بھارتی انتہا پسند تنظیم راشٹریہ سیوک سنگھ کے لے پالک،بھارتی ریاست گجرات میں تین ہزار مسلمانوں کے قاتل اور بھارت کے موجودہ وزیرا عظم نریندر مودی اور ان کے حواریوں نے گذشتہ چند دنوں سے پاکستان کے خلاف زہر اگلنا شروع کر دیا ہے۔جس کا آغاز مودی نے اپنے دورہ بنگلہ دیش سے کیا۔بنگلہ دیش میں ایک بھاشن میں 1971میں پاکستان کو دولخت کرنے کا اقرار کیا اور بنگلہ دیشی عوام کو بھی یہ جتلایا کہ ان کی یہ نام نہاد آزادی بھارت کی ننگی جارحیت کا نتیجہ ہے۔یہ امر یقیناًباعث اطمینان ہے کہ ہماری عسکری قیادت نے ان کے ان جارحانہ بیانات کا سختی سے نوٹس لیا جبکہ ہماری سیاسی قیاد ت کی بے خبری کا یہ عالم ہے کہ
’’جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے‘‘
مقام فکر ہے کہ بھارت کی جانب سے پاکستان مخالف بیانات کا جو سلسلہ اچانک شروع ہوا ہے اس کے اصل محرکات کیا ہیں۔سردست جو بات سمجھ میں آرہی ہے کہ بھارت کو یہ خوف لاحق ہو رہا ہے کہ اگر پاکستان نے اپنے مسائل پر قابو پا لیا توبھارت کو پاکستان میں مزید گل کھلانے کا موقع نہیں ملے گا۔نیز افواج پا کستان کو دہشت گردی میں جو کامیابیاں مل رہی ہیں وہ صریحا بھارتی مفادات کے خلاف ہیں۔اگر افواج پاکستان اندورن ملک بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کانیٹ ورک تباہ کرنے میں کامیابی حاصل کرتی ہیں تو یہ بھارت کے پاکستان میں مزموم مقاصد کی موت ہو گی۔ علاوہ ازین چین کی جانب سے پاکستان میں وسیع سرمایہ کاری اور پاکستان کے راستے تجارت کے منصوبے نے بھارتی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔اگر یہ سب کچھ اپنے طے شدہ منصوبہ کے مطابق پایہ تکمیل تک پہنچ گیا تو نہ صرف علاقائی بلکہ عالمی سطح پر پاکستان ایک اہم ملک کے طور پر ابھرے گا۔گویا پاکستان کے تابناک اور روشن مستقبل کو دیکھ کر بھارتی سرکار آپے سا باہر ہو گئی ہے۔خوشحال اور توانا پاکستان بھارت کو ہضم نہیں ہو سکتا۔
قیام پاکستان سے لے کر آج تک بھارتی قیادت نے پاکستان کو زک پہنچانے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانا نہیں دیا۔پاکستان کو روز اول سے بھارتی راہنماؤ ں نے دل سے تسلیم نہیں کیا۔
سب سے پہلے تقسیم ہند کے فارمولے کے تحت پاکستان کے لازم و ملزوم حصہ کشمیر پر غاصبانہ قبضہ قائم کر لیااور اہل کشمیر سے عیارانہ اور مکارانہ طور پر استصواب رائے کا وعدہ کرکے اس سے انحراف کیا۔1965 میں دوسری مرتبہ اسی جارحیت کا نشانہ بنایا اور 1971میں پاکستان کے اندورنی سیاسی خلفشار سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مشرقی پاکستان پہ اپنی فوجیں چڑھا دیں۔ اس ننگی جارحیت کے نتیجے کے طور پر بنگلہ دیش کا قیام عمل میں آیاجس کا اظہار گزشتہ دنوں نریند ر مودی نے کیا۔اس سے بات واضع ہوگئی ہے کہ بھارت نہیں چاہتا کہ پاکستان پھلے پھولے۔بھارتی سرکار کو اس بات کا بھی کلک لے کہ پاکستان کو نیچا دکھانے میں اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔عالمی سطح پر بھارت پاکستان کو ایک ناکام اور دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والی ریاست کے طور پر منوانے میں ناکام رہاہے۔نیز بھارت کی تمام تر گیدڑ بھبھکیوں کے باوجود پاکستان ایٹمی ڈھال بنانے میں کامیاب رہا ہے۔گذشتہ کئی دہائیوں سے بھارت نے پاکستان کے اندر جس تخریب کاری کی آبیاری کی تھی پاکستان کافی حد تک اس نیٹ ورک کو توڑنے میں کامیاب رہا ہے۔بھار ت کو اس بات کا شدید قلق ہے کہ چین دینا کی پہلی معاشی طاقت کے طور پر اپنی شناخت پیدا کرنے میں کامیاب ٹھہرا ہے اور چین کی معاونت سے پاکستان نہ صرف اپنی معاشی مشکلا ت پر قابو پا لے گا بلکہ مستقبل میں ایک مضبوط علاقائی طاقت کی حیثیت سے جانا اور پہچانا جائے گا۔بھارت بوکھلاہٹ کے عالم میں اب ادھر ادھر ہاتھ پاؤں مار رہا ہے۔کہ بغیر علانیہ جنگ کے وہ پاکستان کی اقتصادی خوشحالی کے راستے میں روڑے اٹکا سکے۔اس مکروہ مشن کے لئے حال ہی میں بھارتی خفیہ ادارے را میں ایک خصوصی پاکستان سیل قائم کیا گیا ہے۔جس کا مقصد پاک چین راہداری روٹ کو روکنا ہے۔اس مقصد کے حصول کے لئے تین سو ملین ڈالر کی خطیر رقم رکھی گئی ہے۔ یہاں اس امر کا ذکر ضروری ہے کہ ماضی میں بھارتی خفیہ ادارے را نے پاکستانی سیاستدانوں اور اپنے ہم نواؤں میں سترہ ارب روپے سالانہ خرچ کرکے کامیابی کیساتھ کالاباغ ڈیم کی تعمیر کو روکنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔جس کے لئے انہوں نے سرحدی گاندھی کی آل اولاد،سندھو دیش کے چیلے چانڈوں اور ایم کیو ایم کے اپنے ایجنٹوں کا بروئے کار لایا۔آج بھی ہمارے میڈیا میں نام نہاد حقوق انسانی کے علمبرداراور بے شمار بھارت نواز این جی اوز میں ایسے چہرے نظر آتے ہیں جن کا مقصد پاکستان کی بیخ کنی اور بھارتی مفادات کی نہگبانی ہے۔اس ضمن میں بھارتی وزیر اعظم کے قومی سلامتی کے مشیر نے دہلی کے ایک سیمنیار میں کھل کر اظہار کیا کہ ہم پاکستان کے داخلی انتشار اور خلفشار کو بروئے کار لا کر پاکستان کے اندر مختلف لسانی، مذہبی اور علیحدگی پسندوں کی مالی معاونت کریں گے تاکہ وہ پاکستان کو کبھی بھی مستحکم نہ ہونے دیں۔ بھارت کے پیٹ میں اس بات کے بھی مروڑ اٹھ رہے ہیں کہ ضرب عضب کے نتیجے میں پاک افواج نے وزیرستان میں بھارتی ایجنٹوں کا نیٹ ورک توڑ دیا ہے اور بلوچستان میں بھی بھر پور کاروائیاں کر رہی ہیں۔ساتھ ہی بھارتی قیادت افغان حکومت اور ایران کی مالی امداد کررہی ہے کہ وہ چاہ بہار کی بندرگاہ کو جلد سے جلد مکمل کرکے براستہ افغانستان وسط ایشیائی ممالک تک زمینی راستہ دیں۔ جو دہلی سرکار کو کسی طور بھی پر پاکستان سے میسر نہیں کہ جب تک مسلہ کشمیر حل نہیں ہو جاتا۔پاکستان میں دہشت گردی اور تخریب کاری کو ہوا دے بھارت چین کو یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ وہ پاکستان کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لے۔ بھارتی منصوبہ ساز اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ بات صرف پینتالیس ارب ڈالر کی خطیر سرمایہ کاری کی نہیں بلکہ اس عظیم الشان منصوبہ کی تکمیل سے پاکستان میں خوشحالی اور اقتصادی ترقی کے جو سوتے پھوٹیں گیں اس سے پاکستان خطہ کی ایک مسلمہ قوت کے طور پر ابھرے گا۔بھارتی قیادت اس تلخ حقیقت کا ادراک رکھتی ہے کہ پاکستان آزمائش کی گھڑی سے باہر نکل آیا ہے۔گذشتہ ڈہائی دہائیوں سے افواج پاکستان نے جوانمردی سے پاکستان میں ہر فتنہ کا سر کچلا ہے وگرنہ خانہ جنگی اور بیرونی مداخلت کے سبب عراق، شام،لیبیااور یمن بازی ہار چکے ہیں۔پاکستان کے دشمنوں کے بچھائے دہشت و وحشت کے ہاتھوں پاکستانی معیشت کو ایک سو پچاس ارب ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے اس کے باوجود پاکستانی قوم نے بے پنا ہ جرات اور ایثار کا مظاہرہ کیا ہے۔
بھارت کے اصل عزائم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ہماری ناقابل تسخیر ایٹمی قوت کے سبب اب وہ ہم پر ٹینک چڑھانے اور جنگ کا خطرہ مول لینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ہماری صفوں میں مختلف رنگ و روپ میں اس کے ایجنٹ موجود ہیں کچھ نے مذہبی تنظیموں کی آڑ لے رکھی ہے اور بعض کراچی میں تخریب کے عمل سے رابطہ میں ہیں۔ بلوچستان میں مٹھی بھر علیحدگی پسند بلوچوں کے فراری کیمپ ہیں۔ ان سب کے خاتمہ کے بغیر ملک میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔حکومت وقت اس پر کام کر رہی ہے کوئی وجہ نہیں کہ ریاست اپنی رٹ قائم کرنے میں کامیاب نہ ہو۔پاک چین اقتصادی راہداری کی تکمیل کے لئے ہمارے ہاں دو ماڈل ہیں ایک نااہل اور کرپٹ سیاستدانوں کا اور دوسرا مسلح افواج کا۔ اگر ہم نے اس قومی سلامتی کے عظیم منصوبہ کو سیاستدانوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیاتویہ اس کا حشر وہی کریں جوکالاباغ ڈیم کی تباہی و بربادی کی شکل میں کر چکے ہیں۔ حسن اتفاق سے سرحدی گاندھی کے پوتے برملا اس عزم کا اظہار کر چکے ہیں کہ وہ کالاباغ کی طرح اس منصوبہ کو بھی پایہ تکمیل تک نہ پہنچنے دیں گے۔دوسرا ماڈل مسلح افواج کا پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کا جس کی تکمیل کی راہ میں اپنوں نے کسی دباؤ کو قبول نہیں کیا۔اور پاکستان کو ایٹمی قوت بنا کے دم لیا۔ میری دعا ہے کہ پاک چین اقتصادی ترقی کا منصوبہ ہمارے کرپٹ حکمرانوں کی بھینٹ نہ چڑھے اور مسلح افواج پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی طرح قومی سلامتی کا منصوبہ سمجتھے ہوئے اس کی تکمیل کا بیڑااٹھائیں۔
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ ہمارا واستہ ایک عیار اور مکار دشمن سے ہے جس نے ہمیں دولخت کیا اور جو ہر قسم کی اخلاقیات سے عاری ہے۔جوکبھی ہمارا دوست نہیں ہو سکتا۔ جس کی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھارت پاکستان دشمنی میں کس حد تک جا سکتا ہے کیا وہ پاکستان کو راستہ سے ہٹانے کے لئے خود کشی کی راہ اختیار کرے گاپاکستان بھارت تاریخ اس بات کی شاید ہے کہ قیام پاکستان سے لیکر اب تک بھارت نے پاکستان کو نقصان پہچانے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں دیا ہے۔کشمیر پر اس کا ناجائز قبضہ،پاکستانی دریاؤں پر غیر قانونی بند تعمیر کرنا،مشرقی پاکستان پر حملہ،سیاہ چین پر قبضہ،اور مختلف حیلے بہانوں سے پاکستان کی سرحدیں گرم رکھنا،کشمیروں کا قتل عام یہ تمام واقعات پاک بھارت تعلقات میں بد عہدی بد شکنی اور اعتماد کی کمی کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔مودی سرکار کی بدقسمتی ہے کہ اس کے ہاتھوں میں بھارت کی باگ ڈور آئی ہے جس کی نہ کوئی سمت ہے اور نہ حق ہمسائیگی اور نہ بین الاقوامی اصولوں کی پاسداری۔ بلاشبہ بھارت ایک بڑا ملک ہے جس کا دل چھوٹا اور ذہانت پست ہے جس نے اپنی سڑسٹھ سالہ تاریخ میں اپنے ہر ہمسایہ سے تعلق میں بھگاڑ پیدا کیا ہے۔ بھارت پاکستان پر چار جنگیں مسلط کر چکا ہے،کشمیر پر اس کا ناجائز قبضہ ہے اور پاکستان توڑنے کا وہ مجرم ہے1962میں بھارت چین پر حملہ آور ہوا اور منہ کی کھانا پڑی۔سری لنکا اور مالدیپ میں بھارت اتارچکاہے۔نیپال کی اس نے معاشی ناکہ بندی کر رکھی ہے۔ برما کے اندر کاروائیاں کر رہا ہے۔بھارت کے پالیسی سازوں کا خیال ہے کہ وہ دہشت گردی کی آڑمیں پاکستان کے اندر کاروائی کر سکتے ہیں۔جو آگ اور خون سے کھیلنے کے مترادف ہو گا۔یاد رہے کرہ ارض پر پاکستان اور بھارت وہ واحد ہمسائے ہیں کہ جو ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ممالک ہیں۔جو ماضی میں چار جنگیں لڑ چکے ہیں اور چار مرتبہ ان کے درمیان جنگ ہوتے ہوتے رہ گئی۔تاریخ کے جھروکوں میں جھانکیں تو پاک بھارت دشمنی کی جڑیں انتہائی گہری ہیں۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ 1971میں مشرقی پاکستان پر فوجی تسلط کے بعد اندرا گاندھی نے بھارتی لوک سبھا میں کہا تھا کہ
()ہم پاکستان کودولخت کر کے مسلمانوں سے اپنی ہزار سالہ شکستوں کا بدلہ لے لیا ہے۔
()دو قومی نظریہ جو پاکستان کی بنیاد ہے اسے ہم نے آج خلیج بنگال میں غرق کردیا ہے۔
()ہم یہ واضع اعلان کرتے ہیں کہ آئندہ مل کر باقی ماندہ پاکستان کے اندر شورش برپا ہوئی یا کوئی علیحدگی تحریک اٹھی تو ہم اس کی بھی بھرپور مدد کریں گے۔
آج نریندر مودی جو کچھ کہہ رہاوہ چانکیہ کے اصولوں کے عین مطابق بھارت کی دیرینہ پالیسی ہے بلکہ بھارتی ریاستی دہشت گردی کا اقرار نامہ ہے بھارت اپنی تنگ نظری اور کمینگی میں کسی حد تک بھی جا سکتا ہے۔ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم بھارتی زہر کا تریاق بروقت تیار رکھیں مسلہ کشمیرآج کے عالمی سطح پر ایک تسلیم شدہ متنازعہ علاقہ ہے جو کسی بھی وقت ایٹمی جنگ کی وجہ بن سکتا ہے۔اس لئے مسلہ کشمیر کا کشمیر عوام کی مرضی اور خواہشات کے برعکس کوئی بھی فیصلہ پائیدار نہ ہوگا اور نہ اہل کشمیر کی امنگوں کا ترجمان۔
اگر ہم پاکستان میں دہشت گردی کے عفریت پر قابو پانے میں کامیاب ہو گئے تو پاکستان یقیناًنہ صرف اس خطے کا بلکہ اسلامی دنیا کے ایک مضبوط ملک کی حیثیت سے جانا جائے گا جبکہ بھارتی نیتاوں کے لئے یہ ہی کافی ہے کہ
نہ سمجھو گے تو مٹ جاو گے ہندوستان والو
تماری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔
تحریر: مسعود حسن راجہ
mhraja@gmail.com
0333-55-92-446