22 جون، 2015

بنی اسرائیل کی تاریخی داستان (تعارف و سکونت)


بنی اسرائیل کا قرآن کریم، انجیل مقدس اور تاریخ عالم میں مسلسل ذکر ہے، بنی اسرائیل کی داستانیں نسل در نسل ہیں، انہیں بنی اسرائیل کے تاریخی نشیب و فراز اور عروج و زوال کے قصص کہا جا سکتا ہے،جہاں بنی اسرائیل کی جدوجہد، ہجرت، عظمت، بد ترین غلامی، مصر سے خروج، صحرا نوردی، حکومت و بادشاہت، زوال اور قید و بند کی تاریخ رقم ہے۔
واضع رہے کہ یہ سب علّت و معلول کے طبعی قوانین کے تحت ہوا ہے اور ان داستانوں میں سے قابل عمل اور مفید نتائج برآمد کئے گئے ہیں، جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ عروج سے زوال کن خامیوں کا باعث اور زوال سے عروج کن خوبیوں کی بدولت رو پذیر ہوتا ہے،نیز اس سے تمام قوموں، تمدنوں اور تہذیبوں کے لئے راہنما اصول مہیا ہوتے ہیں۔
 آئیے بنی اسرائیل کے اہم تاریخی واقعات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

بنی اسرائیل کون ہیں؟؟؟
بنی اسرائیل کا تعلق جد پیغمبراں حضرت ابراہیمؑ سے ہے، ذریت ابراہیمؑ کی دو اہم شاخیں ہیں، ایک اسماعیلی شاخ ہے جو ابراہیم ؑ کی بیوی حاجرہؑ کے بطن مبارک سے آپ کے بڑے بیٹے حضرت اسماعیلؑ سے نکلتی ہے، ان کا ابتدائی مسکن جزیرہ نما عرب کے علاقے حجاز کا شہر مکہ المکرمہ قرار پایا۔ اس شاخ سے متعلق پیغمبر اسلام حضرت محمدﷺ نے انسانی تاریخ کے عظیم ترین انقلاب کی بنیاد رکھی۔
ذریت ابراہیمؑ کی دوسری اہم شاخ کا تعلق ان کی بیوی سارہؑ اور چھوٹے بیٹے حضرت اسحاقؑ سے ہے، ان کا مسکن ملک کنعان قرار پایا۔ یہ علاقہ مصر سے شمال مشرق کی جانب ہے، یہ نیم صحرائی اور نیم پہاڑی علاقہ ہے، اس کو لیوانت Levant بھی کہا جاتا ہے آجکل یہ مختلف ممالک پر مشتمل ہے جن میں اسرائیل، اردن، فلسطین اور لبنان شامل ہیں۔ 
حضرت اسحاقؑ کے بیٹے حضرت اسرائیلؑ ہیں، اس علاقے کی زبان عبرانی تھی اور اسرائیل عبرانی زبان کا ہی لفظ ہے، عربی میں ان کو یعقوبؑ کہا جاتا ہے اور انگریزی زبان میں جیکب Jacob حضرت یعقوبؑ کے بارہ بیٹے تھے، بڑے بیٹے کا نام یہودہ تھا اور گیارھویں بیٹے حضرت یوسفؑ تھے اور ان کے بعد حضرت بنیامینؑ کی پیدائش ہوئی، یوسفؑ Joseph اور بنیامینؑ Benjamin والدہ کی طرف سے بھی سگے بھائی تھے، ان کی والدہ کا نام راحیل تھا۔ یوں حضرت یعقوبؑ کے بارہ بیٹوں اور ان کی اولادوں کو بنی اسرائیل کہا جاتا ہے یعنی اسرائیل کی اولادیں۔بڑے بیٹے یہودہ کے حوالے سے انہیں یہودی کہا جاتا ہے بارہ بھائیوں کی الگ الگ اولادیں یہودیوں کے بارہ قبائل بھی کہلاتے ہیں ان کے علاقے کنعان میں زرعی زمین کی کمی اور پانی کی قلت کی وجہ سے قحط پڑتے رہتے تھے اور اس علاقے کے لوگ دریائے نیل کی زرخیز اور سر سبز و شاداب وادی یعنی مصر کا رخ کرتے تھے اور یہاں مصریوں کے ہاں محنت و مزدوری کرنے پر مجبور ہوتے تھے۔

بنی اسرائیل کی کنعان سے مصر روانگی و آباد کاری! کب،کیسے اور کیوں؟
بنی اسرائیل کنعان میں آباد تھے، جس کا محلِ وقوع اور جغرافیائی حالات بیان کئے جا چکے ہیں یہاں حضرت اسرائیلؑ کے نامور فرزند حضرت یوسفؑ نے ایک خواب دیکھا کہ گیارہ ستارے، سورج اور چاند انہیں سجدہ کر رہے ہیں اس خواب کے بیان نے انہیں اپنی گرفت میں لے لیا انہوں نے یہ خواب اپنے والد حضرت یعقوبؑ سے بیان کیا، حضرت یعقوبؑ نے خواب کی تعبیر کچھ اس طرح کی کہ گیارہ ستارے یوسفؑ کے گیارہ بھائی ہیں اور سورج و چاند ان کے ماں باپ ہیں، مزید یہ کہ مستقبل میں یوسفؑ کو کوئی اہم ترین رتبہ حاصل ہو گا اور ان کے ماں، باپ اور گیارہ بھائی ان کی تعظیم کریں گے یہ قصہ قرآن مجید کی سورہ یوسف میں مفصل بیان کیا گیا ہے۔ قرآن  کریم نے اسے "احسن القصص" یعنی تمام قصوں میں سے بہترین قصہ قرار دیا ہے اس قصے میں بہت سے رموز پوشیدہ ہیں جن کا ذکربالترتیب اگلی اقساط میں کیا جائے گا۔ 
حضرت یوسفؑ بنی اسرائیل کے پیغمبروں میں ایک بہت ہی اہم مقام و رتبہ کے حامل ہیں، انہیں سینٹ جوزف Saint Joseph کہا جاتا ہے۔ وہ حضرت یعقوبؑ کے فرزند، حضرت اسحاقؑ کے پوتے اور حضرت ابراہیمؑ کے پڑپوتے ہیں، خواب کی تعبیر کے بعد حضرت یعقوبؑ نے اپنے بیٹے حضرت یوسفؑ کو تاکید کی کہ وہ خواب کا ذکر اپنے بھائیوں سے ہر گز نہ کریں کہ ان میں حسد پیدا ہو اور مبادا وہ انہیں نقصان پہنچائیں۔ مگر خود ساری توجہ یوسفؑ پر مرکوز کرنے لگے، جس کی وجہ سے باپ کی عدم توجہی کا شکار ہونے کی وجہ سے بھائیوں میں یوسفؑ سے شدید حسد پیدا ہونے لگا اور وہ منصوبے بنانے لگے کہ اگر یوسفؑ موجود نہ ہوں تو انہیں باپ کا پیار اور توجہ مل سکے گی، چنانچہ ایک منصوبے کے تحت انہوں نے یوسفؑ کو جنگل میں لے جا کر ایک کنویں میں پھینک دیا، ایک تجارتی قافلہ انہیں کنویں سے نکال کر مصر لے گیا اور اسے مصر میں غلاموں کی منڈی میں فروخت کر دیا۔ خریدار عزیز مصر یعنی مصر کا حکمران تھا، عزیز مصر کے گھر میں گھریلو ملازم ہوتے ہوئے انہیں ایک جھوٹے الزام میں قید کر دیا گیا، قید کے کچھ سالوں بعد عزیز مصر کو ایک خواب ستانے لگا کہ سات کمزور گائیں ہیں، سات موٹی گائیوں کو کھا جاتی ہیں اور پھر بھی کمزور ہی رہتی ہیں۔ عزیز بہت پریشان ہوا، بہت سے لوگوں سے تعبیر پوچھی مگر عقدہ نہ کھل سکا۔ آخر کسی نے بتایا کہ قید خانے میں ایک انتہائی عقلمند اور با شعور قیدی ہے جو ایسے خواب کی درست تعبیر بیان کر سکتا ہے چنانچہ یوسفؑ کو قید سے رہا کیا گیا اور ان کی بیگناہی بھی ثابت ہوئی۔ حضرت یوسفؑ نے خواب کی تعبیر یہ بتائی کہ پہلے سات سال اناج کی خوب فراوانی ہو گی اور پھر سات سال مسلسل قحط کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا اور جمع شدہ اناج کی بھی قلت پیدا ہو جائے گی۔ عزیز مصر کو بہت پریشانی لا حق ہوئی، اس نے اس تعبیر کے پیش نظر مناسب اقدامات کی ذمہ داری حضرت یوسفؑ کے سپرد کر دی، حضرت یوسفؑ نے کمال مہارت کے ساتھ پہلے سات سالوں میں زیادہ سے زیادہ اناج اگایا اور گندم کو خوشوں سمیت زمین دوز، نمی سے محفوظ، پتھر کے فرش اور دیواروں والے گوداموں میں ذخیرہ کیا۔
واضع رہے کہ اگر گندم کو خوشوں سمیت ذخیرہ کیا جائے تو گندم کے دانوں کو کیڑا نہیں لگتا اور مویشیوں کے لئے بھوسہ بھی محفوظ رہتا ہے، مصری محکمہ آثار قدیمہ کے ماہرین Archaeologists نے یوسفؑ کے بنائے ہوئے گودام دریافت کر لئے ہیں اور انٹرنیٹ پر ان کی تصاویر موجود ہیں۔
یوں یوسفؑ نے قحط والے سال شروع ہونے سے پہلے وافر اناج ذخیرہ کر لیا اور قحط کے دوران اناج کی تقسیم کا طریقہ کار بھی وضع کر دیا گیا مصر کے گرد و نواح کے نیم صحرائی اور نیم پہاڑی علاقے اناج کی شدید قلت کا شکار ہوئے اور حصول اناج کے لئے مصر کا رخ کرنے لگے۔ کنعان کے لوگ بھی اپنی جمع پونجی لے کر اناج حاصل کرنے کے لئے مصرجا پہنچے، ان میں حضرت یعقوبؑ کے بیٹے یعنی حضرت یوسفؑ کے بھائی بھی تھے، ان کے تو وہم و گمان میں نہ تھا کہ اناج تقسیم کرنے والا انہی کا بھائی یوسفؑ کنعانی ہے۔ وہ تو اب یوسفؑ کو پہچانتے بھی نہ تھے مگر یوسفؑ نے انہیں پہچان لیا اور المختصر پورے خاندان اسرائیل کو مصر آ کر آباد ہونے کی دعوت دی، اس طرح بنی اسرائیل شان و شوکت کے ساتھ مصرمیں آن داخل ہوئے، یوسفؑ نے اپنے والدین اور بنی اسرائیل کے پورے کنبے کا عظیم الشان استقبال کیا اور انہیں اچھے مکانات تعمیر کرکے آباد کیا، ان دنوں مصر کا دارالخلافہ میمفِس Memphis دریائے نیل کے ڈیلٹا میں واقع تھا، یوسفؑ نے بنی اسرائیل کو میمفِس اور دریائے نیل کے مشرق میں گھوشن Goshan کے علاقہ میں آباد کیا جو کہ بحرۂ احمر Red Sea کی خلیج سویز Gulf of Suez کے قریب واقع ہے، یوسفؑ کی زندگی تک بنی اسرائیل مصر میں سکون و عیش کی زندگی بسر کرتے رہے مگر بعد میں بتدریج فرعونوں کی غلامی پر مجبور ہو گئے۔


تلاش کیجئے