25 جون، 2015

بادشاہت، خلافت یا جمہوریت

کوئی نظام، کوئی دستور، کوئی قاعدہ، کوئی قانون تو ہو جس پر خلوص اور غیر جانبداری کے ساتھ عمل ہو، جس میں جینے کا حق ملے، جو خوف و حزن سے پاک ہو۔ ایسا نظام جس میں امن ہو، عدل ہو، مساوات ہو، فوری احتساب ہو۔ انسانیت کا بول بالا ہو۔ کائنا ت کے خالق کا پیدا کیا ہوا لا محدود رزق ہر ایک تک پہنچے، ہر کوئی نظام حکومت کی ملکیت میں مساوی حصہ دار ہو، سب کے لیے ایک ہی قانون ہو۔ 
ایسے نظام کا نام کوئی بھی رکھ لیں، بادشاہت، خلافت یا جمہوریت لیکن اس میں حکمرانوں کو پر امن طریقے سے بنانے اور ہٹانے کے اصول طے ہوں اور ان پر عمل ہو۔ 
ایسا نظام جو ایک دوسرے کے قتل کے بغیر کبھی تبدیل نہ ہوا ہو، جسے انسانوں نے صدیوں کے تجربوں کے بعد نا قابل عمل قرار دے دیا ہو، جس میں انسانی تاریخ نے قتل و غارت کے بغیر کبھی تبدیل ہوتے نہ دیکھا ہو۔ ایسا نظام ہر گز نہیں چاہیے۔ محدود قبائلی معاشروں میں بادشاہتوں کا نظام مناسب ہوتا ہو گا۔ لیکن اب طویل تجربات کے بعد صنعتی دور کے انسان نے بادشاہتوں اور مذہبی و شخصی آمریتوں کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔ 
ہمارے ہاں مذہبی، عسکری اور اداراتی آمریت کا دور دورہ ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں اور اپنے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے نام نہاد جمہوریت کا ڈھونگ رچایا جاتا ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام کی خواہشات کا احترام کیا جائے۔ تمام قسم کی عسکری تنظیمیں ختم کی جائیں، خواہ وہ مذہبی ہوں یا سیاسی۔ عوام کا نظام عوام کے حوالے کیا جائیے۔ یہ کام صرف طاقتور عسکری ادارہ کر سکتا ہے۔ اسے چاہیے کہ اپنے اور اس معصوم قوم کے بچّوں کے لیے یہ فریضہ انجام دے کر اپنا نام تاریخ میں لکھوا لیں، ورنہ یہ کام تو ہو کر رہنا ہے، کچھ عرصے بعد سہی کیونکہ اس انسانی قافلے نے آگے کی طرف ہی جانا ہے۔ یہ کائینا ت تو بنی ہی حرکت اور وسعت کے قانون کے تحت ہے، اسے کوئی فرعون، کوئی نمرود، کوئی شداد، کوئی بلعم باعور ھزاروں بند باندھنے کے باوجود آگے بڑھنے سے نہیں روک سکا، اس کا راستہ کوئی آمرانہ اور منافقانہ نظام نہیں روک سکتا۔ قتل گاہوں سے علم اٹھا کر عشاق کے قافلے نکلتے رہیں گے اور اپنے موجیں مارتے ہوے خون کی بے پناہ طاقت سے اسلحے کے انباروں، وحشت و جبر کے نظام کو اور مذہب کے نام نہاد ٹھیکیداروں کو شکست فاش دے کر رہیں گے۔ کہ یہ کائنات ترقی و تکمیل کے سفر پر گامزن ہے۔
اقبالؒ کہتے ہیں۔
جو تھا، نہ ہے، جو ہے، نہ ہو گا، یہی ہے ایک حرف محرمانہ 
قریب تر ہے نمود جس کی، اسی کا مشتاق ہے زمانہ
میری صراحی سے قطرہ قطرہ نئے حوادث ٹپک رہے ہیں
میں اپنی تسبیح روز و شب کا شمار کرتا ہوں دانہ دانہ
یعنی قدرت تو ارتقائی عمل کے ساتھ آگے کی طرف رواں دواں ہے۔ ہمیں بھی چاہیے کہ قدرت کا ساتھ دیں اور عوام الناس جس زمانے کے مشتاق ہیں، اسے قریب تر لائیں۔

تلاش کیجئے