ہماری داستان حیات
اجڑنا، بسنا، پھر اجڑنا، پھر بسنا ہماری حیات کی داستان ہے۔ گھومنا پھرنا، ہجرت کرنا ہمارے کنبے کی داستان ہے۔
چین و عرب ہمارا، ہندوستاں ہمارا
مسلم ہیں ہم، سارا جہاں ہمارا
ہم عرب سے چلے، ہرات، افغانستان میں بس گئے۔ غزنوی کے لشکروں کے ساتھ ہندوستان آ گئے۔ ہمیں دو ہی تو کام آتے تھے۔ جنگ اور قرآن کی تلاوت۔ اسی لئے ہمیں اعوان قاری کہا جاتا ہے۔ سینے میں قرآن اور ہاتھ میں تلوار ہماری شناخت بن گئی۔ ہم حیدر کرارؓ اور امّ النبین کے بیٹے دنیا بھر میں پھیل گئے۔
پلٹنا جھپٹنا، جھپٹ کر پلٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
ہمارے کنبے کیافراد کو بسنے کے لئے ھندوستان کے شمالی اور شمال مغربی علاقے زیادہ پسند آئے۔
ہمارے آباؤ اجداد چلتے چلتے دریائے بیاس اور دریائے ستلج کے دوآبہ میں جا بسے۔ یوں ہم عرب کے باسی ہوشیارپوری بن گئے۔ لیکن گھومنا پھرنا جن کی سرشت میں ہو، انہیں چین کہاں۔ ہمارے جدّ امجد، کریم بخش ہوشیار کی تحصیل دسوعہ کے گاؤں مہدی پور کو چھوڑ کر سیالکوٹ اور جموں کے درمیان میں واقع گاؤں راجہ ہرپال میں آ کر بس گئے۔ یہ 1947 سے بہت پہلے کا واقعہ ہے۔ یہ گاؤں پاکستان اور ہندوستانی مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر کی سرحد پر واقع ہے۔ اس سرحد کو آجکل ورکنگ باؤنڈری کہا جاتا ہے۔
تقسیم ہندوستان کی تباہ کاریاں ہماری چشم دید ہیں۔ اس آمریت کے مارے ہوئے پاکستان کے لئے مسلمانوں نے بے مثال قربانیاں دی ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ بارڈر پر ایک پاگل عورت چلا رہی ہوتی تھی اور پوچھتی پھرتی تھی؟
مارے گئے میرے ست جوان
اجے نئیں بنیا پاکستان؟
میرے پاس اس کے سوال کا کل کوئی جواب تھا نہ ہی آج ہے۔
پھر 1965 کی جنگ چھڑ گئی۔ ہم راجہ ہرپال میں یہ خواب دیکھنے لگے کہ جمّوں فتح ہو گا تو ہم گاؤں نیکووال میں اپنی والدہ کے ساتھ اپنے نانا اللہ بخش اور نانی بیگم بی بی کی قبروں کی زیارت کریں گے۔واضع رہے کہ ہماری والدہ کا تعلق ضلع جمّوں کے گاؤں نیکووال سے تھا۔ مگر ہماری قسمت میں یہ نہ لکھا گیا تھا۔
پھر 7 اور 8 ستمبر 1965 کی گولہ باری سے لرزتی ہوئی رات گزری، فجر کے وقت پتہ چلا کہ ہم زیر نگیں ہو گئے ہیں اور بھارتی فوجیں چونڈہ تک پہنچ چکی ہیں جو کہ بارڈر سے دس بارہ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ تمام ٹرانسپورٹ بھارتی فوج کے قبضہ میں جا چکی تھی۔ ایک دم بھگدڑ مچ گئی۔ کچھ سمجھ نہ آتا تھا کہ کیا کیا جائے، کدھر کا رخ کیا جائے۔ میرے پاس اپنی سکول والی بائیسائکل تھی۔ والدہ نے حکم دیا کہ میں اپنے سب سے زیادہ قیمتی اثاثے یعنی اپنے چھوٹے بھائی محمد یونس اعوان کو ساتھ لیکر سیالکوٹ شہر سے مغرب میں واقع گاؤں بسنت پور کی طرف روانہ ہو جاؤں۔ انہوں نے ایک دیگچے میں کچے چاول ڈال کر بائیسائکل کے کیریر پر باندھ دئے۔
یوں ہم اپنے چھوٹے بھائی کو سائیکل پر بٹھا کر بھارتی فوج کے مقبوضہ علاقے میں سے گزرتے ہوئے بسنت پور پہنچ گئے اور باقی افراد خانہ کا انتظار کرنے لگے، جنہوں نے مویشیوں سمیت پیدل آنا تھا۔
جنگ کے بعد معاہدہ تاشقند طے پایا۔ چھ ماہ بعد ہم اجڑے ہوئے گھروں کوواپس لوٹے اور پھر سے بسنے کی تیاری کرنے لگے۔ یوں بسنا اور اجڑنا اور پھر بسنا گویا ہماری ریت ٹھہری۔ یوں ہم 1971 میں پھر جزوی طور پر اجڑے اور بسے۔ اب بھی آئے دن گولہ باری ہمارا مقدر بن چکی ہے۔ اس طرح ہم بے سروسامانی اور بے گھری کے تجربات کے عادی بن چکے ہیں۔ ہم با ہمت لوگ ہیں اور مشکلات سے گبھراتے نہیں بلکہ لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اعوان قاری ہے اور جنگجو ہے۔