تاریخ میں سچ کے لمحے جھوٹ کی صدیوں پر بھاری ہوتے ہیں۔ یہ لمحے نصیب تو بہت سوں کو ہو جاتے ہیں، لیکن تاریخ میں زندہ رہنے والا کردار ادا کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہوتی۔
ابھی حال ہی میں پاکستان میں تیسری دفعہ وزیراعظم بننے والے کو یہ موقعہ ملا مگر وہ تو شیر کی کھال میں گیدڑ نکلا۔
پاکستان کو اسوقت یقیناً" شدید خطرات لاحق ہیں۔ یہ خطرات بیرونی نہیں اندرونی دشمنوں سے ہیں۔ یہ خطرات سیاستدانوں سے نہیں بلکہ صرف اور صرف ہماری آمرانہ ایسٹیبلشمنٹ کے تذویراتی اثاثوں سے ہیں جو جب چاہیں، جہاں چاہیں قتل و خون کا بازار گرم کر دیتے ہیں، جو اب تک ستر ہزار بیگناہ مظلوم پاکستانیوں کے خون سے ہولی کھیل چکے ہیں اور یہ کھیل جاری و ساری ہے، نام نہاد ضرب عضب ان کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکی۔ ہمیں ملکی اتحاد کی ضرورت ہے اور ملکوں کے اتحاد اور قومی وحدت کا دارومدار سیاسی اور نظریاتی وحدت پر ہوتا ہے، عسکری مار دھاڑ پر نہیں ہوتا۔ کوئی آمر، کوئی مارشل لا ایڈمنسٹریٹر طویل عرصہ تک حکومت پر قابض رہنے کے باوجود کبھی ہیرو نہیں بن سکا۔ وہ اقتدار کا خاتمہ ہوتے ہی تاریخ کے قبرستان میں ہمیشہ کے لئے بے نام و نشان دفن ہو گیا۔ دوسری طرف آزادی اور جمہوریت کی جنگ لڑتے لڑتے جام شہادت نوش کرنے والے ہمیشہ کے لئے امر ہو گئے اور تاریخ کے ماتھے کا ابدی جھومر بن گئے۔ آمریت کے کندھوں پر چڑھ کر بڑھکیں مارنے والے افلاطونوں اور آمروں کی گود میں بیٹھ کر اچھل کود کرنے والے اینکروں اور کلینکروں کو سمجھ لینا چاہئیے کہ تاریخ ان کی خواہشات کی غلام نہیں ہے۔ ان کی خود ساختہ کہانیوں اور بے بنیاد الزامات کی تکرار سے حقائق نہیں بدل سکتے۔ خون ناحق چھپ نہیں سکتا، وہ بھٹو کا ہو یا بینظیر کا، قائد اعظم کا ہو یا لیاقت علی خان کا، شاہنواز کا ہو یا مرتضی کا۔
خون پھر خون ہے، بہتا ہے تو جم جاتا ہے
کف قاتل پہ جمے، یا رگ سلاسل پہ جمے
خون دیتا ہے قاتل کے مسکن کا سراغ
خون جلاتا ہے اندھیری راتوں میں چراغ
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تلواروں کو زنگ لگ جاتا ہے مگر خون زندہ و تابندہ رہتا ہے۔ ہزاروں جھوٹے لوگ دن رات جھوٹ کی تکرار کر کے سچ کو جھوٹ نہیں بنا سکتے۔ سچ جھوٹ کے نرغے سے نکل کر فتح یاب ہو جاتا ہے اور جھوٹ دانت پیستا رہ جاتا ہے۔
مگر کیا کہنے ہمارے پیارے پنجاب کے"جہاں چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے"۔ یہاں کے افللاطون دن رات چلا چلا کر تاریخ کے اصول بدلنے نکلے ہیں۔ ان کی بکی ہوئی زبانوں سے مسلسل شاہی فرمان جاری ہوتا ہے کہ جو آزادی کے لئے جیلیں کاٹیں وہ تو چور ہیں، ڈاکو ہیں اور جو چور دروازوں سے اقتدار پر قابض ہو جائیں وہ ہیرو ہیں۔ ان کی ہر تان اس بات پر ٹوٹتی ہے کہ "زرداری کھا گیا"۔ لیکن کیا یہ سارے طبلچی مل کر بھی اس حقیقت کو بدل سکتے ہیں کہ جب 1977 کے بعد سے اب تک پینجاب میں پیپلز پارٹی کی حکومت تو بننے نہیں دی گئی تو پھر پنجاب کو زرداری کیسے کھا گیا۔ ہاں البتہ یہ الزام سندھی لگائیں تو حقیقت ہو سکتی ہے مگر وہ تو ہر بار پہلے سے بڑھ کر پیپلز پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں۔ اور پھر اگر پیپلز پارٹی صرف سندھ میں رہ گئی ہے تو زرداری کے ایک بیان کو اہمیت دینے کی کیا ضرورت ہے۔ مگر حقیقت شاید مختلف ہے کہ پی پی پی کو اسمبلیوں سے تو دور کر دیا گیا مگر کیا غریب عوام کے دلوں سے بھی نکال سکے ہیں۔ حقیقت تو یہ بھی ہے کہ آج غریب و بیکس لا وارث ہو گئے ہیں۔ یعنی جھگی نشینوں، کچی آبادیوں، ننگے پاؤں والوں، گندی گلیوں کے مکینوں کا کوئی لیڈر نہیں ہے۔ مزدوروں اور محنت کشوں کی کوئی قومی سیاسی پارٹی نہیں ہے۔ نون لیگ اور پی ٹی آئی شہری مڈل کلاس اور اونچے طبقوں کی پارٹیاں ہیں۔ خطرہ یہ ہے کہ پھر سے ان کا کوئی لیڈر پیدا نہ ہو جائے، پھر سے ان کی پارٹی متحرک نہ ہو جائے، ورنہ زرداری کے ایک بیان پر اس قدر طوفان بدتمیزی کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ حالانکہ زرداری نے تو مفاہمت کا پیغام ہی دیا ہے اور تمام اداروں کو اپنی اپنی حدود میں رہ کر کام کرنے کی بات کی ہے۔ اور پھر اگر اس بات کا یقین ہے کہ زرداری کی بات پر کوئی کان نہیں دھرے گا تو فکر کس بات کی۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ زرداری کا رابطہ عوام سے ہو گیا، وہ باہر نکل پڑا تو کہیں جھوٹ کے سارے پول نہ کھل جائیں۔ اس راہ پر چلنے والوں کی مسلسل کردار کشی جاری ہے مگر یہ نہ بھولیں کہ غریب لوگ زبردست مردم شناس ہوتے ہیں کیونکہ وہ زندگی کی حقیقتوں کے زیادہ قریب ہوتے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ قوم متحد ہو اور وہ تبھی ممکن ہے کہ ایک دوسرے کا احترام کرنا سیکھا جائے۔ یہ بھی جان لیں کہ پورے پاکستان کو متحد کرنا ہے۔ صرف لاہور اور پنجاب پورا پاکستان نہیں ہے۔ تاریخ سے سبق سیکھیں۔ جس پارٹی کو چالیس پینتالیس سالوں سے ہر حربہ استعمال کر کے ختم نہیں کیا جا سکا تو کیا بھلا اسی نفرت و دشمنی کی راہ پر چلتے رہنے سے وہ ختم ہو سکے گی۔ ایسا نہ ہوا ہے اور نہ ہو گا۔ اس لئے مفاہمت کا راستہ ہی بہترین راستہ ہے۔ پاکستان کو مضبوط سیاسی و جمہوری نظام کی ضرورت ہے۔ یہی اقوام عالم میں سر بلند ہونے کا نسخہ ہے۔