طرح دریائے نیل تو راستے میں آتا ہی نہ تھا، مجمع البحرین کی ایک نشانی بہت بڑی چٹان بھی بتائی گئی تھی، جس مقام پرابھی مصر کا شہر "شرمُ الشیخ" آباد ہے، یہ ایک تفریحی شہر ہے جو خلیج سویز اور خلیج عقبہ کے نیلے پانیوں کے قریب واقع ہونے کی وجہ سے مشہور ہے، یہاں تیراکی کے مقابلے ہوتے ہیں اور دنیا بھر کے تیراک حصہ لیتے ہیں۔ یہ جزیرہ نما سینائی میں واقع ہے، واضع رہے کہ جزیرہ نما سینائی خشک پہاڑوں اور ریگستان پر مشتمل ہے یہ انتہائی دشوار گزار علاقہ ہوا کرتا تھا اور اب بھی تقریباً ویسا ہی ہے ہے، سینائی اور خلیج عقبہ کا مشرقی علاقہ بہت سے ویرانوں Wilder lands پر مشتمل ہے یہاں پر اب بھی کئی Virgin Lands موجود ہیں یعنی ایسے علاقے جو تخلیق ارض سے اب تک جوں کے توں ہیں اور انسانی ہاتھوں نے کوئی کانٹ چھانٹ نہیں کی، زمانۂ قدیم میں اس علاقے میں لوگوں کا آنا جانا شاذ و نادر ہی ہوتا تھا، مجمع البحرین کے مشرق میں بحرۂ احمر کے اندر کچھ جزیرے ہیں اور ان کے بیچوں بیچ آبی گزر گاہیں ہیں انہیں Straits of Tiran کہا جاتا ہے، زمانۂ قدیم میں جب تیراک خلیج سویز میں سے شمال سے جنوب کی طرف آتے تھے تو مشرق میں ان تائیران کے جزیروں کی وجہ سے سمجھتے تھے کہ بحرۂ احمر بس یہاں تک ہی ہے اس طرح صدیوں تک خلیج عقبہ کے بارے میں لا علم رہے،
آج بھی اگر آپ انٹرنیٹ پر Ancient maps of Red Sea تلاش کریں تو ان میں خلیج عقبہ نہیں دکھایا گیا، آجکل یہ جزیرے سعودی عرب کے پاس ہیں اور ان کے اوپر خلیج عقبہ کے دہانے پر اسرائیل کی بندرگاہ ہے۔
موسیٰؑ  اپنے ساتھی کے ساتھ اپنے آبائی مسکن گھوشن سے چل پڑے اور خلیج سویز کے ساتھ ساتھ پتھریلے اور پہاڑی راستے پر چلنے لگے کئی دنوں کی مسافت کے بعد چٹان پر پہنچ گئے، یہاں کھانا کھایا اور ایک مچھلی آئندہ کھانے کے لئے رکھ لی اور آگے کے سفر پر روانہ ہو گئے، جب کھانے کا وقت ہوا تو موسیٰؑ  نے اپنے ساتھی کو مچھلی نکالنے کا پوچھا تو ساتھی نے کہا کہ وہ بتانا بھول گیا کہ جب ہم چٹان پر بیٹھے تھے اور آپ جنگل کی طرف گئے تھے تو مچھلی پھسل کر سمندر میں جا گری تھی۔ اس پر موسیٰؑ  کو یاد آیا کہ چٹان ہی تو نشانی تھی جہاں ہم نے آگے کے سفر کے لئے ایک شخص سے ملنا تھا تو گویا ہم آگے آ گئے ہیں اور ہمیں فورا" اپنے قدموں کے نشانات پر واپس چلتے ہوئے چٹان پر پہنچنا چاہئے، یوں وہ واپس چٹان پر آئے اور اس علاقے کی تہذیب و تمدن اور راستوں کا علم رکھنے والے شخص سے ملاقات ہوئی باقی کا سفر موسیٰؑ  نے اس شخص کے ساتھ کیا۔ قرآن کریم میں تو اس شخص کا نام نہیں لکھا مگر عام طور پر انہیں خضرؑ کہا جاتا ہے۔

مجمع البحرین سے آگے کا سفر انتہائی دشوار گزار تھا اور کوئی شخص جو اس علاقے سے واقف وآشنا ہو وہی راہنمائی کر سکتا تھا، قدرت نے اس کا بھی انتظام کر رکھا تھا، یہ علاقہ صحراؤں اور کوہستانوں پر مشتمل تھا، ایسے علاقوں میں کائنات کی لا محدود وسعتیں عیاں ہوتی ہیں اور قدرت کے پر سرور ساز بج رہے ہوتے ہیں فطرت اپنی عریانی کے ساتھ جلوہ گر ہوتی ہے شہری علاقوں کے رہنے والے اس منظر کا احاطہ نہیں کر سکتے مگر قدرت کو بنی اسرائیل کے مستقبل کے لیڈر کی تربیت ہر ماحول میں کرنا تھی اسی لئے تو مصر کی آبادیوں سے نکال کر بیابانوں میں لے آئی تھی یہاں پر موسیٰؑ کو خضرؑ مل گئے جو اس علاقے سے مکمل آگاہی رکھتے تھے، دراصل جب بھی کوئی حق کی راہ پر چل پڑتا ہے، اسے کوئی نہ کوئی خضر مل ہی جاتا ہے، ویسے کوئی صراط مستقیم پر چلنے کا عزم صمیم تو کرے، تمام کائناتی اور ملکوتی قوتیں اس کی مدد کو دوڑی آتی ہیں کہ یہ قوتیں ہمیشہ حق کا ساتھ دیتی ہیں۔ آج بھی بیابانوں میں، صحراؤں میں، کوہستانوں میں اور دشوار گزار راہ گزاروں پر کئی خضر مل جاتے ہیں، ان لوگوں کا اپنا اپنا مزاج ہوتا ہے اور فطرت کے مقاصد کو سمجھنے میں کوئی ثانی نہیں رکھتے۔ اقبالؒ کہتے ہیں:

فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی 

یا بندۂ صحرائی، یا مرد کوہستانی

پنجابی میں کہتے ہیں:

منیا ویلا تنگ توں تنگ آؤندا اے

رانجھا تخت ہزاریوں ٹرے تے سہی

پیراں ہیٹھ سیالاں دا جھنگ آؤندا اے

خضر نے موسیٰؑ کو ویرانوں سے گزار کر مدائین پہنچانے کا وعدہ کر لیا اور شرط عائد کی کہ وہ راستے میں ان کے کاموں پر کوئی سوال نہیں کریں گے، خضر جانتے تھے کہ شہری علاقوں سے آئے ہوئے لوگ فطرت کے مقاصد کو نہیں سمجھتے اور خواہ مخواہ سوال کرتے رہتے ہیں، گویا انہیں اس بات کا بھی تجربہ اورعلم تھا، اس طرح خضر نے موسیٰؑ پر واضع کر دیا کہ اپنے کام سے کام رکھیں۔ راستے میں تین عجیب و غریب واقعات ہوئے جو موسیٰؑ کے لئے حیران کن تھے اور وہ صبر کا دامن چھوڑ بیٹھے، وہ فوری طور پر ان رازوں سے پردہ اٹھتا دیکھنا چاہتے تھے۔
اقبالؒ ان تین محیرالعقول واقعات کو یوں بیان کرتے ہیں:
"کشتئ مسکین" و "جان پاک" و "دیوار یتیم"
علم موسی بھی ہے تیرے سامنے حیرت فروش
بہر حال مدائین پہنچ کر خضرؑ نے تینوں واقعات کی وضاحت کر دی۔
پہلا واقعہ کشتی کے سفر کا تھا جو خلیج عقبہ کو عبور کرنے کے لئے اختیار کی گیا، کشتی ایک غریب ملاح کی تھی اور وہی اس کے روزگار کا ذریعہ تھی، کشتی خوبصورت تھی اور دوسری طرف ایسا جابر حکمران تھا جو خوبصورت کشتیاں چھین لیتا تھا، خضر نے کشتی کو خراب کر دیا تا کہ غریب ملاح کا روزگار چلتا رہے، ملاح نے اعتراض نہیں کیا کیونکہ اسے یقین تھا کہ خضرؑ اس کی فائدے کے لئے کشتی کی خوبصورتی خراب کر رہے ہیں لیکن موسیٰؑ کے لئے حیران کن تھا۔
دوسرا واقعہ یہ تھا کہ جنگل میں خضرؑ نے ایک نوجوان کو قتل کر دیا خضرؑ نے وضاحت کی کہ نوجوان کو اس وجہ سے قتل کیا کہ یہ بیابان راستوں میں مسافروں کو لوٹ لیتا تھا اور قتل بھی کر دیتا تھا، آج یہ مجھے نظرآ گیا تو لوگوں کی بھلائی کے لئے قتل کر دیا، قدرت اس کے والدین کو اس ڈاکو کی بجائے ایک صالح فرزند عطا کرے گی۔ 
تیسرا واقعہ ایک خستہ حال دیوار کی مرمت اور تعمیر نو کا تھا، ہوا یوں کہ خضر اور موسیٰؑ ایک بستی میں پہنچے، لوگوں نے اچھا سلوک نہ کیا، پھر بھی نے خضر نے گرتی ہوئی دیوار کی تعمیر نو کر دی، اس پر خضر نے وضاحت کی کہ اس دیوار کے نیچے ایک خزانہ دفن تھا جو دو یتیموں کے والد نے ان کے لئے محفوظ کیا ہوا تھا اور خضر کو دیوار کی حفاظت کرنے کی وصیت کی تھی۔
تینوں واقعات کی وضاحت کے بعد خضر نے موسیٰؑ کو الوداع کہا، اب موسیٰؑ مدائین پہنچ چکے تھے اور فرعون کی گرفت سے آزاد تھے۔
مدائین ایک نیم کوہستانی علاقہ تھا، پانی کی قلت تھی، کہیں کہیں چشمے یا کنویں تھے، یہ وہی علاقہ ہے جہاں پانی پر قبضہ کے لئے زور آوروں نے ناقۂ صالح کی کونچیں کاٹ دی تھیں۔ اس علاقے کے لوگ زیادہ تر گلہ بانی کرتے تھے۔ موسیٰؑ اپنی منزل سے لاعلم تھے، چلتے چلتے ایک کنویں کے پاس ایک درخت کی چھاؤں میں بیٹھ گئے لوگ کنویں سے اپنے اپنے جانوروں کو پانی پلا رہے تھے یہاں پر بھی زور آوروں کا زور چل رہا تھا ان میں دو لڑکیاں بھی ہیں جو اپنی بکریوں کو پانی پلانا چاہتی ہیں، بکریاں بار بار پانی کی طرف جاتی ہیں اور لڑکیاں انہیں پیچھے ہٹا دیتی ہیں، انسان ہوتیں تو سمجھ جاتیں مگر بکریوں کو کیا معلوم کہ وہ غریبوں اور کمزوروں کی بکریاں ہیں اور ان کی باری طاقتوروں کے مویشیوں کے بعد میں آنی ہے، موسیٰؑ سے یہ منظر برداشت نہ ہوا، وہ اٹھے اور ان لڑکیوں کی بکریوں کو پانی پلا دیا، لڑکیاں آج معمول کے خلاف جلدی گھرآ گئیں، ان کے باپ نے بھی حیرت کا اظہار کیا لڑکیوں نے موسیٰؑ کے جلدی پانی پلانے کا واقعہ سنا دیا، والد نے کہا کہ وہ نوجوان (موسیٰؑ) کوئی اجنبی ہو گا ورنہ یہاں تو کسی میں ہمت نہیں ہو سکتی، والد نے لڑکیوں کو کہا کہ اس نوجوان کو بلا لائیں، چنانچہ وہ موسیٰؑ کو تلاش کرنے نکل پڑیں، موسیٰؑ ابھی ادھر ہی تھے، لڑکیوں نے گزارش کی کہ ان کے والد بلا رہے ہیں اور ملنا چاہتے ہیں، یوں موسیٰؑ کی ملاقات ان لڑکیوں کے بزرگ والد سے ہوئی، انہوں نے موسیٰؑ سے پوچھا کہ وہ کہاں سے آئے ہیں اور کہاں جانا چاہتے ہیں، موسیٰؑ نے سارا واقعہ بتا دیا کہ مصر سے آئے ہیں، فرعون قتل کرنا چاہتا تھا اور اب کوئی منزل نہیں، کوئی ٹھکانہ نہیں، لڑکیوں کے والد نے پیشکش کی کہ وہ ان کے پاس ٹھہر سکتے ہیں، وہ اپنی بڑی بیٹی کی ان کے ساتھ شادی بھی کر دیں گے مگر شرط یہ ہے کہ کم از کم آٹھ سال ان کی بکریاں چرائیں اور اگر اس میں دو سال کا مزید اضافہ کر لیں تو زیادہ بہتر ہو گا، اب اندھا کیا مانگے دو آنکھیں اور یہاں تو چار مل رہی ہیں، گویا اس اجنبی علاقے میں ٹھکانہ بھی مل گیا، بیوی بھی مل گئی اور روزگار بھی ،موسیٰؑ نے یہ پیشکش قبول کر لی۔ 
دراصل لڑکیوں کے والد شعیبؑ تھے، لڑکیاں صفورہ اور صفیرہ تھیں، یوں قدرت نے بنی اسرائیل کے لیڈر موسیٰؑ کی مزید تربیت کا بندوبست کر دیا۔
<<<گزشتہ::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::مزید>>>

تلاش کیجئے